وہ کون ہے؟

ساجداقبال

محفلین
جی میں بھی اس کے متعلق لکھنے والا تھا۔ ویسے تو اسے اسٹیبلشمنٹ کا نام دیا جاتا ہے لیکن اس سے مراد کونسی طاقت ہے؟ اسٹیبلشمنٹ سے کون لوگ مراد ہیں؟ آئی ایس آئی اور ٹاپ ملٹری آفیشلز؟؟؟
 

محسن حجازی

محفلین
یہی میں سوچ رہا ہوں۔ یہ ان لوگوں سے بھی کوئی ماورا طاقت ہے اوریہ لوگ صرف اس طاقت کے احکامات کے مطابق چلتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔
باخبر ذرائع کے مطابق پاکستان میں سی آئی اے کے پانچ ہزار تنخواہ دار ایجنٹ ہیں۔ یہ کون ہیں کہاں ہیں؟ کہنے والے کہتے ہیں کہ بعض جانے پہچانے نام بھی ان میں شامل ہیں۔ صحافیوں میں نذیر ناجی کا نام اس ذیل میں کثرت سے لیا جاتا ہے۔
یہ واقعی حقیقت ہے کہ جو اسمبلی ہم منتخب کر کرکے لائے ہیں اس میں کوئی دم نہیں بعض جگہوں پر اس کے بھی پر جلتے ہیں اور اس میں غلو کو کوئی دخل نہیں یہ حقیت ہے۔
 
سٹیبلیشمنٹ آف پاکستان، ایک خوش آئند امر و خبر ہے۔ جب تک کہ یہ طاقتور ادارہ، اللہ تعالی کے مقرر کردہ اصولوں پر پاکستان اور اسلامی اخوت کی ترقی کے لئے کام کرے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
فاروق بھائی پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ سے مراد پس پردہ رہتے ہوئے اصل میں حکومت چلانے والوں یا پھر حکومت کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو کہا جاتا ہے جس میں سول اور فوجی بیوروکریسی دونوں کے لوگ شامل ہیں۔ کچھ فوجی حکومتوں میں مفادات حاصل کرنے کے بعد اب اس میں کچھ مذہبی رہنما بھی شام ہو گئے ہیں جو اب کشمیر کمیٹی وغیرہ کا نظام چلا رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ خود سے کوئی ادارہ نہیں ہے۔

ملک میں اسلامی اقدار کے فروغ اور اخوت کے لیے سیاستدانوں کو اپنے ذاتی مفادات سے بلند ہو کر سوچنا پڑے گا اور اداروں کو مضبوط بنانا ہوگا۔ پاکستان کے اصل اقتدار پر اسٹیبملشمنٹ کی گرفت جہاں فوج کی ہوس اقتدار کی وجہ سے قائم ہوئی ہے وہاں اس میں سیاستدانوں کی نااہلی کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔
 

ساجداقبال

محفلین
موجودہ سیٹ اپ میں ہم کن افراد کو اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ کہہ سکتے ہیں؟ نبیل بھائی کا اشارہ تو مولانا ڈیزل کیطرف ہے۔ باقی کون کون سے کردار ہیں؟
 

ظفری

لائبریرین
اسٹبلشمنٹ کیا ہے ۔۔۔۔ ایک ذریعہ ہے اُن ماسٹر مائنڈ لوگوں اور اِن سول اور فوجی بیوروکریسی کے درمیان رابطہ کا ۔ وہ کون ہیں ، کیا ہیں ، کوئی نہیں جانتا ۔۔۔۔ کالی دیوی کی طرح ان کی بہت سی زبانیں اور ہاتھ ہیں ۔ پاکستان بنتے ہی انہوں نے یہاں ایک اسٹبلشمنٹ کو جنم دیا اور ان کو ہمیشہ اپنے اور عوام کے درمیان رکھا ۔ جب کسی فوجی یا سول شخصیت سے ان کا کام نکل گیا تو انہوں نے اس سے بھی جان چھڑا لی ، اب چاہے وہ اسٹبلشمنٹ فوجی کردار میں ضیاء الحق کی صورت میں ہو یا پھر سول روپ میں بھٹو یا بینظیر بھٹو کی صورت میں ۔ جو ان کے مفادات کے خلاف گیا ۔ وہ جان سے گیا ۔ لیاقت علی خان سب سے پہلے اس درپردہ لوگوں کے نشانہ بنے ۔ فوج ، جاگیر دار ، وڈیرے ، سرمایہ دار ، مذہبی رہنما ، سب ان کے زرخرید غلام ہیں ۔ اور ہم ان غلاموں کے غلام ہیں ۔ فوج انہی کے حکم پر آگے آتی اور پیچھے ہٹتی ہے ۔ سول حکومتوں کا بھی یہی رویہ ہے ۔ ان ماسٹر مائنڈ کا نہ معلوم ہونا ، یہی ایک معمہ ہے ، اور بیحد پُراسرار بھی ہے ۔ خدا جانے ، اس ملک کے بھاگیں کس کے ہاتھ میں ہیں ۔ ہم تو وہی لوگ آتے جاتے دیکھتے ہیں ۔ جو یہ درپردہ لوگ انہیں چنتے ہیں ۔
 
Top