ویرو کوہلی بمقابلہ شرجیل میمن

15_04_2013_001_006.jpg

ویرو کولہی نے انتخابی امیدوار بننے کا قانونی تقاضا پورا کرنے کیلئے جب اپنے اثاثوں کا اعلان کیا، اس میں دو چارپائیاں 5 چٹائیاں کھانا پکانے کے چند برتن اور 2800 روپے پر مشتمل بنک اکاﺅنٹ شامل تھا۔ یہ محنت کش خاتون سندھ کے شہر حیدر آباد سے بطور آزاد امیدوار صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہی ہے۔ ویرو کولہی نے حیدر آباد کے مضافات میں گارے اور بانس سے بنے اپنے ایک کمرے کے گھر میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جاگیردار ہمارا خون چوس رہے ہیں ان کے منیجر ہم سے برا سلوک کرتے ہیں وہ ہماری بیٹیوں کو لیجاتے ہیں اور زمینداروں کے حوالے کر دیتے ہیں کولہی کے حمایتی سمجھتے ہیں کہ اس کے الیکشن لڑنے سے توقع کی جا سکتی ہے یہ انتخابات بحرانوں کے شکار ملک کیلئے بہتر مستقبل کی جانب اہم قدم ہوں گے بعض لوگوں کے خیال میں حقیقت یہ ہے کہ کولہی کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ 11 مئی کے انتخابات بھی سندھ کے انتہائی پسماندہ دیہی عوام کیلئے کوئی تبدیلی نہیں لائیں گے۔ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی کولہی سوزوکی وین میں اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہے اس نے اس منی وین کو کیوبا کے انقلابی رہنما چی گویرا کی تصاویر سے سجایا ہوا ہے اور اس کے پاس ایک پرانا میگا فون ہے اس حلقے میں اس کا مقابلہ پیپلزپارٹی کے طاقتور امیدوار شرجیل میمن سے ہے۔
 
مٹی اور بانس کے ایک کمرے کے گھر میں رہنے والی ویرو پڑھنا لکھنا نہیں جانتی ، لیکن 1990 میں جاگیرداروں کے چنگل سے فرار ہونے کے بعدسے اُس نے اپنے جیسے لوگوں کی مدد کا کام خوب کیا ہے۔ بہت سوں کو جبری محنت کے کام سے رہا بھی کرایا۔ کولہی نے سماجی روایات توڑتے ہوئے حیدرآباد کی عدالت میں صوبائی انتخابات کے لیے کاغذات جمع کرائے ہیں۔ علاقے کے لوگوں کا کہناہے کہ وہ ویرو کو ہی ووٹ دیں گے۔کولہی جس حلقے سے انتخاب لڑنا چاہتی ہے، وہاں ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 33 ہزار ہے۔ اسی حلقے کے ایک مزدورLakhi Bheel کا کہناہے کہ اس پر 99 ہزار روپے کا قرضہ ہے۔ جس پر مالک نے اس کی بیٹیاں اغوا کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ویرو اسی ماحول میں مزدوروں ، کسانوں ، ہاریوں کو اپنے حق کی آواز بلند کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔
 
بے شک ویرو کوہلی جیسے لوگ نقیب ِ ہیں تبدیلی کے ۔۔۔ لیکن ویسے انکا جیتنا ذرا مشکل لگتا ہے اگر جیت گئیں تو انکا حشر پھولن دیوی جیسا نا ہوجائے۔۔
 

ساجد

محفلین
کوہلی کی ہمت ایک ترغیب ہے کمزوروں کے لئے۔ بھلے وہ جیتے گی نہیں لیکن ایک مثال ضرور قائم کرے گی۔
 
لارڈز پارٹی کے ڈرائکولاز میں شرجیل انعام (درحقیقت عذاب) میمن کا نام خصوصی اہمیت کا حامل ہے ہر جرم ہر بدمعاشی ہر قتل و ہ ہر مصیبت ،جو پی پی پی یا مستقل قومی مصیبت کی بڑی بہن، کی وجہ سے اس ملک پر نازل ہوتی رہے کے پشت بان و محافظ خصوصی یہی حضرت رہے ہیں نیز وزیر اعلیٰ سندھ یا دوسرے لفظوں میں بڈھا ان قبر کے نحیف و نزار بدن و بھاری بھرکم گناہوں کا بوجھ اٹھانے میں ان کے معاون خاص بھی۔ شروع شروع میں اپنے پیر ذوالفقار مرزا کی کچھ سائیڈ لینے کی کوشش میں آنجہانی پرنسس کے پلے بوائے کے معتوب رہے تاہم بعدازاں ان سب میں مک مکا ہو گیا۔شرجیل انعام میمن جو بظاہر صرف پنواڑی ہیں یا دوسرے لفظوں میں صرف جگالی فرماتے ہیں درحقیقت پینے پلانے سے لے کر کھییلنے کھیلانے کے بھی بڑے شوقین ہیں۔ان کی ایک اور خصوصیت جو ان کو پی پی کے طویلے میں خاص مقام عطا کرتی ہے اور شیطان کے معاون خصوصی فیصل رضا عابدی کے پہلو میں بٹھاتی ہے وہ ان کی گالم گلوچ کی صلاحیت ہے جس کا وہ وقتا فوقتا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ بہر کیف ویرو کوہلی جو ایک ہندو خاتون ہے اس کے بارے میں یہی کہ سکتے ہیں اگر وہ بتوں کی پجاری ہے تو یہ حضرت شیطان زرداری کے، البتہ ویرو کوہلی اس وقت مظلوموں کی نمائندگی کر رہی ہے اور یہ حضرت ظلم کی دلدل میں کچھ اس طرح غرق ہو چکے ہیں کہ کیچڑ گندگی کہاں ختم ہوتی ہے اور شرجیل انعام میمن کہاں شروع اس کے مابین امتیاز کرنا اب ممکن نہیں رہا۔
 
Top