کعنان
محفلین
مجیب خان 17 اکتوبر 2016
ویکی لیکس نے حال ہی میں سابق سیکرٹیری آف اسٹیٹ ہلری کلنٹن کی دو ہزار ای میل جاری کی ہیں۔ اگست 2014 میں سیکرٹیری ہلری کلنٹن نے جان پوڈیسٹا (John Podesta) کو جو سابق صدر بل کلنٹن کی انتظامیہ میں شامل تھے اور اب سیکرٹیری ہلری کلنٹن کی صدارتی مہم کے چیرمین ہیں، 9 پوائنٹ ای میل میں قطر اور سعودی عرب کو اسلامی ریاست دہشت گرد گروپ کو فنڈ فراہم کرنے کا الزام دیتے ہوئے لکھا تھا کہ "ہمیں سفارتی اور زیادہ روایتی انٹیلی جنس اثاثوں کو قطر اور سعودی عرب کی حکومتوں پر دباؤ بڑھانے کے لئے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ جو خطہ میں داعش اور دوسرے سنی گروپوں کی مالی اور لوجسٹک معاونت کر رہے ہیں۔" ہلری کلنٹن نے اپنے ان الزام کی حمایت میں مغربی انٹیلی جنس، امریکی انٹیلی جنس اور خطہ میں دوسرے ذرائع کے حوالے بھی دئیے تھے۔ تاہم سعودی عرب اور قطر نے ان الزامات کو بد خواہ جھوٹ کہا ہے۔
دسمبر 2009 کے ایک خفیہ ممیو میں جس پر سیکرٹیری آف اسٹیٹ ہلری کلنٹن کے دستخط تھے۔ اور ویکی لیکس نے یہ ممیو بھی جاری کیا ہے۔ "سعودی عرب القاعدہ، طالبان، لشکر طیبہ اور دوسرے دہشت گروپوں کی مالی معاونت کا ابھی تک ایک اہم ذریعہ ہے۔ اور اس سلسلے میں زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ممیو میں امریکی سفارت کاروں سے خلیج کی دولت پاکستان اور افغانستان میں انتہا پسندوں تک پہنچنے سے روکنے کے لئے کوششیں دگنی کرنے پر زور دیا تھا۔ سعودی عرب میں چندے دینے والے موجود ہیں جو دنیا بھر میں سنی دہشت گردوں کی فنڈنگ کرنے کا ایک نمایاں ذریعہ ہیں۔" اس ممیو میں ہلری کلنٹن نے لکھا تھا سعودی عرب کے علاوہ قطر، کویت اور متحدہ عرب امارات بھی انتہا پسندوں کی فنڈنگ کرنے کی فہرست میں شامل تھے۔ ممیو میں یہ نشاندہی بھی کی گئی تھی کہ اکثر پاکستانی اور افغان تنازعوں میں اس پہلو کو نظر انداز کر دیا جاتا تھا کہ تشدد میں کسی قدر مالدار، قدامت پسند عطیہ دینے والوں نے جو خزانے کھول دئیے تھے اس کا بھی ایک بڑا حصہ تھا۔ اور ان کی حکومتوں نے انہیں روکنے میں بہت کم اقدام کیے تھے۔
خلیج میں امریکہ کے لئے ایک دوسرا بڑا سر درد متحدہ عرب امارات تھا۔ افغان طالبان اور ان کے جنگجو ساتھیوں حقانی نیٹ ورک کے نمایاں فنڈ متحدہ عرب امارات میں مقیم کاروباروں سے جمع کیے جاتے تھے۔ ویکی لیکس نے جو ممیو جاری کیے تھے اس میں ایک رپورٹ کے مطابق طالبان متحدہ عرب امارات میں مقیم ایک بہت بڑی پشتون آبادی سے یہ رقمیں اکٹھی کرتے تھے۔ متحدہ عرب امارات میں تقریباً ایک لاکھ پچاس ہزار افغان تھے۔ اور ایک ملین کے قریب پاکستانی آباد تھے۔ اور وہ دوبئی میں پشتون تاجروں یا ان کے رشتہ داروں کو اغوا کر کے بھاری رقمیں جمع کر لیتے تھے۔ متحدہ عرب امارات میں بعض افغان تاجر پاکستان یا افغانستان پہنچنے پر اغوا ہو جانے کے امکان کو محدود رکھنے کی غرض سے اپنی روانگی کے روز ٹکٹ خریدتے تھے۔
