ٹائم پاس

عبد الرحمن

لائبریرین
"سر مے آئی کم اِن؟"

کلاس کے دروازے پر جیسے ہی اس کی نرم و ملائم آواز ابھری سر سمیت سب کی نظریں وائٹ بورڈ سے منتقل ہوکر اس کی طرف مڑ گئیں۔ مجھے گردن گھمانے میں لمحے بھر کی تاخیر ہوئی لیکن جیسے ہی میں نے اسے دیکھا دھڑکنیں بے ترتیب سی ہوگئیں اور میرے اور اس کے علاوہ مجھے پوری دنیا پتھر کی محسوس ہونے لگی۔

سب نئی آنے والے طالبہ پر ایک نظر ڈال کر پھر سے بورڈ کی جانب متوجہ ہوگئے لیکن میری نگاہیں مسلسل اسی کی جانب جمی ہوئی تھیں۔ سر نے اسے اندر آنے کی پرمیشن دی اور جب وہ خراماں خراماں چلنے لگی تو میری نظروں نے بھی اس کا بھرپور ساتھ دیا۔

"عبد الرحمن صاحب! آپ اپنی Intentions سے باہر آگئے ہوں تو اپنی Gumption کا استعمال کرتے ہوئے Conjunctions پرغور کرنا پسند فرمائیں گے؟" مجھے کھویا کھویا دیکھ کر جب سر نے شاعرانہ انداز میں مجھ پر طنز کا تیر برسایا تو میں نے قدرے شرمندہ ہوکرفورا اپنی کمر سیدھی کی اور اپنی حاضر دماغی کا احساس دلایا۔ یہ میری پرانی عادت تھی۔ اکثر لیکچر سنتا سنتا کہاں سے کہاں نکل جاتا تھا اور میرے مہربان استاد اسی اسلوب میں مجھے سپنوں کے دیس سے حقیقت کی دنیا میں واپس لایا کرتے تھے۔

لینگوج کلاس کا ایک اصول بلکہ تقاضا تھا کہ ہر نیا آنے والا سب کے سامنے کھڑا ہوکر خود کو متعارف کرائے۔ ابتدائی تعارف پر پتا چلا کہ وہ شہر کی صف اول کی پرائیوٹ یونی ورسٹی سے کیمسٹری میں ایم ایس سی ہے۔ میں نے سائنس کی تینوں شاخوں کا مطالعہ کر رکھا تھا۔ لیکن کل تک کیمسٹری سے مجھے خدا واسطے کا بیر تھا۔ جبکہ آج مجھے اچانک ہی کیمسٹری سے شدید محبت ہونے لگی تھی اور وہ میرا پسندیدہ ترین مضمون بن گیا تھا۔ شاید اس کی وجہ کیمسٹری سے اس لڑکی کی نسبت تھی یا یہ کہ بہت جلد ہم دونوں کی بھی کیمسٹری ملنے والی تھی۔

میں اپنے پچھلے غم سے اب تک باہر نہیں نکلا تھا۔ "اُس" کا صدمہ تین مہینے گزرنے کے باوجود دل پر یوں نشتر چلاتا رہتا تھا جیسے یہ کوئی کل ہی کی بات ہے۔ یہی وجہ تھی کہ میرا کسی بھی چیز میں دل ٹکتا نہیں تھا۔ ہر معاملے میں جائے فرار تلاشتا رہتا تھا۔ لیکن اس نور مجسم کو دیکھ کر میرے چہرے پر چھائی برسوں کی پژمژگی اور افسردگی لمحے کے ہزارویں حصے میں ہی شادابی اور ترو تازگی میں بدل گئی۔ دل کے نہاں خانے سے ایک آواز آئی کہ اس مرتبہ پچھلی بار جیسا کوئی شاک مجھے نہیں لگنے والا۔ میں اتنا پر اعتماد تھا کہ اس بات کی تصدیق کی بھی ضرورت محسوس نہ کی۔ وہ تو ابھی خود "بچی" تھی اس کے بچے بھلا کیسے ہوسکتے تھے؟ اور کچھ ہی دیر میں میرا اندازہ بالکل درست ثابت ہوا۔ اس توثیق کے بعد میرے انگ انگ سے جو خوشی پھوٹ رہی تھی اسے سب کی نظروں سے چھپانا میرے لیے کتنا مشکل ثابت ہوا تھا یہ مجھے ابھی تک یاد ہے۔

