٢٨ مئی: یوم تکبیر

محمداحمد

لائبریرین
ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر معاشی پابندیاں لگ گئی اور ملک کا دیوالیہ نکل آیا۔ مشرف کو ملک کی معیشت بچانے کیلئے امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانا پڑا۔ واقعی بہت فائدہ ہوا

ایٹمی دھماکوں سے پہلے تو پاکستان جیسے امریکہ برطانیہ کا ہم پلہ تھا؟

1998 ۔ ایٹمی دھماکے
1999- نواز شریف رخصت ہوئے
2000 ۔ مشرف بے قاعدہ مسلط رہے
2001۔ مشرف صدر بنے۔
ستمبر 2001۔ میں امریکہ نے دہشت گردی کی جنگ شروع کرنے کے لئے خود کش حملہ کیا۔

چار سال کے حقائق توڑ مروڑ کر ایک نوالے میں نگل گئے آپ اور اپنی مرضی کا نتیجہ نکال لیا۔

؎ کیا ایسے 'کم سخن' سے کوئی گفتگو کرے
 

جاسم محمد

محفلین
چار سال کے حقائق توڑ مروڑ کر ایک نوالے میں نگل گئے آپ اور اپنی مرضی کا نتیجہ نکال لیا۔
ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد اگلے تین سال (2001 تک) پاکستان نے کیسے گزارے۔ اور 2001 میں امریکہ کی جنگ میں شمولیت کے ساتھ ملنے والی معاشی امداد کے بعد پاکستان کی صورتحال کیارہی وہ آپ ان دو گرافس میں دیکھ سکتے ہیں:
image.png

DEMQFH-UQAAPA0X.jpg


بیرونی امداد ملنے کے بعد پاکستانی معیشت تیزی سے پھیلی۔ جس کی وجہ سے قرضوں کاحجم ملکی پیداوار کے 88فیصد سے گرتے ہوئے 58فیصد تک آگیا ۔ انہی 7 سالوں کے دوران ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قدر مستحکم رہی ۔ البتہ آج پھر جمہوری حکومتوں کے توسط سے ایٹمی دھماکوں کے 22سال بعد قرضوں کا حجم ملکی پیدوار کا 84.7فیصد ہو چکا ہے۔
Pakistan’s debt falls to 84.7pc of GDP: IMF - Newspaper - DAWN.COM
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد اگلے تین سال (2001 تک) پاکستان نے کیسے گزارے۔ اور 2001 میں امریکہ کی جنگ میں شمولیت کے ساتھ ملنے والی معاشی امداد کے بعد پاکستان کی صورتحال کیارہی وہ آپ ان دو گرافس میں دیکھ سکتے ہیں:
image.png

DEMQFH-UQAAPA0X.jpg


بیرونی امداد ملنے کے بعد پاکستانی معیشت تیزی سے پھیلی۔ جس کی وجہ سے قرضوں کاحجم ملکی پیداوار کے 88فیصد سے گرتے ہوئے 58فیصد تک آگیا ۔ انہی 7 سالوں کے دوران ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قدر مستحکم رہی ۔ البتہ آج پھر جمہوری حکومتوں کے توسط سے ایٹمی دھماکوں کے 22سال بعد قرضوں کا حجم ملکی پیدوار کا 84.7فیصد ہو چکا ہے۔
Pakistan’s debt falls to 84.7pc of GDP: IMF - Newspaper - DAWN.COM

یہ حقائق اپنی جگہ درست ہیں تاہم عالمی مالیاتی نظام خود طاقتور قوموں کا خدمتگار ہے۔ ہم نے اُن طاقتور قوموں کی سیوہ کی تو ہمیں بھی تھوڑا بہت میوہ مل گیا۔ :)

ان تمام باتوں کے باوجود پاکستان کا نیوکلیر طاقت ہونا ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ اور بڑی کامیابی کے حصول کے لئے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔
 

