,,, وہ ہونٹ ,,,

anwarjamal

محفلین
,,, وہ ہونٹ,,, تحریر,,, انور جمال انور,,,

یار تمہیں کیا چاہیے بولو,, کھل کے بتاؤ, کیا بات ہے. کیا چاہتے ہو? اس نے ڈانٹتے ہوئے پوچھا پھر اپنے سراپے کی طرف اشارہ کر کے کہا.,,
جو چاہئیے لے لو یار مگر اس طرح پیچھے مت پڑے رہو, ہرٹ ہوتی ہوں میں,,,, کوئی اسکول جاتی بچی نہیں جو تم کبھی لو لیٹر دے رہے ہو مجھے کبھی گلاب کا پھول اور کبھی دو گھڑی ساتھ بیٹھنے کی ضد,, وائے?
میں محبت اور رومانس وغیرہ کی بکواسیات پر یقین نہیں رکھتی.,,, اوکے???

بہت بڑی انڈسٹری کے بہت چھوٹے کیمرہ مین اظہار کے سر پر یہ باتیں ہتھوڑے کی طرح برس رہی تھیں
وہ سمندر کے کنارے ایک بنچ پر تنہا بیٹھا بار بار اپنے بالوں میں انگلیاں پھیر رہا تھا
دور پانی میں ڈوبتے ہوئے سورج کی دھیمی مسکراہٹ اسے طنزیہ محسوس ہوئی,, جیسے کہہ رہی ہو, کہاں اس سال کی سب سے کامیاب ماڈل اور اداکارا اور کہاں تم,, تمہیں تو اظہار عشق کی جرات بھی نہیں کرنی چاہیئے تھی,,

تو کیا کروں میں,, اس نے بے بسی سے پوچھا,,
وہ بار بار آنکھوں کے آگے آتی ہے, اس کا خیال دل سے نکلتا ہی نہیں, بولو کیا کروں کیسے اس اذیت سے چھٹکارا پاؤں?

دکھ کے بادل آسمان سے اتر کر اس کی آنکھوں میں سما گئے, سورج اس جذباتی نوجوان کا غم دیکھ کر پانی میں کود گیا,, آسمان پر اڑنے والے پنچھی چیخ چیخ کر اس کی طرف اشارے کرنے لگے,,

کئی روز بعد جب وہ دوبارہ سمندر کے کنارے آیا تو پہلے سے زیادہ اداس تھا,, کہنے لگا آج کسی وجہ سے شوٹنگ کینسل کر دی گئی تھی وہ سیٹ پر آکر واپس جانے کو تھی کہ میں نے اسے پکڑ لیا
, دو منٹ رک جاؤ کافی شاپ میں بیٹھتے ہیں,, اس نے میری التجا سننے کے بعد یوں دیکھا جیسے کہہ رہی ہو,, اتنا ڈھیٹ آدمی پہلے کبھی نہیں دیکھا,,
بہرحال وہ میرے ساتھ کافی شاپ میں آ بیٹھی,, میں نے اپنا دل اس کے سامنے چیر کر رکھ دیا
وہ حیرت سے منہ تکنے لگی, پھر اس کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات ابھرے, کہنے لگی آیئندہ اس موضوع پر بات مت کرنا

مجھے غصہ آگیا
کیوں آخر کیوں ؟میرے ہاتھ میں کافی کا کپ اعصاب پر قابو نہ رکھ سکنے کی وجہ سے لرزنے لگایا,, کیا خرابی ہے مجھ میں ؟

کیا خوبی ہے تم میں,, اس نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا,,
میں کیوں شادی کروں,, تم فرخندہ کی جگہ لے سکتے ہو,,,, ؟ کبھی نہیں,, تم نے اس کے ہونٹ دیکھے ہیں, کتنے خوبصورت ہیں, کتنے بھرے بھرے ہیں,, تمہیں کیا پتہ وہ ہونٹ کیا کرتے ہیں,, مرتی ہوں میں ان پر,, فرخندہ کی خاطر زندگی بھر کسی سے شادی نہیں کروں گی

سورج جو اس کی داستان شوق دلچسپی سے سن رہا تھا پوچھے بغیر نہ رہ سکا
فرخندہ کون ہے ؟

اس نے بتایا فرخندہ اس کی بچپن کی سہیلی ہے دونوں ایک ہی فلیٹ میں ایک ساتھ رہتے ہیں,,

سورج گہرے بادلوں کی چادر تان کر سوچ بچار میں گم ہوگیا, اسے یہ اسٹوری کچھ عجیب سی لگ رہی تھی,, کچھ دیر بعد اس نے سر نکالا اور کہا,, میں کچھ سمجھا نہیں,,

وہ بولا میں نے بھی یہی کہا کہ تم کیا کہہ رہی ہو, سمجھنے سے قاصر ہوں,,
وہ بولی کافی پیو اور گھر جاؤ
بس اتنا ہی سمجھ لو کہ میں تمہارے لائق نہیں ہوں یا پھر شاید تم میرے لائق نہیں ہو,, جو کچھ بھی ہے ختم کرو بس,,

پھر وہ چلی گئی,,
جب وہ بولتے بولتے خاموش ہوا اور اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو سورج بھی جا چکا تھا,, آسمان پر اڑنے والے پرندے بھی اپنے گھروں کو واپس جارہے تھے

اس کی داستان سننے والا کوئی نہ تھا,, وہ اٹھا اور اپنے غم کا سارا بوجھ واپس لاد کر جانے لگا

