زین
لائبریرین
ص۸۰
انہوں نے کچھ فخریہ لہجے میں شاید اسی نیت سے کہا کہ میں ان سے تعجب سے پوچھوں کہ صاحب بندروں نے کیا خطا کی جو ان کے سر کے ساتھ یہ چنگیزی کارروائی کی گئی۔۔۔۔اور جب وہ کچھ مناسب وجوہ پیش کریں تو ان کی معلومات پر دنگ رہ جاﺅں ۔ شاید انہوں نے اسی خیال سے کہا۔
”جی ہاںبندر !۔۔۔۔بندروں کے سر ۔ “مگر میری خاموشی سے ان کی امید منقطع ہوگئی۔ تو وہ خود ہی بولے ۔ ” آپ کو نہیں معلوم ۔۔۔ میں دراصل فن باغبانی پر ایک کتاب لکھ رہا ہوں۔ بات یہ ہے کہ بندر کے سر کی کھاد انگور کے لیے لاجواب ہے ۔“
میں بھلا کیا کہتا۔ دل میں سوچ رہا تھا کہ آئندہ انگور اگر ملیں تو کھاﺅں یا نہ کھاﺅں۔ باغبانی کا تذکرہ چھوڑ کر انہوں نے کہا ۔
”وہ دیکھو وہ پرسی کی قبر ہے ۔“ انگلی اٹھا کر انہوں نے ایک چوکھونٹے چبوترے کی طرف مجھے دکھادیا۔
انگریزوں کی قبریں میں پہلے بھی دیکھ چکا تھا۔ کوئی نئی بات نہ تھی۔ پر سی ہاں اس نام سے بھی واقف تھا ۔ جو بھی اخبار پڑھتے رہے ہیں وہ سر پرسی کا کس‘ ہائی کمشنر عراق کے نام اور ان کے تدبر اور پالیسی سے واف ہیں۔ مگر یہاں ان کی قبر کیسی ؟ ان کے کوئی عزیز ہوں گے۔ میں نے بجائے سوال کرنے کے حسب عادت دل میں یہ کہہ کر اطمینان کرلیا ۔ ہم برآمد ے کے پاس پہنچ رہے تھے ۔ گاڑی بالکل آہستہ آہستہ چل رہی تھی ‘ وہ اسی طرح بولے ۔
” مجھے پرسی کے مرنے کا بہت افسوس ہوا اور ایک روز میں نے کھانا نہیں کھایا۔“
مجھے قطعی یقین ہوگیا کہ ان کی مسٹر پرسی س دوستی ہوگی۔ اتنے میں‘ میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا کتا دوڑتا ہوا گاڑی کے پاس پہنچا۔ بنگلہ ابھی بہت دور تھا مگر یہ مالک کے استقبال کو آیا تھا ۔ میں غور سے دیکھ رہا تھا کہ یہ کٹ کھنا کہاں تک ہوسکتا ہے کہ وہ بولے :
یہ دیکھئے یہ غریب رہ گیا اور پرسی مر گئی۔ بڑی لا جواب کتیا تھی۔
ادھر میں متعجب تھا اور ادھر وہ تعریف کے لہجہ میں کہنے لگے ۔ ”آ پ یہ خیال کیجئے کہ اتنی سی کتیا تھی مگر اکیلی بلی کار مار ڈالتی تھی اور پھر تعریف ایک اور بھی تھی ‘ وہ یہ کہ اگر کہیں کوئی اجنبی بنگلے کے احاطہ مین نظر پڑ جائے تو بس اس کی خبر ہی تو لے ڈالتی تھی ۔“
میں چوکنا ہوا ۔ دل میں ‘ میں نے کہا کہ اچھا ہو اکہ پرسی مر گئی اور آج نہ ہوئی۔ پھر غور کیا کہ یہ کتا بھی تو اسی کے ساتھ ہے ! میں جناب کتوں سے بہت ڈرتا ہوں اور بالخصوص ان نالائق کتوں سے جو حالانکہ کٹ کھنے نہ ہوں مگر دوڑ پڑتے ہیں اور تمام ہوش و حواس زائل کرکے اکثر گرادیتے ہیں۔ میں نے پرسی کی قبر کی طرف اطمینان س نظر ڈالی اور پھر اس کتے کو یعنی
ص۸۱
