مزمل شیخ بسمل
محفلین
ایک غیر طرحی مشاعرے میں لکھی گئی غزل۔ قارئین کی نذر۔
غزل
اشکِ شبنم سے مجھے نرگس کا رو کر دیکھنا
بعد مُردن تم مری تربت پہ آ کر دیکھنا
پاؤ گے گل کاریِ خنجر سراسر دیکھنا
زخمِ دل کا تم ذرا پھاہا چھٹا کر دیکھنا
رنگ لائے گی فغاں کیا سر پہ چھا کر دیکھنا
کھا ئے گا یہ آسماں چکر پہ چکر دیکھنا
ایک مشکل دونوں جانب ہے برابر دیکھنا
سخت جانی پر مری یہ کند خنجر دیکھنا
میری مِٹّی کا تو اک ذرّہ بھی ہے تربت مری
اپنے ہاتھوں سے مری تربت مٹا کر دیکھنا
حسرت و ارماں کی یارب خیر تیرے ہاتھ ہے
روز حملے کر رہا ہے غم کا لشکر دیکھنا
نزع کے آنسو میں ڈوبی کشتیِ عمرِ رواں
ایک قطرہ ہوگیا بڑھ کر سمندر دیکھنا
کر گئی برباد ترکِ آرزو کی جستجو
وہ کسی کا میری جانب مسکرا کر دیکھنا
عشق کی سوزش سے بسملؔ خاک ہو جائے گا سب
میری تربت پر ذرا سبزہ اُگا کر دیکھنا