ویلنٹائن ڈے پرغامدی صاحب کی رائے! (جاوید احمد غامدی)

فاتح

لائبریرین
ویلنٹائن ڈے پرغامدی صاحب کی رائے!
از جاوید احمد غامدی

یہ جتنے بھی تہوار ہیں یہ قوموں کے ہاں موسموں کے تغیر سے پیدا ہوتے ہیں ، تاریخی روایات سے پیدا ہوتے ہیں ، آب و ہوا سے پیدا ہوتے ہیں، ان کے پیدا ہونے کے بے شمار اسباب ہیں۔ ہم جب ہندوستان میں آئے تھے مسلمان کی حیثیت سے تو یہاں بھی کچھ تہوار تھے ان تہواروں کو بھی ہم نے اختیار کیا بعض کو اختیار کیا، بعض کو نہیں کیا ۔اب دنیا ایک بین الاقوامی گاؤں بنتی چلی جا رہی ہے، اس وجہ سے جو تہوار جگہ جگہ منائے جا رہے ہیں ، میڈیا کی وجہ سے ان کے اثرات ہم تک بھی پہنچ رہے ہیں مسلمانوں کے لئے اس میں اصول یہ ہیں کہ وہ جس تہوار کو بھی منائیں اس میں یہ جائزہ لیں کہ کوئی اخلاقی قباحت تو نہیں اس میں یعنی مسلمان کہتے کس کو ہیں وہ جو اپنے قلب کو ، اپنے دماغ کو، اپنے دل کو پاکیزہ رکھتا ہے ، یہ پاکیزگی ہے جس کو ہدف بنانا چاہئے اس پاکیزگی کے اصول ہر حال میں ملحوظ رہیں گے ۔ اسلام کا ، دین کا مقصد ہی یہی ہے کہ وہ ہمارے نفس کی تہذیب کرے، ہمارا تزکیہ کرے ، یہ جو دن ہے اس دن کے اندر کوئی غیر اخلاقی چیز ہے جو ہمارے ہاں یا ہماری روایات کے مطابق نہیں ہے ہمارے دین کے مطابق نہیں ہے ، اس کو نکال دیجئے اُس کے بعد اگر آپ اس تہوار کو منانا چاہتے ہیں تو پھر اس کا دین کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ یعنی ہمیشہ ہر چیز کا جائزہ جب بھی آپ اس کو اختیار کریں جب بھی آپ اس کو اپنائیں، اپنی تہذیبی روایات، اپنے دین کی روشنی میں لے لیجئے، یہاں صورتحال یہ نہیں ہوگی کہ اگر کوئی چیز غیروں کی طرف سے آئی ہے تو وہ ممنوع ہو جائے گی۔ یہاں یہ دیکھا جائے گا کہ جو چیز آئی ہے اس میں کوئی اخلاقی قباحت تو نہیں ہے، اس میں دین کے کسی اصول سے انحراف تو نہیں کیا گیا ۔ فرض کر لیجئے کہ آپ اپنی ماں کو محبت کے اظہار کے لئے پھولوں کی ایک شاخ پیش کر دیتے ہیں یا اپنی بیوی کو پیش کرتے ہیں ، یا بہن کو پیش کرتے ہیں یا کسی عزیز دوست کو پیش کرتے ہیں یا اس سے آگے بڑھ کو اپنی منگیتر کو ہی بھیج دیتے ہیں کوئی تو یہ چیزیں تو ہمارے ہاں پہلے سے موجود ہیں ۔ ان میں کوئی ایسی چیز نہیں۔۔۔ لیکن اس سے آگے بڑھ کر اگر کوئی اخلاقی حدود سے تجاوز کرتا ہے یا ایسے معاملات کئے جاتے ہیں جو ہماری تہذیبی روایات کے منافی ہیں ، ہمارے دین کے منافی ہیں تو یہ چیز قابل مواخذہ ہے۔

بہت اچھی بات ہے کہ مسلمان اپنے تہوار منائیں ، بہت اچھی بات ہے کہ وہ اپنے تہوار پیدا کریں ایسے تہوار ہمارے ہاں وجود پذیر ہوں جن کو دوسری قومیں اختیار کرنے کے لئے پابند ہو جائیں یہ سب اچھی باتیں ہیں۔ لیکن میں یہ گذارش کر رہا ہوں کہ ایسا ہوتا نہیں ہے، ہوتا یہ ہے کہ جب آپ دوسری قوموں کے ساتھ معاملات کرتے ہیں تو ان کے تہواروں کے کچھ نہ کچھ اثرات آپ پر ہوتے ہیں۔ ایک تو مذہبی تہوار ہیں یعنی جن میں کوئی خاص عبادت یا اس نوعیت کی چیز کی جاتی ہے ظاہر ہے مسلمان وہ تو نہیں کر سکتے جن کا مذہبی پس منظر ہوتا ہے اگر کوئی غیر اخلاقی چیز اس کے اندر ہے تو اس کو نکال دینا چاہئے اس کو نکال دینے کے بعد آپ اس کو قابل اعتراض نہیں کہہ سکتے ۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کی ایک تاریخ ہوتی ہے ان کا پس منظر ہوتا ہے لیکن وہ آہستہ آہستہ اپنی تاریخ سے مجرد ہو جاتی ہیں۔ تو اس طرح جب وہ اپنی تاریخ سے مجرد ہو جائیں تو پھر دو رویے ہوتے ہیں ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس تاریخ کو پیش نظر رکھ کر ہمیں اس کے قریب بھی نہیں پھٹکنا چاہئے یہ رویہ بھی اگر کچھ لوگ اختیار کرتے ہیں تو ان کو یہ حق حاصل ہے پھر دوسرے لوگ ایسے ہو سکتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اس کی تاریخ تو اس کے پس منظر میں چلی گئی ہم نے اب اس کو فلاں فلاں چیز سے پاک کرکے جو اخلاقی لحاظ سے قابل اعتراض ہو سکے اپنا لیا ہے۔ یہ دونوں رویے بالکل ٹھیک ہیں ان دونوں رویوں میں کوئی متشدانہ طرز عمل نہیں اختیار کرنا چاہئے جو جس رویے پر مطمئن ہے وہ اسے اختیار کر سکتا ہے۔

