خالد احمد وہ چرچا جی کے جھنجھٹ کا ہوا ہے ۔۔۔ خالد احمد

نوید صادق

محفلین
غزل

وہ چرچا، جی کے جھنجھٹ کا ہوا ہے
کہ دل کا پاسباں کھٹکا ہوا ہے

وہ مصرع تھا کہ اک گل رنگ چہرہ
ابھی تک ذہن میں اٹکا ہوا ہے

ہم اُن آنکھوں کے زخمائے ہوئے ہیں
یہ ہاتھ، اس ہاتھ کا جھٹکا ہوا ہے

یقینی ہے اب اس دل کی تباہی
یہ قریہ، راہ سے بھٹکا ہوا ہے

گلہ اُس کا کریں کس دل سے خالد
یہ دل کب ایک چوکھٹ کا ہوا ہے

شاعر: خالد احمد
 

نوید صادق

محفلین
دئیے کا دم کہیں اٹکا ہوا ہے ۔۔۔ خالد احمد

دئیے کا دم کہیں اٹکا ہوا ہے
سو مشکل بھیڑنا پٹ کا ہوا ہے

بس اک امید پر ہم جی رہے ہیں
کہ وہ گھٹوال تلچھٹ کا ہوا ہے

ہماری وحشتوں کے ساتھ شہرہ
کسی کی خیرہ سر لٹ کا ہوا ہے

نہ کیوں؟ دُھومیں ہوں یک سطحی سخن کی
زمانہ ایک کروٹ کا ہوا ہے

ابھی دل ہجر سے ہارا نہیں ہے
اک آنسو حلق میں اٹکا ہوا ہے

سخن تحلیل ہوتے جا رہے ہیں
سخن ور! بھوت مرگھٹ کا ہوا ہے

پرندے کس تھکن میں اُڑ رہے ہیں
مسافر، منزلوں بھٹکا ہوا ہے

کٹورے ہیں کہ چھلکے آ رہے ہیں
کہ رستہ بند پن گھٹ کا ہوا ہے

ابھی تک ایک مٹیالا اُجالا
صلیبِ حرف پر لٹکا ہوا ہے

گنا جاتا ہے ان کے صادقوں میں
یہ رتبہ ایک نٹ کھٹ کا ہوا ہے

یہ بستی ہے غزالانِ ختن کی
کوئی بھڑکا، کوئی بھٹکا ہوا ہے

دلِ رسوا میں در آئے نہ خالد
یہ آہو سائے سے کھٹکا ہوا ہے

شاعر: خالد احمد
 
Top