منصور مکرم
محفلین
دوسرا عنوان : افغان ٹرانسپورٹرز کے مسائل
ایک بلاگر کا سب سے بڑا یہی کام ہوتا ہے کہ جو حالات وہ دیکھے یا جن حالات سے گذرے ،یا جن مسائل کا سامنا کرئے ،بس اسکو تحریر میں لائے۔
رمضان میں ٹرانسپورٹ یونین کی طرف سے رابطہ کیا گیا کہ ایک ٹیم تیار ہے ،طورخم(پاک افغان بارڈر) تک جانے کیلئے تاکہ ہمارے مسائل پر روشنی ڈال سکے۔لھذا آپ سے بھی استدعاء ہے کہ ہمارے ساتھ شامل ہوجائیں۔
دراصل انکے پاس کورٹ آرڈر بھی موجود تھا کہ ان سے کسی قسم کا ٹیکس وصول نہ کیا جائے ،کہ انکی لوڈنگ اَن لوڈنگ کراچی یا لاہور سے ہوتی ہے۔لیکن پھر بھی کسٹم ،ایکسائز، ملیشیاء ،لیوی، موٹر وئے پولیس ،ٹریفک پولیس ،عام پولیس،خاصہ دار فورس اور پولیٹیکل ایجنٹ کا عملہ ہر گاڑی سے کل ملا کرایک پیرے(ٹرپ) میں تقریبا 20-30 ہزار روپے تک ظالمانہ رشوت لیتے ہیں۔
نہ دینے پر ڈرائیوروں کو غلیظ گالیاں دی جاتی ہیں،عدالت کو گالیاں دی جاتی ہیں۔بلکہ خیبر ایجنسی میں تو پولیٹیکل ایجنٹ کا ذیلی عملہ کسی عدالت کو جانتا تک نہیں۔
کلاشن کوف انکے ہاتھ میں ہوتی ہے،اور رشوت دینے میں معمولی تاخیر پر ڈرائیوروں کو بے عزت کیاجاتا ہے،انکی گاڑی کو نقصان پہنچایا جاتا ہے،ٹرکوں کے شیشے توڑے جاتے ہیں۔
اگر کوئی یہ کہے کہ جناب یہ کیوں نیٹو کا سامان لے جاتے ہیں ،تو انکے علم میں یہ بات لاؤنگا کہ یہ نیٹو سپلائی والے نہیں بلکہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی گاڑیاں ہوتی ہیں۔جس میں افغان تاجر پاکستان سے سامان لے جاتے ہیں۔گویا انکے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے کا مطلب پاکستانی مارکیٹ کا راستہ روکنا ہے۔جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ افغان تاجر بد ظن ہوتے جا رہے ہیں۔
بلکہ انہی حالات کے سبب و اب ایران کو ترجیح دیتے ہیں۔
یہ نہ ایک گاڑی ہوتی ہیں نہ دو بلکہ صرف مذکورہ بالا یونین کے ساتھ 200 ٹرک و ٹرالرز رجسٹرڈ ہیں۔اسکے علاہ بھی چند ٹرانسپورٹ یونینز ہیں۔
چنانچہ ہم نے ان تمام وقعات کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرنے کا ارادہ کیا۔ ہمارے ساتھ انٹر نیشنل میڈیا کا اہلکار بھی تھا اور لوکل پاکستانی میڈیا کے اہلکار بھی۔
اب انہوں نے چونکہ اس پر باقاعدہ پروگرام کرنے تھے ،اسلئے رشوت والے وقوعات کی ریکارڈنگ وہی کرتے رہے۔ اور میں اپنے بلاگ کیلئے مواد اکھٹا کرتا رہا۔
بچپن میں ابو کے ساتھ کئی بار جانے کے بعد کافی عرصہ ہوا تھا کہ میں بھی طورخم نہیں گیا تھا،اسلئے میں انکے ساتھ جانےپر راضی ہوا۔چنانچہ اپنے چھوٹے کیمرے کو ساتھ لے جانے کیلئے تیار کردیا۔تاکہ محفلین اور بلاگ کے قارئین کیلئے تصاویر مہیا کئے جاسکیں۔
ہمارا دو گاڑیوں کا قافلہ روانہ ہوا۔
سب سے پہلے جب خیبر ایجنسی میں داخل ہوتے ہیں تو تختہ بیگ چیک پوسٹ آتی ہے جو کہ لیوی فورس، ملیشیاءاورخاصہ دار فورس کی مشترکہ چیک پوسٹ ہے۔
یہاں باقاعدہ روزانہ 7-8 لاکھ روپے کی رشوت جمع کی جاتی ہے ،اور پھر انکو تقسیم کیا جاتا ہے۔
تختہ بیگ چیک پوسٹ کے قریب سڑک کی تعمیر کی ایک جھلک
سڑکی کی تعمیر کے حوالے سے ایک ویڈیو
تختہ بیگ کے بعد جمرود بازار کا علاقہ ہے،جو کہ پشاور سے 25 منٹ کے فاصلے پر ہے۔
سامنے باب خیبر کی ایک دھندلی جھلک
جمرود بازار میں عین باب خیبر کے دائیں طرف آرمی اور ایف سی کا مشترکہ قلعہ ہے،اور بائیں طرف اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کا دفتر اور جیل۔
سڑک کنارے ایک قبائلی گھر
سامنے سے آنے والے ٹرک میں امریکی فوج کی عسکری گاڑی
چونکہ سڑک زیر تعمیر ہے ،اسلئے بعض جگہوں پر پہاڑی ندی نالوں میں سے گذرنا پڑتا ہے۔یہ بھی دراصل ایک برساتی نالہ ہے،جس کےقریب ٹیلے پرملیشیاء فورس اور خاصہ دار کی مشترکہ پوسٹ موجود ہے۔
سامان سے لدے ڈاٹسن کیلئے گھات لگائے فورسز، روپوں کی لالچ میں روزے کی حالت میں اور سخت گرمی میں بھی انہوں نے عارضی ٹھکانہ بنایا ہے ،کہ کوئی مال گاڑی چھوٹ نہ جائے۔
ایک برساتی نالے میں سے گذرتے ہوئے،جس کے اوپر انگریز کے زمانے میں بنایا گیا ریل گاڑی کا پل نظر آرہا ہے۔
یہ سامنے سفید ٹو ڈی بھی ہمارئے قافلہ میں شریک ہے۔
اسی کا ایک ویڈیو منظر
نالہ سے اوپر پکی سڑک کی طرف جانے کیلئے اس خطرناک چڑھائی پر چڑھنا پڑتا ہے۔
یہ کالی کرولا جو اوپرنظر آرہی ہے ،تو یہی ہماری سواری تھی۔
چڑھائی کتنی سخت ہے ؟
شائد ویڈیو دیکھے بغیر آپ اندازہ نہ کرسکیں۔
اوپر کی دو تصاویر میں جو پانی نظر آرہا ہے،یہ قدرتی چشمے کا پانی ہے۔یہ چشمہ اسی خراب راستے کے ساتھ بہتا ہے۔
ایک جھلک یہاں ملاحظہ کیجئے۔
ایک پہاڑی منظر
ذیل کی تصویر میں کچھ خاص۔۔۔
کچھ دیکھا ۔۔۔۔۔۔!!!
نہیں ۔۔۔۔
تو دیکھئے انگریز کے زمانے کے ریلوے ٹنل جو ابھی تک قائم ودائم ہیں ،بس معمولی مرمت کرنی ہے۔
لو جی شگئی قلعہ تک پہنچ گئے۔
شگئی قلعہ سے گزرنے کے بعد ایک پہاڑی کے پر تعمیراتی کا ہو رہا تھا ،لیکن نیچے اس سے تھوڑا فاصلے پر ایک فوجی کھڑا تھا، اور وہ بھی سادہ لباس میں لیکن مسلح، جیسے ہی اس نے ہماری گاڑیاں دیکھی ،اور کیمرئے دیکھے تو معلوم نہیں اس کے دل میں کیا خیال آیا کہ ہماری دوسری گاڑی کو روک لیا، اور لگا اس سے جھگڑنے۔
عجیب بات یہ دیکھئے کہ جس بندے سے یہ فوجی باتیں کر رہا تھا، اس کو اسی وقت سورس نے کال کی کہ باڑہ میں مزید بے گناہ لوگوں کی 18 لاشیں مل گئی ہیں،جس کے چہروں کو مسخ کیا گیا تھا،پورے باڑہ پر فوجی کنٹرول اور پھر بھی 18 مسخ شدہ لاشیں۔۔۔۔
شائد اس گیم کو ہم نہ سمجھ سکیں۔
چنانچہ فوجی اسکے ساتھ جھگڑتا رہا اور وہ بے نیاز فون پر باتیں کرتا رہا۔
ہمیں تو یہ بھی سمجھ نہیں آئی کہ اگر اسکی ڈیوٹی تھی تو سادہ لباس میں کیوں۔۔۔۔۔
بہر حال ہم نے اسکو بتایا کہ ہم یہاں انسپیکشن کیلئے آئے ہوئے ہیں تو پھر بندے سے جان چھوٹی۔
یہ رہا وہ فوجی
تیر نشان اسکی کمر سے لٹکی بندوق کی طرف ہے۔
خیر چونکہ ہم نے اگے جانا تھا ،اسلئے اس واقعے کو اگنور کرکے ہم آگے علی مسجد (ایک علاقے کا نام) کی طرف بڑھ گئے۔ تصویر میں فورسز کا نشان اور خوش آمدیدی پیغام نمایاں ہے۔
ایک بلاگر کا سب سے بڑا یہی کام ہوتا ہے کہ جو حالات وہ دیکھے یا جن حالات سے گذرے ،یا جن مسائل کا سامنا کرئے ،بس اسکو تحریر میں لائے۔
رمضان میں ٹرانسپورٹ یونین کی طرف سے رابطہ کیا گیا کہ ایک ٹیم تیار ہے ،طورخم(پاک افغان بارڈر) تک جانے کیلئے تاکہ ہمارے مسائل پر روشنی ڈال سکے۔لھذا آپ سے بھی استدعاء ہے کہ ہمارے ساتھ شامل ہوجائیں۔
دراصل انکے پاس کورٹ آرڈر بھی موجود تھا کہ ان سے کسی قسم کا ٹیکس وصول نہ کیا جائے ،کہ انکی لوڈنگ اَن لوڈنگ کراچی یا لاہور سے ہوتی ہے۔لیکن پھر بھی کسٹم ،ایکسائز، ملیشیاء ،لیوی، موٹر وئے پولیس ،ٹریفک پولیس ،عام پولیس،خاصہ دار فورس اور پولیٹیکل ایجنٹ کا عملہ ہر گاڑی سے کل ملا کرایک پیرے(ٹرپ) میں تقریبا 20-30 ہزار روپے تک ظالمانہ رشوت لیتے ہیں۔
نہ دینے پر ڈرائیوروں کو غلیظ گالیاں دی جاتی ہیں،عدالت کو گالیاں دی جاتی ہیں۔بلکہ خیبر ایجنسی میں تو پولیٹیکل ایجنٹ کا ذیلی عملہ کسی عدالت کو جانتا تک نہیں۔
کلاشن کوف انکے ہاتھ میں ہوتی ہے،اور رشوت دینے میں معمولی تاخیر پر ڈرائیوروں کو بے عزت کیاجاتا ہے،انکی گاڑی کو نقصان پہنچایا جاتا ہے،ٹرکوں کے شیشے توڑے جاتے ہیں۔
اگر کوئی یہ کہے کہ جناب یہ کیوں نیٹو کا سامان لے جاتے ہیں ،تو انکے علم میں یہ بات لاؤنگا کہ یہ نیٹو سپلائی والے نہیں بلکہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی گاڑیاں ہوتی ہیں۔جس میں افغان تاجر پاکستان سے سامان لے جاتے ہیں۔گویا انکے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے کا مطلب پاکستانی مارکیٹ کا راستہ روکنا ہے۔جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ افغان تاجر بد ظن ہوتے جا رہے ہیں۔
بلکہ انہی حالات کے سبب و اب ایران کو ترجیح دیتے ہیں۔
یہ نہ ایک گاڑی ہوتی ہیں نہ دو بلکہ صرف مذکورہ بالا یونین کے ساتھ 200 ٹرک و ٹرالرز رجسٹرڈ ہیں۔اسکے علاہ بھی چند ٹرانسپورٹ یونینز ہیں۔
چنانچہ ہم نے ان تمام وقعات کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرنے کا ارادہ کیا۔ ہمارے ساتھ انٹر نیشنل میڈیا کا اہلکار بھی تھا اور لوکل پاکستانی میڈیا کے اہلکار بھی۔
اب انہوں نے چونکہ اس پر باقاعدہ پروگرام کرنے تھے ،اسلئے رشوت والے وقوعات کی ریکارڈنگ وہی کرتے رہے۔ اور میں اپنے بلاگ کیلئے مواد اکھٹا کرتا رہا۔
بچپن میں ابو کے ساتھ کئی بار جانے کے بعد کافی عرصہ ہوا تھا کہ میں بھی طورخم نہیں گیا تھا،اسلئے میں انکے ساتھ جانےپر راضی ہوا۔چنانچہ اپنے چھوٹے کیمرے کو ساتھ لے جانے کیلئے تیار کردیا۔تاکہ محفلین اور بلاگ کے قارئین کیلئے تصاویر مہیا کئے جاسکیں۔
ہمارا دو گاڑیوں کا قافلہ روانہ ہوا۔
سب سے پہلے جب خیبر ایجنسی میں داخل ہوتے ہیں تو تختہ بیگ چیک پوسٹ آتی ہے جو کہ لیوی فورس، ملیشیاءاورخاصہ دار فورس کی مشترکہ چیک پوسٹ ہے۔
یہاں باقاعدہ روزانہ 7-8 لاکھ روپے کی رشوت جمع کی جاتی ہے ،اور پھر انکو تقسیم کیا جاتا ہے۔
