وہ کہاں جائیں گے؟؟ نذیر ناجی۔۔ ضرور پڑھیے!

حسینی

محفلین
e93de2cc61_15189-70357019.jpg

http://www.columnkaar.com/Columns/nazeer-naji/
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں نہيں سمجھ سکا کہ ايک ايسے وقت ميں جبکہ دنيا بھر کی توچہ شام ميں ہونے والے مظالم پر مرکوز ہونی چاہيے، دو دہائيوں پرانے معاملے پر بحث کی کيا منطق ہے۔ اگر پس پردہ دليل يہ ہے کہ امريکہ نے 80 کی دہائ ميں صدام حسين کی جانب سے کيميائ ہتھياروں کے استعمال کے بعد موثر اقدامات نہيں اٹھائے تو پھر اس منطق کے تحت تو امريکی حکومت کی جانب سے شامی حکومت کی بربريت اور غير انسانی اقدامات کے ضمن ميں عالمی شعور کو بيدار کرنے کی کاوشوں اور اپنے مسلسل سخت موقف کو تسليم بھی کيا جانا چاہيے اور اس کی تعريف بھی کی جانی چاہيے۔

ميں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ مارچ 1988 ميں حلبچہ کے مقام پر ہونےوالے بدترين انسانی سانحے پر ميڈيا اورعالمی برداری نے اس ردعمل کا اظہار نہيں کيا جيسا کہ ہونا چاہيے تھا۔ سال 1988 ميں صدام حسين کی گرفت عراقی ميڈيا سميت ہر ادارے پر انتہاہی مضبوط تھی۔ سال 1988 کے آغاز تک ايران اور عراق 8 سال تک جنگ ميں ملوث تھے اور دونوں جانب سے ايک دوسرے کے خلاف کيميائ ہتھياروں کے استعمال کا الزام معمول تھا۔ ليکن ان عوامل کے باوجود يہ الزام برحق ہے۔

ميں اس بات کی بھی تائيد کرتا ہوں کہ ماضی ميں امريکہ کا جھکاؤعراق کی طرف رہا ہے اورامريکہ ايرانی فوجوں کے حوالے سےانٹيلی ايجنس اسپورٹ بھی مہيا کرتا رہا ہے ليکن ايسا اس وقت ہوا تھا جب ايران کو جنگ ميں پہلے ہی برتری حاصل ہو چکی تھی۔ ياد رہے کہ يہ وہی دور تھا جب ايران ميں امريکی سفارت کار 444 دنوں تک زير حراست رہے جس کی وجہ سے امريکہ ميں ايران کے خلاف جذبات پائے جاتے تھے۔

دنيا کا ہر ملک خارجہ پاليسی بناتے وقت اپنے بہترين مفادات کو سامنے رکھتا ہے۔ اس ميں اس وقت کے زمينی حقائق بھی ديکھے جاتے ہيں اور مختلف ممالک سے تعلقات اور اس کے دوررس اثرات اور نتائج پر بھی نظر رکھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ يہ حقيقت بھی پيش نظر رکھی جانی چاہيے کہ ہر نئ حکومت کی پاليسی پچھلی حکومت سے الگ ہوتی ہے اور زمينی حقائق کی بنياد پر ان پاليسيوں ميں تبديلی بھی آتی رہتی ہے۔

حقيقت يہ ہے کہ عالمی سياست کے تيزی سے بدلتے حالات کے تناظر ميں دنيا کا کوئ ملک يہ دعوی نہيں کر سکتا کہ اس کی خارجہ پاليسی ہميشہ يکساں رہے گی اور اس ميں تبديلی کی گنجائش نہيں ہے۔

کسی بھی حکومت کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ وہ ايسی خارجہ پاليسی بنائے جو سب کو مطمئن بھی کر سکے اور معاشرتی، سياسی اور معاشی تبديليوں اور حقيقت کا تدارک کرتے ہوئے سو فيصد صحيح بھی ثابت ہو۔
يہ نقطہ بھی اہم ہے کہ جہاں تک حلبچہ ميں صدام حسين کی جانب سے کيميائ ہتھياروں کے استعمال کا سوال ہے تو اس سلسلے ميں تحقيقات اور ناقابل ترديد حقائق سے يہ بات ثابت ہے کہ صدام حسين نے يہ ہتھيار امريکی حکومت سے حاصل نہيں کيے تھے۔

ليکن بحرصورت بنيادی نقطہ اور ناقابل ترديد حقيقت يہ ہے کہ دو دہائ قبل جو کچھ ہوا اس کا شام ميں جاری حاليہ تنازعے سے نا تو کوئ تعلق ہے اور نا ہی اس کا کوئ اثر حاليہ واقعات پر پڑ سکتا ہے۔ امريکہ سميت عالمی برادری کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ شام کے عام شہريوں کی حفاظت کو يقینی بنائيں جو اپنی ہی حکومت کے مظالم کا شکار ہيں۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

