مرد کی منی سے انسان کی پیدائش ہوتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہےاور اگر میں غلط نہیں ہوں تو قرآن پاک میں بھی انسان کے تخلیقی مراحل کو بیان کیا گیا ہے۔ ایسے میں کسی حد تک ابتذال کا پایا جانا تو سمجھ آتا ہے کہ بعض لوگ ایسی باتوں کا ذکر اچھا نہیں سمجھتے، لیکن نا قابل قبول حد تک ابتذال کا پایا جانامیری سمجھ سےباہر ہے۔
اگر اس حقیقت کو بیان کرنے کیلئے الفاظ کا چناؤ کچھ غلط ہے تو براہ مہربانی اس سلسلے میں تھوڑی رہنمائی فرما دیں کہ میرے ذہن میں اس سے زیادہ شائستہ الفاظ نہیں آ رہے۔
قرآن کا شاعری سے تقابل نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اسلامی احکامات اور خدائی فرمودات کی کتاب ہے جس میں زبان و بیان شاعری اور نثر دونوں سے بلند ہے۔ اس میں ہر بات کو کھول کر بیان کرنا اللہ کی مرضی ہے، اس پر تنقید نہیں کی جاسکتی۔
جائز یا ناجائز کا فیصلہ خدا کے حکم کے تحت ہوسکتا ہے۔ جیسے ہم انسان غرور کریں تو ناجائز اور اس کے لیے متکبر کی صفت لازم و ملزوم ہے کیونکہ وہ ایک مکمل ذات اور ہر ایک سے بالاتر ہستی ہے۔ وہ خالق ہے اور ہم مخلوق ہیں۔اس لیے دونوں کا آپس میں تقابل نہیں ہوسکتا۔
سو قرآن کو تو اس بحث سے الگ کردیجئے۔ اب ابتذال کا کسی حد تک یا ناقابل قبول حد تک ہونا رہ جاتا ہے۔ اس پر بحث ممکن ہے۔ الفاظ کا چناؤ نہیں، بلکہ آپ یہ دیکھئے کہ آپ کا مقصد کیا ہے۔ بعض لوگ نہیں بلکہ شاعری کے اعتبار سے دیکھئے تو تقریباً سب ہی لوگ، بلکہ ایسے لوگ بھی جنہیں شاعری کی الف بے تک نہیں معلوم، وہ آپ کی شاعری سے ذہنی طور پر پریشان ہوسکتے ہیں۔
ویسے تو قرآن مجید میں بھی انہیں الفاظ سے حقیقت بیان کی گئی ہے، لیکن شاعری میں اس خیال کوشائستہ نہیں سمجھا جاتا۔
یہاں میں کسی قدر اختلاف رکھتا ہوں۔ شاعری کی بجائے اگر آپ نثر میں بھی یہی الفاظ استعمال کردیں اور کسی اخبار میں اشاعت کے لیے روانہ کریں تو شائع نہ کیا جائے گا۔ اور اگر کسی کتاب میں شائع کریں تو اس پر یہ لکھنا بہتر ہوگا کہ صرف شادی شدہ افراد پڑھیں اور اگر مغرب میں ہے تو "برائے بالغ افراد" کا لیبل لگایا جائے گا۔