یوسف-2
محفلین
گزشتہ دنوں میری ایک عزیزہ کافون آیا ۔اُس نے بتایا کہ وہ لوگ ویلنٹائن ڈے منانے لاہور آ رہے ہیں ۔ میں نے انتہائی شائستگی سے جواب دیا کہ اِس تہوار کا ہمارے دین سے کوئی تعلق ہے نہ اسلامی معاشرت سے ۔میں نے اُسے سمجھانے کی خاطر یہ کہا کہ ہمیں اسلامی اقدار اورکلچر کو فروغ دینا چاہیے کہ اِسی میں فلاح کی راہ نکلتی ہے ۔میری عزیزہ نے یہ کہتے ہوئے فون بند کر دیا کہ میری سوچیں ابھی تک ہزاروں سال پہلے کے دَورِ جاہلیت میں گھوم رہی ہیں ، جبکہ زمانہ بہت آگے نکل چکا ہے ۔تَب سے اب تک میں یہی سوچ رہی ہوں کہ ہم ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں یا تنزلی کی ؟۔معلوم تاریخ سے تو یہی پتہ چلتاہے کہ ابتدا میں معاشرے کا وجود تک نہیں تھا اور اقدار سے بے نیاز برہنہ انسانوں اور حیوانوں میں کوئی خاص فرق نہیں تھا ۔
ہزاروں سالوں کی گردشِ لیل و نہار کے بعد معاشرہ وجود میں آیا ، مرد اور عورت کا فرق واضح ہوا اورنسوانی حیا کو جسم ڈھانپنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ پھر حضرتِ انسان نے ’’ یُو ٹَرن‘‘ لیا اور آج یہ عالم ہے کہ یورپ و امریکہ کے سمندری ساحلوں پر ہمیں اُسی دَور کی جھلک نظر آتی ہے جسے ہم ’’پتھر کا زمانہ‘‘ کہتے ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا روشن خیالی کے نام پر منایا جانے والا ویلنٹائن ڈے ہمیں ترقی کی جانب لے جا رہا ہے یا تنزلی کی؟
یوں تو طبقۂ اشرافیہ میں ویلنٹائن ڈے کافی عرصے سے منایا جا رہا ہے لیکن اِس کو عروج مشرف صاحب کے دَورِ حکومت میں ہوا اور 2000ء سے اب تک اِس تہوار کو پورے اہتمام سے ایسے منایا جاتا ہے جیسے یہ کوئی مقدس فریضہ ہو ۔ میں وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ پاکستانیوں کی غالب اکثریت کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ’’ ویلنٹائن ‘‘ کس بَلا کا نام ہے اور اِسے پورے اہتمام سے کیوں منایا جاتا ہے کیونکہ ہمیں تو بس اِس سے غرض ہے کہ ہلّا گُلّا ہو خواہ کیسے بھی ہو۔یوں تو ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا مانگتے ہیں ’’(اے اللہ ) ہمیں سیدھا راستہ دکھا ، اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا ، نہ کہ اُن لوگوں کا جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ گمراہوں کا‘‘۔لیکن ہمارے اعمال اِس کی مطلق گواہی نہیں دیتے ۔یہی نہیں بلکہ ہمارے اعمال تو اُن گمراہوں جیسے ہیں جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ۔ہم نے وہ کلچر تو کب کا چھوڑ دیا جو میرے آقا آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ اطہر کی خوشبوؤں سے معمور تھا ۔اب تو ہمیں وہ سارے تہوار اچھے لگتے ہیں جِن کا اسلامی معاشرے سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ہم ہندوؤں جیسی مایوں ، مہندی کرتے ہیں ، پیلے بسنتی جوڑے پہنتے ہیں ، بسنت مناتے ہیں اور ویلنٹائن ڈے۔ یہ معصومانہ کوتاہی نہیں بلکہ اللہ اور اُس کے رسول اللہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شعوری نافرمانی اور اُن کے احکامات کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے ۔