ابن آدم

محفلین
یہ حقائق اپنی جگہ درست ہیں تاہم عالمی مالیاتی نظام خود طاقتور قوموں کا خدمتگار ہے۔ ہم نے اُن طاقتور قوموں کی سیوہ کی تو ہمیں بھی تھوڑا بہت میوہ مل گیا۔ :)

ان تمام باتوں کے باوجود پاکستان کا نیوکلیر طاقت ہونا ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ اور بڑی کامیابی کے حصول کے لئے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔

جناب بالکل دھماکے کرنے کی کوئی نہ کوئی قیمت تو دینی پڑنی تھی. ہم نے اب بھارتیوں کی غلامی میں کیا حاصل کر لیا ہے؟ سال بھر سے کشمیر بلکہ اب تو پورے بھارت میں مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے. چلیں بھارت کو چھوڑ دیتے ہیں.

پاکستان میں کیا بہتری ائی ہے؟ کونسے انڈکس میں بہتری ائی ہے یہاں تک کے پبلک سیکٹر میں نقصانات میں بھی دن دگنی رات چوگنا اضافہ ہو رہا ہے. ہمارے محصولات وہیں کے وہیں ہیں یعنی ٢٠١٨-١٩ میں بھی ٹیکس کلیکشن میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور اب ٢٠١٩-٢٠ میں بھی کوئی اضافے کی توقعہ نہیں. خرچوں میں بھی کوئی کمی نہیں ہو رہی. کرپشن میں بھی کوئی کمی نہیں ہو رہی اگرچہ بیوروکریسی اور ٹیم میں کئی دفعہ تبدیلی ہو چکی ہے، کوئی پروجیکٹ بھی نہیں لگا پھر بھی قرضے پچھلی حکومتوں سے زیادہ لئے جا رہے ہیں. تو بہرحال جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لئے اس میں نشانیاں ہیں اور جو بس جھوٹ اور پروپیگنڈا کو پسند کرتے ہیں وہ اس کے پیچھے ہی چلتے رہیں گے

EZfKdqnWkAcdNkj


EZcpk2MXYAMPAYL


EZbSS-VXgAAmQGP
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان میں کیا بہتری ائی ہے؟ کونسے انڈکس میں بہتری ائی ہے
جاری کھاتوں کا خسارہ اس حکومت کے صرف دو سالوں میں ۹۹ فیصد گر چکا ہے۔ نیز قرضوں کا حجم جو ن لیگ ملکی پیداوار کا ۸۸ چھوڑ کر گئی تھی اسے اس حکومت نے ۸۴ فیصد تک کم کیا ہے۔ اور ۲۰۲۳ تک امید ہے ۷۴ فیصد تک کم کر لے گی
Current account deficit shrinks 99pc to $6m in March
Pakistan’s debt falls to 84.7pc of GDP: IMF - Newspaper - DAWN.COM
 

محمداحمد

لائبریرین
جناب بالکل دھماکے کرنے کی کوئی نہ کوئی قیمت تو دینی پڑنی تھی. ہم نے اب بھارتیوں کی غلامی میں کیا حاصل کر لیا ہے؟ سال بھر سے کشمیر بلکہ اب تو پورے بھارت میں مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے. چلیں بھارت کو چھوڑ دیتے ہیں.

پاکستان میں کیا بہتری ائی ہے؟ کونسے انڈکس میں بہتری ائی ہے یہاں تک کے پبلک سیکٹر میں نقصانات میں بھی دن دگنی رات چوگنا اضافہ ہو رہا ہے. ہمارے محصولات وہیں کے وہیں ہیں یعنی ٢٠١٨-١٩ میں بھی ٹیکس کلیکشن میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور اب ٢٠١٩-٢٠ میں بھی کوئی اضافے کی توقعہ نہیں. خرچوں میں بھی کوئی کمی نہیں ہو رہی. کرپشن میں بھی کوئی کمی نہیں ہو رہی اگرچہ بیوروکریسی اور ٹیم میں کئی دفعہ تبدیلی ہو چکی ہے، کوئی پروجیکٹ بھی نہیں لگا پھر بھی قرضے پچھلی حکومتوں سے زیادہ لئے جا رہے ہیں. تو بہرحال جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لئے اس میں نشانیاں ہیں اور جو بس جھوٹ اور پروپیگنڈا کو پسند کرتے ہیں وہ اس کے پیچھے ہی چلتے رہیں گے