آتشی گلابی لانگ شرٹ اور پاجامے پر تھوڑے تھوڑے فاصلے سے کڑھائی کیے ہوئے گہرے سبز پھول اور سر پر تھوڑا پیچھے کی جانب قرینے سے رکھے گئے میچنگ کے دوپٹے نے لڑکی کے حسن و معصومیت کو اور جلا بخشی تھی۔ اس کے آنچل کے پس منظر سے جھلکتے خوب صورت سیاہ بالوں کا نظارہ کرکے مجھے محسن نقوی یاد آگئے۔ آہ! کیا ہی بات تھی ان کی۔ جو لکھتے تھے وہ امر ہوجاتا تھا۔

لہرائے سدا آنکھ میں پیارے ترا آنچل
جھومر ہے ترا چاند ستارے ترا آنچل
لپٹے کبھی شانوں پہ، کبھی زلف سے کھیلے
کیوں ڈھونڈتا رہتا ہے، سہارے ترا آنچل
اب تک مری یادوں میں ہے رنگوں کا تلاطم
دیکھا تھا کبھی جھیل کنارے ترا آنچل
مہکیں تری خوشبو سے دہکتی ہوئی سانسیں
جب تیز ہوا خود سے اتارے ترا آنچل
آنچل میں رچے رنگ نکھاریں تری زلفیں
الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے ترا آنچل
اس وقت توتلی کی طرح دوشِ ہوا پر
اس وقت کہاں بس میں ہمارے ترا آنچل

اس نئی لڑکی کو چھوڑ کر دو لڑکیوں اور تین لڑکوں پر مشتمل گروپ کے کلاس ٹائمنگز باہمی مشورے سے تین سے پانچ طے پائے گئے تھے۔ وہ لڑکی چار تا چھ والے بیج میں داخل ہوئی تھی۔ اس لیے ایک گھنٹہ ہی سہی مگر اس کے ساتھ کچھ وقت بتانے کا موقع ضرور مل رہا تھا۔ یوں ایک گھنٹے بعد ہماری تعداد ایک خوب صورت اور دلکش اضافے سے چھ کا ہندسہ عبور کرلیتی تھی۔ مگر میرے لیے دکھ کی بات یہ تھی کہ ہمیں جتنا لڑنا جھگڑنا اور بحث و مباحثے کا بازار گرم کرنا ہوتا تھا وہ چار سے پہلے پہلے کرلیا کرتے تھے۔ گھڑی کی چھوٹی سوئی جیسے ہی چار بجنے کا اعلان کرتی۔ مجھے لگتا میرے دل کے ارمانوں پر کسی نے اسی گھڑی کے بڑے کانٹے سے بڑی بے دردی سے وار کیے ہیں۔ اگلا گھنٹہ گرامر کا ہوتا جو اس کی موجودگی میں چپ چاپ صرف سماعت میں ہی گزر جاتا تھا۔ اس طرح کبھی اس سے بات کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ میں نے باتوں باتوں میں کئی بار کلاس ٹیچر اور دوسرے ساتھیوں سے ترتیب کی اس الٹ پھیر کی کوشش کی لیکن کسی نے میرا ساتھ نہ دیا۔ مجبورا میں نے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور دل کے ساتھ سمجھوتے کی کوئی صورت نکالنے ہی والا تھا کہ ایک دن قسمت مجھ پر اس طرح مہربان ہوئی کہ مجھے خود پر رشک آنے لگا۔

ہوا یوں کہ مجھے چھوڑ کر گروپ کے باقی پانچ ساتھیوں نے ایک ساتھ ہی سینٹر کا بائیکاٹ کردیا۔ بائیکاٹ کیا کیا ہمیشہ کے لیے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ ویسے یہ کچھڑی تو گزشتہ ایک مہینے سے پک رہی تھی جس میں میں بھی پوری طرح پیش پیش تھا۔ لیکن آنا فانا اس کو چولہے سے اتار کر مل بانٹ کے کھالیا جائے گا اس کا ادراک مجھے بھی نہ تھا۔ پورا گروپ یہاں کے طریقہء تدریس اور کورس آؤٹ لیٹ سے مطمئن نہ تھا۔ وہ صرف اپنی فیس پوری کررہا تھا اور جیسے ہی اگلے مہینے کی پہلی تاریخ شروع ہونی تھی سب کو ایک ساتھ ادارہ چھوڑدینا تھا۔ مجھ سے جب اگلے دن رابطہ کرکے معاہدہ یاد دلایا گیا تو میں نے ساتھ دینے سے صاف انکار کردیا اور وجہ یہ بتائی کہ جب میں نے ایک چھوٹی سی مدد سب سے مانگی تھی تو کسی نے میرے ساتھ قدم نہیں بڑھایا۔ اس سے مجھے تم لوگوں کی وفاداری کا امتحان مقصود تھا۔ جس میں تم ناکامیاب رہے۔ اپنی دانست میں میں نے ان کو بڑا جاندار جواب دیا۔ لیکن اصل "وجہ" کیا تھی اس سے میرے علاوہ اور کوئی واقف نہ تھا۔

