چونکہ میں بلاگ اسپاٹ جاری کرو تحریک کے گوگل گروپ کا سبسکرائبر ہوں اسلئیے مجھے یہ خبر خالد عمر کی زبانی دوپہر کو ملی اسی وقت ویکیپیڈیا کھولا تو وہ بلاک تھا۔ میں تین آئی ایس پیز استعمال کرتا ہوں۔ سائبر نیٹ ڈی ایس ایل، ملٹی نیٹ براڈبینڈ کیبل، جیریز نیٹ۔ اسی وقت دو آئی ایس پیز چیک کریں اور دونوں پر ویکیپڈیا بلاک تھا۔ تھوڑی دیر بعد گوگل گروپ سے دیگر صارفین نے بھی تصدیق کردی۔ تاہم سب لوگوں کی طرح میرا ویکیپیڈیا بھی شام کو بحال ہوگیا تھا۔
کیا یہ غلط فہمی تھی؟ نہیں کیونکہ:
ویکیپیڈیا سو سے زیادہ سرورز پر ہوسٹڈ ہے جو مختلف جغرافیائی ریجنز میں رکھے ہوئے ہیں۔ سب کا ایک ساتھ ڈاؤن ہونا ناممکن ہے۔
اگر سب کسی طرح ڈاؤن بھی تھے تو ہم گوگل پراکسی کے ذریعے ویکیپیڈیا نہیں دیکھ سکتے۔ مگر گوگل پراکسی پر ویکیپیڈیا کھل رہا تھا۔ جس کا مطلب ہے کہ ویکیپیڈیا کا ڈومین بلاک لسٹ میں شامل کیا جاچکا تھا۔ اور ملک کی زیادہ تر آئ ایس پیز پر (یا کم از کم کراچی میں سب آئی ایس پیز پر) ویکیپڈیا آٹھ گھنٹے تک بلاک تھا۔
بلاگ اسپاٹ ہنوز بلاک ہے۔ کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی آئی ایس پیز پر بلاک نہیں۔ تو ان کی آئی ایس پیز پی ٹی اے کے احکامات کی خلاف ورزی کررہی ہیں۔ کیونکہ سائبر، ملٹی، اور دیگر آئی ایس پیز کے سپورٹ اسٹاف کی فراہم کردہ معلومات بالکل متضاد ہیں۔ چونکہ میں اور چند دیگر اصحاب مسلسل آئی ایس پیز سے رابطے میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بلاک پاکستان انٹرنیٹ ایکسچینج کے لیول پر ہے۔ یہی بی بی سی کی رپورٹ ہے اور یہی رپورٹ ڈان اخبار کی ہے۔ خالد عمر اپنے بلاگ پر لکھتے ہیں:
Pakistan has 3 major internet links to the world, which consist of two submarine fibre optic links and a few satellite links. All of these are controlled by the Pakistan Internet Exchange, or PIE, which monitors all incoming and outgoing Internet traffic from Pakistan. The primary purpose of PIE is to filter content as the Government deems fit. A secondary purpose is to keep track of all incoming and outgoing e-mails, which by parliamentary order are kept for a period of at least 3 months.