EZfKdqnWkAcdNkj


EZcpk2MXYAMPAYL


EZbSS-VXgAAmQGP

بھائی! بیس بائیس سال پہلے گزرے ایک واقعے کی بات ہو رہی ہے۔ ایسے میں ن لیگ کی بے جا وکالت یا تحریک انصاف پر بجا تنقید کی کیا تک بنتی ہے؟
 

ابن آدم

محفلین
برادر عزیز حامد میر صاحب!

یکم جون کو، آپ کا کالم ’’ایٹمی دھماکا کس نے کیا؟‘‘ توجہ سے پڑھا۔ سوچتا رہا کہ شاید فلاں پہلو نظر انداز ہو گیا ہو لیکن آپ نے ذاتی اور واقعاتی حوالے سے تمام تفصیلات بیان کر دی ہیں اور ماشاء اللہ کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا۔ یقیناً یہ تاریخ کی عدالت میں ایک مستند گواہی ہے۔ ہم برسوں سے اس انگریزی محاورے کی تماشگاہ بنے ہوئے ہیں کہ کامیابی کے بیسیوں باپ ہوتے ہیں اور ناکامی یتیم رہتی ہے۔

ایسے میں اگر کارگل کی خاک کسی کے سر اور ایٹمی دھماکوں کا سہرا اپنے سر پر سجا لیا جائے تو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ یہ رسم قدیم ہے یہاں کی۔ جیسا کہ آپ نے لکھا جس دن بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے وزیراعظم نواز شریف قازقستان کے دورے پر تھے۔ انہوں نے وہیں سے آرمی چیف کو جوابی ایٹمی دھماکوں کی تیاری کا حکم دے دیا۔

جنرل کرامت نے ابتدائی ہچکچاہٹ کے بعد یہ فرمان تمام متعلقہ افراد کو پہنچا دیا جس کی گواہی لیفٹیننٹ جنرل دوم شاہد عزیز نے اپنی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک‘‘ میں دی ہے۔

میں اُن دنوں صدر محمد رفیق تارڑ کے ساتھ بطور پریس سیکرٹری کام کر رہا تھا۔ وزیراعظم نواز شریف الماتے سے واپسی کے اگلے دن صدر تارڑ صاحب سے ملنے ایوانِ صدر آئے۔ گراونڈ فلور پر پورچ کے قریب پرنسپل سیکرٹری مہر جیون خان (مرحوم) بریگیڈیئر اکرم ساہی (ملٹری سیکرٹری) اور میں نے وزیراعظم کا استقبال کیا۔ انہوں نے ہم سے ہاتھ ملایا اور لفٹ کی طرف چلتے ہوئے کہنے لگے ’’تہاڈا کی خیال اے فیر دھماکا کریے کہ ناں؟‘‘ حفظِ مراتب کے خیال سے ہم نے ہاں یا ناں میں دو ٹوک جواب دینے کے بجائے رسمی جملے کہہ دیے۔

لفٹ میں سوار ہو کر پانچویں فلور کو جانے لگے تو میاں صاحب بولے آپ لوگ تو اس طرح گومگو میں ہیں جیسے ہمارے سامنے دو آپشنز ہیں، یہ صرف دماغ کا نہیں عزت سے زندہ رہنے کا معاملہ ہے، ہمارے سامنے تو کوئی دوسرا آپشن ہے ہی نہیں؟ کیوں مہر جیون صاحب؟ مہر جیون نے ایک جہاندیدہ بیورو کریٹ کے انداز میں کہا ’’یقیناً سر‘‘ لفٹ کا دروازہ کھلا، سامنے صدر تارڑ کھڑے تھے، وہ وزیراعظم کو لے کر اپنے دفتر چلے گئے۔ کوئی پون گھنٹہ بعد یہ ملاقات ختم ہوئی تو میں اپنے دفتر سے اُٹھ کر صدر صاحب کے پاس چلا گیا۔