گزشتہ جنوری میں امریکی انٹیلی جنس ذرائع کا کہنا تھا فنڈ جمع کرنے والے دو سینیئر طالبان باقاعدگی سے متحدہ عرب امارات آتے تھے۔ جہاں طالبان اور حقانی نیٹ ورک مقامی کمپنیوں کے ذریعے منی لانڈرنگ کرتے تھے۔ رپورٹ میں حاجی خلیل زاد ران کی کابل میں حقانی نیٹ ورک کا سہولت کار ہونے کی نشاندہی کی تھی۔ لیکن ہلری کلنٹن کو شکایت یہ تھی کہ یہ یقین کرنا بہت مشکل تھا۔ متحدہ عرب امارات کے اقتصادی ریگولیشن کمزور تھے۔ اور سرحدیں مسام دار تھیں۔ جس میں تحقیقات کرنے والے امریکیوں کے پاس طالبان اور لشکر طیبہ کے سہولت کاروں کی شناخت کرنے کے بارے میں بہت محدود معلومات رہ گئی تھیں۔ ہلری کلنٹن نے کہا "سرحدوں کو کنٹرول کرنے کے ناقص نظام کا طالبان ہرکارے اور منشیات لار ڈز تاجروں بزنس مین اور تارکین ورکروں کے ساتھ گھل مل کر اس کا استحصال کرتے تھے۔ امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے حکام فنڈ کے بہاؤ کو روکنے اور کیش ہر کاروں اور اسمگلروں کو پکڑنے کی کوششوں میں جو بڑی بھاری رقمیں یہاں سے پاکستان اور افغانستان لے جاتے تھے ناکام ہو گیے تھے۔
سیکرٹیری آف اسٹیٹ ہلری کلنٹن کی یہ چند ای میل ہیں۔ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اوبامہ انتظامیہ کے علم میں یہ تھا کہ قطر اور سعودی عرب طالبان حقانی نیٹ ورک لشکر طیبہ اور داعش کو کس طرح فنڈنگ کی سہولیتیں فراہم کر رہے تھے۔ پاکستان کے قبائلی دروں میں حقانی نیٹ ورک کو زندہ رکھنے کی آکسیجن خلیج سے جا رہی تھی۔ جہاں امریکہ کا سب سے بڑا بحری اڈہ تھا۔ اور یہاں افغانستان اور عرب دنیا میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا کمانڈ و کنٹرول بھی تھا۔ ہلری کلنٹن کی ان ای میل کا جائزہ لینے کے بعد یہ تعین کرنا ایک معمہ ہو گیا ہے کہ اوبامہ انتظامیہ پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف اسلام آباد کی مدد کر رہی تھی۔ یا قطر اور سعودی عرب کی طالبان حقانی نیٹ ورک لشکر طیبہ کو پاکستان پر مسلط رکھنے میں رہنمائی کی جا رہی تھی۔ تاکہ پاکستان کے عصاب پر ان دہشت گردوں کو سوار رکھا جائے اور پھر دوسری طرف پاکستان کو ان دہشت گردوں کو ختم کرنے کے دباؤ میں رکھا جائے۔ اس میں بھارت کا کردار دنیا میں پاکستان کو دہشت گرد ہونے کا شور مچانا ہے۔ امریکہ کا کام دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کے لئے پاکستان کو دباؤ میں رکھنا ہے۔ قطر اور سعودی عرب کا کام دہشت گردوں کو فنڈنگ کی سہولیتیں فراہم کرنا ہے۔ بھارت کی دو سابقہ حکومتیں باجپائی اور من موہن سنگھ یہ شور مچا کر چلی گئی ہیں۔ اور اب مودی حکومت بھی پاکستان دہشت گرد ہے کا شور مچا رہی ہے۔ سابق صدر بش دہشت گردی کی جنگ میں ناکامی کی فائلیں بغل میں دبا کر وائٹ ہاؤس سے گیے ہیں۔ اور اب صدر اوبامہ بھی دہشت گردی کی جنگ میں بری طرح ناکام ہونے کے بعد جا نے والے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کے کتنے گہرے مفاد ہیں۔ دو صدر اس جنگ میں ناکام ہو کر گیے ہیں۔ اور اب تیسرا صدر بھی اس جنگ کو اسی طرح جاری ر کھے گا؟