نایاب

لائبریرین
امریکہ بہادر کے کیا ہی کہنے ۔۔۔۔۔۔۔
مسلم عوام و حکمرانوں کو سبق سکھاتے نصف صدی گزر گئی ۔
سبق پڑھنے والے سب ہی مسلم حکمران ظالم لٹیرے ٹھہرے ۔
ابھی چار چھ ممالک باقی ہیں ۔ دیکھتے ہیں یہ ان کو کیا کیا سبق پڑھاتا اور سکھاتا ہے ۔
امریکہ بہادر بہت نرم دل بہت با انصاف ہے ۔ اسے مسلم ممالک سے بہت محبت ہے اور اور ان ممالک میں مسلم عوام پر ہونے والے ظلم بہت ستاتے ہیں ۔
غیر مسلم ممالک سے صاحب بہادر نگاہ چراتے ہیں ۔ شاید ان سے ڈرتے ہیں ؟ یا ان سے نفرت کے سبب ان کی جانب نگاہ ہی نہیں جاتی ۔
 

حسینی

محفلین
ماضی اور تاریخ صرف پڑھنے اور لطف اٹھانے کے لیے نہیں ہوتے۔۔۔ ان سے سبق سیکھنا ہوتا ہے۔۔۔ اور ماضی کے آئینے میں اپنا مستقبل دیکھنا ہوتا ہے۔۔
ان کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ جس طرح افغانستان کی جنگ میں "مجاہدین" کو روس کے خلاف استعمال کیا گیا۔۔۔ اور جب جنگ ختم ہوئی تو یہی "مجاہدین" اب تک پاکستان اور افغانستان دونوں کے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔
ابھی شام میں جو دنیا بھر سے دہشت گرد جمع کئے گئے ہیں۔۔ جیلیں توڑ توڑ کر۔۔۔ یقینا ایک نہ ایک دن یہ جنگ ختم ہونی ہے۔۔۔ اس کے بعد یہ "دہشت گرد مجاہدین" کہاں جائیں گے؟؟ َ
اپنے اپنے ملکوں میں شرافت کے ساتھ واپس جائیں گے؟؟ یقینا نہیں۔۔۔ کسی اور مہم پر ان کو لگا دیں گے۔
ترکی، سعودی عرب، لیبیا، قطر اور ان جیسے ان کے سپوٹرز کے لیے یہی لوگ بعد ٰ میں درد سر بن سکتے ہیں۔۔
 
ماضی اور تاریخ صرف پڑھنے اور لطف اٹھانے کے لیے نہیں ہوتے۔۔۔ ان سے سبق سیکھنا ہوتا ہے۔۔۔ اور ماضی کے آئینے میں اپنا مستقبل دیکھنا ہوتا ہے۔۔
ان کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ جس طرح افغانستان کی جنگ میں "مجاہدین" کو روس کے خلاف استعمال کیا گیا۔۔۔ اور جب جنگ ختم ہوئی تو یہی "مجاہدین" اب تک پاکستان اور افغانستان دونوں کے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔
ابھی شام میں جو دنیا بھر سے دہشت گرد جمع کئے گئے ہیں۔۔ جیلیں توڑ توڑ کر۔۔۔ یقینا ایک نہ ایک دن یہ جنگ ختم ہونی ہے۔۔۔ اس کے بعد یہ "دہشت گرد مجاہدین" کہاں جائیں گے؟؟ َ
اپنے اپنے ملکوں میں شرافت کے ساتھ واپس جائیں گے؟؟ یقینا نہیں۔۔۔ کسی اور مہم پر ان کو لگا دیں گے۔
ترکی، سعودی عرب، لیبیا، قطر اور ان جیسے ان کے سپوٹرز کے لیے یہی لوگ بعد ٰ میں درد سر بن سکتے ہیں۔۔
صرف ترکی کو اس لسٹ سے نکال دیں :)
 

حسینی

محفلین
میں ان کی نہیں آپ کی بات کر رہا تھا کہ لسٹ میں باقی ممالک اور ترکی کا کوئی میل نہیں، ہاں البتہ ایران کو ضرور شامل کر سکتے ہیں۔

بات دہشت گردوں کی ہو رہی تھی۔۔۔ کہ وہ ان ممالک کے لیے بعد ٰ میں مسائل کھڑے کر سکتے ہیں جو ابھی ان کو پال پوس رہے ہیں۔
اس حوالے سے ترکی شام کے سب سے زیادہ قریب ہے۔۔۔ اور چونکہ ترکی کے راستے یہ سب آئے تھے اسی راستے سے واپس بھی جانا ہے۔۔ اور پھر جاتے جاتے کیا پتہ وہاں بھی اسلامی امارت قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔۔
اب دیکھیے کیا ہوتا ہے۔۔۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔۔
 
Top