کچھ دنوں بعد وہ پھر اسی بنچ پر آن بیٹھا

کافی ہیجان زدہ لگ رہا تھا,, پرندے اسے دیکھ کر تتر بتر ہو گئے کہ کون روز روز اس مایوس آدمی کی فریاد سنے
وہ سر جھکائے بیٹھا رہا,, بیٹھا رہا یہاں تک کہ سمندر کو گمان ہونے لگا کہ یہ شخص مر چکا ہے,, اس نے ایک زوردار لہر بھیجی جس نے اس کے پاؤں ٹخنوں تک بھگو ڈالے

یہ سوچ کر کہ شاید سمندر کو اس کی لو اسٹوری سے دلچسپی ہے اس نے آج کا واقعہ بیان کرنا شروع کیا

بولا آج میں نے فرخندہ کو روک لیا وہ بازار سے شاپنگ کر کے آئی تھی اور اپنے فلیٹ کی طرف بڑھ رہی تھی, اس کے ہاتھ میں دو بڑے تھیلے تھے

اس کے ہونٹ کیسے تھے,, ؟ سورج نے فوراً سوال داغ دیا

مجھے تو پسند نہیں آئے,, موٹے موٹے بھدے ہونٹ تھے سچ پوچھو تو وہ لڑکی کہیں سے بھی اچھی نہیں لگی
جب میں نے اپنی بے تاب تمناؤں کا ذکر کیا تو وہ عجیب طرح ہنسی اور مجھ پر حقارت کی نظر ڈال کر آگے بڑھ گئی,, پیچھے میں شور مچاتا رہ گیا,,
ماہ نور میری جان ہے, میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا, اسے سمجھاؤ,, پلیز اسے سمجھاؤ
تم اس کی عزیز ترین دوست ہو تمیاری بات وہ مان لے گی,, مگر اس نے ایک نہ سنی اور چلی گئی,,
سمندر نے اس کی بات سن لی مگر دوبارہ لہروں کے کھیل میں منہمک ہو گیا, وہ اس آدمی کو کیا مشورہ دیتا,,

دن گزرتے رہے,, اگلی بار آتے ہی اس نے سورج سے وعدہ کر لیا کہ آج تم اکیلے نہیں ڈوبو گے میں بھی تمہارے ساتھ ڈوبوں گا
پانی کی لہریں یہ سنتے ہی سر پٹک پٹک کر رونے لگیں وی سمجھ گئیں کہ آج ضرور کوئی انہونی ہوئی ہے,,

آج میں اسے قتل کر آیا ہوں اس نے کہا,,
مگر کیوں,,, سورج سراپا احتجاج ہوگیا,, کتنی بری بات ہے جسے چاہنا اسی کو قتل کر دینا,,
آخر آج ایسا کیا ہوا تھا ؟

وہ خاموش رہا,, کتنی ہی دیر گزر گئی,, آس پاس کی چیزیں ہمہ تن گوش تھیں,, سمندر نے لہروں کو حکم دے کر خاموش کرا دیا تھا,,

وہ کہنے لگا,, کل رات میں اس کے فلیٹ میں گیا تھا,, میرا ارادہ ایک بار پھر اس سے محبت کی بھیک مانگنے کا تھا,,
میں نے دروازے پر دستک دی,, اندر ایک انگلش گانے کی تیز دھن بج رہی تھی,,
میری دستک سے دروازہ تھوڑا سا اندر کی طرف کھل گیا,, گویا وہ لاک نہیں تھا
ذرا سا دروازہ کھولتے ہی ایک منظر نے مجھے جکڑ لیا

کیا یہ محض اتفاق تھا کہ میں عین وقت پر وہاں پہنچا تھا یا یہ قدرت کی طرف سے ایک طے شدہ پروگرام کا حصہ تھا
بہرحال جو کچھ بھی تھا میں نے ماہ نور کو دیکھا جو بیڈ پر چت لیٹی ہوئی تھی اور دو ہونٹ اس کے ساتھ کچھ کر رہے تھے,
میں جلدی سے واپس لوٹ گیا
وہ رات میں نے انگاروں پر بسر کی,, میں فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ خود اپنی جان لے لوں یا اسے قتل کر دوں,, آخر کار صبح منہ اندھیرے میں دوبارہ وہاں گیا اور بڑے آرام سے گلا گھونٹ دیا اس کا,,
پرندے ایک بے گناہ کے قتل پر رنجیدہ ہوگئے,, لہریں پتھروں سے سر ٹکرا ٹکرا کر واویلہ کرنے لگیں,,
سورج تیزی سے نیچے کی طرف گرنے لگا جسے دیکھ کر وہ بنچ سے اٹھ کھڑا ہوا
اس نے سورج کو پکارا,, ٹھہرو,, مجھے بھی لیتے جاؤ,, وہ اگے بڑھا اور گہرے پانی میں اترتا چلا گیا یہاں تک کہ سمندر کی بپھری ہوئی موجوں نے اسے گود میں اٹھا لیا اور کھینچتی ہوئی نیچے کی طرف لے گیئں,,
پانی کا دباؤ پڑنے سے اس کا پرس وغیرہ جیب سے نکل کر سطح ہر آگیا اور تیرنے لگا پرس کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی پلاسٹک کی تھیلی تھی جس میں دو موٹے موٹے ہونٹ رکھے ہوئے تھے,,
 

نایاب

لائبریرین
اک تلخ حقیقت کو بہت سادگی سے بیان کرتا اک بہت خوب افسانہ ۔۔۔۔۔۔۔
بہت سی داد محترم انورجمال صاحب
 
Top