(نوٹ- جاوید احمد غامدی صاحب کی یہ رائے ان کے ایک ٹی وی پروگرام سے لی گئی ہے )

http://dunyapakistan.com/61186/
 

نور وجدان

لائبریرین
بھئی۔۔ویلنٹائن ڈے ہے جسے دیکھو منہ بنائے ، دیدے پھاڑے، کپڑے جھاڑے اپنے اپنے انداز میں نمودار ہو رہا ہے۔۔ تو میں نے سوچا کیوں نہ اس بہتی کنگا میں نہا لیا جائے۔۔ منظر یوں ہے کہ یہ فیس بُکی سورما، جہادی، مسخرے، صوفی و سنت جو سال بھر اپنا سا منہ لیے نہ جانے کن کن غلط کاریوں کے نشے میں ڈوبے رہتے ہیں۔۔ایک یوم محبت کی دھمک سنتے ہی یکایک ہوش میں آجاتے ہیں۔ خدا لگتی بات ہے کہ ان کے اپنے لچھن کیا ہیں، کبھی دیکھ لیں تو خود کو مردود کہتے نہ تھکیں۔۔۔! خیر سطحی سا ہوجائے گا سب کچھ۔۔ چلو کچھ بات کو اوپر اُٹھاتے ہیں۔۔ اتنی اوپر کے جہاں سے تیسرا رُخ نظر آسکے۔جہاں دائمی گلٹ دماغ کی خرابی کا سبب نہ بن سکے۔تو دوسرا منظر یوں ہے کہ دیکھیے صاحب جنسی بے راہ روی کسی دن کی محتاج نہیں ہے، کسی کو مسجد کی دیوار کے پیچھے بھی رومان لڑانے کا موقع ملے گا تو کون کمبخت اذان کا احترام کرے گا؟ اور یوم محبت منانے میں کیا بیہودگی ہے؟ کیا وہ جبربیہودگی نہیں جو روز آپ اپنی عورتوں سے کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں؟ کہ انہیں انسان کی فہرست سے ہی نکال دیتے ہیں! کیا جسم فروشی بیہودگی نہیں ہے۔۔؟ جہاں ہرروز کسی فاحشہ کے کمرے میں، کھونٹی پر انہی صوفی و سنت کی قمیض لٹک رہی ہوتی ہے۔۔۔ اور صاحب یہ بہنوں والی منطق کون سی ہے؟ کیا تمہاری یہ منطق درست ہے کہ عورت کو ایک مرد کی غلامی سے دوسرے مرد کی غلامی میں پھینک دیتے ہو۔۔۔جیسے انسان نہ ہوا کوئی پالتو جانور ہو گیا۔۔ اور صاحب یہ حرام شرام تو آج تک سمجھ ہی نہیں آیا۔۔۔ ملا ، مولوی اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے مذہب اور ثقافت میں سود ی بینکاری اور سینکڑوں حرام کاموں کی گنجائش نکال لیتا ہے مگر یوم محبت پر اُس کا ایمان جاگ اُٹھتا ہے۔۔۔ ! بھئ حیرت ہے آپ کے اور آپ کے اقدارپر ۔۔۔ !ہمیں تو معاف ہی رکھیے ۔۔ ہم تو محبت کا دن منائیں گے اور سال کے ہر دن منائیں گے!
(محمود ایاز)
 

یاز

محفلین
خیالات میں اتفاق کی رو سے میں خود کو اور محمود ایاز صاحب کو ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے پاتا ہوں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
خیالات میں اتفاق کی رو سے میں خود کو اور محمود ایاز صاحب کو ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے پاتا ہوں۔
مجھے بے باک اور نڈر لوگ بھاتے ہیں ایسے لوگ اپنے اپنے نظریات کے ساتھ اپنے سچ کو بخوبی بنا تصنع کے نبھاتے ہیں۔ یہی کچھ معاملہ ہے ۔
 
Top