فی میل ٹک ٹاکر کے قتل کے بعد "اتنے ملین فالورز"، "لاش لینے کوئی نہیں آیا"، "گلیمر کی دنیا میں سب دکھاوا ہے" جیسی تحاریر اور اس سے ملتے جلتے بیانات اور پوسٹیں آپ کو ہر جگہ ملیں گی۔ ہمیں قتل پہ دکھ نہیں ہے، ہمیں انصاف کی فکر نہیں ہے، ہمیں قاتل کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی فکر نہیں ہے، ہمیں فکر ہے تو بس اپنا نقطہ نظر اور طرزِ معاشرت درست ثابت کرنے کی کہ گلیمر کی دنیا ایسے ہے، ویسے ہے، تیسے ہے۔ جس معاشرے میں قتل ایک مذاق بن جائے، انصاف روایات اور ذاتی انا و نقطہ نظر کی نذر ہو جائے تو اس معاشرے میں ظالم کون کہلائے گا اور مظلوم کون؟ قاتل کون کہلائے گا اور مقتول کون؟
میں آپ سے بحث میں نہیں الجھنا چاہتا کیونکہ ایسے افراد یا معاشرہ جن کی ذہنیت یہ ہو یا بنائی گئی ہو کہ وہ "صحیح" ہیں یا ان کے "معیارات" صحیح ہیں اور ان کے پیمانوں پہ یہ فیصلہ کیا جائے کہ کون "آبرو باختہ" ہے یا "نیچ حرکت" کا مرتکب ہے اور اس بنیاد پہ ایک انسان کی لاش وصول نہ کی جائے (گھٹیا معاشرتی پیمانوں کے باعث) یا انصاف کا تقاضا کرنے کی بجائے ان کے اعمال پہ سوال اٹھائے جائیں ان کا اللہ ہی حافظ ہے۔خواہ قتل کسی کا بھی ہو؛لیکن قتل انسانیت کا ہوا ہے۔
مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ آخر کیا وجہ ہوئی کہ اس کی لاش کا کوئی وارث نمودار نہیں ہوا؟؟ بیچاری کے 6 لاکھ فالورز ہیں؛لیکن لاش کا کوئی وارث نہیں!! خیر یہ تو بیچاری کا’’ اپنا مسئلہ‘‘ ہے۔
البتہ اس طرح کی آبرو با ختہ لڑکیوں اور لڑکوں کے حق میں بولنے سے اس لئے گریز کیا جارہا ہے کہ اس سے اس قبیل کی لڑکیوں اور لڑکوں کو اپنے عمل کو درست سمجھنے میں ’’تقویت‘‘ ملے گی۔ اس لئے سب کی زبان خاموش ہے۔ تاکہ جو لوگ ٹک ٹاک پر عالمی سطح پر ’’مجرا‘‘ کرتے ہیں ، انہیں اس سے سبق ملے۔
میں سرحد پار ہندوستان میں بیٹھ کر کوئی ہنگامہ یا شور نہیں کرسکتا البتہ لڑکی کے قاتل کی گرفتاری کا مطالبہ کرتا ہوں؛لیکن میں اس کی نیچ حرکتوں کی کبھی تائید نہیں کرسکتا۔ آج یہ نوبت اس کی نیچ حرکتوں کی وجہ سے ہی ہیں کہ اہل خانہ سے اسے پہنچانے سے انکار کرگئے۔ کم از کم حقوق انسانی کے اہلکاروں کو اور ’’عورت مارچ ‘‘ کرنے والی لبرل عورتوں کو انصاف کے لئے آگے آنا چاہیے ؛کیوں کہ یہ لاوارث لاش ان ہی لوگوں کے فکر و ذہن سے قربت رکھنے والی آبرو باختہ لڑکی کی ہے۔ اب سوچیں نا!!! جب حقوق انسانی کے اہلکار اور عورت مارچ کرنے والی لبرل خواتین آگے نہیں آرہی ہیں ، تو پھر معاشرہ کے سفید پوش کیوں کر آگے آئیں گے؟؟؟
میں آپ سے بحث میں نہیں الجھنا چاہتا کیونکہ ایسے افراد یا معاشرہ جن کی ذہنیت یہ ہو یا بنائی گئی ہو کہ وہ "صحیح" ہیں یا ان کے "معیارات" صحیح ہیں اور ان کے پیمانوں پہ یہ فیصلہ کیا جائے کہ کون "آبرو باختہ" ہے یا "نیچ حرکت" کا مرتکب ہے اور اس بنیاد پہ ایک انسان کی لاش وصول نہ کی جائے (گھٹیا معاشرتی پیمانوں کے باعث) یا انصاف کا تقاضا کرنے کی بجائے ان کے اعمال پہ سوال اٹھائے جائیں ان کا اللہ ہی حافظ ہے۔
سبحان اللہ، کیا سوچ پائی ہے جناب نے۔اب جبکہ مقتولہ کو اسکے جرم سے بڑھ کر سزا مل گئی
بالکل ٹھیکقتل انسانیت کا ہوا ہے۔