مجھے خوشی ہے یہ دیکھ کر کہ آپ لوگ مایوس نہیں۔ لیکن میں ابھی بھی مایوس ہوں۔ اور میری یہ رائے پکی ہوتی جارہی ہے کہ پاکستان سے جلد از جلد بھاگ لیا جائے۔ یا مناسب حفاظتوں کا بندوبست کیا جائے۔ اس بات کا ویکیپیڈیا بلاک ہونے سے براہ راست تعلق نہیں ہے۔ ایک مجموعی صورتحال ہے۔ تیزی سے بڑھتی جہالت، غربت اور کرپشن۔ جرائم، فوجی راج، تنگ نظری، تعصب، نفرت اور گھٹن سے بھرپور معاشرہ۔ یہ سب مجھے تو کیا اپنی کردار سازی کا موقع دیں گے لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ کیا میری آئندہ نسلوں کو بھی یہ سب سہنا ہوگا۔ یہاں آزادی سے میری مراد یہ نہیں کہ پاکستان میں لوگ ننگے گھومیں اور کوئی انہیں نہ روکے۔ بلکہ آزادی سے میری مراد سوچ کی آزادی ہے، خیال کی آزادی، زبان کی آزادی، عبادت کی آزادی، محبت کی آزادی، جانی اور مالی آزادی ہے۔ آزادی کے بغیر کوئی معاشرہ تو کجا کوئی فرد بھی ترقی نہیں کرسکتا۔ مگر پاکستان کی ننانوے اعشاریہ نو فیصد عوام کو آزادی کا احساس نہیں۔
ایک موبائل فون خرید لیا، ایک کمپیوٹر، تیس روپے کی ونڈوز ایکس پی، رات بھر پورن دیکھ لی، دن میں نام نہاد اسکول چلے گئے جہاں نہ صحیح اردو لکھنا سکھاتے ہیں نہ انگریزی۔ شام کو لڑکیاں چھیڑ لیں اور رات کو دو چار بھارتی فلمیں دیکھ لیں۔ یہ ہمارے پڑھے لکھے نوجوان کی آزادی کا تصور ہے۔ اس میں ایک بائیک یا کار بھی شامل کرلیں اور کسی نازنین کے ساتھ میکڈونلڈ کا دو ڈالر والا برگر بھی تو ہمارے نوجوان کی سوچ ختم ہوجاتی ہے۔ دوسرا نوجوان وہ ہے جو بیچارہ اسلام کے نفاذ کی جدوجہد میں سینکڑوں اسلامی تنظیموں کے چکر میں پڑا ہے۔ تیسری وہ نوجوان طالبات ہیں جو کیمسٹری میں ماسٹرز کر کے کسی سرکاری کالج میں لیکچرار لگنے کو کیریر سمجھے بیٹھی ہیں۔ ایسی بھی طالبات ہیں جو اسلامک اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہی ہیں اور انہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ اس کے بعد وہ کیا کریں گی۔ نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد کال سنٹروں میں امریکیوں کی بکواس سننے کو کیریر سمجھتی ہے۔ بوڑھوں کا حال تو نوجوانوں سے بھی خراب ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہاتھوں میں کھلونا پستولیں لیکر اور سر پر لاالہ الا اللہ کی پٹی باندھیں جلوسوں میں شرکت کررہے ہیں۔
بہت اچھی لگی یہ بات کہ لوگ صورتحال بدل دینے کی باتیں کرتے ہیں۔ تاہم پچھلے چھ مہینوں کے دوران میں پاکستانیوں کی ایک بڑی بہت بڑی تعداد سے گفت و شنید کرچکا ہوں۔ اور میری رائے یہ ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت کو درپیش خطرات سے بالکل آگاہی نہیں ہے۔ بلکہ راجہ فار حریت جیسے معصوم نوجوان نفرت کی گلوریفیکیشن کو نصب العین سمجھے بیٹھے ہیں۔ ایک راجہ پر ہی کیا منحصر میں ایسے بزرگوں سے بھی مباحثوں میں الجھا ہوں جو پڑھے لکھے ہیں اور دنیا گھوم چکے ہیں، پڑھے لکھے مردوں عورتوں کی کثیر تعداد۔ سب بہت زیادہ کرپٹ ہوگئے ہیں اور ایک ایسی احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں جس کا فردوس بریں والی جنت کی طرح کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ سب کچھ بڑھے گا اور صورتحال دن بدن مزید خراب سے خراب تر ہوگی۔
لیکن یہ صرف میری رائے ہے اس سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ مجھے پاکستان سے محبت ہے لیکن پاکستان سے زیادہ مجھے اپنے آپ سے محبت ہے۔ پہلے میں خود کو بچالوں پھر پاکستان کو بچانے کا سوچوں گا۔