ویلنٹائن ڈے ایسا تہوار ہے جس کے خلاف بھارت کی انتہا پسند ہندو تنظیموں میں بھی شدید ردِ عمل پایا جاتا ہے اوروہ بھی اِسے فحاشی اور ہندوانہ تہذیب کے حق میں زہرِ ہلاہل سمجھتی ہیں اور عیسائی پادری بھی اِس دن کو مکروہ خیال کرتے ہیں ۔بنکاک میں ایک پادری نے اپنے ہمراہیوں کے ساتھ ایسی دکانوں کو نذرِآتش کر دیا جہاں ویلنٹائن ڈے کے کارڈز اور گلدستے فروخت ہو رہے تھے۔یورپ و امریکہ کے الیکٹرانک میڈیا پربھی اِس دِن کے حوالے سے کوئی خصوصی پروگرام نہیں ہوتا لیکن ہمارے پاکستانی چینلز اِس دِن کو بڑے اہتمام سے مناتے ہیں ۔اِس دن کی مناسبت سے پروگرامز ترتیب دیئے جاتے ہیں اور سٹوڈیوز کو پھولوں اور غباروں سے بھر دیا جاتا ہے ۔عجیب بات ہے کہ جہاں سے یہ رسمِ بَد پھوٹی وہاں تو اتنا اہتمام نہیں کیا جاتا لیکن ہم، ذہنی طور پر غلام ابنِ غلام ،اس دن کو ایسے ہی مناتے ہیں جیسے اپنے مذہبی تہواروں کو۔
14 فروری کو منائے جانے والے ویلنٹائن ڈے کو انسائکلوپیڈیا بُک آف نالج میں ’’محبوبوں کے لیے خاص دن‘‘ لکھا گیا ہے ۔روایت یہ ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں روم میں ویلنٹائن نام کا ایک پادری ایک راہبہ کے عشق میں گرفتار ہوا ۔چونکہ عیسائیت میں راہبہ کے ساتھ نکاح جائز نہیں تھا اِس لیے ویلنٹائن نے ایک کہانی گھڑی اور اپنی محبوبہ کو یہ بتایا کہ اُسے خواب میں بشارت ہوئی ہے کہ اگر 14 فروری کو جنسی تعلقات قائم کر لیے جائیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا ۔راہبہ نے ویلنٹائن کی بات پر یقین کر لیا اور دونوں نے کلیسا کی روایت کی دھجیاں اُڑا دیں ۔اِس گناہ کا پتہ چلنے پر دونوں کو قتل کر دیا گیا لیکن کچھ نوجوانوں نے ویلنٹائن کو ’’شہیدِ محبت ‘‘ کے درجے پر فائز کر دیا ۔آج بھی چرچ اسے جنسی بے راہروی کی تبلیغ قرار دیتا ہے جب کہ بے راہروی کے شکار یورپ کا نوجوان طبقہ اِس دن خوب ہَلّا گُلّا کرتا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ یہ ’’یومِ محبت‘‘ نہیں ’’یومِ اوباشی‘‘ ہے ۔
آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ اُنہی میں سے ہو گا ‘‘۔لیکن ہم اہلِ یورپ کی مکمل مشابہت اختیار کرنے کے باوجود بھی اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں ۔پاکستان کے پوش علاقوں، انگلش میڈیم تعلیمی اداروں ، کلبوں اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں تہذیبِ مغرب کے غلام خاندانوں کے نو جوان لڑکے اور لڑکیاں ویلنٹائن ڈے پربڑے بڑے ہوٹلوں میں ’’ویلنٹائن ڈنر‘‘ کرتے ، موبائل فونوں پر محبت کے پیغامات بھیجتے ، ا پنے محبوب کو ویلنٹائن کارڈز اور گلاب کے پھول پیش کرتے ہیں ۔شہروں میں طلباء اور طالبات کی ٹولیاں دن بھر پھول خریدتی نظر آتی ہیں اور اکثر نوجوان لڑکے راہ چلتی لڑکیوں کو پھول پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اب ہمارا معاشرہ بھی ’’مادر پِدر آزاد‘‘ ہو گیا ہے ۔اِس معاملے میں ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی کسی سے پیچھے نہیں ۔جونہی 14 فروری کا سورج طلوع ہوتا ہے چینلز پر محبت کے پیغامات کی بھرمار ہوجاتی ہے اور یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا ہے ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی یورپ کے حیا باختہ اور جنس پرست معاشرے کی پیروی کرنے میں فخر محسوس کرتا ہو کیونکہ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی چینل نے کوئی ایسا پروگرام ترتیب دیا ہو جو ہمارے نو جوانوں کو ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کی اصلیت سے آگاہ کر سکے ۔