اب تین بجے کی کلاس میں میں اکیلا ہوا کرتا تھا۔ اس لیے گرامر کی کلاس کو ڈسکشن کی کلاس پر مقدم ہونا ہی تھا۔ میرا دل بلیوں اچھلنے لگا۔ ایک گھنٹہ گرامر پڑھنے کے بعد جب چار بجے ڈیبیٹ کا آغاز ہوتا تو اس کے اور میرے علاوہ گفتگو میں حصہ لینے والا اور کوئی نہ ہوتا۔ استاذ صاحب ہماری باڈی لینگوج اور زبان و بیان کے خد و خال کا جائزہ لیتے رہتے اور بیچ بیچ میں جہاں ضرورت محسوس کرتے لقمہ دے دیتے۔
وہ دن بڑے ہی سہانے اور پر لطف تھے۔ محض دو دن کی ہلکی پھلکی باتوں سے ہماری بڑی اچھی اور گہری دوستی ہوگئی تھی۔ میری طبیعت میں حس ظرافت بہت نمایاں تھی۔ اس لیے میرے بیشتر چٹکلوں پر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑتی تھی۔ اور جہاں اس کی یہ معصوم ہنسی مجھ پر منڈلائے تفکرات اور مایوسی کے گہرے سیاہ بادل میں بھی امیدوں کی ضیا کا پیغام لے کر آتی تھی وہاں اس کی مدح سرائی میں مجھ پر پتہ نہیں کب کے پڑھے ہوئے اشعار کا نزول شروع ہوجاتا تھا۔ ان لا تعداد اشعار میں سے ایک دلفریب قطعہ یہ تھا جو میں اکثر گنگناتا رہتا تھا۔

تم جو ہنستی ہو تو پھولوں کی ادا لگتی ہو
اور چلتی ہو تو اک باد صبا لگتی ہو
دونوں ہاتھوں میں چھپا لیتی ہو اپنا چہرہ
مشرقی حور ہو، دلہن کی حیا لگتی ہو
کچھ نہ کہنا مرے کاندھے پہ جھکا کے سر کو
کتنی معصوم ہو، تصویر وفا لگتی ہو
میں نے محسوس کیا تم سے دو باتیں کرکے
تم زمانے میں، زمانے سے جدا لگتی ہو

لیکن مجھے خود پر تعجب اس وقت ہوا جب اتنی دوستی اور بے تکلفی کے باوجود میں اس سے کبھی اس کے نمبر کا تقاضا نہیں کرسکا۔ اپنے طور پر فیس بک پر ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن اس میں بھی ناکامی نے میرا منہ چڑایا۔ مگر۔۔۔۔۔۔

میری خوش قسمتی نے یہاں پھر میرا ساتھ دیا۔ میری محبوبہ نے ایک دن خود ہی انگلش ٹاپکس پر ڈسکشن کی غرض سے مجھ سے میرا نمبر لے لیا۔ میری حالت اس وقت ایسی تھی گویا ہفت اقلیم کی دولت نصیب ہوگئی ہو۔ اب جو لینگوج سینٹر آف ہونے کے بعد سے ہماری باتیں شروع ہوتی تو رات بارہ ایک بجے تک چلتی رہتی۔ اور ہفتہ اتوار کی چھٹیوں میں بھی یہی معمول تھا۔ بس فرق صرف اتنا تھا کہ شام کے بجائے ہم صبح سے ہی اپنی دنیا میں مگن ہوجاتے۔

جانبین سے ایس ایم ایس اور کالز کے نت نئے پیکیجز کرا کرا کے آج ہماری "ملاقاتوں" کو پورا ایک ہفتہ ہوگیا تھا۔ اس دوران نجانے کائنات اور اس کے رنگ و بو سے متعلق کتنے ہی موضوعات ہمارے زیر بحث آئے ہوں گے لیکن اس کے باوجود میں کبھی اتنی ہمت بھی نہ کرسکا کہ اپنی معشوقہ کو کوئی چھٹی والے دن کسی ریسٹورنٹ میں لنچ یا ڈنر کی آفر کرسکوں۔ لیکن اس دن میری حیرت کی انتہا تب نہ رہی جب اس نے مجھ سے پوچھا:

