ٹرمپ کیسے جیت گئے؟

کعنان

محفلین
’لوگوں نے ٹرمپ کو نہیں بلکہ اپنے روزگار کو ووٹ دیے‘
بی بی سی اردو ڈاٹ کام
ظفر سید، 2 گھنٹے پہلے


حالیہ امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے صرف اپنی حریف ہلیری کلنٹن ہی کو شکست نہیں دی بلکہ تمام اندازوں، تخمینوں اور پیشن گوئیوں کو بھی مات دے دی ہے۔

ٹرمپ کے بارے میں عام تاثر تھا کہ وہ صدارت کے لیے موزوں امیدوار نہیں ہیں۔ ان کا کوئی سیاسی تجربہ نہیں ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق انھوں نے عشروں سے ٹیکس ادا نہیں کیا، انھوں نے عورتوں کا تمسخر اڑایا، ان کے درجنوں جنسی سکینڈل سامنے آئے، انھوں نے تارکینِ وطن کو ناراض کیا، مسلمانوں کی امریکہ آمد پر پابندی لگانے کا اعلان کیا، میکسیکو والوں کو جنسی مجرم کہا، میڈیا کے خلاف جنگ لڑی، خود اپنی ہی جماعت کے رہنماؤں سے مخالفت مول لی، وغیرہ وغیرہ۔

اس صورتِ حال میں مبصرین ان کی حیران کن فتح سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا اپ سیٹ قرار دے رہے ہیں۔

تو آخر انھوں نے ہلیری کلنٹن جیسی منجھی ہوئی سیاست دان کو شکست سے کیسے ہمکنار کر دیا؟

ماہرِ معاشیات اور سیاسی مبصر منظور اعجاز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دراصل ان انتخابات میں لوگوں نے ٹرمپ کو نہیں بلکہ اپنے روزگار کو ووٹ دیے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ٹرمپ نے امریکہ کے ان علاقوں سے بڑے پیمانے پر ووٹ حاصل کیے ہیں جنھیں 'رسٹ بیلٹ' یا 'زنگ آلود پٹی' کہا جاتا ہے۔

یہ وہ علاقہ ہے جہاں کئی عشرے قبل بھاری انڈسٹری قائم تھی لیکن امریکی معیشت کی سست رفتاری کی وجہ سے کارخانے رفتہ رفتہ دوسرے ملکوں میں منتقل ہو گئے اور یہ علاقے کھنڈر کا نمونہ بن کر رہ گئے۔ اس عمل کا نتیجہ لاکھوں لوگوں کی بےروزگاری کی شکل میں نکلا۔

_92347634_238da3e8-caa6-4a8a-9b38-55092ef2f08a.jpg

ہلیری کلنٹن کے حامی آنسوؤں پر قابو نہیں پا سکے

اس پٹی میں مشی گن، اوہایو، وسکانسن اور پینسلوینیا جیسی ریاستیں شامل ہیں۔

منظور اعجاز کہتے ہیں کہ ان علاقوں میں رہنے والے سفید فام قطار اندر قطار ٹرمپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے کیوں کہ انھیں توقع ہے کہ چونکہ ٹرمپ خود ارب پتی بزنس مین ہیں اس لیے وہ اپنی کاروباری سوجھ بوجھ سے کام لے کر اس علاقے کی کاروباری سرگرمیاں بحال کر سکتے ہیں۔

یہی ٹرمپ کا انتخابی نعرہ بھی تھا، 'امریکہ کو ایک بار پھر سے عظیم بنا دو۔'

اس کے مقابلے پر ہلیری کلنٹن کو دو چیزوں نے سخت نقصان پہنچایا۔ ایک تو یہ کہ ان کی اپنی ہی جماعت کی جانب سے امیدواری کے متنمی برنی سینڈرز کے ساتھ انھیں طویل اور تند و تلخ جنگ لڑنا پڑی جس کے دوران برنی سینڈرز نے خاصی کامیابی سے کلنٹن کو 'بدعنوان نظام' کا حصہ ظاہر کر دیا۔

سینڈرز نے لوگوں کو باور کروا دیا کہ ہلیری کلنٹن چونکہ اسی نظام کی پیداوار اور اس کی تقویت کی ذمہ دار ہیں، اس لیے ان سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ ملک میں کوئی حقیقی تبدیلی لا سکتی ہیں۔

دوسری جانب ایف بی آئی کی جانب سے ہلیری کلنٹن کے خلاف ای میلز معاملے کی تحقیقات عین وقت پر کھولنے سے بھی ہلیری کو زک پہنچی، اور لوگوں کا یہ تاثر مزید گہرا ہو گیا کہ سیاست دانوں پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔


_92347636_gettyimages-613008720.jpg

رسٹ بیلٹ کے ووٹروں کی بھاری اکثریت نے ٹرمپ کو ووٹ دیے

امریکہ عورت کو صدر بنانے پر تیار نہیں
دوسری جانب واشنگٹن میں مقیم سینئیر صحافی واجد علی سید کہتے ہیں کہ ان انتخابات میں ایک اور چیز بھی کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ امریکہ اکیسویں صدی میں بھی کسی عورت کو صدر بنانے کے لیے تیار نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ سفید فاموں نے تو بڑی تعداد میں ٹرمپ کو ووٹ دیے، لیکن سیاہ فام اور دوسری اقلیتیں اس تعداد میں باہر نہیں نکلیں جس طرح سے انھوں نے اوباما کو ووٹ دیے تھے۔

واجد کی اس بات کی تائید ایڈیسن ریسرچ کی بعد از ووٹ سروے رپورٹ سے بھی ہوتی ہے۔ اس سروے کے مطابق ان انتخابات میں سفید فام امریکیوں نے بڑی تعداد میں باہر نکل کر ٹرمپ کی حمایت کی۔

سروے کے مطابق سیاہ فام اور لاطینی امریکیوں نے اس جوش و خروش سے ہلیری کی حمایت نہیں کی جس طرح انھوں نے چار سال قبل اوباما کو ووٹ ڈالے تھے۔

ہلیری کلنٹن کے کیمپ کو توقع تھی کہ اس بار عورتیں بڑی تعداد میں سامنے آ کر انھیں ووٹ دیں گی کیوں کہ عام تاثر یہی تھا کہ ٹرمپ نے مہم کے دوران ایسے بیانات دیے ہیں جنھیں عورت دشمنی پر مبنی قرار دیا جا سکتا ہے۔

لیکن اس کے باوجود سروے کے مطابق اس بار لگ بھگ اتنی ہی عورتوں نے کلنٹن کو ووٹ دیا جنھوں نے گذشتہ انتخابات میں اوباما کو ووٹ دیے تھے۔

امریکہ مزید منقسم
ایک چیز جو پہلے ہی واضح تھی اور ان انتخابات میں مزید کھل کر سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر مزید منقسم ہو گیا ہے۔


_92349713_gettyimages-621869992.jpg

ٹرمپ کے حامیوں کی خوشی دیدنی ہے

ان میں سے ایک تقسیم شہری اور دیہی کی ہے، شہری علاقے بڑی حد تک ڈیموکریٹ پارٹی کی حمایت کرتے ہیں لیکن دیہی حصوں کی بھاری اکثریت رپبلکن پارٹی کی حامی ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور خلیج سفید فام امریکیوں اور بقیہ تمام امریکیوں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ سفید فاموں کی غالب اکثریت رپبلکن پارٹی کی حامی ہے، جب کہ سیاہ فام، لاطینی امریکی اور دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے مہاجرین بڑی حد تک ڈیموکریٹ پارٹی کی حمایت کرتے ہیں۔

ایک اور تقسیم زیادہ تعلیم یافتہ اور کم تعلیم یافتہ ووٹروں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ کم پڑھے لکھوں کی بڑی تعداد رپبلکن ہے، جب کہ کالج کے سندیافتہ ووٹر زیادہ تر ڈیموکریٹ امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں۔

خامیاں بن گئیں خوبیاں
آخر کار ٹرمپ کی سیاسی ناتجربہ کاری، لاپروایانہ انداز اور کھری کھری سنا دینے جیسی 'خامیاں' ہی ان کی خوبیاں قرار پائیں اور ہلیری کلنٹن کو منجھا ہوا سیاست دان ہونے، طویل انتظامی تجربہ، نظام کی سمجھ بوجھ جیسے میدانوں میں جو برتری حاصل تھی، وہی بالاًخر ان کے گلے کا ہار بن گئی۔

ح

 

کعنان

محفلین
دعا کیجیے کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ‘ فتحیاب ہو جائے
ذیشان الحسن عثمانی منگل 8 نومبر 2016

ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے سے جہاں امریکہ کو پتا لگے گا کہ ہم اس کیلئے کتنے ضروری ہیں وہاں ہمیں بھی احساس ہوگا کہ اپنے مسائل آپس میں مل جل کر بیٹھنے سے ہی حل ہوں گے۔

30 جولائی 1788ء کی رات امریکی ریاست نارتھ کیرولینا کے کنوینشن میں آئے ہوئے ایک مقرر (جس کا نام ولیم لان کیسٹر تھا) نے مہمانوں سے کہا کہ ایسا بالکل ہو سکتا ہے کہ آئندہ چند سو سالوں میں ایک مسلمان امریکہ کا صدر بن جائے اور ہمارے آئین میں ایسی کوئی بات نہیں جو ایسا ہونے سے روک سکے۔ مجھے لگتا ہے کہ ایسا صرف دو صورتوں میں ممکن ہے۔ اول یہ کہ پورے کا پورا امریکہ مسلمان ہو جائے، پھر تو ان کا حق بنتا ہے کہ اپنے جیسے ہی کسی مسلمان کو صدر بنائیں یا دوسری صورت یہ کہ وہ تمام اخلاق، خصوصیات، ہنر، صلاحیتیں، عقائد اور اصول جو امریکی آئین اور معاشرے کی بنیاد ہیں، صرف کسی ایسے شخص میں پائی جائیں جو مسلمان ہو۔ تب بھی مسلمان ہی کو امیریکہ کا صدر ہونا چاہیئے۔

میں سوچتا ہوں کہ اگر ولیم لان کیسٹر صاحب آج سوا 2 سو سال بعد زندہ ہوتے تو شاید پوچھتے کہ کیا ٹرمپ امریکہ کا صدر بن سکتا ہے؟ اور حیرت انگیز طور پر ایسا ہوسکنے کی بھی وہی دو صورتیں بنتی ہیں۔ یا تو امریکہ کی اکثریت ٹرمپ جیسی ہو جائے یا پھر سب کی اخلاقیات اور سوچ کا لیول بھی ٹرمپ جیسا ہو جائے اور ان دونوں صورتوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ہی امریکہ کا صدر بننا جچتا ہے۔ جس حمام میں سب ?? ہوں، وہاں الزام کپڑے پہننے والوں پر ہی آتا ہے۔

ٹرمپ محض صرف ایک شخص کا نام نہیں بلکہ یہ ایک عقیدہ، جنون اور وہ سوچ ہے جو لوگوں میں نفرت و تعصب کے جذبات بھڑکا کر اپنے مطلب کا کام نکلوانا چاہتی ہے۔ یہ اس سوچ اور ذہنی تعصب کی آبیاری کرتی ہے جو لوگ عام حالات میں کھلےعام زبان پر نہیں لاتے کہ معاشرتی اقدار اس کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ اقدار و قوانین اسی ملک نے دیئے ہیں، جس کیلئے آج ہم ووٹ دینے جارہے ہیں۔ ٹرمپ کا تو بالکل کیمونسٹ جیسا پروپیگنڈہ ہے کہ دولت، طاقت، اختیار اور حقوق وہاں دے دیئے جائیں جہاں ان کا کوئی حق نہیں اور آج بدلتا ہوا امریکہ چاہتا ہے کہ ہم ان باتوں پر ایمان لے آئیں۔

ویسے بدلتا ہوا امریکہ کوئی آج کی نئی بات تو ہے نہیں بلکہ یہ تو ہماری آنکھوں کے سامنے گزشتہ 20 برسوں سے بدل رہا ہے مگر ہم اپنی زندگیوں میں اتنے مصروف تھے کہ ہم نے خیال ہی نہ کیا۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس سال امریکہ میں نوبل انعام پانے والے 6 کے 6 سائنسدان مہاجر ہیں؟ جو دوسرے ملکوں سے آ کر امریکہ میں بس گئے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ امریکہ کی بہترین یونیورسٹیوں کو چلانے والے ماہرین سب امریکہ کے باہر سے آئے ہیں؟ 40 فیصد سے زائد انجنیئرنگ پروفیسر امیگرینٹ ہیں؟ اور 51 فیصد سے زائد اسٹارٹ اپس کی فنڈنگ امیگرینٹس کرتے ہیں۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کو شاید ہی کوئی چھوٹا بڑا اسپتال امریکہ میں ملے جہاں کوئی ساؤتھ ایشین ڈاکٹر نہ ہو۔ آپ کو کوئی کنسٹرکشن سائٹ ایسی نہ ملے گی جہاں کوئی میکسیکن یا ساؤتھ امریکن کام نہ کر رہا ہو۔
کیا آپ کو پتا ہے کہ امریکہ نے صرف 2015ء میں 23 لاکھ نوکریاں ملک سے باہر آؤٹ سورس کر دیں اور انہیں صرف 25 سینٹ سے 1 ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے تنخواہیں دی گئیں حالانکہ امریکہ میں یہ تنخواہیں کم سے کم تنخواہ 8 سے 15 ڈالر فی گھنٹہ ہے۔
کیا آپ کو پتا ہے کہ 13.3 فیصد امیگرینٹ پاپولیشن سب سے زیادہ باصلاحیت لوگوں میں تین فیصد ہیں۔
امیگریشن کی وجہ سے رئیل اسٹیٹ اور پراپرٹی کا کام چلتا ہے۔
یہ امریکہ کے بیچلرز ڈگری ہولڈرز کا 24 فیصد اور انجینئرنگ پی ایچ ڈیز کا 47 فیصد ہیں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کی ورک فورس کا 50 فیصد ہیں۔
صرف ٹاپ 10 کمپنیوں میں 20 ہزار سے اوپر آسامیاں خالی ہیں۔ جو صرف امیگرینٹس باآسانی بھرسکتے ہیں۔
امریکہ کی دس بڑی کمپنیوں میں سے 7 امیگرینٹس نے بنائی ہیں جس کی سالانہ آمدنی 4.2 ٹریلین ڈالر ہے۔ ٹیکنالوجی کی 25 بڑی کمپنیوں میں سے 60 فیصد امیگرینٹس نے بنائی ہیں۔
42 فیصد کینسر پر تحقیق کرنے والے امریکی شہری نہیں ہیں اور ہر ایک فارن ورکر امریکیوں کیلئے کم از کم اوسطاً 5 نئی نوکریاں پیدا کرتا ہے۔
80 فیصد مٹیریل سائنس اور یونیورسٹیوں میں سے 30 سے 94 فیصد تک طالب علم غیر ملکی ہیں۔

ان تمام باتوں کے باوجود، ہم لوگ زانی بھی کہلائیں، دہشت گرد بھی اور سرحدوں کے مابین دیواریں بنائے جانے کی باتیں بھی سہیں۔ ہم لوگ یہاں آ کر کوہلو کے بیل کی طرح 18، 18 گھنٹے کام کرتے ہیں تاکہ امریکن 9 سے 5 ورک لائف بیلنس جیسی عیاشیاں افورڈ کرسکے۔ ہم ایئر پورٹس پر تلاشیوں اور لائنوں میں ذلیل و خوار ہوں، ویزہ کیلئے دھکے کھائیں اور کام بھی کریں۔ یہاں لوگ اپنا ملک چھوڑ کر اس لئے نہیں آتے کہ ہلیری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مباحثوں اور طعنوں کا حصہ بنیں۔

میرے خیال سے وقت آ گیا ہے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے یہاں سے ہمارے راستے جدا ہو جانے چاہئیں۔ عرصہ دراز سے امریکہ سپر پاور کا درجہ انجوائے کر رہا ہے۔ ہمارے ملک میں کچھ ہوجائے، یا تو امریکہ ذمہ دار ہے کیوںکہ کسی اور پر الزام لگانا ہمارا قومی فریضہ ہے یا امریکہ ذمہ دار ہے کہ ہمیں ڈالر دے تاکہ ہم اپنے مسائل سے نکلیں۔ ہم اپنے مسائل کی ملکیت مانتے ہی نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے سے جہاں امریکہ کو پتا لگے گا کہ ہم اس کیلئے کتنے ضروری ہیں وہاں ہمیں بھی احساس ہو گا کہ اپنے مسائل آپس میں مل جل کر بیٹھنے سے ہی حل ہوں گے۔ اب بہت ہو چکی، آئیں ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیتے ہیں تاکہ سارا امریکہ ان مسائل و مشکلات کو جان سکے جس سے ہم روز گزرتے ہیں اور دنیا کو پتا لگ جائے کہ یہ وہ امریکہ نہیں رہا جو کبھی لوگوں کا آئیڈیل ہوا کرتا تھا۔

ویسے بھی جب مودی بھارت میں جیت سکتا ہے، برطانیہ brexit کرسکتا ہے تو ٹرمپ بے چارے نے کیا قصور کیا ہے؟
اِس لیے میرا ووٹ ٹرمپ کے نام !!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

ح
 

کعنان

محفلین
ڈونلڈ ٹرمپ کیوں کامیاب ہوئے؟
09/11/2016
محمد عامر ہاشم خاکوانی

ڈونلڈ ٹرمپ کی حیران کن کامیابی سے دنیا بھر میں حیرت کی لہر دوڑ گئی ہے، خود امریکہ میں لاکھوں لوگ ابھی تک شاک کی سی کیفیت میں ہیں۔ جس دوست سے وہاں بات ہو، وہ یہی بتاتا ہے کہ ہم نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ٹرمپ کے امریکہ میں رہنا پڑے گا، مگر اب ایسا ہو گیا ہے۔ امریکہ ہی نہیں، اب دنیا بھر کو ٹرمپ سے واسطہ پڑے گا، کس پر کیا گزرتی ہے، یہ تو آنے والے دن ہی بتائیں گے۔ مختلف تبصروں اور جائزوں میں ان ممالک کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے، جن کے حوالے سے امریکی پالیسی زیادہ سخت ہونے کا امکان ہے، پاکستان بھی ان میں شامل ہے۔ اس بحث کو سردست ہم الگ رکھتے ہیں کہ اس کے لیے مستقبل میں شاید بہت مواقع ملیں۔ اس وقت تو اہم ترین سوال یہ ہے کہ ٹرمپ نے یہ حیران کن کامیابی کیسے ممکن بنائی؟ اس کے ساتھ ضمنی سوال یہی ہے کہ اس کامیابی سے ہمارے ہاں کیا سیکھا جا سکتا ہے کہ ہمارے میڈیا کا ایک حصہ بڑے زور شور سے پاکستانی سیاست کے ایک اہم ترین کھلاڑی کو ہدف بناتے ہوئے اسے پاکستانی ٹرمپ قرار دے رہا تھا۔ یہ حلقہ تو شاید اس لیے ایسا کر رہا تھا کہ اس وقت تک ٹرمپ کی امریکہ میں شکست یقینی سمجھی جا رہی تھی اور مسٹر ٹرمپ بےوقوفی، اجڈ پن اور بدتمیزی کا ایک آئیکون بن چکے تھے، پاکستانی سیاسی لیڈر کو ٹرمپ قرار دے کر انہیں ویسا ہی ایک آئیکون بنانا مقصود تھا۔ اب معلوم نہیں کہ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد بھی وہ حلقے ٹرمپ کا طعنہ دیتے ہیں یا اب کوئی نئی حکمت عملی تشکیل دی جائے گی۔ ٹرمپ کی کامیابی میں چند فیکٹرز ایسے ہیںِ جن سے ہمارے ہاں بھی کوئی اگر چاہے تو سیکھ سکتا ہے، ضروری نہیں کہ صرف وہی ایسا کرے جسے ٹرمپ ہونے کا طعنہ ملا بلکہ جن کی پارٹیاں دھوپ میں رکھی برف کی طرح تحلیل ہو رہی ہیں، وہ بھی نئے سرے سے دال دلیہ کر سکتے ہیں۔

میڈیا کی اپنی حدود ہیں
مین سٹریم میڈیا کو اپنی قوت پر بڑا ناز رہا ہے۔ پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر کے بڑے میڈیا ہاؤسز اس خبط کا شکار ہوجاتے ہیں کہ وہ بادشاہ گر ہیں، اور حکومتیں اتار اور لا سکتے ہیں۔ کبھی ایسا ہو بھی جاتا ہے، اگرچہ اس میں بھی کئی دوسرے فیکٹرز کار فرما رہتے ہیں، مگر زیادہ کریڈٹ میڈیا کو مل جاتا ہے۔ میڈیا کی مگر کچھ محدودات ہیں، ایک خاص حد سے زیادہ وہ پلے نہیں کر سکتا، اس پر بہت زیادہ تکیہ کرنا نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ میڈیا ایک خاص تاثر بنا دیتا ہے، مختلف اینکرز، خبروں اور رپورٹوں کے ذریعے کسی لیڈر یا جماعت کا مخصوص امیج بنایا یا مسخ کیا جاتا ہے۔ اس تاثر کی چادر میں شگاف کیے جا سکتے ہیں، اگر عقلمندی اور ہوشیاری سے تیر چلائے جائیں۔ پھر میڈیا کے اندر بھی ایک تقسیم ہوتی ہے، مکمل یا نیم آمریت والے ممالک چھوڑ کر ہر جگہ کم وبیش ایسا ہے، اس تقسیم اور اندرونی تضادات سے سیاستدان اگر سمجھدار ہوں تو فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مختلف ریجنز میں میڈیا کا مختلف انداز کا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ جیسے پاکستانی تناظر میں دیکھا جائے تو اردو اخبار یا چینلز اندرون سندھ بالکل بیکار ہیں، وہاں سندھی اخبارات اور چینل کا اثر بہت گہرا ہے۔ جنوبی پنجاب میں نیوز چینلز کا اثر سنٹرل پنجاب سے مختلف ہے، بلوچستان اور کے پی کے کا اپنا تناظر ہے۔ اسے سنجیدگی سے سمجھنے اور پھر ایکسپلائٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا، اس لیے زعم ان میں کچھ زیادہ ہی ہے۔ سوشل میڈیا کی حدود خاصی کم ہیں، اس کا حقیقی زندگی میں اثر بھی زیادہ نہیں، جنرل مشرف اس سامنے کی بات کو سمجھنے سے قاصر رہے تھے۔ اگرچہ یہاں پر بھی منظم مہم چلائی جائے تو کسی حد تک تاثر بن سکتا ہے، مگر سوشل میڈیا پر لہریں چلتی رہتی ہیں، ایک کےگزر جانے کے بعد اس کے نقش زیادہ دیر باقی نہیں رہتے۔ ٹرمپ کی کامیابی ایک طرح کی اینٹی میڈیا کامیابی ہے۔ امریکہ کے تمام بڑے میڈیا گروپس ہیلری کے ساتھ اکٹھے تھے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے، مگر اس بار ہوگیا تھا۔ یہ سب بڑے مگرمچھ اس وقت الٹ چکے ہیں، انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ جو نقصان ہوگیا، اس کی تلافی کیسے ہو۔ یہی تجربہ پاکستان میں بھی دہرایا جا سکتا ہے، صرف میڈیا کے ٹرینڈز اور اس کی فالٹ لائنز کو سمجھنا ہو گا۔

کامیابی کے ماڈلز کی نفی
ٹرمپ کی کامیابی ایک طرح سے کامیابی کے تمام جگمگاتے ماڈلز کی ناکامی ہے۔ کامیابی کا لٹریچر امریکہ میں بےپناہ شائع اور فروخت ہوتا ہے، اب وہی لٹریچر ہمارے ہاں بھی عام ہے۔ کامیاب بنیے، کروڑ پتی بننے کے نسخے، کامیاب ترین زندگی کیسے گزاری جائے، اپنی شخصیت کو پراثر بنایا جائے وغیرہ وغیرہ۔ امریکی سیاست میں بھی مختلف کامیابی کے ماڈلز
SUCCESS STORIES موجود ہیں۔ صدارتی امیدوار ان کو فالو کرتے ہیں، جیسے ہیلری کلنٹن نے کیا۔ ان کو دیکھنے سے لگتا ہے کہ وہ بنی ہی کامیاب ہونے کے لیے ہیں، سجی سجائی، نفیس، تراشا ہوا پیکر، خوبصورت انگریزی، مرتب گفتگو، شائستگی، تحمل، دلنواز مسکراہٹ، تجربہ کار ٹیم، آزمودہ سیاسی حربے۔ یہ ایک اور کامیابی کی داستان معلوم ہو رہی تھی، آئیڈیل لیڈی، ایک یقینی جیت جس کا انتظار کر رہی ہے۔ اگر کوئی چاہے تو پاکستانی سیاست پر بھی نظر دوڑا سکتا ہے۔ اسے وہ چہرے نظر آئیں گے جو ایسے ہی مرتب، چمکتے چہروں، صاف لباس، تجربہ کار مشیروں، آزمودہ سیاسی حربوں سے آراستہ اور طاقتور دوستوں سے مزین سیاسی نیٹ ورک کے مالک ملیں گے، کامیابی جن کے دروازوں پر دستک دیتی آئی، جن کی کامیابی پر شرطیں لگائی جا سکتی ہیں۔

دوسری طرف ٹرمپ ایک اور اینٹی ماڈل ہیں۔ غیر مہذب، کرخت، درشت لہجے میں بات کرنے والے، جھگڑالو، تیز مزاج، برداشت نہ کرنے والے، مخالف پر سیدھے اور تیز حملے کرنے والے، ناتجربہ کار، جنہوں نے کوئی بھی سیاسی عہدہ آج تک حاصل نہیں کیا، ہاں کچھ ادارے اچھے طریقے سے چلائے، اپنے کاروباری ادارے۔ کامیابی کی داستانوں کا سحر پاش پاش کرنے والی ایک کتاب ہمارے نوجوان دوست عاطف حسین نے لکھی ہے، کامیابی کا مغالطہ۔ اس ایک کتاب نے کامیابی کی درجنوں فسوں خیز کتابوں، لیکچرز کا نشہ اڑا دیا۔ ٹرمپ نے بھی اپنی تمام تر خامیوں، تمام تر اینٹی ہیرو امیج کے ساتھ وہی کچھ ہیلری کلنٹن کے ساتھ کیا۔ کامیابی کا ماڈل تباہ ہو گیا اور رف اینڈ ٹف ٹرمپ جیت گئے۔

کرشمہ کیسے تخلیق ہوا؟
ٹرمپ کی کامیابی ایک کرشمہ، معجزہ کی طرح ہے، مگر یہ انسانہ کرشمہ ہے، جسے تخلیق کیا گیا۔ ٹرمپ کو اس کا کریڈٹ دینا چاہیے، یہ اس کا کارنامہ ہے۔ جو ٹرمپ کی طرح کرشمہ تخلیق کرنا چاہتا ہے، اسے بھی ایک خاص پیٹرن میں کام کرنا ہو گا۔

ٹرمپ نے اصل کام یہ کیا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی نبض پر اپنی انگلیاں رکھ کر ان کے دلوں کی خواہش کو بھانپ لیا اور وہی بیانیہ اختیار کیا جو ان کی آواز تھی۔ عام امریکی، خاص کر چھوٹے شہروں، پسماندہ علاقوں میں رہنے والے جن کے مسائل خاصے بڑھ چکے تھے، مشی گن، وسکانسن، اوہائیو، پنسلوانیا ٹائپ ریاستیں جہاں صنعتیں پہلے تھیں، پھر سست رفتار امریکی معیشت کے باعث وہاں سے منتقل ہوگئیں، کچھ باہر چلی گئیں، مقامی لوگ پریشان حال ہو گئے۔ ٹرمپ نے ان سب کو بہتر معیشت، بہتر مستقبل کی امید دلائی۔ یہ بتایا سمجھایا کہ میں نے اچھے طریقے سے اپنے ادارے چلائے ہیں، میں ملک بھی اچھے طریقے سے چلاؤں گا، اور عام امریکی کے مفادات سب سے مقدم رکھوں گا، ایک طرح سے سب سے پہلے امریکہ والی سوچ۔ یہ بات ان لوگوں کے دلوں میں اتر گئی ، وہ دیوانہ وار باہر نکلے اور ہیلری کلنٹن کی تمام ترانتخابی مہم ، میڈیا کے پروپیگنڈے اور کامیابی کے ماڈل کو بہا کر لے گئے۔ ٹرمپ کا فوکس بڑا پرفیکٹ رہا، اسے معلوم تھا کہ اس نے کن کے لیے بات کرنی ہے، انھی نکات پراس کی توجہ مرکوز رہی، اس نے یہ نہیں دیکھا کہ ایسے بولڈ، جارحانہ سٹانس سے کچھ اور طبقے ناراض ہوجائیں گے، مسلمان، کالے، ہسپانوی حلقے اس کے خلاف ہوجائیں گے۔ اس نے اچھی طرح تجزیہ کیا کہ اکثریت سفید فام امریکیوں کی ہے، جو تارکین وطن سے ناراض اور برہم ہیں، جنھیں امریکی حکومت کی سپرپاور والی پالیسیوں سے اب چڑ ہونے لگی ہے، ان کے نزدیک ان کی معیشت، زندگی زیادہ اہم ہے، بجائے دنیا بھر کے مسائل حل کرنے اور نیٹو پر اربوں ڈالر کی رقوم خرچ کرنے سے۔ ٹرمپ نے ان تمام فیکٹرز کو ایکسپلائیٹ کیا۔ اس نے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کے لیے ایسے پرکشش نعرے لگائے جو ان کی توجہ کھنچنے میں کامیاب رہے۔ ٹیکسوں کی شرح میں کمی سے درمیانہ اور خوشحال طبقہ بھی متوجہ ہوا۔ نسل پرستی کے جذبات کو بھی استعمال کیا، میل شاونزم کو بھی اچھے طریقے سے برتا، یہ احساس بھی لوگوں کو دلایا کہ کالے تو باہر آ کر ہیلری کو جتوا دیں گے، اگر تم لوگ باہر نہ آئے تو ایک بار پھر محروم رہ جاؤ گے ۔

ٹرمپ کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ اس نے ہیلری کلنٹن کو سٹیٹس کو کا حصہ ثابت کر دیا۔ یہ بات اچھے طریقے سے امریکی ووٹروں کو سمجھا دی کہ ہیلری تو اسی روایتی امریکی نظام کا حصہ ہے، اس کے جیتنے سے کوئی بڑی تبدیلی کیسے آ سکتی ہے؟ یہ تو پچھلے پچیس تیس سال سے چلتے معاملات کو اسی انداز میں چلائے گی۔ اگر تبدیلی چاہتے ہو تو میرے جیسے بولڈ اور دبنگ شخص کو جتواؤ۔ اگرچہ مجھے کوئی سیاسی تجربہ نہیں، میرا انداز زیادہ شائستہ اور مہذب نہیں، بولتا بدتمیزی سے ہوں، اپنے مخالفین سے رعایت نہیں برتتا، ان پر تند و تیز حملے کرتا ہوں، مگر میں بہرحال اس سٹیٹس کو کا حصہ نہیں رہا، میں کوئی روایتی سیاستدان نہیں ہوں، سٹیٹس کو کی علمبردار جماعتیں یا گروہ بھی میرے اتحادی نہیں ہیں، اپنی ناتجربہ کاری کے باوجود چونکہ میں تبدیلی لانے میں مخلص ہوں، میں کچھ کر دکھانا چاہتا ہوں، اس سسٹم کو ہلاجلا کر، اس میں شگاف پیدا کر کے عام آدمی کی زندگی بہتر بنانا چاہتا ہوں، اس لیے مجھے ہی حکمران بناؤ۔ 9 نومبر کے دن امریکی ووٹروں نے دنیا کو بتلا دیا کہ انہوں نے ٹرمپ کی یہ دلیل اور یہ بیانیہ قبول کر لیا۔ اسے موقع مل گیا۔ اب ٹرمپ پرفارم کر پائے یا نہیں، یہ ایک الگ سوال ہے، مگر اس کا فیصلہ دوتین برس بعد ہی ہو سکے گا۔

پاکستان میں بھی کوئی چاہے تو ٹرمپ کی کامیابی سے سبق سیکھ سکتا ہے۔ یہ جان سکتا ہے کہ کس ہوشیاری اور سمجھداری سے ٹرمپ نے امریکی سیاست کے تضادات سے فائدہ اٹھایا، روایتی اور منظم سیاست کا حصہ نہ ہونے، منفی پبلسٹی اور بد تمیزی کا آئیکون بننے کے باوجود کس طرح کامیابی کے آئیڈیل ماڈل کو پاش پاش کیا جا سکتا ہے، کامیابی کا ہما جن کے سروں پر ہمیشہ بیٹھا کرتا ہے، ان سے الیکشن کس طرح چھینا جاتا ہے۔ یہ سب سیکھا جا سکتا ہے، اگر کوئی سیکھنے والا ہو۔
 

کعنان

محفلین
امریکہ میں صدارتی الیکشن کے بعد ہنگامے کیوں ہوئے؟
11/11/2016
تحریر: ابومحمد مصعب


ابومصعب اگر آپ یہاں واشنگٹن پوسٹ کے دیے گئے لنک پر کلک کریں گے تو بالکل حیران نہیں ہوں گے کیوں کہ ویڈیو میں جو کچھ نظر آ رہا ہے، وہ ہم اور آپ بارہا اپنے ملک کے بڑے شہروں کراچی، لاہور وغیرہ میں دیکھ چکے ہیں۔ دوکانوں کے شیشے لاٹھیوں سے توڑے جا رہے ہیں، سڑک کے درمیان چیزوں کو رکھ کر نذرآتش کیا جا رہا ہے، ایک شخص کو آپ درخت کو آگ لگاتے ہوئے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ مظاہرین کا بس ایک ہی نعرہ ہے:

Not my President
یعنی ٹرمپ ہمارا صدر نہیں ہے۔

امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج سے لوگ اتنے اپ سیٹ ہیں کہ کئی لوگوں کو اپنے ٹی وی سیٹ توڑتے، لیپ ٹاپس کے اوپر ڈنڈے برساتے اور دھاڑیں مار مار کر روتے دکھایا گیا ہے۔ اس تمام تر صورتحال کو صدر ٹرمپ بھی بڑی حیرت سے دیکھ رہے ہیں اور جیت کی خوشی میں ان کی کھلی باچھیں ابھی اپنی جگہ پر بھی نہ آئی تھیں کہ ہنگاموں کے پھوٹنے پر حیران و پریشان ہیں۔ لوگ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں ٹرمپ کے خلاف نہ صرف مظاہرے کر رہے ہیں بلکہ غم و غصہ میں بھرے لوگ ہنگامے بھی کر رہے ہیں۔ ٹرمپ پراپرٹی کا کاروبار کرتے ہیں اور کئی ریاستوں میں ان کی فلک بوس عمارتیں ہیں۔ لوگوں نے ان عمارتوں کے باہر جمع ہو کر بھی اپنی نفرت اور غصہ کا اظہار کیا ہے۔ اسی لیے نو منتخب صدر ٹرمپ نے تازہ ٹوئٹ کیا ہے کہ اس قدر واضح جیت کے باوجود جو کچھ ہو رہا ہے، وہ نہایت افسوسناک ہے، وہ میڈیا کے مقرر کردہ لوگوں کی ایما پر ہو رہا ہے۔ مسٹر ٹرمپ کے الفاظ:


Just had a very open and successful presidential election. Now professional protesters, incited by the media, are protesting. Very unfair!

یہ سب کیوں ہوا؟ جمہوری ملک میں جمہوری مزاج رکھنے والے عوام کو آخر ٹرمپ کی جیت کیوں ہضم نہیں ہوئی؟ جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ امریکہ میں چاہے صدر جو بھی آئے، بادشاہ گروں کی طرف سے اس کے پیچھے ایک لمبی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ لابنگ کرنے والی فرموں کو اپنا اپنا گھوڑا جتوانے کے لیے ہائر کیا جاتا ہے، مہمات لانچ کی جاتی ہیں اور میڈیا کے ذریعہ ملک کے اندر ایک عمومی فضا بنا دی جاتی ہے کہ فلاں تو آیا ہی آیا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر میڈیا ٹاکس، صحافیوں کے تجزیے اور سروے، مس کلنٹن کی جیت کی خوشخبری سنا رہے تھے، مگر الیکشن کے رزلٹ نے عوام کو حیران و پریشان کر دیا، اور وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ کیا یہ بات حیران کن نہیں کہ آج سے بارہ تیرہ سال قبل کسی فلم میں یا ویڈیو گیم میں مسٹر ٹرمپ کو امریکی صدارتی دوڑ میں شامل دکھایا گیا ہے۔ کیا یہ سب کچھ اویں ای تھا؟

آخر میں یہ بات کہ امریکی عوام کی اکثریت نے مس کلنٹن پر ڈونلڈ ٹرمپ کو کیوں ترجیح دی؟ اس کا جواب ہے کہ امریکی عوام کے ساتھ جارج بش کے بعد اوبامہ کی صورت میں ہاتھ ہو چکا ہے۔ لوگ جارج بش کی امریکی فارن پالیسی سے خوش نہیں تھے جبکہ وہ قوتیں جو اسی پالیسی کو جاری رکھنا چاہتی تھیں، جانتی تھیں کہ اگر کوئی ایسا شخص امریکہ کا صدر بن گیا جس پر ان کا ہاتھ نہ ہو تو کھیل کا پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے۔ لہٰذا انہوں نے عوام کو ایک تبدیلی دکھانے کے لیے اوبامہ کو میدان میں اتارا۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ وہ ملک جس میں کالوں کے ساتھ ہر سطح پر تھوڑا بہت امتیاز برتا جاتا ہے، وہاں کیا کوئی گورا میسر نہیں تھا جو مسٹر اوبامہ کو آگے لایا گیا۔ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ ’’تبدیلی‘‘ کے لفظ کو مزید اجاگر کرنے کے لیے یہ محض ایک چال تھی۔ گوری چمڑی کے بجائے جب لوگ کالی چمڑی کو دیکھیں گے تو پچاس فیصد تو نفسیاتی طور پر ویسے ہی ’’تبدیلی‘‘ آنے کا ذہن بنا لیں گے۔ مگر ثابت ہوا کہ یہ سب دھوکے کے سوا کچھ نہ تھا۔ اور عوام نے دیکھ لیا کہ امریکی فارن پالیسی سے لے کر گوانتانامو بے تک، اوبامہ نے جتنے وعدے کیے تھے، وہ سب سراب ثابت ہوئے، اور پالیسیاں جوں کی توں چلتی رہیں۔

اب کی بار اسی شکاری نے ایک بار پھر ’’تبدیلی‘‘ کا تاثر دینے کے لیے جنس کا انتخاب کیا اور کسی مرد کے بجائے عورت کو آگے کیا، تاکہ لوگ ’’تبدیلی‘‘ کو نفسیاتی طور پر محسوس کریں۔ مگر اس بار عوام نے جان لیا کہ انہیں ایک بار پھر ماموں بنایا جا رہا ہے، اور مس کلنٹن کٹھ پتلی سے بڑھ کر کچھ نہیں، جو اسی فارن پالیسی کو جاری رکھیں گی جو پچھلے سولہ سالوں سے چل رہی ہے، لہٰذا انہوں نے اپنے تئیں ایک مختلف پروگرام رکھنے والے شخص کو اپنا صدر منتخب کر لیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نومنتخب صدر اپنے وہ وعدے پورے کر سکیں گے جو انہوں نے امریکی عوام سے الیکشن مہم کے دوران کیے تھے؟ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا کرنا ان کے لیے ناممکن نہیں تو آسان بھی نہ ہوگا۔ کیوں کہ اس سلسلہ میں ان کو کئی قانونی پیچیدگیوں اور ’’بادشاہ گروں‘‘ کی جانب سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نتیجہ یہ کہ کسی بڑی تبدیلی کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ اور پھر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے اصل ’’بادشاہ گروں‘‘ کی قوت کو بھی خوب جانتے ہیں۔ کیا انہیں چار امریکی صدور کا علم نہ ہوگا جن کو ان کی حکومت ہی میں قتل کر دیا گیا تھا۔ وہ ہیں: ابراہام لنکن، جیمس اے گارفیلڈ، ولیم مکین لی اور صدر جان ایف کینیڈی۔ یوں اب تک امریکہ کے 44 صدور میں سے چار کو مار کر جان چھڑائی گئی ہے۔


ٹرمپ کے خلاف احتجاج کی ویڈیو
خبریں
‘Not my president’: Thousands protest Trump in rallies across the U.S.
Anti-Trump protests turn violent in Oakland, while Cher and Madonna attend NYC march | Daily Mail Online
 

akhtar ali durrani

محفلین
ڈونلڈ ٹرمپ انسانیت کے لیے یہ خدمت پیش کریگا کہ وہ اپنے رویہ سے ثابت کریگا کہ غیر سیاستدان سیاست کے لئے قابل نہیں-
 
آخری تدوین:
Top