اُن کی خصوصی شفقت کے باعث میری صدر تارڑ سے کسی قدر بےتکلفی تھی۔ میں نے پوچھا ’’سر کیا فیصلہ ہوا دھماکوں کے بارے میں؟‘‘ اُنہوں نے کوئی واضح جواب دینے کے بجائے موضوع بدل دیا کہ کس طرح کا پریس ریلیز جاری کیا جائے۔ میں نے اصرار نہ کیا۔ شام کو میں صدارتی کالونی میں اپنے گھر میں تھا کہ اے ڈی سی کا فون آیا۔ ’’سر صدر صاحب یاد کر رہے ہیں‘‘۔ میں پہنچا تو مئی کی گرم شام ڈھل رہی تھی۔

صدر صاحب شاداب سبزہ زار میں دو کرسیاں اور ایک میز ڈالے بیٹھے تھے۔ اِدھر اُدھر کی دو چار باتوں کے بعد کہنے لگے آپ نے دفتر میں پوچھا تھا لیکن یہاں دیواروں کے کان بہت تیز ہیں اور شاید آنکھیں بھی ہیں۔ میں نے وہاں جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ میاں صاحب نے کامل راز داری کا کہا تھا۔ وزیراعظم نے پہلے میری رائے لی جسے آپ جانتے ہیں۔

پھر کہنے لگے الحمدللہ میری بھی یہی رائے ہے۔ ان شاء اللہ دھماکوں کا فیصلہ اٹل ہے۔ انہوں نے مجھ سے دعا کی درخواست کی اور کہا کہ اللہ کے فضل و کرم سے اسی ماہ کے آخر تک پاکستان ایٹمی قوت بن جائے گا‘‘۔ میں نے تارڑ صاحب کی یہ گفتگو سن کر اُنہیں مبارکباد دی۔ میں نے دیکھا کہ مردِ بزرگ کی آنکھوں میں شبنم تیرنے لگی تھی۔

آپ میاں نواز شریف کی اس عادت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ وہ انگریزی محاورے کے مطابق اپنے پتے آخری وقت تک اپنے سینے سے لگائے رکھتے ہیں اور ہر ملنے والے سے کہتے رہتے ہیں‘‘ تہاڈا کی خیال اے (آپ کا کیا خیال ہے) ایک زمانے میں مشہور تھا کہ ان کا فوٹو گرافر ذوالفقار بلتی (مرحوم) ان کا مشیرِ اعلیٰ ہے۔

اُن کا مخاطب سنجیدگی سے سمجھتا ہے کہ میاں صاحب تذبذب کا شکار اور اس کے دانشمندانہ مشورے کے طلبگار ہیں۔ ایسا ہوتا نہیں۔ وہ ایک فیصلہ کر چکے ہوتے ہیں جس میں شاذ و نادر ہی کوئی تبدیلی آتی ہے اور جب فیصلہ سامنے آتا ہے تو کئی ’’مشیران‘‘ یہی سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب نے اُن کی دانش سے کسبِ فیض کیا ہے۔

آپ نے بالکل درست لکھا۔ مجھے ایک سے زیادہ بار سابق وزیراعظم نے بتایا کہ جنرل جہانگیر کرامت نے دھماکوں کی حمایت نہیں کی۔ وہ ایک پروفیسر کی طرح نشیب و فراز سمجھاتے، عالمی ردِعمل سے ڈراتے اور مصلحت کی راہ اختیار کرنے کی وکالت کرتے رہے۔ اُن کی دانش کا تمام تر جھکائو ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی طرف تھا۔

اب تو کہنہ مشق سینئر صحافی محمد ضیاء الدین نے بھی کہا ہے کہ انہوں نے خود بعض دوسرے صحافیوں کے ساتھ آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو کہتے سنا تھا کہ دھماکوں کی قیمت بہت ہی زیادہ اور قوم کے لئے ناقابلِ برداشت ہوگی۔ بحریہ کے سربراہ زیادہ واضح تھے اور پوری شد و مد کے ساتھ ایٹمی دھماکوں کی مخالفت کرتے رہے۔

