باباجی
محفلین
ٹانکنے چاک گریباں کو تو ہر بار لگا
ہاتھ کٹواؤں جو ناصح رہے اب تار لگا
بس کہ اک پردہ نشیں سے دل بیمار لگا
جو مریضوں سے چھپاتے ہیں وہ آزار لگا
جذبہ دل کو نہ چھاتی سے لگاؤں کیونکر
آپ وہ میرے گلے دوڑ کے اک بار لگا
تو کسی کا بھی خریدار نہیں پر ظالم
سرفروشوں کا ترے کوچے میں بازار لگا
منہ میں کیا خم صہبا کے بھر کے آیا پانی
تیرے لب سے جو لب ساغر سرشار لگا
کعبے سے جانب بُت خانہ پھر آیا مومن
کیا کرے جی نہ کسی طرح سے زنہار لگا