"تمہاری کوئی گرل فرینڈ ہے؟"

"یہ یونی ورسٹی کی لڑکیاں واقعی بہت تیز ہوتی ہیں۔ مشکل سے مشکل بات بھی بڑی آسانی سے کرلیتی ہیں۔ چلو اب پہلے اظہار محبت بھی اسی سے کرواؤں گا۔"

یہ وہ پہلا متحیر تبصرہ اور آگے کا لائحہ عمل تھا جو میں نے اس کا سوال پڑھنے کے بعد طے کیا تھا۔

دھک دھک کرتے دل کے ساتھ میں نے بھی بالآخر کھل کر جواب دے ہی دیا۔

"نہیں! ابھی تو ساری سیٹیں خالی ہے۔ تم کروگی حکومت میرے دل کے تخت و تاج پر؟ بنوگی میری گرل فرینڈ؟

"ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔"

جوابی ایس ایم ایس کے طور پر یہ قہقہہ موصول ہوا۔ جوابا میں بھی مسکرادیا اور ابھی کچھ لکھنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اگلا ٹیکسٹ موصول ہوا۔ جو میرے لیے کسی طرح بھی ایک دل دوز دھماکے سے کم ثابت نہیں ہوا۔

" ارے تم تو ابھی بچے ہو۔ مجھ سے بھی تین سال چھوٹے ہو۔ میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہو۔ پتہ ہے میرا سب سے چھوٹا بھائی بھی تم سے بڑا لگتا ہے۔ ہاہاہاہاہا! اصل میں تم بہت اچھے ہو۔ بہت مزے مزے کی باتیں کرتے ہو۔ دل سے میری ہیلپ بھی کرتے ہو۔ اس لیے تمہارے ساتھ اچھا ٹائم پاس ہوجاتا ہے میرا۔"

مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ مجھے شال میں لپیٹ کر جوتا مار رہی ہے۔ وہ اپنی دھن میں کہے جارہی تھی اور اس کے الفاظ آلہء قتل بن کر بڑی بے رحمی سے میرے ارمانوں کا خون کر رہے تھے۔​
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت خوبصورت ۔۔۔۔۔ اعلیٰ ۔۔۔ ایک بات تو بتائیں۔۔۔ یہ آپ چن چن کر پرایا مال کیوں ڈھونڈتے ہیں۔۔۔۔ کیا آپ کا تعلق بھی لینڈ مافیا سے ہے۔۔۔۔ :p
 

x boy

محفلین
بہت مزا آیا پڑھ کر،،،
بہت شکریہ جناب

اگر لڑکی۔۔۔۔ لڑکےکی طرف سے اظہار محبت کے وقت ہی یہ کہہ دے کہ والدین کو رشتے کیلئےبھیجو، میں نہ موبائل پر بات کروں گی اور نہ ہی باہر گھومنے جاؤں گی تو یقین مانیئے پاکستان کے 90فیصد نوجوانوں کے سر سے سچے عشق کا بھوت اتر جائے گا۔
از:
zaryab sheikh
 

عبد الرحمن

لائبریرین
شروع میں پہ در پہ اتنے معجزات رو نما ہو رہے تھے کہ کسی بڑے دھماکے کا انتظار ہی اخیر تک کھینچ لایا۔ :) :) :)
اخیر کی کیفیات بھی تو قلم بند کرنی چاہیے تھی نا! کیا میری طرح آپ نے بھی ایک سرد آہ بھری تھی؟ :)
 
آخری تدوین:

عبد الرحمن

لائبریرین
بہت خوبصورت ۔۔۔۔۔ اعلیٰ ۔۔۔ ایک بات تو بتائیں۔۔۔ یہ آپ چن چن کر پرایا مال کیوں ڈھونڈتے ہیں۔۔۔۔ کیا آپ کا تعلق بھی لینڈ مافیا سے ہے۔۔۔۔ :p
میرا تعلق "اینٹی لینڈ مافیا" سے ہے مسٹر! اس کے علاوہ میں "تحفظ حقوق نسواں" انجمن کا بانی و سربراہ بھی ہوں۔ :p
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
میرا تعلق "اینٹی لینڈ مافیا" سے ہے مسٹر! اس کے علاوہ میں "تحفظ حقوق نسواں" انجمن کا بانی و سربراہ بھی ہوں۔ :p
شدید ترین معلوماتی۔۔۔۔ جبکہ میرا خیال ہے آپ صرف نسواں کے سربراہ بننا چاہ رہے ہیں۔۔۔ حقوق بھی ایک اچھا اضافہ ہے۔۔۔۔ :p
 
Top