بہت اعلی.اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
اللہ رب العزت ہم پر رحم فرمائے آمین۔ یہ کس قسم کی روایت چل پڑی ہے کہ اسلام کے نام لیوا سنتِ نبوی کے خلاف اس طرح کھلم کھلا کام کرتے پائے جاتے ہیں!!! قرآن و سنت کے علم حاصل کرنے کے دعویداروں کو کیا اس کا علم نہیں ہے کہ لعنت کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟؟؟ کیا یہ علم نہیں ہے کہ کسی معین شخص پر خواہ وہ مسلمان ہو یا کافرلعنت کرنا جائز نہیں اور خاص طور پر فوت شدگان کو لعن طعن کرنے کے بارے میں کیا تعلیمات ہیں۔
ثلاً صحیح بخاری میں ہے کہ ایک شخص شراب پیتا تھا اور باربار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پکڑا آتا تھا یہاں تک کہ کئی پھیرے ہوچکے تو ایک شخص نے کہا:
اللَّهُمَّ الْعَنْهُ مَا أَكْثَرَ مَا يُؤْتَى بِهِ
"اس پر اللہ کی لعنت کہ باربار پکڑ کر دربار رسالت میں پیش کیا جاتا ہے۔"
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا:
لَا تَلْعَنُوهُ فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ إِنَّهُ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ
اس پہ لعنت نہ کرو‘ اللہ کی قسم جو میں جانتا ہوں وہ یہی ہے کہ یہ شخص اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہے۔
صحیح البخاری، الحدود، باب ما یکرہ من لعن شارب الخمر۔۔۔، ح: ۶۷۸۰
حالانکہ آپ نے عام طور پر شرابیوں پر لعنت بھیجی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ عام طور پر کسی خاص گروہ پر لعنت بھیجنا جائز ہے مگر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنے والے کسی معین شخص پر لعنت کرنا جائز نہیں اور معلوم ہے کہ ہر مومن اللہ اور رسول سے ضرور محبت رکھتا ہے۔
اسی طرح فوت شدگان کو لعن طعن کرنے سے بھی نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے :
لَا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ فَإِنَّهُمْ قَدْ أَفْضَوْا إِلَى مَا قَدَّمُوا
"مردوں کو گالی مت دو کیونکہ وہ اپنے کیے کو پہنچ گئے۔"
صحیح البخاری، الجنائز، باب ما ینہی من سب الأموات، ح:۱۳۹۳
بلکہ جب لوگوں نے ابو جہل جیسے کفار کو گالیاں دینی شروع کیں تو انہیں منع کیا اور فرمایا:
لَا تَسُبُّوا مَوْتَانَا فَتُؤْذُوا أَحْيَاءَنَا
"ہمارے مرے ہوؤں کو گالیاں مت دو کیونکہ اس سے ہمارے زندوں کو تکلیف ہوتی ہے۔"
سنن النسائی، القسامۃ، القود من اللطمۃ، ح:4779
خدا رب العزت کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مخصوص شخص پر لعنت نہیں فرمائی البتہ عام لعنت وارد ہے
مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَعَنَ اللَّهُ السَّارِقَ يَسْرِقُ الْبَيْضَةَ فَتُقْطَعُ يَدُهُ
"چور پر اللہ کی لعنت کہ ایک انڈے پر اپنا ہاتھ کٹوا دیتا ہے۔"
صحیح البخاری، الحدود، باب لعن السارق إذا لم یسم، ح:6783 وصحیح مسلم، الحدود، باب حد السرقۃ ونصابہا، ح:1678
نیز فرمایا:
فَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ
"جو بدعت نکالے یا بدعتی کو پناہ دے اس پر اللہ کی لعنت۔"
صحیح البخاری، الجزیۃ والموادعۃ ، باب إثم من عاھد ثم غدر، ح:۳۱۷۹
مؤمن اور لعنت - محمد رفیق طاہر | قدیم
