بہت ہی عمدہ اور معلوماتی مراسلہ،
آپ گھومتے پھرتے رہا کریں منصور بھائی کیوں کہ آپ تحریر کے ساتھ تصویر اور خاص طور پر ویڈیو بھی شئیر کرتے ہیں تو مزہ آ جاتا ہے سفر کا۔
اگر کوئی یہ کہے کہ جناب یہ کیوں نیٹو کا سامان لے جاتے ہیں ،تو انکے علم میں یہ بات لاؤنگا کہ یہ نیٹو سپلائی والے نہیں بلکہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی گاڑیاں ہوتی ہیں۔جس میں افغان تاجر
پاکستان سے سامان لے جاتے ہیں۔گویا انکے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے کا مطلب پاکستانی مارکیٹ کا راستہ روکنا ہے۔جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ افغان تاجر بد ظن ہوتے جا رہے ہیں۔
یہاں ایک چیز کی تصحیح کرنا چاہوں گا۔
افغان ٹریڈ ٹرانزٹ کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ افغانستان کے تاجر یہ تجارت پاکستان کی مصنوعات خرید کر کرتے ہیں اور اس سے پاکستانی صنعت یا مصنوعات کو فائدہ پہنچ رہا ہے بلکہ اس کا مطلب راہداری یعنی راستہ ہے جو پاکستان نے افغانستان کو لاہور اور کراچی کے ذریعے سہولت دی ہے کہ وہ دنیا کے ساتھ پاکستانی راستوں کو استعمال کرتے ہوئے ڈیوٹی فری تجارت کر سکتا ہے۔ صرف انڈیا کے سلسلے میں اس میں درآمد کی پابندی ہے باقی ہر جگہ سے امپورٹ اور ایکسپورٹ کر سکتا ہے افغانستان اس راستے کو استعمال کرتے ہوئے۔ یعنی افغانستان انڈیا کو ایکسپورٹ تو کر سکتا ہے لیکن امپورٹ کی اجازت پاکستان نے نہیں دے رکھی۔ لیکن باقی ممالک کے ساتھ تجارت میں ایسی کوئی پابندی نہیں۔
میرے نذدیک افغان ٹرانزٹ معائدے کا پاکستان کی تجارتی تنزلی میں بہت بڑا ہاتھ ہے، کیوں کے اس کے ذریعے افغانی تاجر یہ ڈیوٹی فری سامان جسے پاکستانی تاجر ڈیوٹی ادا کر کے پاکستان لاتا اور بیچتا ہے افغانستان کے بہانے اسمگل کر کے مقامی منڈی میں بیچ دیتے ہیں، جس سے مقامی صنعتوں ، مقامی تاجروں، ہمارے ذاتی تجارتی معاہدوں اور حجم کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
کسی بھی دو ممالک کے بیچ تجارتی تعلقات یا مراعات ان کےمابین تجارتی حجم کو مدِنظر رکھ کر قائم ہوتے ہیں، مثلاََ: روس سے ہم سالانہ تقریباََ 500 ملین ڈالر کی امپورٹ کرتے ہیں یہ یہی ہماری کسٹمر پروفائل ہے روس کے پاس جبکہ افغانستان کی روس سے سالانہ امپورٹ تقریباََ 900 ملین ڈالر ہے اور اس 900 ملین ڈالر میں سے 80٪ سے زیادہ پاکستان میں ہی کھپ جاتا ہے کیوں کہ افغانستان کو اب بہت سی مراعات حاصل ہیں اور اس کے علاوہ ان کی تجارت پاکستانی سمندری اور ڈرائے پورٹس کے ذریعے امپورٹس پر کوئی ڈیوٹی بھی نہیں اس لیے ان کے پرافٹ کا مارجن بھی زیادہ ہےاور افغانستان جا کر بیچنے کے بجائے یہیں پاکستان میں بیچنا زیادہ نفع بخش ہے اور مقامی پاکستانی سوداگر بھی ملکی مفاد کے بجائے ریٹ کی وجہ سے اسے ترجیح دیتے ہیں۔
اب اگر ہم روس سے اپنی سالانہ امپورٹس کے 500 ملین ڈالر اور وہ امپورٹس جو کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی صلہ ہے اور سمگلنگ کہلاتی ہے اور افغانی تجارتی گڈ بک میں اضافہ کرتی اور کھپتی پاکستان میں ہے اس کے 80٪ کے حساب سے 700 ملین ڈالر کا اضافہ اگر پاکستانی تجارت میں ہو توکیا پاکستان کی 1200 ملین ڈالر کے کسٹمر کے طور پہ رشیاء میں اہمیت میں اضافہ نہ ہوگا۔ کیا ہمارے مقامی تاجروں کو اس سے فائدہ نہ ہو گا۔ اگر ہماری امپورٹس بڑھتی ہیں تو بدلے میں ہماری پراڈکٹ کو بھی اہمیت ملتی ہے۔
اس ٹریڈ ٹرانزٹ کی آڑ میں اور کیا کچھ پاکستان امپورٹ ہو چکا ہے وہ ایک الگ قصہ ہے، اور نیٹو کے ٹرانزٹ کا جو سیاہ باب ہے وہ بھی ایک دن اپنے گل ضرور کھلائے گا۔
افغان ٹریڈ ٹرانزٹ معاہدہ پاکستان کی معیشت، اس کی تجارتی پروفائل، اس کی سڑکوں اور لاجسٹکس ذرائع کے لیے میری نظر میں ایک زہرِ قاتل ہے۔