وہ چہرہ جب تلک دیکھا نہیں تھا

بارے، آپ کی غزل پر کچھ تلخ نوائیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔
الگ تبصروں کی بجائے اقتباس میں ہی عرض کر رہا ہوں۔

ابھی ابھی ایک فی البدیہہ طرحی غزل ہوئی
سب سے پہلی بات! اپنا تجربہ ہے کہ فی البدیہہ کوئی ایک آدھ شعر ہوتا ہے۔ پوری غزل فی البدیہہ ہو جائے، یہ تو گویا نازل ہونے والی بات ہوئی۔ مگر عملاً ایسا ہوتا نہیں ہے، اور خاص طور پر جب آپ ایک طرحی غزل کہہ رہے ہوں۔ وہاں تو پیشِ نظر پوری زمین کو نبھانا ہوتا ہے، وہ فی البدیہہ کہاں رہی! (واضح رہے کہ فی البدیہہ کا مفہوم "ایک نشست کی" غزل نہیں ہے، بلکہ وہ ایک فوری ردِ عمل ہوتا ہے جو کسی شعر، نظم، نثرپارے کو پڑھ کر، کسی کی بات سن کر، شعر کی صورت میں واقع ہوتا ہے۔ سنوارنے نکھارنے کی ضرورت اس میں بھی ہو سکتی ہے۔ کوئی الفاظ یا ترتیبِ الفاظ آپ پر جیسے "اترے" ہیں، یا پہلی بار ہو گئے ہیں، ان کا تقدس لازم نہیں ہے۔

وہ چہرہ جب تلک دیکھا نہیں تھا
ابھی جیسا ہوں میں ویسا نہیں تھا
ابھی جیسا ہوں سے آپ کی مراد غالباً "جیسا اب ہوں" ہے۔ اگر میرا اندازہ درست ہے تو وہ بات بن نہیں پائی۔

متاع یاد تھی جب پاس میرے
اکیلا تھا مگر تنہا نہیں تھا
یاد کا براہِ راست معروف تعلق دل کے ساتھ ہے تو میرے کی جگہ دل کے لگائیے۔ دوسرا مصرع: اکیلا اور تنہا، ہم معنی لفظ ہیں صرف اصل کا فرق ہے۔ ایسی صورت کو کہتے ہیں "معانی در بطنِ شاعر"۔ آپ غالباً یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ میں تنہا ہوتے ہوئے بھی تنہا نہیں تھا۔ ع: میں تنہا تھا، مگر تنہا نہیں تھا ۔۔ اس کو دیکھ لیجئے۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں مصرعے کہہ کر نہیں دے سکتا اور نہ ہی اس "عنایت" کو چنداں مفید سمجھتا ہوں۔

سزا پائی ہے ناکردہ گنہ کی
جو کاٹا ہے وہی بویا نہیں تھا
یہاں بھی وہی سے مراد "وہ تو" ہے؟ اس کو سنبھالنا پڑے گا۔

رہا وہ منقسم گھر میں و مجھ میں
وہ میرا آدھا تھا ، آدھا نہیں تھا
یہ واوِ عطفی کا عجیب استعمال ہے۔ گھر میں اور مجھ میں؟ ایسے واو نہیں آتی، یہ لسانی طور پر غلط ہے۔ دوسرے مصرعے میں پہلا "آدھا" کی الف گر کر "آدھ تھا" کی صوتیت بنتی ہے، جسے میں تو اپنے شعر میں کوشش کرتا ہوں نہ آنے پائے۔ شعر کو پڑھنے میں بھی لطیف ہونا چاہئے۔ خاص طور پر غزل کے شعر کو۔

یقیناً چوٹ گہری کھا گیا ہے
کبھی وہ اسقدر ہنستا نہیں تھا
پہلے مصرعے کو نکھارئیے

مری اس بے پنہ چاہت سے پہلے
تمہارے حسن کا چرچا نہیں تھا
مناسب ہے۔

پلٹ کو وہ نہیں آیا تو کیا ہے
ارادہ اسکا تھا ، وعدہ نہیں تھا
شعر مناسب ہے۔ کوشش کیجئے کہ الفاظ کو بلاضرورت جوڑ کر نہ لکھیں۔ "اس کا" لکھنا بہتر ہے بہ نسبت "اسکا" کے۔ ویسے بھی فی زمانہ کمپیوٹر پر سارٹنگ بہت عام ہے۔ "اسکا" کمپیوٹر کے لئے "اس کا" سے مختلف لفظ ہو گا۔

بتاؤ کونسی وہ رات تھی جب
عبادت میں تجھے مانگا نہیں تھا
دعاؤں میں مانگتے ہیں۔ اب اگر ہم اس تاویل میں جائیں کہ دعا بھی تو عبادت ہے تو پھر تاویلیں درست مان لی جائیں گی، شعر کہیں گم ہو جائے گا۔ شعر میں نفسِ مضمون اور اوزان کے علاوہ جمالیات اور مانوس اظہار کی بھی اہمیت ہے۔

رہے گا ناز اپنے ضبط غم پر
بچھڑ کر اس سے میں رویا نہیں تھا
مناسب ہے، مگر رہے گا میں غیر یقینی بات ہے۔ پتہ نہیں، پھر کوئی ایسی گھڑی آ جائے کہ اشک بے قابو ہو جائیں!

حسین و نازنین و دلنشیں تھا
سبھی کچھ تھا مگر میرا نہیں تھا
یہ محض کلامِ منظوم ہے۔ میں اس کو شعر ماننے میں متامل ہوں۔

ہوا ہے اک عجب سا سانحہ کل
میں تھا آئینے میں چہرہ نہیں تھا
جب کل کہا تو پھر ہوا ہے کا جواز نہیں رہتا، ہوا یا پھر ہوا تھا؟ عجیب سا اور اس نوع کی بندشیں بہت احتیاط کا تقاضا کرتی ہیں۔ اگر آپ کو شعر میں آگے بڑھنا ہے تو گہرا مطالعہ کرنا ہو گا۔

چلا تو کس طرح راہ جنوں پر
قمرؔ تو اتنا بھی سادہ نہیں تھا
راہِ جنوں سے سادہ تر راہ اور کون سی ہو گی۔ اقبال کے بقول "لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے"۔

اختیار بہر طور آپ کا ہے، رد کر دیجئے، قبول کر لیجئے، نظر انداز کر دیجئے؛ میں نے جو محسوس کیا اور درست جانا، وہ عرض کر دیا ہے۔
 
آخری تدوین:
Top