مسلح افواج کے تین سربراہوں میں سے صرف فضائیہ کے چیف، ایئر مارشل پرویز مہدی قریشی ڈٹ کر وزیراعظم کے ساتھ کھڑے، دھماکوں کی حمایت کر رہے تھے۔ جنرل جہانگیر کرامت دھماکوں کے چار پانچ ماہ بعد فارغ ہوئے تو ایک امریکی یونیورسٹی کے پروفیسر ہوئے۔ 2004میں وہ امریکہ میں پاکستانی سفیر بن گئے۔

آج اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اس نے راجہ ظفر الحق اور گوہر ایوب کے ساتھ مل کر ایٹمی دھماکے کئے تو ممکن ہے دنیا بھر کے رہنمائوں کے فون اُسی کو آئے ہوں۔ ممکن ہے کلنٹن نے بھی اُسے پانچ مرتبہ ترغیبات اور دھمکیاں دی ہوں اور اُس نے جوانمردی سے انکار کر دیا ہو۔

ممکن ہے صدر، وزیراعظم، موثر وفاقی وزرا، آرمی چیف اور نیول چیف کو ایک طرف دھکیلتے ہوئے، یہ مرد جری راجہ ظفر الحق اور گوہر ایوب کو ہمراہ لئے چاغی جا پہنچا ہو اور دھماکے کر ڈالے ہوں۔ بےبال و پر لوگوں کی ایسی باتوں کو، کورونا کے سنجیدہ اور رنجیدہ ماحول میں بازار کی کسی سطحی چوپال کا بےذوق لطیفہ سمجھ کے نظر انداز کر دینا چاہئے اور میر صاحب! ایک آخری بات۔

آج کارگل یتیم بچے کی طرح رُل رہا ہے جسے کوئی گود لینے کو تیار نہیں اور 28؍مئی کو ہر کوئی اپنی اولاد نرینہ ثابت کرنے کے جتن کر رہا ہے کیا تاریخ کی یہ گواہی نہیں بتا رہی کہ سطحی، کھوکھلے اور بے مغز تماشے، ٹھوس، نتیجہ خیز اور موثر فیصلوں کے مقابلے میں کس طرح رزق خس و خاشاک ہو جاتے ہیں۔

والسلام

آپ کا مخلص
عرفان صدیقی
ایٹمی دھماکے کس نے کئے؟ عرفان صدیقی کا حامد میر کے نام خط - پاک نیوز
 

جاسم محمد

محفلین
آج کارگل یتیم بچے کی طرح رُل رہا ہے جسے کوئی گود لینے کو تیار نہیں اور 28؍مئی کو ہر کوئی اپنی اولاد نرینہ ثابت کرنے کے جتن کر رہا ہے کیا تاریخ کی یہ گواہی نہیں بتا رہی کہ سطحی، کھوکھلے اور بے مغز تماشے، ٹھوس، نتیجہ خیز اور موثر فیصلوں کے مقابلے میں کس طرح رزق خس و خاشاک ہو جاتے ہیں۔
اگر ایٹمی دھماکے نواز شریف نے کر بھی دئے تو اس کا ملک و قوم کو کیا فائدہ ہو گیا؟ دھماکوں کے بعد پاکستان کی بیرونی امداد بند ہو گئی۔ ملک دیوالیہ ہو گیا اور مشرف کو امریکی امداد بحال کرنے کیلئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانا پڑا۔ جس کے سنگین نتائج پاکستانیوں نے بعد میں بھگتے۔ اگر ایٹمی دھماکے کرنا ملک و قوم کی عزت کا سوال تھا تو اس کے نتیجہ میں دیوالیہ ہونے کے بعد ملک کو امریکہ کی جنگ میں دھکیل دینا ملک و قوم کی عزت کا سوال نہیں تھا؟
 
Top