میم الف
محفلین
ماشاءاللہ عرفان علوی صاحب
آپ ایک ہیوی ویٹ شاعر ہیں۔
تمام اشعار بہت عمدہ غوروفکر کا نتیجہ ہیں، کیا کہنے!
آپ ایک ہیوی ویٹ شاعر ہیں۔
تمام اشعار بہت عمدہ غوروفکر کا نتیجہ ہیں، کیا کہنے!
اب تشریف لاتے ہیں آج کی محفل کے سینئیر شاعر عرفان علوی اور اپنا کلام پیش کرتے ہیں۔
سامعین اکرام کو سلام اور آداب کے ساتھ ساتھ منتظمین کو عالمی مشاعرہ کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔
اور اب
خوبصورت بزم میں اپنا خوبصورت کلام پیش کرتے ہوئے
تکتا ہوں جو یہ غور سے ہر اک کھنڈر کو میں
دراصل ڈھونڈتا ہوں یہاں اپنے گھر کو میں
گارے اور اینٹ ہی سے تو بنتا نہیں ہے گھر
سمجھا رہا ہوں کب سے یہ دیوار و در کو میں
لب پر کسی طرح سے تبسم سجا لیا
قابو میں کیسے لاؤں مگر چشمِ تر کو میں
(اگلے شعر کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک نئی بات کہنے کی کوشش کی ہے۔ امید ہے آپ تک پہنچ جائے گی۔)
بدلہ لیا کسی سے تو سوچا ہے بار بار
رکھتا ہوں اپنے آپ میں کس جانور کو میں
آیا نہ جو سمجھ میں اسے سر چڑھا لیا
حیرت میں ہوں سمجھ کے مزاجِ بشر کو میں
اڑنے کے واسطے ہو کوئی آسمان بھی
ورنہ کروں گا لے کے بھی بال و پر کو میں
منزل کسے پتہ ہے؟ مجھے کچھ پتہ نہیں
پہچانتا نہیں ابھی راہبر کو میں
رختِ سفر کے نام پہ کچھ بھی نہیں ہے پاس
لے کر چلا ہوں ساتھ بس اپنے سفر کو میں
لالچ کو سینچنے سے کوئی پھل نہیں ملا
یہ سوچتا ہوں کاٹ دوں اب اس شجر کو میں
مٹی کا ہوں بنا مجھے مٹی سے پیار ہے
رکھتا نہیں عزیز کبھی سیم و زر کو میں
عابدؔ ضمیر بیچ کے جی لوں گا میں مگر
کس طرح سے اٹھاؤں گا اپنی نظر کو میں
بہت ہی کمال۔۔ بہت ہی زبردست
ایک غزل کے چند اشعار پیش کرتے ہوئے
سچ مٹا تو جھوٹ کا اک سلسلہ رہ جائے گا
وقت کی تاریخ میں یہ سانحہ رہ جائے گا
شہر میں انسان سب بن جائیں گے جب جانور
تو یہاں رہنے کے لائق اور کیا رہ جائے گا
تیل اور باتی کریں گے اس کی لو کا قتل پھر
جو دیا طوفان کے آگے کھڑا رہ جائے گا
جس قدر ممکن ہو قاتل خود کو دھو ڈالے مگر
اک نہ اک دھبہ بدن پر خون کا رہ جائے گا
بیچ دیں گے یہ وہ سب کچھ جو نہ بکنا چاہئیے
اور زمانہ تاجروں کو کوستا رہ جائے گا
دن گز جائیں گے بجلی کی طرح اور آدمی
عمر اپنی انگلیوں پر جوڑتا رہ جائے گا
ہم جدا ہو کر دوبارہ مل تو سکتے ہیں مگر
درمیاں دونوں کے شاید فاصلہ رہ جائے گا
میرا چہرہ اس کی آنکھوں میں نہ ہو گا عمر بھر
عکس مٹ جائے گا، خالی آئینہ رہ جائے گا
ہم نہ ہوں گے تو ہمیں ڈھونڈے گی منزل بار بار
ٹھوکریں کھاتا سفر میں راستہ رہ جائے گا
مقطع پیش کرتے ہوئے
چلتے چلتے میں تو عابدّ ٹوٹ کر گر جاؤں گا
میری مٹھی میں مرے گھر کا پتہ رہ جائے گا
بہت خوبصورت کلام اور بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا۔
سلامت رہئیے ہمیشہ ۔