پرسی مرحومہ کے شوہر کو دیکھا۔ اتنے میں گاڑی برآمدے سے آکر لگی اور میں نے دیکھا کہ ایک خوف ناک بل ڈاگ انگڑائی لے کر اٹھا ۔ اتنے میں ہم دونوں اتر پڑے ۔چھوٹا کتا تو دم ہلاکر مالک کے قدموں میں لوٹ رہا تھا‘ مگر یہ سنجیدہ بزرگ یعنی بل ڈاگ صاحب میری روح قبض کرنے میں مشغول ہوگئے ۔ یعنی برآمدہ سے اتر کر انہوں نے مجھے سونگھا ۔ میری سانس رک گئی اور چہرے پر ایسی ہوائیاں اڑنے لگیں کہ انہوں نے محسوس کیا اور مسکرا کر کہا ۔ ”اجی یہ تو وہی پرانا نامی ہے ۔ بس صورت ہی ڈراﺅنی ہے ۔ کاٹتا تو کم بخت جانتا ہی نہیں۔ بہت کیا اس نے اور بڑی بہادر دکھائی تو بس لپٹ جاتا ہے ۔۔۔“انہوں نے میری سراسیمگی پر ایک قہقہ لگایا۔ کیونکہ میں پھاند کر گاڑی میں پہنچ چکا تھا۔ ”لاحول ولاقوة ۔ تمہارا کتوں سے ڈرنا نہ گیا۔ یہ تو وہی پرانا نامی ہے ۔“ یہ کہتے ہوئے انہوں نے مجھے ہاتھ پکڑ کر گاڑی سے اتارا اور مجھے تیزی سے بے تکلف کمرے میں داخل ہونا پڑا۔ خوش قسمتی سے کتوں نے ایک گلہری کو پایا جس کے پیچھے وہ ایسے دوڑ کہ نظروں س اوجھل ہوگئے۔ میں اطمینان کا سانس لیا۔
(3)
پہنچتے ہی انہوں نے آواز دی۔ ”کھانا لاﺅ۔“ خدا خیر کرے۔میں نے دل میں کہا کہ یہ کھانے کا کون سا وقت ہے ۔ بہت جلد ہاتھ دھوئے گئے ‘ انکار وہ کا ہے کو مانتے‘ میں نے بھی کہا
این ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر
کھانے کی میز پر گرم کیا ہوا پلاﺅ‘ شامی کباب ‘ انڈوں کا قورمہ اور دوسرے کھانے تھے ۔ میں رکابی کے ایک طرف کے چاول اٹھا کر دوسری طرف رکھ کر ٹیلا سا بنانے میں مشغول ہوا اور انہوں نے تیزی سے چاول کھانا۔۔۔نہیں میں نے غلط کہا بلکہ پینا شروع کئے۔ شاید وہ چبانا نہ جانتے تھے یا چاولوں کو چبانے کی چیز نہ خیال کرتے تھے۔ ”عارف میاں کہاں ہیں؟“ چلا کر ملازم س انہوں نے کہا کہ”ان کو جلدی بلاﺅ۔“ اور میری طرف مسکر کر کہا۔ ”تمہارا بھتیجا تو آیا نہیں۔ نہا رہا ہوگا۔ ورنہ وہ ضرور میرے ساتھ کھانا کھاتا ہے ۔“
آپ یقین مانیں کہ میں نے ادھر ادھر بھاگنے کی نیت سے دیکھا ۔ بھتیجا! یہ لفظ بھتیجا میرے لیے لفظ شیر سے کم نہ تھا۔ جس کے ایک نہ دو بلکہ سگے سوتیلے ملاکر ساڑھے چودہ بھتیجے ہوں ‘ اس سے پوچھئے کہ ایسی دنیا اچھی یا دوزخ؟ وللہ اعلم گنہگاروں کی ایذارسانی کے لیے وہاں بھتیجے بھی ہوں گے یا نہیں۔ اگر میرے بھتیجے جنت میں گئے تو دوزخ کی زندگی کو بدر جہا پر سکون اور جائے پناہ تصور کروں گا۔ میں یہ کہنے میں مبالغے سے کام نہیں لیتا کیونکہ چودہ پندرہ بھتیجے اور سب ایک جگہ رہتے ہوں تو غریب چچا کا جو حا ل ہوگا اس کا اندازہ خود لگالیجئے۔ ویسے ہی کیا کم میری جان گھر کے پندرہ بھتیجوں نے مصیبت میں ڈال رکھی تھی جو یہ ایک اور نکلا!!! کوئی خودکشی کرتا تو میں
ص۸۲
معلوم کرنے کی کوشش کی کوشش کرتا کہ اس کے کتنے بھتیجے ہیں ۔ ایک ہو تو ہو ورنہ دو ہونے کی صورت میں مجھ کو خودکشی کرنے کی وجہ معلوم کرنے میں دیر نہیں لگتی تھی۔ لفظ بھتیجا کے کچھ بھی معنی ہوں مگر میری دانست میں ملک الموت یا جہنم کے سیکرٹری کا نام بھی بھتیجا ہونا چاہیے۔ میں اس فلسفے پر غور کررہا تھا کہ وہ بولے ۔ ”تمہارے کتنے بچے ہیں۔“
میں اس کا کیا جواب دیتا کیونکہ میری شادی ہی نہیں ہوئی ہے لیکن شاید ان کو جواب کی ضرورت ہی نہ تھی ‘ کیونکہ فوراً ہی انہوں نے بغیر میرے جواب کا انتظار کئے ہوئے کہا :
”تمہاری بیوی کہاں ہیں؟ تمہارے کتنے بچے ہیں؟ “ انہوں نے بہت زور دے کر پوچھا۔
”تمہارے بچے ہیں؟“
مجبوراً مجھے واقعہ بیان کرنا پڑا ” ایک بھی نہیں۔“
چاول کا بڑا سا لقمہ جو انہوں نے منہ میں رکھا ہی تھا۔”ارے“ کے ساتھ نگل کر بولے ۔ ”ارے ۔۔۔دونوں۔۔۔۔دونوں بچارے ۔۔۔ یہ آکر کب ؟ ۔۔۔۔ بھئی بات تو یہ ہے کہ خدا اگر بچے دے تو زندہ رہیں ‘ ورنہ ان کا ہونا اور پھر مر جانا تو ۔۔۔۔خدا کی پناہ ۔۔۔“
وہ شاید مجھ سے ہمدردی کررہے تھے اور انہوں نے کہا ۔۔”تمہاری بیوی کا نہ معلوم کیا حال ہوگا۔“
آپ خود خیال کیجئے کہ مجھے بھلا کیا معلوم کہ وہ لڑکی کس حال میں ہوگی جو آئندہ چل کر میری بیوی ہوگی اور میں خود مجبور تھا تو بھلا ان کو کیا بتاتا کہ اس کا کیا حال ہوگا کہ اسی دوران وہ آگیا! کون! اجی وہی ملک الموت یا جہنم کا سیکرٹری یعنی میرا منہ بولا بھتیجا عارف۔ میں گھبرایا کیونکہ تیر کی طرح ”پاپا! پاپا!!“ کا نعرہ مارتا چلا آرہا تھا۔ میں سنبھل کر بیٹھا اور مدافعت کی صورتوں اور امکانات پر غور کرنے لگا کہ اس کا رخ بدل گیا ۔ وہ انے پاپا پر گرا اور تیزی س وہ بھی پلاﺅ پینے میں مشغول ہوگیا۔۔۔“
والد بزرگوار نے فرزند ارجمند سے کہا : ”تم نے چچا کو نہ تو سلام کیا اور نہ ٹاٹا کیا“ ٹاٹا۔۔۔ٹاٹا“ کئی مرتبہ پھر تقاضا کیا۔۔” سلام کرو‘ ٹاٹا کرو۔۔۔سلام کرو“ با الفاظ دیگر مجھ سے تقاضا ہورہا تھا کہ مگر حضرت مجھ سے یہ ریا کاری ہونا نا ممکن تھی ۔ایک تو ویسے ہی خاموش آدمی تھی ( اب نہیں)۔۔۔ اور حتیٰ الامکان بغیر بات چیت کئے کام نکالنا چاہتا تھا اور پھر ویسے بھی بھتیجوں کو دعا دینے کے خلاف‘ یہ نہ خیال کیجئے گا کہ میں خدا نخواستہ چاہتا تھا کہ وہ مر جائیں‘ اجی ہزار برس زندہ رہیں مگر میری دعا سے بے نیاز رہیں تو بہتر۔ بارہا کے تقاضے سے تنگ آکر آخر بھتیجے صاحب نے میری چھاتی پر مونگ دال ہی ڈالی۔ یعنی اپنا سیدھا ہاتھ جو پلاﺅ کے گھی میں تربتر تھا میرے گھٹنے پر رکھ کر اپنا بایا ہاتھ ٹاٹا کے لیے بڑھادیا۔ میں دم بخود رہ گیا۔ اپنے صاف پتلون پر چکنائی کا
ص۸۳
دھبہ دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔ کیونکہ میرے پاس یہی ایک اچھا پتلون تھا جو بھتیجوں کی دستبرد سے اب تک نہ معلوم کس طرح محفوظ تھا۔ ادھر تو میں نے چاولل گھٹنے پر سے صاف کئے اور ادھر انہوں نے کہا ۔ ” ہائیں الٹے ہاتھ سے ۔“ کاش کہ وہ حضرت بھتیجے صاحب پیشتر ہی ٹاٹا(مصافحہ )کے لیے داہنا ہاتھ بڑھاتے اور بایاں شوق سے میرے گھٹنے کیا گلے پر رکھ لیتے۔ میں نے جبراً و قہراً ہاتھ ملایا اور دل میں کہا ۔”ظالم‘ تو نے مجھے بے موت مارا۔ میرے پاس ایک ہی پتلون تھا جس کو تونے یو خراب کیا۔“
(4)
میں اطمینان کا سانس لیا ۔ جب یہ عزیز از جان بھتیجا یہ کہہ کر کھانا چھوڑ کر ایک دم سے بھاگا۔”بلا بلا۔ “ یا تو وہ تیز دوڑتا ہی ہوگا‘ یا پھر یہ روایت بالکل صحیح ہے کہ لاحول پڑھنے شیطان بری طرح بھاگتا ہے ۔ میں لاحول پڑھ رہا تھا اور اس کے اثر کا دل ہی دل میں قائل ہورہا تھا۔
”آپ نے ہڈی کی تجارت آخر کیوں چھوڑ دی؟“ انہوں نے ایک ہڈی کا گودا نکالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔
قارئین ذرا غور کریں کہ ہڈی کی تجارت کو میں چھوڑتا تو تب جب کہ اگر میں نے کبھی یہ تجارت شروع کی ہوتی۔ کہنے کو ہوا کے کہوں کہ ” حضرت مجھ کو بھلا ہڈی کی تعلق سے کیا تعلق؟ “ مگر توبہ کیجئے وہ اپنے تمام سوالات کا جواب شروع ہی سے خود دے رہے تھے ‘ یا پھر جواب کا بغیر انتطار کئے ہوئے دوسرا سوال کردیتے تھے۔ مجھے بھلا کوئی زریں موقع کیوں دیتے جو میں خلاصی پاتا ۔ قبل اس کے کہ میں نوالہ ختم کرکے کہوں۔ انہوں نے کہا :
” تجارت والا تو تجارت ہی کرتا ہے ۔ ہڈی کی نہ سہی پسلی کی سہی ۔“
یہ کہہ کر انہوں نے زور سے قہقہ لگایا میں ان کے حق کی گہرائی پر غور کررہا تھا کہ وہ ملک الموت آپہنچا۔۔۔ وہ موزی بلا ہاتھ میں لیے ہوئے چنگھاڑتا ہوا اور کھانا شروع کرنے کے بجائے بلے کی تلوار بناکر پینترے بدل بدل کر رقص کرنے لگا۔ وہ گویا بنوٹ کے ہاتھ نکال رہا تھا! میرے میزبان یا یو کہئے کہ سیاد وہ چاول پینے کی بجائے اگر کہیں کھانے کے عادی ہوتے تو ہنسی کی وجہ سے ضرور ان کے گلے میں پھندا پڑ جاتا‘ کیونکہ ان کی دانست میں کھانا کھانے میں ہنسی مخل نہیں ہوسکتی تھی۔ وہ خوب ہنس رہے تھے۔ کہنے لگے کہ ”بخدا اس شریر کو دیکھئے۔“ میں اس کا کیا جواب دیتا کیونکہ دیک ہی رہا تھا اور جانتا تھاکہ جو دم گزر رہا ہے وہ غنیمت ہے ۔ بنوٹ کا قاعدہ ہے کہ سارا کھیل بس نظر کا ہوتا ہے ۔ غنیم سے جب تک آنکھ ملی رہے یا غنیم کے حرکات پر جب تک نظر جمی رہے اس وقت تک خیر ہے ورنہ ادھر آنکھ جھپکی اور ادھر پٹائی۔ یہ
انہوں نے کچھ فخریہ لہجے میں شاید اسی نیت سے کہا کہ میں ان سے تعجب سے پوچھوں کہ صاحب بندروں نے کیا خطا کی جو ان کے سر کے ساتھ یہ چنگیزی کارروائی کی گئی۔۔۔۔اور جب وہ کچھ مناسب وجوہ پیش کریں تو ان کی معلومات پر دنگ رہ جاﺅں ۔ شاید انہوں نے اسی خیال سے کہا۔
”جی ہاںبندر !۔۔۔۔بندروں کے سر ۔ “مگر میری خاموشی سے ان کی امید منقطع ہوگئی۔ تو وہ خود ہی بولے ۔ ” آپ کو نہیں معلوم ۔۔۔ میں دراصل فن باغبانی پر ایک کتاب لکھ رہا ہوں۔ بات یہ ہے کہ بندر کے سر کی کھاد انگور کے لیے لاجواب ہے ۔“
میں بھلا کیا کہتا۔ دل میں سوچ رہا تھا کہ آئندہ انگور اگر ملیں تو کھاﺅں یا نہ کھاﺅں۔ باغبانی کا تذکرہ چھوڑ کر انہوں نے کہا ۔
”وہ دیکھو وہ پرسی کی قبر ہے ۔“ انگلی اٹھا کر انہوں نے ایک چوکھونٹے چبوترے کی طرف مجھے دکھادیا۔
انگریزوں کی قبریں میں پہلے بھی دیکھ چکا تھا۔ کوئی نئی بات نہ تھی۔ پر سی ہاں اس نام سے بھی واقف تھا ۔ جو بھی اخبار پڑھتے رہے ہیں وہ سر پرسی کا کس‘ ہائی کمشنر عراق کے نام اور ان کے تدبر اور پالیسی سے واف ہیں۔ مگر یہاں ان کی قبر کیسی ؟ ان کے کوئی عزیز ہوں گے۔ میں نے بجائے سوال کرنے کے حسب عادت دل میں یہ کہہ کر اطمینان کرلیا ۔ ہم برآمد ے کے پاس پہنچ رہے تھے ۔ گاڑی بالکل آہستہ آہستہ چل رہی تھی ‘ وہ اسی طرح بولے ۔
” مجھے پرسی کے مرنے کا بہت افسوس ہوا اور ایک روز میں نے کھانا نہیں کھایا۔“
مجھے قطعی یقین ہوگیا کہ ان کی مسٹر پرسی س دوستی ہوگی۔ اتنے میں‘ میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا کتا دوڑتا ہوا گاڑی کے پاس پہنچا۔ بنگلہ ابھی بہت دور تھا مگر یہ مالک کے استقبال کو آیا تھا ۔ میں غور سے دیکھ رہا تھا کہ یہ کٹ کھنا کہاں تک ہوسکتا ہے کہ وہ بولے :
یہ دیکھئے یہ غریب رہ گیا اور پرسی مر گئی۔ بڑی لا جواب کتیا تھی۔
ادھر میں متعجب تھا اور ادھر وہ تعریف کے لہجہ میں کہنے لگے ۔ ”آ پ یہ خیال کیجئے کہ اتنی سی کتیا تھی مگر اکیلی بلی کار مار ڈالتی تھی اور پھر تعریف ایک اور بھی تھی ‘ وہ یہ کہ اگر کہیں کوئی اجنبی بنگلے کے احاطہ مین نظر پڑ جائے تو بس اس کی خبر ہی تو لے ڈالتی تھی ۔“
میں چوکنا ہوا ۔ دل میں ‘ میں نے کہا کہ اچھا ہو اکہ پرسی مر گئی اور آج نہ ہوئی۔ پھر غور کیا کہ یہ کتا بھی تو اسی کے ساتھ ہے ! میں جناب کتوں سے بہت ڈرتا ہوں اور بالخصوص ان نالائق کتوں سے جو حالانکہ کٹ کھنے نہ ہوں مگر دوڑ پڑتے ہیں اور تمام ہوش و حواس زائل کرکے اکثر گرادیتے ہیں۔ میں نے پرسی کی قبر کی طرف اطمینان س نظر ڈالی اور پھر اس کتے کو یعنی
ص۸۱
پرسی مرحومہ کے شوہر کو دیکھا۔ اتنے میں گاڑی برآمدے سے آکر لگی اور میں نے دیکھا کہ ایک خوف ناک بل ڈاگ انگڑائی لے کر اٹھا ۔ اتنے میں ہم دونوں اتر پڑے ۔چھوٹا کتا تو دم ہلاکر مالک کے قدموں میں لوٹ رہا تھا‘ مگر یہ سنجیدہ بزرگ یعنی بل ڈاگ صاحب میری روح قبض کرنے میں مشغول ہوگئے ۔ یعنی برآمدہ سے اتر کر انہوں نے مجھے سونگھا ۔ میری سانس رک گئی اور چہرے پر ایسی ہوائیاں اڑنے لگیں کہ انہوں نے محسوس کیا اور مسکرا کر کہا ۔ ”اجی یہ تو وہی پرانا نامی ہے ۔ بس صورت ہی ڈراﺅنی ہے ۔ کاٹتا تو کم بخت جانتا ہی نہیں۔ بہت کیا اس نے اور بڑی بہادر دکھائی تو بس لپٹ جاتا ہے ۔۔۔“انہوں نے میری سراسیمگی پر ایک قہقہ لگایا۔ کیونکہ میں پھاند کر گاڑی میں پہنچ چکا تھا۔ ”لاحول ولاقوة ۔ تمہارا کتوں سے ڈرنا نہ گیا۔ یہ تو وہی پرانا نامی ہے ۔“ یہ کہتے ہوئے انہوں نے مجھے ہاتھ پکڑ کر گاڑی سے اتارا اور مجھے تیزی سے بے تکلف کمرے میں داخل ہونا پڑا۔ خوش قسمتی سے کتوں نے ایک گلہری کو پایا جس کے پیچھے وہ ایسے دوڑ کہ نظروں س اوجھل ہوگئے۔ میں اطمینان کا سانس لیا۔
(3)
پہنچتے ہی انہوں نے آواز دی۔ ”کھانا لاﺅ۔“ خدا خیر کرے۔میں نے دل میں کہا کہ یہ کھانے کا کون سا وقت ہے ۔ بہت جلد ہاتھ دھوئے گئے ‘ انکار وہ کا ہے کو مانتے‘ میں نے بھی کہا
این ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر
کھانے کی میز پر گرم کیا ہوا پلاﺅ‘ شامی کباب ‘ انڈوں کا قورمہ اور دوسرے کھانے تھے ۔ میں رکابی کے ایک طرف کے چاول اٹھا کر دوسری طرف رکھ کر ٹیلا سا بنانے میں مشغول ہوا اور انہوں نے تیزی سے چاول کھانا۔۔۔نہیں میں نے غلط کہا بلکہ پینا شروع کئے۔ شاید وہ چبانا نہ جانتے تھے یا چاولوں کو چبانے کی چیز نہ خیال کرتے تھے۔ ”عارف میاں کہاں ہیں؟“ چلا کر ملازم س انہوں نے کہا کہ”ان کو جلدی بلاﺅ۔“ اور میری طرف مسکر کر کہا۔ ”تمہارا بھتیجا تو آیا نہیں۔ نہا رہا ہوگا۔ ورنہ وہ ضرور میرے ساتھ کھانا کھاتا ہے ۔“
آپ یقین مانیں کہ میں نے ادھر ادھر بھاگنے کی نیت سے دیکھا ۔ بھتیجا! یہ لفظ بھتیجا میرے لیے لفظ شیر سے کم نہ تھا۔ جس کے ایک نہ دو بلکہ سگے سوتیلے ملاکر ساڑھے چودہ بھتیجے ہوں ‘ اس سے پوچھئے کہ ایسی دنیا اچھی یا دوزخ؟ وللہ اعلم گنہگاروں کی ایذارسانی کے لیے وہاں بھتیجے بھی ہوں گے یا نہیں۔ اگر میرے بھتیجے جنت میں گئے تو دوزخ کی زندگی کو بدر جہا پر سکون اور جائے پناہ تصور کروں گا۔ میں یہ کہنے میں مبالغے سے کام نہیں لیتا کیونکہ چودہ پندرہ بھتیجے اور سب ایک جگہ رہتے ہوں تو غریب چچا کا جو حا ل ہوگا اس کا اندازہ خود لگالیجئے۔ ویسے ہی کیا کم میری جان گھر کے پندرہ بھتیجوں نے مصیبت میں ڈال رکھی تھی جو یہ ایک اور نکلا!!! کوئی خودکشی کرتا تو میں
ص۸۲
معلوم کرنے کی کوشش کی کوشش کرتا کہ اس کے کتنے بھتیجے ہیں ۔ ایک ہو تو ہو ورنہ دو ہونے کی صورت میں مجھ کو خودکشی کرنے کی وجہ معلوم کرنے میں دیر نہیں لگتی تھی۔ لفظ بھتیجا کے کچھ بھی معنی ہوں مگر میری دانست میں ملک الموت یا جہنم کے سیکرٹری کا نام بھی بھتیجا ہونا چاہیے۔ میں اس فلسفے پر غور کررہا تھا کہ وہ بولے ۔ ”تمہارے کتنے بچے ہیں۔“
میں اس کا کیا جواب دیتا کیونکہ میری شادی ہی نہیں ہوئی ہے لیکن شاید ان کو جواب کی ضرورت ہی نہ تھی ‘ کیونکہ فوراً ہی انہوں نے بغیر میرے جواب کا انتظار کئے ہوئے کہا :
”تمہاری بیوی کہاں ہیں؟ تمہارے کتنے بچے ہیں؟ “ انہوں نے بہت زور دے کر پوچھا۔
”تمہارے بچے ہیں؟“
مجبوراً مجھے واقعہ بیان کرنا پڑا ” ایک بھی نہیں۔“
چاول کا بڑا سا لقمہ جو انہوں نے منہ میں رکھا ہی تھا۔”ارے“ کے ساتھ نگل کر بولے ۔ ”ارے ۔۔۔دونوں۔۔۔۔دونوں بچارے ۔۔۔ یہ آکر کب ؟ ۔۔۔۔ بھئی بات تو یہ ہے کہ خدا اگر بچے دے تو زندہ رہیں ‘ ورنہ ان کا ہونا اور پھر مر جانا تو ۔۔۔۔خدا کی پناہ ۔۔۔“
وہ شاید مجھ سے ہمدردی کررہے تھے اور انہوں نے کہا ۔۔”تمہاری بیوی کا نہ معلوم کیا حال ہوگا۔“
آپ خود خیال کیجئے کہ مجھے بھلا کیا معلوم کہ وہ لڑکی کس حال میں ہوگی جو آئندہ چل کر میری بیوی ہوگی اور میں خود مجبور تھا تو بھلا ان کو کیا بتاتا کہ اس کا کیا حال ہوگا کہ اسی دوران وہ آگیا! کون! اجی وہی ملک الموت یا جہنم کا سیکرٹری یعنی میرا منہ بولا بھتیجا عارف۔ میں گھبرایا کیونکہ تیر کی طرح ”پاپا! پاپا!!“ کا نعرہ مارتا چلا آرہا تھا۔ میں سنبھل کر بیٹھا اور مدافعت کی صورتوں اور امکانات پر غور کرنے لگا کہ اس کا رخ بدل گیا ۔ وہ انے پاپا پر گرا اور تیزی س وہ بھی پلاﺅ پینے میں مشغول ہوگیا۔۔۔“
والد بزرگوار نے فرزند ارجمند سے کہا : ”تم نے چچا کو نہ تو سلام کیا اور نہ ٹاٹا کیا“ ٹاٹا۔۔۔ٹاٹا“ کئی مرتبہ پھر تقاضا کیا۔۔” سلام کرو‘ ٹاٹا کرو۔۔۔سلام کرو“ با الفاظ دیگر مجھ سے تقاضا ہورہا تھا کہ مگر حضرت مجھ سے یہ ریا کاری ہونا نا ممکن تھی ۔ایک تو ویسے ہی خاموش آدمی تھی ( اب نہیں)۔۔۔ اور حتیٰ الامکان بغیر بات چیت کئے کام نکالنا چاہتا تھا اور پھر ویسے بھی بھتیجوں کو دعا دینے کے خلاف‘ یہ نہ خیال کیجئے گا کہ میں خدا نخواستہ چاہتا تھا کہ وہ مر جائیں‘ اجی ہزار برس زندہ رہیں مگر میری دعا سے بے نیاز رہیں تو بہتر۔ بارہا کے تقاضے سے تنگ آکر آخر بھتیجے صاحب نے میری چھاتی پر مونگ دال ہی ڈالی۔ یعنی اپنا سیدھا ہاتھ جو پلاﺅ کے گھی میں تربتر تھا میرے گھٹنے پر رکھ کر اپنا بایا ہاتھ ٹاٹا کے لیے بڑھادیا۔ میں دم بخود رہ گیا۔ اپنے صاف پتلون پر چکنائی کا
ص۸۳
دھبہ دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔ کیونکہ میرے پاس یہی ایک اچھا پتلون تھا جو بھتیجوں کی دستبرد سے اب تک نہ معلوم کس طرح محفوظ تھا۔ ادھر تو میں نے چاولل گھٹنے پر سے صاف کئے اور ادھر انہوں نے کہا ۔ ” ہائیں الٹے ہاتھ سے ۔“ کاش کہ وہ حضرت بھتیجے صاحب پیشتر ہی ٹاٹا(مصافحہ )کے لیے داہنا ہاتھ بڑھاتے اور بایاں شوق سے میرے گھٹنے کیا گلے پر رکھ لیتے۔ میں نے جبراً و قہراً ہاتھ ملایا اور دل میں کہا ۔”ظالم‘ تو نے مجھے بے موت مارا۔ میرے پاس ایک ہی پتلون تھا جس کو تونے یو خراب کیا۔“
(4)
میں اطمینان کا سانس لیا ۔ جب یہ عزیز از جان بھتیجا یہ کہہ کر کھانا چھوڑ کر ایک دم سے بھاگا۔”بلا بلا۔ “ یا تو وہ تیز دوڑتا ہی ہوگا‘ یا پھر یہ روایت بالکل صحیح ہے کہ لاحول پڑھنے شیطان بری طرح بھاگتا ہے ۔ میں لاحول پڑھ رہا تھا اور اس کے اثر کا دل ہی دل میں قائل ہورہا تھا۔
”آپ نے ہڈی کی تجارت آخر کیوں چھوڑ دی؟“ انہوں نے ایک ہڈی کا گودا نکالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔
قارئین ذرا غور کریں کہ ہڈی کی تجارت کو میں چھوڑتا تو تب جب کہ اگر میں نے کبھی یہ تجارت شروع کی ہوتی۔ کہنے کو ہوا کے کہوں کہ ” حضرت مجھ کو بھلا ہڈی کی تعلق سے کیا تعلق؟ “ مگر توبہ کیجئے وہ اپنے تمام سوالات کا جواب شروع ہی سے خود دے رہے تھے ‘ یا پھر جواب کا بغیر انتطار کئے ہوئے دوسرا سوال کردیتے تھے۔ مجھے بھلا کوئی زریں موقع کیوں دیتے جو میں خلاصی پاتا ۔ قبل اس کے کہ میں نوالہ ختم کرکے کہوں۔ انہوں نے کہا :
” تجارت والا تو تجارت ہی کرتا ہے ۔ ہڈی کی نہ سہی پسلی کی سہی ۔“
یہ کہہ کر انہوں نے زور سے قہقہ لگایا میں ان کے حق کی گہرائی پر غور کررہا تھا کہ وہ ملک الموت آپہنچا۔۔۔ وہ موزی بلا ہاتھ میں لیے ہوئے چنگھاڑتا ہوا اور کھانا شروع کرنے کے بجائے بلے کی تلوار بناکر پینترے بدل بدل کر رقص کرنے لگا۔ وہ گویا بنوٹ کے ہاتھ نکال رہا تھا! میرے میزبان یا یو کہئے کہ سیاد وہ چاول پینے کی بجائے اگر کہیں کھانے کے عادی ہوتے تو ہنسی کی وجہ سے ضرور ان کے گلے میں پھندا پڑ جاتا‘ کیونکہ ان کی دانست میں کھانا کھانے میں ہنسی مخل نہیں ہوسکتی تھی۔ وہ خوب ہنس رہے تھے۔ کہنے لگے کہ ”بخدا اس شریر کو دیکھئے۔“ میں اس کا کیا جواب دیتا کیونکہ دیک ہی رہا تھا اور جانتا تھاکہ جو دم گزر رہا ہے وہ غنیمت ہے ۔ بنوٹ کا قاعدہ ہے کہ سارا کھیل بس نظر کا ہوتا ہے ۔ غنیم سے جب تک آنکھ ملی رہے یا غنیم کے حرکات پر جب تک نظر جمی رہے اس وقت تک خیر ہے ورنہ ادھر آنکھ جھپکی اور ادھر پٹائی۔ یہ