قطر میں ایک لاکھ پچاس ہزار افغان تھے۔ قطر نے طالبان کو آفس کھولنے کی اجازت دے دی تھی۔ طالبان کو آفس کھولنے کی اجازت دینے کے پیچھے کیا مقاصد تھے؟ قطر میں مقیم افغانوں میں کتنی بڑی تعداد طالبان کی تھی؟ جو افغانستان کے لئے مسئلہ بنے ہوئے تھے۔ اور پاکستان کے لئے بھی مسلسل مشکلات پیدا کر رہے تھے۔ اس بات کو بھی خصوصی طور پر نوٹ کیا گیا تھا کہ قطر میں طالبان کا آفس کھلنے کے بعد کوئٹہ اور پشاور میں دہشت گردی کے انتہائی خوفناک واقعات میں اضافہ ہوا تھا۔ کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ آبادی کو انتہائی بیدردی سے قتل کیا گیا تھا۔ کوئٹہ میں بموں کے دھماکوں میں سینکڑوں بے گناہ لوگ مارے گیے تھے۔ قطر سے یہ طالبان کوئٹہ آتے تھے۔ قطر سے پشاور بھی جاتے تھے۔ پھر کوئٹہ سے افغانستان جاتے تھے۔ اور پھر کابل اور افغانستان کے شہروں میں دھماکے کرتے تھے۔ افغان حکومت پاکستان کو الزام دیتی تھی کہ یہ پاکستان سے آتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی رہنما جو حکومت کر کے گیے ہیں اور جو حکومت میں ہیں اور جو حکومت سے باہر بیٹھے ہیں۔ جب وہ یہ سنتے ہیں کہ ساری دنیا ہمیں دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کرنے کے الزام دے رہی ہے تو وہ سر کھو جانے لگتے ہیں۔ اور پھر وہ فوج سے Do more کرنے لگتے ہیں۔ کیونکہ متحدہ عرب امارات میں ان سب کے ذاتی مفادات ہیں۔ ان کے بچوں کا یہاں محفوظ مستقبل ہے اس لئے قطر سے کبھی اس مسئلہ پر بات نہیں کریں گے۔
ری پبلیکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کی 16 سال سے حکومت کی یہ پالیسیاں ہیں جن کا رد عمل اس صدارتی انتخابات میں دیکھا جا رہا ہے۔ ایسے الیکشن امریکہ کی 240 سال کی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھے گیے تھے۔ دونوں پارٹیاں عوام میں اپنی ساکھ اور اعتماد تقریباً کھو چکی ہیں۔ امریکہ میں اگر آج تیسری پارٹی ہوتی تو اس الیکشن میں بڑی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو جاتی۔ امریکی عوام کی ایک بھاری تعداد اس وقت بھی ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ ہے۔ دونوں پارٹیوں کی ساری مشین ڈونالڈ ٹرمپ کو گرانے پر لگی ہوئی ہے۔ امریکی میڈیا بھی اب کھل کر ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف الیکشن مہم میں شامل ہو گیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمز نے کئی روز تک بڑے بڑے ادارئیے بھی ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف لکھے ہیں۔ Arizona ، ہوسٹن اور ٹیکساس کے قدامت پسند تین اخباروں نے 100 سال میں کبھی ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کو Endorse نہیں کیا تھا۔ لیکن اب Reluctantly ہلری کلنٹن کو Endorse کیا ہے۔ ان اخباروں کے اس فیصلے پر Arizona ، ہویسٹن اور ٹیکساس کے لوگوں نے اخبار کا بائیکاٹ کر دیا ہے اور ان کا Subscription ختم کر دی ہے۔ امریکیوں کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ ری پبلیکن ہیں اور نہ ہی ڈیموکریٹ ہیں۔ اس لئے لوگوں کو ان سے بڑی توقعات ہیں۔ پھر امریکی عوام کی ایک اچھی خاصی تعداد ہلری کلنٹن کو اور نہ ہی ڈونالڈ ٹرمپ کو ووٹ دینے کے حق میں ہے۔ یہ دونوں کو اچھا نہیں سمجھتے ہیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر اس وقت صدر اوبامہ نائب صدر بائڈن خاتون اول مشعل اوبامہ سابق صدر بل کلنٹن سابق نائب صدر الگور سب ہلری کلنٹن کے لئے مہم میں شامل ہو گیے ہیں۔
16 سال سے مسلسل جنگوں اور ان جنگوں میں ناکامیوں نے امریکہ کو بھی جیسے تیسری دنیا کا ملک بنا دیا ہے۔ امریکہ ہمیشہ تیسری دنیا کے ملکوں کے انتخابات میں مداخلت کرتا تھا۔ لیکن اب روس امریکہ کے انتخابات میں مداخلت کر رہا ہے۔ اور یہ صدر اوبامہ کا کہنا ہے۔ صدر پوتن ڈیموکریٹک پارٹی کی Hacking کر رہے ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ صدر پوتن ڈونالڈ ٹرمپ کو امریکہ کا صدر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں کئی بار صدر پوتن کی تعریف کی تھی اور کہا تھا کہ صدر منتخب ہونے کے بعد وہ صدر پوتن کے ساتھ مل کر کام کريں گے۔ اور وہ روس کو دشمن نہیں سمجھتے ہیں۔ اس لئے یہ کہا جا رہا ہے کہ صدر پوتن امریکہ کے انتخابات میں مداخلت کر رہے ہیں۔ 2004 کے صدارتی انتخابات میں یہ اسامہ بن لادن تھا جو اس وقت انتخبات میں مداخلت کر رہا تھا۔ اور Hacking کر رہا تھا۔ صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران بن لادن کے وڈیو بریکنگ نیوز بنے تھے۔ بن لادن کی اس مداخلت کے نتیجے میں جان کیری صدارتی الیکشن ہار گیے تھے۔ اور صدر جارج بش دوبارہ صدر منتخب ہو گیے تھے۔
میرے خیال میں ہلری کلنٹن پاکستان کے لئے زیادہ بہتر ہوں گی۔ دہشت گردی طالبان لشکر طیبہ حقانی نیٹ ورک قطر اور سعودی عرب کے بارے میں ان کی ای میل سے صورت حال پر ان کی بہتر ہم آہنگی ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ ویسے بھی جب وہ سیکرٹیری آف اسٹیٹ تھیں انہوں نے سینٹ کی فارن ریلیشنزکمیٹی میں بڑے Blunt لہجے میں کہا تھا کہ یہ ہم تھے ہم نے سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں جہادیوں کو تربیت دی تھی۔ اور طالبان پیدا کیے تھے۔ اور پھر ہم انہیں چھوڑ کر آ گیے تھے۔ یہ اس خطہ کے حالات کے بارے میں جس میں پاکستان اور افغانستان پھنسے ہوئے ہلری کلنٹن کی بڑی گہری Understanding ہونے کے ثبوت ہیں۔