کسی پر لعنت کرنا کیسا هے ؟
معاشرے کے ناسور - لعنت کے اسباب/لعنت در حقیقت کیا ہے؟
لعنت کرنے کا حکم؟
کسی مخصوص عمل یا شعبہ کو اگر برا کہنا ہے ہی تو کیا یہ ضروری ہے کہ ایک فوت شدہ لڑکی کو بنیاد بنا کر کہا جائے؟؟؟ جبکہ وہ اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے اور اب اس کا معاملہ اللہ رب العزت کے پاس ہے۔ ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تو فرمان ہے کہ
«إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا، وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً»
مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ مجھے تو صرف رحمت کے لیے بھیجا گیا ہے۔
صحیح مسلم:کتاب البر والصلۃ باب النہی عن لعن الدواب: 2599
میں حیران ہوتا ہوں کہ اسلام کے نام لیوا اور خود کو بہت مذہبی کہنے والے ایسی حرکات میں کیسے ملوث ہو جاتے ہیں کہ کھلم کھلا اسلام کے نام پر سنتِ نبوی کے خلاف جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ یہ اصل اسلام ہے؟؟؟؟؟ برا بولنا ہے تو ٹک ٹاک کے شعبے کو برا کہو، اس کے نقصانات کو اجاگر کرو یہ کیا کہ ایک فوت شدہ لڑکی کی بے بسی کا اس طرح تماشا بناؤ؟؟؟ اللہ رب العزت کسی پر ایسا وقت نہ لائے آمین۔
ارے صاحب کدھر الجھ پڑے۔فی میل ٹک ٹاکر کے قتل کے بعد "اتنے ملین فالورز"، "لاش لینے کوئی نہیں آیا"، "گلیمر کی دنیا میں سب دکھاوا ہے" جیسی تحاریر اور اس سے ملتے جلتے بیانات اور پوسٹیں آپ کو ہر جگہ ملیں گی۔ ہمیں قتل پہ دکھ نہیں ہے، ہمیں انصاف کی فکر نہیں ہے، ہمیں قاتل کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی فکر نہیں ہے، ہمیں فکر ہے تو بس اپنا نقطہ نظر اور طرزِ معاشرت درست ثابت کرنے کی کہ گلیمر کی دنیا ایسے ہے، ویسے ہے، تیسے ہے۔ جس معاشرے میں قتل ایک مذاق بن جائے، انصاف روایات اور ذاتی انا و نقطہ نظر کی نذر ہو جائے تو اس معاشرے میں ظالم کون کہلائے گا اور مظلوم کون؟ قاتل کون کہلائے گا اور مقتول کون؟
یورپ میں مقیم حضرات شخصی آزادیوں پر اتنے فریفتہ ہیں کہ ہر اجتماعی جرم کو برادشت کر لیتے ہیں۔
ظاہر ہے آپ زنا کاری کو صحیح جانتے ہوں گے؟ آپ کے معیار کے تحت کسی کی بیٹی بلا نکاح کسی کے ساتھ گھوم پھر سکتی ہو گی؟ آپ کے نزدیک کسی کی بیٹی کا آبرو باختہ ہو جانا کچھ اہم ہی نہیں؟ ان سب کے ساتھ زنا کار کو نیچ حرکت والا جانتے ہی نہ ہوں گے؟ آپ ہاتھ و زبان سے ان باتوں کو روکنا کجا دل میں بھی غلط نہ جانتے ہوں گے۔ تبھی قتل کے محرک سے زیادہ قتل ہو جانے کا دکھ ہے۔
پاکستان کئی کروڑ باعزت خواتین کا ملک ہے۔ انکو تو کوئی قتل نہیں کرتا۔ عزت سے اپنے ماں باپ یا شوہر کے گھر رہتی ہیں۔ اس قتل سے ٹک ٹاک پر موجود بے عزت بے پردہ لڑکیوں کو سبق مل گیا کہ انکے ساتھ کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ اب جبکہ مقتولہ کو اسکے جرم سے بڑھ کر سزا مل گئی تو قاتل کو اسکے کیے کی دردناک سزا ضرور ملنی چاہیے۔
جو لوگ اس لڑکی کی ’’بیچارگی‘‘ پر طعنہ زنی کررہے ہیں ، میرے نزدیک یہ غیر اسلامی ہے۔ البتہ اس ’’بیچارگی‘‘ سے سبق ضرور ملتا ہے۔ اس سے سبق لینا چاہیے ، بالخصوص ٹک ٹاکروں کو!!!
