حسیب نذیر گِل
محفلین
ا یران کاایک بادشاہ ظالم بھی تھا‘ لالچی بھی‘ عیاش بھی اور منتقم مزاج بھی‘ وہ بادشاہ بنا تو اس نے ملک میں ظلم کا بازار گرم کر دیا‘ لوٹ مار‘ عیاشی اور انتقام میں بھی جت گیا‘ ملک کے حالات خراب ہو گئے‘ بازار سنسان ہو گئے‘ لوگ نقل مکانی کرنے لگے‘ کھیت اور کارخانے اجڑ گئے اور ملک میں خشک سالی اور قحط پڑ گیا لیکن بادشاہ کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
ہم انسان بڑی دلچسپ مخلوق ہیں‘ ہم اپنے حالات کو پوری دنیا کے حالات سمجھ لیتے ہیں‘ ہمارے نل سے صاف اور ٹھنڈا پانی آرہا ہو تو ہم سمجھتے ہیں پوری دنیا کے نل چل رہے ہیں اور ان سے بھی صاف اور ٹھنڈا پانی بہہ رہا ہے‘ ہمارے دستر خوان گرم ہوں تو ہم سمجھتے ہیں دنیا کے تمام بھوکوں کو کھانا مل رہا ہے اور اگر ہم امن‘ سکون اور اطمینان سے رہ رہے ہوں تو ہم سمجھتے ہیں دنیا کے کسی شخص کو کوئی مسئلہ‘ کوئی آزار‘ کوئی پریشانی نہیں۔
ہم انسان زندگی کو کبھی اپنی ناک سے الگ کر کے نہیں دیکھتے‘ شاید یہی وجہ ہے عوام جب روٹی روٹی کا نعرہ لگاتے ہیں تو بادشاہ لوگ حیرت سے پوچھتے ہیں اگر انھیں روٹی نہیں مل رہی تو یہ کیک کیوں نہیں کھا لیتے‘ بادشاہ لوگ ٹھیک کہتے ہیں کیونکہ ان بیچاروں کو علم ہی نہیں ہوتا کہ دنیا میں روٹی بھی مسئلہ ہے‘ ہم انسان اگر عیاشی میں غلطاں ہوں تو ہم قدرت کے انتقام‘ برے دنوں کی چاپ اور اپنے سر پر لٹکتی ہوئی مصیبت کی تلوار کو محسوس نہیں کر پاتے‘ ہم یہ سمجھ بیٹھتے ہیں عیش و طرب کا یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا اور ہمارا اقبال کبھی سرنگوں نہیں ہو گا لیکن قدرت کسی کی رشتے دار نہیں ہوتی۔
یہ کائنات اللہ تعالیٰ کے چند اصولوں پر استوار ہے اور اللہ تعالیٰ کسی شخص کے لیے اپنے اصول نہیں توڑتا۔ وہ بادشاہ بھی ایسا ہی کوتاہ فہم تھا‘ وہ سمجھتا تھا اس کا اقتدار‘ اس کا اقبال اور اس کا اختیار کبھی زوال پذیر نہیں ہو گا‘ وہ دنیا میں اسی طرح عیش کرتا رہے گا‘ بادشاہوں کے مختلف اشغال میں شکار بھی شامل ہوتا ہے‘ آپ اگر بااختیار ہوں‘ با اقتدار ہوں اور آپ کے پاس دولت بھی ہو تو آپ کا دل بے اختیار شکار کی طرف مائل ہو جاتا ہے کیونکہ آپ جب معصوم جانوروں کو اپنے کتوں کے جبڑوں میں تڑپتے دیکھتے ہیں یا آپ کا بے رحم تیر ہرن کی گردن سے پار ہوتا ہے یا آپ کی رائفل سے نکلنے والی گولی چیتے اور شیر جیسے جانوروں کو زمین پر تڑپنے پر مجبور کر دیتی ہے تو آپ کے اقتدار‘ آپ کے اختیار کا نشہ بڑھ جاتا ہے‘ آپ خود کو زمین کا خدا سمجھنے لگتے ہیں۔
وہ بادشاہ بھی شکار کے لیے جاتا تھا اور جنگل میں کئی ہفتوں تک شکار کھیلتا تھا‘ وہ معمول کے مطابق ایک بار شکار کے لیے گیااور ماضی کی کہانیوں کی طرح وہ بھی راستہ بھول گیا‘ وہ ساتھیوں سے الگ ہوا‘ اس کے گارڈز‘ اس کا لشکر کسی دوسری سمت نکل گیا اور بادشاہ کا گھوڑا اسے جنگل کے کسی اندھیرے گوشے میں لے گیا‘ بادشاہ تھک چکا تھا‘ وہ سستانے کے لیے ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا اور اسے نیند نے زیر کر لیا۔