دینِ مبیں میں صحت مند تفریحات کی ہر گز ممانعت نہیں لیکن ایسی تفریحات اور ایسی مسرتوں کی ہر گز گنجائش نہیں جن سے ابلیسیت کی بُو آتی ہو ۔ میرا دین پاکیزہ اقدار کو فروغ دینے کی تلقین کرتا ہے بے حیائی کی نہیں ۔رَبِّ کردگار نے حکمت کی عظیم ترین کتاب میں درج کر دیا کہ ’’یقیناََ جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں کے گروہ میں بے حیائی پھیلے ، وہ دُنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں ‘‘ (النور) ۔لیکن ہمارا معاشرہ محبت کے نام پر بے حیائی کو فروغ دیتا چلا جا رہا ہے اور ہمارے سیکولر ذہن کے حامل اصحاب اسی عریانی ، فحاشی اور بے حیائی کو روشن خیالی کا لبادہ اوڑھا کر قابلِ قبول بنانے کی تگ و دَو میں ہیں ۔محبت توایک پاکیزہ جذبہ ہے جو اللہ اور اُس کے بندے کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتا ہے اور محبت وہی جواپنے رَبّ سے کی جائے ۔اُس محبوبِ حقیقی نے سورہ البقرہ میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر ا للہ کو محبوب رکھتے ہیں ‘‘۔محبوبِ حقیقی کی محبت کے بعد اُس کے بندوں سے محبت بہترین عمل قرار دیا گیا ہے لیکن یہ محبت بھی اللہ کی رضا کی خاطر کی جاتی ہے۔اِس محبت کے حصول کا آسان ترین طریقہ باہمی سلام ہے ۔آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز کا پتہ نہ دوں کہ جب تُم اس پر عمل کرنے لگوگے تو تُم میں محبت پیدا ہو جائے گی ۔یہ وہ ہے کہ آپس میں سلام کو خوب پھیلاؤ ‘‘۔لیکن ہم نے فحاشی کو محبت کے معنی دے کر اپنی روشن خیالی پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔(قلم درازیاں از پروفیسر رفعت۔ روزنامہ نئی بات، 14 فروری 2014ء)
ہزاروں سالوں کی گردشِ لیل و نہار کے بعد معاشرہ وجود میں آیا ، مرد اور عورت کا فرق واضح ہوا اورنسوانی حیا کو جسم ڈھانپنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ پھر حضرتِ انسان نے ’’ یُو ٹَرن‘‘ لیا اور آج یہ عالم ہے کہ یورپ و امریکہ کے سمندری ساحلوں پر ہمیں اُسی دَور کی جھلک نظر آتی ہے جسے ہم ’’پتھر کا زمانہ‘‘ کہتے ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا روشن خیالی کے نام پر منایا جانے والا ویلنٹائن ڈے ہمیں ترقی کی جانب لے جا رہا ہے یا تنزلی کی؟
یوں تو طبقۂ اشرافیہ میں ویلنٹائن ڈے کافی عرصے سے منایا جا رہا ہے لیکن اِس کو عروج مشرف صاحب کے دَورِ حکومت میں ہوا اور 2000ء سے اب تک اِس تہوار کو پورے اہتمام سے ایسے منایا جاتا ہے جیسے یہ کوئی مقدس فریضہ ہو ۔ میں وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ پاکستانیوں کی غالب اکثریت کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ’’ ویلنٹائن ‘‘ کس بَلا کا نام ہے اور اِسے پورے اہتمام سے کیوں منایا جاتا ہے کیونکہ ہمیں تو بس اِس سے غرض ہے کہ ہلّا گُلّا ہو خواہ کیسے بھی ہو۔