تختہ بیگ چیک پوسٹ کے قریب سڑک کی تعمیر کی ایک جھلک
سڑکی کی تعمیر کے حوالے سے ایک ویڈیو
تختہ بیگ کے بعد جمرود بازار کا علاقہ ہے،جو کہ پشاور سے 25 منٹ کے فاصلے پر ہے۔
سامنے باب خیبر کی ایک دھندلی جھلک
جمرود بازار میں عین باب خیبر کے دائیں طرف آرمی اور ایف سی کا مشترکہ قلعہ ہے،اور بائیں طرف اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کا دفتر اور جیل۔
سڑک کنارے ایک قبائلی گھر
سامنے سے آنے والے ٹرک میں امریکی فوج کی عسکری گاڑی
چونکہ سڑک زیر تعمیر ہے ،اسلئے بعض جگہوں پر پہاڑی ندی نالوں میں سے گذرنا پڑتا ہے۔یہ بھی دراصل ایک برساتی نالہ ہے،جس کےقریب ٹیلے پرملیشیاء فورس اور خاصہ دار کی مشترکہ پوسٹ موجود ہے۔
سامان سے لدے ڈاٹسن کیلئے گھات لگائے فورسز، روپوں کی لالچ میں روزے کی حالت میں اور سخت گرمی میں بھی انہوں نے عارضی ٹھکانہ بنایا ہے ،کہ کوئی مال گاڑی چھوٹ نہ جائے۔
ایک برساتی نالے میں سے گذرتے ہوئے،جس کے اوپر انگریز کے زمانے میں بنایا گیا ریل گاڑی کا پل نظر آرہا ہے۔
یہ سامنے سفید ٹو ڈی بھی ہمارئے قافلہ میں شریک ہے۔
اسی کا ایک ویڈیو منظر
نالہ سے اوپر پکی سڑک کی طرف جانے کیلئے اس خطرناک چڑھائی پر چڑھنا پڑتا ہے۔
یہ کالی کرولا جو اوپرنظر آرہی ہے ،تو یہی ہماری سواری تھی۔
چڑھائی کتنی سخت ہے ؟
شائد ویڈیو دیکھے بغیر آپ اندازہ نہ کرسکیں۔
اوپر کی دو تصاویر میں جو پانی نظر آرہا ہے،یہ قدرتی چشمے کا پانی ہے۔یہ چشمہ اسی خراب راستے کے ساتھ بہتا ہے۔
ایک جھلک یہاں ملاحظہ کیجئے۔
ایک پہاڑی منظر
ذیل کی تصویر میں کچھ خاص۔۔۔
کچھ دیکھا ۔۔۔۔۔۔!!!
نہیں ۔۔۔۔
تو دیکھئے انگریز کے زمانے کے ریلوے ٹنل جو ابھی تک قائم ودائم ہیں ،بس معمولی مرمت کرنی ہے۔
لو جی شگئی قلعہ تک پہنچ گئے۔
شگئی قلعہ سے گزرنے کے بعد ایک پہاڑی کے پر تعمیراتی کا ہو رہا تھا ،لیکن نیچے اس سے تھوڑا فاصلے پر ایک فوجی کھڑا تھا، اور وہ بھی سادہ لباس میں لیکن مسلح، جیسے ہی اس نے ہماری گاڑیاں دیکھی ،اور کیمرئے دیکھے تو معلوم نہیں اس کے دل میں کیا خیال آیا کہ ہماری دوسری گاڑی کو روک لیا، اور لگا اس سے جھگڑنے۔
عجیب بات یہ دیکھئے کہ جس بندے سے یہ فوجی باتیں کر رہا تھا، اس کو اسی وقت سورس نے کال کی کہ باڑہ میں مزید بے گناہ لوگوں کی 18 لاشیں مل گئی ہیں،جس کے چہروں کو مسخ کیا گیا تھا،پورے باڑہ پر فوجی کنٹرول اور پھر بھی 18 مسخ شدہ لاشیں۔۔۔۔
شائد اس گیم کو ہم نہ سمجھ سکیں۔
چنانچہ فوجی اسکے ساتھ جھگڑتا رہا اور وہ بے نیاز فون پر باتیں کرتا رہا۔
ہمیں تو یہ بھی سمجھ نہیں آئی کہ اگر اسکی ڈیوٹی تھی تو سادہ لباس میں کیوں۔۔۔۔۔
بہر حال ہم نے اسکو بتایا کہ ہم یہاں انسپیکشن کیلئے آئے ہوئے ہیں تو پھر بندے سے جان چھوٹی۔
یہ رہا وہ فوجی
تیر نشان اسکی کمر سے لٹکی بندوق کی طرف ہے۔
خیر چونکہ ہم نے اگے جانا تھا ،اسلئے اس واقعے کو اگنور کرکے ہم آگے علی مسجد (ایک علاقے کا نام) کی طرف بڑھ گئے۔ تصویر میں فورسز کا نشان اور خوش آمدیدی پیغام نمایاں ہے۔