بادشاہ نے نیند کے دوران اپنی سانس کو اکھڑتے پایا‘ اسے محسوس ہوا جیسے وہ کسی سخت شکنجے میں پھنس گیا ہے اور وہ شکنجہ اسے آہستہ آہستہ دبا رہا ہے اور کسی بھی وقت اس کی جان نکل جائے گی‘ اس نے ہڑ بڑا کر آنکھیں کھولیں تو اس نے ایک انتہائی خوفناک منظر دیکھا‘ بادشاہ کو ایک دیو ہیکل اژدھے نے جکڑ رکھا تھا‘ بادشاہ کے پورے جسم سے اژدھا لپٹا تھااور اژدھا پھن پھلا کر اس کے منہ کے سامنے کھڑا تھا‘ بادشاہ کے منہ پر اژدھے کی پھنکاروں کی پھوار پڑ رہی تھی اور بادشاہ بار بار اژدھے کی زبان کو اپنے گالوں‘ اپنے ماتھے‘ اپنے ہونٹوں تک آتا ہوا محسوس کر رہا تھا‘ بادشاہ کی جان نکل گئی‘ وہ اپنا آخری وقت اپنے سامنے دیکھ رہا تھا۔
اژدھا ایک پہر تک بادشاہ کے بدن سے لپٹا رہا‘ وہ بار بار اپنی زبان بادشاہ کے گالوں سے رگڑتا تھا اور اس کے جسم کو اپنے شکنجے میں کستا تھا‘ شام کو اچانک اژدھے نے آسمان کی طرف دیکھا‘ گردن ہلائی‘ اپنے بل کھولے اور آہستہ آہستہ سرکتا ہوا جنگل میں غائب ہوگیا‘ بادشاہ سجدے میں گرا اور اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا‘ بادشاہ کے ساتھی چند لمحے بعد اس کے پاس پہنچ گئے۔
بادشاہ محل میں واپس آیا اور اس نے اسی وقت عیش‘ حرص‘ ظلم‘ ناانصافی اور بے ایمانی ترک کر دی‘ اس نے اپنی باقی زندگی ملک اور قوم کے لیے وقف کر دی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا ملک دوبارہ خوشحال اور پرامن ہو گیا اور لوگ دوسرے ملکوں سے نقل مکانی کر کے اس کے ملک میں آباد ہونے لگے جب کہ بادشاہ پوری زندگی اس اژدھے کا شکریہ ادا کرتا رہا‘ وہ اسے قدرت کی وارننگ‘ قدرت کی ’’ ویک اپ کال‘‘ سمجھتا تھا‘ اس کا خیال تھا قدرت نے اس اژدھے کے ذریعے اسے یہ پیغام دیا تھا تمہاری موت اور زندگی میں آدھ انچ کا فاصلہ ہے۔
اگر یہ اژدھا اپنے جسم کو آدھ انچ ٹائٹ کر لے یا اپنا منہ آدھ انچ آگے بڑھا دے اور اپنے دانت تمہارے گال پر گاڑ دے تو تم چند لمحوں میں زندگی کی سرحد عبور کر جائو گے‘بادشاہ کا خیال تھا’’ اس اژدھے نے مجھے پیغام دیا یہ زندگی اور یہ اقتدار اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور اگر تم نے اس امانت کی قدر نہ کی تو اللہ تم پر مصیبتوں کے ایسے بے شمار اژدھے اتار دے گا اور اس کے بعد تمہیں دنیا میں کسی جگہ پناہ نہیں ملے گی‘‘۔
بادشاہ کا خیال درست تھا کیونکہ قدرت ہمیشہ انتقام لینے سے قبل ویک اپ کال یا وارننگ دیتی ہے‘ یہ انسان کو مختلف حیلوں‘ مختلف بہانوں سے پیغام دیتی ہے تم قدرت کے شکنجے سے زیادہ دور نہیں ہو‘ تم سنبھل جائو اور دنیا میں وہ کام کرو تمہیں جس کے لیے بھیجا گیا ہے‘ اگر انسان اس وارننگ‘ اس ویک اپ کال پر جاگ جائے تو بسم اللہ ورنہ دوسری صورت میں قدرت کا شکنجہ اپنے باغیوں کو کس لیتا ہے اور پھر اس شخص کو دو ارب کہکشائوں کی اس کائنات میں چھپنے کے لیے دس فٹ جگہ نہیں ملتی۔
آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ صدام حسین‘ حسنی مبارک‘ کرنل قذافی اور صدر زین العابدین کی مثال لے لیجئے‘ یہ تمام لوگ آج کی مثالیں ہیں اور آپ اپنی آنکھوں سے چند دنوں میں بشار الاسد کا حشر بھی دیکھ لیں گے‘ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے قدرت کی ویک اپ کال پرآنکھ نہیں کھولی تھی چنانچہ یہ اپنے ہی ملک میں عبرت کا نشان بن گئے۔ قدرت ہمارے حکمرانوں کو بھی سیلابوں‘ ڈینگی‘ جعلی ادویات اور آگ کی شکل میں بار بار ’’ویک اپ کال‘‘ دے رہی ہے‘ یہ ہمیں بھی بار بار بتا رہی ہے آپ بھی انسان ہیں اور آپ بھی قدرت کے انتقام سے زیادہ دور نہیں ہیں لیکن افسوس ہمارا حکمران طبقہ اس’’ ویک اپ کال‘‘ پر توجہ نہیں دے رہا۔
آپ ہر سال آنے والے سیلابوں کو دیکھئے‘ کیا یہ سیلاب بار بار یہ پیغام نہیں دے رہے‘ آپ اپنا نظام ٹھیک کر لیں‘ آپ ڈیم بنا لیں‘ آپ پانی کو روکیں ورنہ دوسری صورت میں دریا جب اپنے کناروں سے باہر نکلتا ہے تو پھر یہ کسی کی پرواہ نہیں کرتا‘ یہ راستے میں آنے والے ہر انسان کو بہا لے جاتا ہے‘ لاہور میں تین دن قبل جوتوں کی فیکٹری میں آگ لگی اور فیکٹری کا مالک اپنے بیٹے سمیت 25 لوگوں کے ساتھ جل کر مر گیا۔
کراچی میں گارمنٹس فیکٹری میں آگ لگی اور289 لوگ زندہ جل کر مر گئے‘ یہ تینوں واقعات حکمرانوں کو چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں ہمارے ملک میں سیلاب سے بچنے‘ آگ میں پھنسے لوگوں اور ملبے تلے دبے انسانوں کو نکالنے کا کوئی انتظام موجود نہیں مگر حکمران کانوں میں روئی ڈال کر بیٹھے ہیں۔
آپ تصور کیجیے اگر خدانخواستہ اس سیلاب نے کسی دن وزیراعظم ہاؤس‘ ایوان صدر‘ پارلیمنٹ ہاؤس‘ گورنر ہائوسز‘ چیف منسٹر ہائوسز یا رائے ونڈ کا رخ کر لیا یا کسی دن خدانخواستہ ایوان صدر‘ وزیراعظم ہائوس یا رائے ونڈ میں آگ لگ گئی تو کیا حکمران طبقے کا حشر بھی کراچی کے فیکٹری ورکروں جیسا نہیں ہو گا؟کیا یہ لوگ بھی مظفر گڑھ‘ ڈی جی خان‘ روجھان‘ خیر پور‘ عمر کوٹ‘ شاہیوالی‘ چوٹی زیریں او رراجن پور کے مظلوم لوگوں کی طرح پانی میں نہیں بہہ جائیں گے؟
یہ زلزلے‘ یہ سیلاب‘ یہ آگ اور یہ وبائیں انھیں بار بار یہ بتا رہی ہیں اب بھی وقت ہے آپ لوگ اب بھی سنبھل جائیں‘ آپ سسٹم کو ٹھیک کر لیں ورنہ آپ بھی پانچ فٹ دس انچ کے عام انسان ہیں‘ آگ‘ پانی اور وبا آپ کے لیے بھی اتنی ہی خطرناک ہے جتنی یہ کشمور‘ کراچی اور لاہور کے مظلوم شہریوں کے لیے ثابت ہوئی ہے اور اگر قدرت نے آپ پر آدھ انچ کا دائرہ تنگ کر دیا تو شاید آپ کے خاندان میں تین لاکھ روپے کی امداد لینے والا بھی کوئی نہ بچے کیونکہ آگ‘ پانی اور وباء دنیا کے کسی بادشاہ کے اقتدارکو نہیں مانتی ‘ یہ اللہ کے عذاب ہیں اور اللہ کے عذاب انسانی سروں سے گزرتے ہوئے کبھی شناختی کارڈ چیک نہیں کرتے‘ بادشاہ ہوں یا گدا گریہ سب کو بہا لے جاتے ہیں
بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس