ٹائیں ٹائیں فش

نظام الدین

محفلین
میں نے اٹھ کر دیکھا تو ہمیشہ کی طرح ابا کا کہا سچ پایا ۔۔۔۔۔ رشتے کرانے والی ’’ماسی قسمت‘‘ اندر داخل ہورہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی اس کا چہرہ کھل اٹھا۔

’’اے بیٹے اچھا ہوا جو تو مل گیا ۔۔۔۔۔ بڑی شاندار خبر لائی ہوں آج تو ۔۔۔۔۔‘‘

’’شاندار خبر ۔۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے تیرے خاوند کی ڈیوٹی پھر سے رات کی ہوگئی ہوگی۔۔۔۔۔۔‘‘ ابا نے چارپائی پر لیٹے لیٹے ہانک لگائی اور ماسی کے دانتوں تلے سپاری مزید تیزی سے ریزہ ریزہ ہونے لگی۔ اس نے دانت پیستے ہوئے بات ان سنی کی اور میری طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’نوراں کدھر ہے؟‘‘

میں نے آواز دی ۔۔۔۔۔ ’’اماں۔۔۔۔ ماسی آئی ہے۔‘‘

’’آرہی ہوں‘‘ ۔۔۔۔۔ اماں نے سیڑھیوں کے نیچے قائم ’’ٹو اِن ون‘‘ باورچی خانے سے آواز لگائی۔ ٹو ان ون میں نے اس لئے کہا ہے کہ خورد و نوش کے فرائض سے نمٹنے کے بعد اکثر یہ باورچی خانہ بطور غسل خانہ بھی استعمال ہوتا تھا۔ سامنے والے حصے کی طرف چارپائی کھڑی کرلی جاتی تھی۔ ابا نے جدید غسل سے لطف اندوز ہونے کے لئے انوکھا طریقہ نکال رکھا تھا ۔۔۔۔۔۔ وہ سرکاری پانی کی ٹونٹی کے ساتھ ٹیوب لگادیتے اور دوسرا سرا غسل خانے والی چارپائی کے بان میں سے نکال دیتے ۔۔۔۔۔۔ یوں ہر دفعہ وہ تازہ شاور لیتے تھے۔ سردیوں کے دنوں میں ہم اکثر دوپہر کو نہاتے تھے کیونکہ پانی بہت ٹھنڈا ہوتا تھا ۔۔۔۔۔۔ تاہم ابا پانی کی بالٹی بھر کر دھوپ میں رکھ دیتے ۔۔۔۔۔ ان کا مشاہدہ تھا کہ پانی اس طرح سے بھی گرم کرکے نہایا جاسکتا ہے۔

اماں ماسی قسمت کے پاس آکر بیٹھ گئی۔

’’اے بہن ۔۔۔۔۔ بڑی خاص خبر لائی ہوں۔۔۔۔۔‘‘ ماسی نے ابا کا جملہ آنے کے ڈر سے نہ صرف آواز آہستہ رکھی بلکہ جملے میں بھی خاطر خواہ تبدیلی کرلی۔

’’میری کمیٹی تو نہیں نکل آئی ؟؟‘‘ اماں نے غربت کا عالمی مظاہرہ کیا۔۔۔!!

’’اے نہیں ۔۔۔۔۔۔ اس سے بھی بڑی خبر ہے۔۔۔۔۔‘‘ ماسی نے عینک درست کرتے ہوئے کن اکھیوں سے ابا کی طرف دیکھا جو چارپائی کی ادوائن میں پھنسے لاپرواہی سے ہاتھ ہلاتے ہوئے نورجہاں کا گیت پٹھانے خان کی آواز میں گانے کی کوشش کررہے تھے۔

’’خالی خبر ہے یا خوشی کی خبر ہے؟‘‘ ۔۔۔۔۔ اماں نے یکدم چونک کر پوچھا۔

’’اے ہے ۔۔۔۔۔ اللہ خیر کرے خوشی کی خبر ہے ۔۔۔۔۔‘‘ ماسی نے اپنی مسکراہٹ چھپائی اور اماں کے حلق سے طویل سانس نکل گئی۔

’’تو بتاؤ پھر۔۔۔‘‘

ماسی نے کچھ لمحے توقف کیا ۔۔۔۔۔ پھر میری طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ میں بظاہر سائیکل کا چمٹا صاف کررہا تھا لیکن میرے تمام ’’حواس ضروریہ‘‘ اسی طرف تھے۔

’’بات یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔ فریدہ کی بیٹی نے ۔۔۔۔۔ بی اے کرلیا ہے۔ آج اس کا نتیجہ تھا ۔۔۔۔ پورے کالج میں فشٹ آئی ہے۔‘‘

’’تو پھر ؟؟‘‘ اماں نے قہر آلود نظروں سے ماسی کو گھورا ۔۔۔۔۔!!!

’’پھر کیا ۔۔۔۔۔۔ لڑکی بہت اچھی ہے ۔۔۔۔ باپ بھی فیکٹری میں فورمین ہے ۔۔۔۔۔۔ لوگ بھی بہت شریف ہیں۔‘‘

’’تو ہم کیا دہشت گرد ہیں ۔۔۔۔۔‘‘ اماں کڑکی۔

’’نن ۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔ میں نے یہ کب کہا ۔۔۔۔۔۔ میں تو کہہ رہی تھی کہ اپنا کمالا پتر بھی بڑا ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔‘‘

’’اچھا ۔۔۔۔۔ تو رشتہ لے کر آئی ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘ اماں ساری بات سمجھ گئی ۔۔۔۔۔ اور میں بھی سمجھ گیا کہ اب کیا ہوگا ۔۔۔۔۔ اماں ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔۔۔ ابا کے کانوں تک آوازیں تو نہیں پہنچی تھیں تاہم اماں کے اٹھنے کا ایکشن دیکھ کر وہ اندازہ لگا چکے تھے کہ سبزی میں کچھ کالا ہے ۔۔۔۔۔۔ انہوں نے فوراً اپنے گیت کو لگام دی اور ہمہ تن چوکنے ہوگئے۔

’’بات سن ۔۔۔۔۔۔ ہم نے اپنے لڑکے کا رشتہ ایرے غیروں میں نہیں کرنا ۔۔۔۔۔۔ دوبارہ اس سلسلے میں آنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔۔ کمالے کا رشتہ ہم جیسے بڑی ذات کے راجپوتوں میں ہوگا۔‘‘ اماں نے گردن اکڑائی۔

’’راج ۔۔۔۔۔ پوت ۔۔۔۔۔‘‘ بے اختیار میرا ہاتھ سائیکل کی گھنٹی سے پھسل گیا ۔۔۔۔۔۔ مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ ابا نے بتایا تھا، ہم شیخ ہیں ۔۔۔۔۔۔ ابا کی چارپائی میرے قریب تھی ، میں نے سرگوشی کی ۔۔۔۔۔ ’’ابا ۔۔۔۔۔ کیا ہم راجپوت ہیں؟؟‘‘

’’کیا کہا ۔۔۔۔۔ جن بھوت ہیں۔۔۔۔‘‘ ابا چونکے ۔۔۔۔۔’’ابے ہوش کر ۔۔۔۔ اس غریب گھر میں جن بھوت کہاں سے آگئے، یہاں سے تو چڑیلیں بھی پردہ کرکے گزرتی ہیں۔‘‘

’’جن بھوت نہیں ابا ۔۔۔۔ راج پوت ۔۔۔۔۔ راجپوت ۔۔۔۔۔ کیا ہم راجپوت ہیں؟‘‘ میں نے زچ ہوکر ابا کے کان کے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔

’’یہ کس نے کہا؟‘‘ ابا سیدھے ہوئے۔

’’اماں کہہ رہی ہے۔۔۔۔۔‘‘

’’ہوسکتا ہے وہ اپنی جگہ ٹھیک کہہ رہی ہو ۔۔۔۔۔‘‘ ابا نے سر ہلایا۔

’’دیکھ نوراں ۔۔۔۔۔ رشتہ بہت اچھا ہے ۔۔۔۔۔ ہاتھ سے نکل جائے گا۔‘‘ ماسی قسمت نے آخری کوشش کی۔

’’ماسی ۔۔۔۔ رشتہ نکلے نہ نکلے ۔۔۔۔ تو ضرور نکل جا ۔۔۔۔۔ ورنہ میرا دماغ چل گیا تو ۔۔۔‘‘ اماں نے چپل اٹھالی۔

ماسی نے تمام تر خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا برقعہ سمیٹا ۔۔۔۔۔۔ میری طرف دیکھ کر پان کی پیک زور سے زمین پر تھوکی ۔۔۔۔۔ اور منہ بناتی ہوئی چلی گئی۔

(گل نوخیز اختر کے ناول ’’ٹائیں ٹائیں فش‘‘ سے اقتباس)
 

عبدالمغیث

محفلین
نظام الدین بھائی میں نے ایسا ناول جس کا ہر صفحہ مزاح سے بھرپور ہواس ناول ٹائیں ٹائیں فش جیسا نہیں پڑھا۔ اسی میں آگے چل کر ایک اور مقام پر یوں ہے:

"میں تھکے تھکے قدموں سے چلتا ہوا نیچے آ گیا۔ سیٹھ خوبصورت ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا خلاؤں میں گھور رہا تھا۔ میں نے اس کے ساتھ والی کرسی سنبھال لی۔
"الو کا پٹھا۔۔۔۔۔" سیٹھ بڑبڑایا اور میں ہڑبڑا گیا۔
میں نے جلدی سے اپنا جائزہ لیا کہ شاید مجھ میں کوئی ایسی خامی نمودار ہو گئی ہو۔۔۔۔ لیکن میں ویسا ہی تھا جیسا ہونا چاہیے تھا۔
"الو کا پٹھا۔۔۔۔" سیٹھ کی آواز آئی۔
"یہ آپ مجھے سنا رہے ہیں یا بتا رہے ہیں؟" میں نے احتیاطا پوچھا۔
سیٹھ نے ایک دم میری طرف دیکھا۔۔۔۔ پھر مکمل رازداری سے بولا۔۔۔۔ "کان ادھر لاؤ"
میں متجسس ہو گیا اور کان سیٹھ کے منہ کے قریب کر لیے۔
سیٹھ پوری قوت سے چیخا۔۔۔۔۔ "الو کا پٹھا۔۔۔"
پھر وہ لہک لہک کر گانے لگا

الو کا پٹھا
کھاتا تھا کھچڑی
پیتا تھا پانی
گاتا تھا گانے
میرے سرہانے
اک دن اکیلا
بیٹھا ہوا تھا
میں نے اڑایا
واپس نہ آیا
الو کا پٹھا

"کیسی نظم ہے داماد۔۔۔۔؟؟؟"
"مقطع خوب ہے" میں نے بے دھیانی سے کہا
سیٹھ نے چند لمہے میری بات پر غور کیا پھر اچھل پڑا۔۔۔۔۔ "کیا مطلب؟ مقطع تو آخری شعر کو کہتے ہیں جس میں شاعر اپنا نام استعمال کرتا ہے۔"
میں بوکھلا گیا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ میرا جملہ بالکل فٹ بیٹھے گا۔ میں نے جلدی سے کہا۔۔۔۔۔ "میرا مطلب ہے انکل۔۔۔۔ ساری نظم خوب ہے۔ شروع سے لے کر مقطع تک۔"
سیٹھ کی باچھیں کھل گئیں اور وہ آداب آداب کرنے لگا۔
 
آخری تدوین:

شکیب

محفلین
نظام الدین اور عبد المغیث بھائی۔۔۔گل نوخیز کی دو کتب میرے پاس ہیں۔۔۔ایک ٹائیں ٹائیں فش اور دوسری شرارتی۔۔۔اگر کوئی اور ہو تو ربط کے ساتھ نوازیں۔ جزاکم اللہ۔
ٹائیں ٹائیں جیسا قہقہہ بردار ناول میں نے آج تک نہیں چکھا۔
 

متلاشی

محفلین
میں نے یہ ناول پڑھا آغاز اچھا تھا آگے جا کر تو بہت فضول لگا۔۔۔ گٹھیا اور لچرقسم کا مزاح زیادہ ہے اس میں ۔۔ بحرحال یہ میری ذاتی رائے ہے یارلوگوں کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں :)
 

متلاشی

محفلین
میرے بھائی ہر کسی کی پسند اپنی اپنی ہوتی ہے ۔۔۔ یہ ضروری تو نہیں جو چیز اآپ کو پسند ہو وہ سب کو ہو۔۔۔اور اگر میرے تبصرے سے آپ کا دل دکھا تو میں وہ تبصرہ ہی ڈیلیٹ کر دیتا ہوں معذرت تو پہلے ہی کر چکا ہوں
 

سجاد حسین

محفلین
میرا نام کمال احمد عرف کمالا ۔۔۔۔۔۔۔۔ عرف کالو، عرف کاما، عرف ڈنگر، عرف کھوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ موخر الذکر کچھ ’’عرفیت‘‘ ابا کی عطا کردہ ہیں، باقی میں نے اپنی محنت سے حاصل کی ہیں
 

فاخر رضا

محفلین
میرا نام کمال احمد عرف کمالا ۔۔۔۔۔۔۔۔ عرف کالو، عرف کاما، عرف ڈنگر، عرف کھوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ موخر الذکر کچھ ’’عرفیت‘‘ ابا کی عطا کردہ ہیں، باقی میں نے اپنی محنت سے حاصل کی ہیں

کچھ نام کا ہی لحاظ کرلیتا بھائی تیرا ابا
سجاد حسین
 
Top