یوں تو ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا مانگتے ہیں ’’(اے اللہ ) ہمیں سیدھا راستہ دکھا ، اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا ، نہ کہ اُن لوگوں کا جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ گمراہوں کا‘‘۔لیکن ہمارے اعمال اِس کی مطلق گواہی نہیں دیتے ۔یہی نہیں بلکہ ہمارے اعمال تو اُن گمراہوں جیسے ہیں جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ۔ہم نے وہ کلچر تو کب کا چھوڑ دیا جو میرے آقا آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ اطہر کی خوشبوؤں سے معمور تھا ۔اب تو ہمیں وہ سارے تہوار اچھے لگتے ہیں جِن کا اسلامی معاشرے سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ہم ہندوؤں جیسی مایوں ، مہندی کرتے ہیں ، پیلے بسنتی جوڑے پہنتے ہیں ، بسنت مناتے ہیں اور ویلنٹائن ڈے۔ یہ معصومانہ کوتاہی نہیں بلکہ اللہ اور اُس کے رسول اللہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شعوری نافرمانی اور اُن کے احکامات کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے ۔
ویلنٹائن ڈے ایسا تہوار ہے جس کے خلاف بھارت کی انتہا پسند ہندو تنظیموں میں بھی شدید ردِ عمل پایا جاتا ہے اوروہ بھی اِسے فحاشی اور ہندوانہ تہذیب کے حق میں زہرِ ہلاہل سمجھتی ہیں اور عیسائی پادری بھی اِس دن کو مکروہ خیال کرتے ہیں ۔بنکاک میں ایک پادری نے اپنے ہمراہیوں کے ساتھ ایسی دکانوں کو نذرِآتش کر دیا جہاں ویلنٹائن ڈے کے کارڈز اور گلدستے فروخت ہو رہے تھے۔یورپ و امریکہ کے الیکٹرانک میڈیا پربھی اِس دِن کے حوالے سے کوئی خصوصی پروگرام نہیں ہوتا لیکن ہمارے پاکستانی چینلز اِس دِن کو بڑے اہتمام سے مناتے ہیں ۔اِس دن کی مناسبت سے پروگرامز ترتیب دیئے جاتے ہیں اور سٹوڈیوز کو پھولوں اور غباروں سے بھر دیا جاتا ہے ۔عجیب بات ہے کہ جہاں سے یہ رسمِ بَد پھوٹی وہاں تو اتنا اہتمام نہیں کیا جاتا لیکن ہم، ذہنی طور پر غلام ابنِ غلام ،اس دن کو ایسے ہی مناتے ہیں جیسے اپنے مذہبی تہواروں کو۔
14 فروری کو منائے جانے والے ویلنٹائن ڈے کو انسائکلوپیڈیا بُک آف نالج میں ’’محبوبوں کے لیے خاص دن‘‘ لکھا گیا ہے ۔روایت یہ ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں روم میں ویلنٹائن نام کا ایک پادری ایک راہبہ کے عشق میں گرفتار ہوا ۔چونکہ عیسائیت میں راہبہ کے ساتھ نکاح جائز نہیں تھا اِس لیے ویلنٹائن نے ایک کہانی گھڑی اور اپنی محبوبہ کو یہ بتایا کہ اُسے خواب میں بشارت ہوئی ہے کہ اگر 14 فروری کو جنسی تعلقات قائم کر لیے جائیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا ۔راہبہ نے ویلنٹائن کی بات پر یقین کر لیا اور دونوں نے کلیسا کی روایت کی دھجیاں اُڑا دیں ۔اِس گناہ کا پتہ چلنے پر دونوں کو قتل کر دیا گیا لیکن کچھ نوجوانوں نے ویلنٹائن کو ’’شہیدِ محبت ‘‘ کے درجے پر فائز کر دیا ۔آج بھی چرچ اسے جنسی بے راہروی کی تبلیغ قرار دیتا ہے جب کہ بے راہروی کے شکار یورپ کا نوجوان طبقہ اِس دن خوب ہَلّا گُلّا کرتا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ یہ ’’یومِ محبت‘‘ نہیں ’’یومِ اوباشی‘‘ ہے ۔
آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ اُنہی میں سے ہو گا ‘‘۔لیکن ہم اہلِ یورپ کی مکمل مشابہت اختیار کرنے کے باوجود بھی اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں ۔پاکستان کے پوش علاقوں، انگلش میڈیم تعلیمی اداروں ، کلبوں اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں تہذیبِ مغرب کے غلام خاندانوں کے نو جوان لڑکے اور لڑکیاں ویلنٹائن ڈے پربڑے بڑے ہوٹلوں میں ’’ویلنٹائن ڈنر‘‘ کرتے ، موبائل فونوں پر محبت کے پیغامات بھیجتے ، ا پنے محبوب کو ویلنٹائن کارڈز اور گلاب کے پھول پیش کرتے ہیں ۔شہروں میں طلباء اور طالبات کی ٹولیاں دن بھر پھول خریدتی نظر آتی ہیں اور اکثر نوجوان لڑکے راہ چلتی لڑکیوں کو پھول پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اب ہمارا معاشرہ بھی ’’مادر پِدر آزاد‘‘ ہو گیا ہے ۔اِس معاملے میں ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی کسی سے پیچھے نہیں ۔جونہی 14 فروری کا سورج طلوع ہوتا ہے چینلز پر محبت کے پیغامات کی بھرمار ہوجاتی ہے اور یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا ہے ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی یورپ کے حیا باختہ اور جنس پرست معاشرے کی پیروی کرنے میں فخر محسوس کرتا ہو کیونکہ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی چینل نے کوئی ایسا پروگرام ترتیب دیا ہو جو ہمارے نو جوانوں کو ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کی اصلیت سے آگاہ کر سکے ۔
دینِ مبیں میں صحت مند تفریحات کی ہر گز ممانعت نہیں لیکن ایسی تفریحات اور ایسی مسرتوں کی ہر گز گنجائش نہیں جن سے ابلیسیت کی بُو آتی ہو ۔ میرا دین پاکیزہ اقدار کو فروغ دینے کی تلقین کرتا ہے بے حیائی کی نہیں ۔رَبِّ کردگار نے حکمت کی عظیم ترین کتاب میں درج کر دیا کہ ’’یقیناََ جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں کے گروہ میں بے حیائی پھیلے ، وہ دُنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں ‘‘ (النور) ۔لیکن ہمارا معاشرہ محبت کے نام پر بے حیائی کو فروغ دیتا چلا جا رہا ہے اور ہمارے سیکولر ذہن کے حامل اصحاب اسی عریانی ، فحاشی اور بے حیائی کو روشن خیالی کا لبادہ اوڑھا کر قابلِ قبول بنانے کی تگ و دَو میں ہیں ۔محبت توایک پاکیزہ جذبہ ہے جو اللہ اور اُس کے بندے کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتا ہے اور محبت وہی جواپنے رَبّ سے کی جائے ۔اُس محبوبِ حقیقی نے سورہ البقرہ میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر ا للہ کو محبوب رکھتے ہیں ‘‘۔محبوبِ حقیقی کی محبت کے بعد اُس کے بندوں سے محبت بہترین عمل قرار دیا گیا ہے لیکن یہ محبت بھی اللہ کی رضا کی خاطر کی جاتی ہے۔اِس محبت کے حصول کا آسان ترین طریقہ باہمی سلام ہے ۔آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز کا پتہ نہ دوں کہ جب تُم اس پر عمل کرنے لگوگے تو تُم میں محبت پیدا ہو جائے گی ۔یہ وہ ہے کہ آپس میں سلام کو خوب پھیلاؤ ‘‘۔لیکن ہم نے فحاشی کو محبت کے معنی دے کر اپنی روشن خیالی پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔(قلم درازیاں از پروفیسر رفعت۔ روزنامہ نئی بات، 14 فروری 2014ء)