اب رہی بات یہ کہ :’ کچھ لوگ یورپ میں رہ مغربی فضا کے عاشق بن گئے ہیں، ان کے نزدیک زنا کوئی گناہ نہیں ، آؤٹ سائڈ بچوں کی ولادت بھی کوئی ذلت کی بات نہیں۔ انہیں چاہیے کہ اجنبی داشتاؤں اور اجنبی لوگوں سے جنسی قرابت اور راہ و رسم رکھیں، کوئی ممانعت نہیں ہے۔
مجھ فقیر کی تو یہی رائے ہے کہ :’ جب ’’زنا‘‘ جیسی عالمگیر لعنت کو قبول و تسلیم کرہی لیا ہے تو پھر اسلام سے بھی ترک تعلق کرلیں، بہتر ہوگا؛کیوں کہ ظلمت و روشنی ایک جگہ جمع نہں ہوسکتی۔ ’’واللہ اعلم بالصواب‘‘۔ اور کم از کم اسلام جیسی عظیم نعمت یورپ کے دلدادہ لوگوں کے یہاں رک نہیں سکتا۔ دو رنگی اچھی چیز نہیں ہے ۔ بقول سراجؔ اورنگ آبادی:
’’دو رنگی خوب نئیں یک رنگ ہو جا
سراپا موم ہو یا سنگ ہو جا‘‘
آپ نے جو خود ساختہ طور پر ’’دو نکتہ نوٹ کر معروضی طور پر ہمارے لئے سوال بنایا ہے تو سرے سے ہی مسترد کئے جانے کے قابل ہے۔ پہلے آپ اپنے سوالات درست کرلیں۔ پھر جواب دیا جائے گا۔اب آپ دونوں دو باتیں ثابت کریں۔
1. وہ لڑکی قتل سے پہلے زنا کی مرتکب ہوئی تھی
2. میرے مراسلوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ زنا جائز ہے یا ناجائز ہے
اگر آپ یہ دونوں نقاط پورے یقین کے ساتھ ثابت کر دیں تو میں اپنے سارے بیانات واپس لے لوں گا اور اگر آپ نہ کر سکے تو میں یہی سمجھوں گا کہ تمام اسلامی ٹھیکیداروں کو اپنی من پسند تشریحات کے سستے نشے کی لت لگ ہوئی ہے۔ بات کو دائیں بائیں مشرق مغرب نہ گھمائیے گا مجھے تفصیل کی یا بحث کو طول دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بس انہی دو نقطوں کو ٹو دا پوائنٹ ثابت کرنا ہے۔ چلیں بسمہ اللہ کریں۔
اب آپ دونوں دو باتیں ثابت کریں۔
1. وہ لڑکی قتل سے پہلے زنا کی مرتکب ہوئی تھی
2. میرے مراسلوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ زنا جائز ہے یا ناجائز ہے
اگر آپ یہ دونوں نقاط پورے یقین کے ساتھ ثابت کر دیں تو میں اپنے سارے بیانات واپس لے لوں گا اور اگر آپ نہ کر سکے تو میں یہی سمجھوں گا کہ تمام اسلامی ٹھیکیداروں کو اپنی من پسند تشریحات کے سستے نشے کی لت لگ ہوئی ہے۔ بات کو دائیں بائیں مشرق مغرب نہ گھمائیے گا مجھے تفصیل کی یا بحث کو طول دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بس انہی دو نقطوں کو ٹو دا پوائنٹ ثابت کرنا ہے۔ چلیں بسمہ اللہ کریں۔[/QUOTE
اولاً : میں نے کب کہا کہ آپ زنا کے حامی ہیں؟؟، یہ آپ کی مرضی ہے کہ زنا کے حامی ہوں ، راہیں آپ کے لئے کھلی ہیں،نتائج سے آپ بھی غافل نہیں ہوں گے۔ دوئم : یہ کہ آپ ایک بیچاری کی ’’بیچارگی‘‘ پر گریہ کناں ہے ، یقیناً یہ آپ کی انسانیت ہےکہ آپ اس کے قتل پر افسوس کر رہے ہیں، ہم بھی اس پر افسوس ظاہر کرتے ہیں، یقیناً اس بیچاری کے قتل سے ان کے فین فالورز کی ایک بڑی تعداد کو ’’مایوسی ‘‘ ہوئی ہوگی۔
