علمدار
محفلین
ٹی وی ون کے اسکرپٹ ڈپارٹمنٹ میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے ڈھائی سال کا عرصہ گزر چکا ہے- اس سے پہلے بھی لکھنے لکھانے کے شعبے سے وابستہ رہا- اپنے کیرئیر میں سینکڑوں کہانیاں اور اسکرپٹس پڑھ چکا ہوں- پچھلے دنوں جب “ٹاور سے سرجانی تک“ نامی اسکرپٹ ہاتھ میں آیا تو پہلی سوچ ذہن میں یہی آئی کہ کسی بس ڈرائیور کی کہانی ہو گی لیکن جیسے جیسے پڑھتا گیا تحریر کے سحر میں جکڑتا گیا۔ یہ ایک ایسا اسکرپٹ ثابت ہوا کہ آج تک اس جیسی کوئی تحریر نظرسے نہیں گزری تھی۔ یہ ایک ٹیلی فلم ہے جسے ڈاکٹر قاضی فصیح الدین نے تحریر کیا ہے۔ یہ ٹیلی فلم آج کل پروڈکشن کے مراحل سے گزر رہی ہے اور جلد ہی ٹی وی ون پر آن ایئر کی جائے گی۔
اس ٹیلی فلم کا ذکر یہاں کرنے کا خیال موجودہ حالات کے تناظر میں آیا۔ اس ٹیلی فلم کا مرکزی کردار ایک عمر رسیدہ شخص ہے جسے وال چاکنگ سے سخت نفرت ہے۔ اسے قطعی گوارہ نہیں کہ کوئی اس کے گھر کی دیوار پر کچھ لکھے۔ اسی طرح پورے شہر کی دیواروں پر لکھی تحاریر پڑھ کر وہ کڑھتا رہتا ہے اور اکثر لوگوں سے اس کی جھڑپ اور ہاتھا پائی تک ہو جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ اس کی بیٹی قتل ہو جاتی ہے اور وہ انصاف کی خاطر دربدر بھٹکتا پھرتا ہے۔ جب اسی کہیں انصاف نہیں ملتا تو وہ یہ مشن شروع کرتا ہے کہ آج سے میں ٹاور سے سرجانی تک ہر دیوار پر لکھوں گا کہ میری بیٹی کے قاتلوں کو گرفتار کرو۔
آپ چند لائنوں کے خیال سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس قدر دکھ بھری کہانی ہے۔ ایک شخص جسے اپنے شہر سے اتنا پیار کہ اس کے در و دیوار کو ذرا سا بھی گندا نہیں دیکھ سکتا لیکن جب وہ ہر طرف سے مایوس ہوتا ہے تو اسی بھی اپنی بات کے لیے وال چاکنگ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
اسکرپٹ کی جان مجھے یہ ایک ڈائیلاگ لگتا ہے جس میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ”تم لوگوں کی بات میں جان نہیں ہوتی نا جبھی اسے دیواروں کی زبان بنا دیتے ہو۔ اگر تمھاری بات میں دم ہوتا تو لوگ کان لگا کر خود ہی سنتے۔ تمھیں یوں دیواروں کو گندا نہ کرنا پڑتا۔“
اس ٹیلی فلم کا ذکر یہاں کرنے کا خیال موجودہ حالات کے تناظر میں آیا۔ اس ٹیلی فلم کا مرکزی کردار ایک عمر رسیدہ شخص ہے جسے وال چاکنگ سے سخت نفرت ہے۔ اسے قطعی گوارہ نہیں کہ کوئی اس کے گھر کی دیوار پر کچھ لکھے۔ اسی طرح پورے شہر کی دیواروں پر لکھی تحاریر پڑھ کر وہ کڑھتا رہتا ہے اور اکثر لوگوں سے اس کی جھڑپ اور ہاتھا پائی تک ہو جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ اس کی بیٹی قتل ہو جاتی ہے اور وہ انصاف کی خاطر دربدر بھٹکتا پھرتا ہے۔ جب اسی کہیں انصاف نہیں ملتا تو وہ یہ مشن شروع کرتا ہے کہ آج سے میں ٹاور سے سرجانی تک ہر دیوار پر لکھوں گا کہ میری بیٹی کے قاتلوں کو گرفتار کرو۔
آپ چند لائنوں کے خیال سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس قدر دکھ بھری کہانی ہے۔ ایک شخص جسے اپنے شہر سے اتنا پیار کہ اس کے در و دیوار کو ذرا سا بھی گندا نہیں دیکھ سکتا لیکن جب وہ ہر طرف سے مایوس ہوتا ہے تو اسی بھی اپنی بات کے لیے وال چاکنگ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
اسکرپٹ کی جان مجھے یہ ایک ڈائیلاگ لگتا ہے جس میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ”تم لوگوں کی بات میں جان نہیں ہوتی نا جبھی اسے دیواروں کی زبان بنا دیتے ہو۔ اگر تمھاری بات میں دم ہوتا تو لوگ کان لگا کر خود ہی سنتے۔ تمھیں یوں دیواروں کو گندا نہ کرنا پڑتا۔“