اور اب آتے ہیں محفل کے ایم بی بی ایس معالج اور نوجوان شاعر۔۔۔ اس وقت ڈیوٹی پر موجود ہیں مگر عالمی مشاعرہ کو اپنے کلام سے رونق بخشنے کے لئے کچھ قیمتی وقت نکالا ہے۔
آتے ہیں
عاطف ملک اپنے کلام کے ساتھ
بکاہ و نالہ و شیون پہ اختیار نہ ہو
کسی کے ہجر میں یوں کوئی بے قرار نہ ہو
لبوں پہ تذکرہ، دل میں خیالِ یار نہ ہو
دعا ہے عمر میں میری وہ پل شمار نہ ہو
لگایا جس نے مجھے روگ زندگی بھر کا
وہ زندگی میں کبھی غم سے ہم کنار نہ ہو
خدا کرے کہ نہ بیتے شبِ فراق اس پر
خدا کرے کہ کسی سے بھی اس کو پیار نہ ہو
بچھڑنے والے بھی لَوٹے ہیں آہ و زاری سے؟
کسی کے واسطے عاطفؔ یوں سوگوار نہ ہو
بہت زبردست۔۔
ایک اور غزل کے اشعار پیش کرتے ہوئے
اک حسن کی مورت کا اک دل ہے صنم خانہ
اتنی سی کہانی ہے ، اتنا سا ہے افسانہ
سب ہی سے تعلق ہےمیرا تو رقیبانہ
ہر ایک تیراعاشق ، ہر اک ترا دیوانہ
سینے میں چھپایا ہےہونٹوں سے لگایا ہے
خارِ رہِ جاناناں ، سنگِ درِ جاناناں
ہر سمت تجھے ڈھونڈوں ہر اک سے ترا پوچھوں
پھر کیوں نہ کہے دنیا مجھ کو ترا دیوانہ
بہت ہی زبردست ۔۔
چند نئے اشعار پیش کرتے ہیں
دل میں ہے جو بسا وہ کوئی دوسرا نہیں
ہونٹوں پہ کوئی نام تمہارے سوا نہیں
میں تیری اک نگاہِ تلطف کا منتظر
تو ہے کہ اک نظر بھی ادھر دیکھتا نہیں
ایسا فغاں ہے دل میں کہ محشر کا ہو گماں
گر کھولتا ہوں لب تو کوئی مدعا نہیں
آنکھوں سے ایک سیل سا اشکوں کا ہے رواں
پوچھو تو کوئی عرض نہیں ، التجا نہیں
کہہ دوں گا صرف تو، وہ اگر پوچھ لے کبھی
کیا چاہتا ہے اور تیرے پاس کیا نہیں
تو دور تھا تو روگ بھی جیسے تھے بے شمار
تو پاس ہے تو جیسے کبھی کچھ ہوا نہیں
سوچا کبھی کہ گزرے گی دل پر کسی کے کیا
تم نے تو اپنے دل کی سنی کہہ دیا نہیں
ایک اور سنئیے۔۔۔۔
ارشاد ارشاد کی آوازوں کی گونج میں
پہلو میں لے کے پھر تو رہا ہوں سحر کو میں
ڈر ہے کہ دِکھ نہ جاؤں سحر کے پدر کو میں
بیگم سے کل کہا تھا کمر کچھ تو کم کرو
سہلا رہا ہوں تب سے ہی اپنی کمر کو میں
جب مانتا نہیں وہ مجھے نیوٹرل تو پھر
پہچانتا نہیں ہوں تیرے رہبر کو میں
سب کلام بہت خوبصورت۔ سلامت رہئیے
عاطف ملک
غلطیاں نکال کر ، اصلاح کر کے شکریہ کا موقع دیجئیے۔