الغرض ! میں نے جو باتیں کہی ہیں وہ کہ ٹک ٹاکر س اور نئی نسل کے لڑکے لڑکیوں کو اس اندوہناک واقعہ سے سبق لینا چاہیے کہ 6 لاکھ فالورزہونے کے با وجود بھی اس کی لاش کا کوئی وارث نہیں آیا۔ کیا یہ کسی تازیانہ سے کم ہے؟؟ آخر کیا وجہ ہے کہ بیچاری کے اہل خانہ بھی اس سے قطع تعلق کا اظہار کررہےہیں؟ میں نے کب کہا کہ مقتولہ نے زنا کا ارتکاب کیا تھا؟البتہ زنا اور فحاشی کی مجسم دعوت ضرور تھی۔ جیسا کہ اس کی ٹک ٹاک کی ویڈیوز سے ملتا ہے۔ ولا تقربوالزنیٰ انہ کان فاحشۃ و مقتا و ساء سبیلا۔
آپ کے مراسلے سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ آپ ایک مقتول آبرو باختہ لڑکی کی حمایت میں کھڑے ہیں،اور بس ۔ خواہ یہ حمایت انسانی تقاضوں کے پیش نظر ہے یا پھر کسی اور وجہ سے ،مجھے نہیں معلوم۔
میں نے تو پہلے ہی کہا کہ:’ آپ کی مرضی جوچاہیں کریں، خواہ زنا کو درست ثابت کریں، آوراگی اور فحاشی کو فروغ دیں روکا کس نے ہے؟ اگر اسلام کی تعلیمات اس کے ( آپ کے مغربی نظریات کے ) مزاحم ہوتی ہیں تو ، اسلام سے بھی ترک تعلق کرلیں، کیوں کہ اسلام کا دارو مدار ’’ظاہری حس ‘‘پر نہیں ہے؛بلکہ باطنی حس ،روحانیت وتسلیم پر ہے، اور باطنی حس کو آج کے زمانے میں کون تسلیم کررہا ہے؟ ’’لااکراہ فی الدین‘‘ بہت پہلے کہہ دیا گیا۔ اور یہ کیا ضروری ہے کہ آپ اسلامی ڈھول اپنے گلے میں ڈال کرچلیں؟؟
آپ دونوں نے ہی زنا جیسے سنگین الزامات پہ بات کی ہے، میں نے تو کی ہی نہیں اور یہ سوالات انہی مراسلوں سے بالکل متعلقہ ہیں۔ اور کچھ نہیں بن رہا تو آپ سچ سچ اور اللہ کو حاضر ناظر جان کر یہ ہی بتا دیں کہ نیچے والا مراسلے لکھنے کی ترغیب آپ کو کہاں سے ملی؟ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ آپ سو کر اٹھے تو آپ کو تبلیغ کا شوق پیدا ہوا۔ یہ ساری باتیں اس لڑی میں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ اب آپ خود کو حقیقی مسلمان سمجھتے ہوئے اور دل پہ ہاتھ رکھتے ہوئے سچ بتائیے گا کہ ان سب کے پیچھے نیت اور تحریک کہاں سے پیدا ہوئی۔آپ نے جو خود ساختہ طور پر ’’دو نکتہ نوٹ کر معروضی طور پر ہمارے لئے سوال بنایا ہے تو سرے سے ہی مسترد کئے جانے کے قابل ہے۔ پہلے آپ اپنے سوالات درست کرلیں۔ پھر جواب دیا جائے گا۔
جو لوگ اس لڑکی کی ’’بیچارگی‘‘ پر طعنہ زنی کررہے ہیں ، میرے نزدیک یہ غیر اسلامی ہے۔ البتہ اس ’’بیچارگی‘‘ سے سبق ضرور ملتا ہے۔ اس سے سبق لینا چاہیے ، بالخصوص ٹک ٹاکروں کو!!!
اب رہی بات یہ کہ :’ کچھ لوگ یورپ میں رہ مغربی فضا کے عاشق بن گئے ہیں، ان کے نزدیک زنا کوئی گناہ نہیں ، آؤٹ سائڈ بچوں کی ولادت بھی کوئی ذلت کی بات نہیں۔ انہیں چاہیے کہ اجنبی داشتاؤں اور اجنبی لوگوں سے جنسی قرابت اور راہ و رسم رکھیں، کوئی ممانعت نہیں ہے۔
مجھ فقیر کی تو یہی رائے ہے کہ :’ جب ’’زنا‘‘ جیسی عالمگیر لعنت کو قبول و تسلیم کرہی لیا ہے تو پھر اسلام سے بھی ترک تعلق کرلیں، بہتر ہوگا؛کیوں کہ ظلمت و روشنی ایک جگہ جمع نہں ہوسکتی۔ ’’واللہ اعلم بالصواب‘‘۔ اور کم از کم اسلام جیسی عظیم نعمت یورپ کے دلدادہ لوگوں کے یہاں رک نہیں سکتا۔ دو رنگی اچھی چیز نہیں ہے ۔ بقول سراجؔ اورنگ آبادی:
’’دو رنگی خوب نئیں یک رنگ ہو جا
سراپا موم ہو یا سنگ ہو جا‘‘