جاسم محمد
محفلین
ٹيکس کی بنياد اور مفروضات
یہ بیانیہ کہ ہماری انکم ٹیکس کی بنیاد بہت محدود ہے اور آبادی کا صرف ایک فیصد حصہ آمدن پر ٹیکس ادا کرتا ہے، مکمل طور پر بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پچانوے ملین سے زیادہ پاکستانی تو وہ ہيں جو صرف موبائل کے ساتھ 12.5 فیصد پیشگی انکم ٹیکس ادا کرتے ہيں اور اس کے علاوہ لاتعداد لوگ ایڈجسٹ ایبل یا نان ایڈجسٹ ایبل ودہولڈنگ ٹیکسز کے دائرے میں ہیں۔
Dr. Ikramul Haq
January 24, 2020
ڈاکٹر اکرام الحق
یہ بیانیہ کہ ہماری انکم ٹیکس کی بنیاد بہت محدود ہے اور آبادی کا صرف ایک فیصد حصہ آمدن پر ٹیکس ادا کرتا ہے، مکمل طور پر بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پچانوے ملین سے زیادہ پاکستانی تو وہ ہيں جو صرف موبائل کے ساتھ 12.5 فیصد پیشگی انکم ٹیکس ادا کرتے ہيں اور اس کے علاوہ لاتعداد لوگ ایڈجسٹ ایبل یا نان ایڈجسٹ ایبل ودہولڈنگ ٹیکسز کے دائرے میں ہیں۔ یہ ٹیکسز بلاتفریق قابلِ آمدن اور ناقابلِ آمدن آبادی پر لاگو ہوتا ہے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کا ودہولڈنگ ٹیکسز کا نظام سب موبائل استعمال کرنے والوں کو دائرے میں لاتے ہوئے اُن افراد سے بھی جبری انکم ٹیکس وصول کرتا ہے جن کی آمدنی قابلِ ٹیکس حد سے بھی کم ہے۔ ایسے کروڑوں افراد انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن اُن کو اس کا علم ہی نہیں اور نہ ہی وہ ٹیکس ریٹرن (گوشوارہ) فائل کراتے ہیں۔ تو اس سے غلط تاثر قائم ہوتا ہے کہ ہماری آبادی کا بہت کم حصہ انکم ٹیکس ادا کرتا ہے۔ کيا ان سب پر گوشوارہ دینا لازم ہے؟ ہرگز نہیں۔
درحقیقت انکم ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے، لیکن گوشوارے فائل جمع کرانے والوں کی تعداد 2018ء میں تقریباً 22 لاکھ رہی۔ رواں سال میں خیال ہے کہ یہ تعداد 25 لاکھ تک ہو جائے گی جب 31 جنوری کو توسیع شدہ تاریخ برائے داخلہ گوشوارہ ختم ہو گی۔ پچھلے سال کئی ماہ کی توسیع دینے کے بعد یہ تعداد 22 لاکھ تک گئی تھی اور اُس سے محصولات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ مالی سال 19-2018 میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف۔بی۔آر) کی شرحِ نمو منفی 0.4 فیصد تھی۔ زیادہ تر لوگوں نے شاید قابلِ ٹیکس آمدنی سے کم گوشوارے دیئے تاکہ وہ فائلر ہونے کا فائدہ اُٹھا سکیں۔ ایک وقت تھا جب ایف بی آر کے پاس ریٹرن فائل جمع کرانے والوں کی تعداد پچیس لاکھ سے تجاوز کرچکی تھی۔ اس گراوٹ کو دیکھتے ہوئے ایف بی آر کے حکام کو ٹھنڈے دل سے اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ کیا خرابی واقع ہوئی اور یہ ریٹرنز جمع کرانے والے کہاں غائب ہوگئے؟ درحقیقت یہ تنزلی کسی بھی ٹیکس وصول کرنے والی مشینری کے لیے انتہائی تشویش ناک ہونی چاہیے لیکن ایف بی آر اس سے مکمل طور پر اغماض برتتا ہے، جیسا کہ یہ کوئی معمول کی صورتِ حال ہو۔
پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے مطابق جولائی 2014ء میں، بائیومیٹرک تصدیق سے پہلے، ملک میں موبائل فون صارفین کی تعداد 140,022,516 تھی۔ تصدیق کا عمل مکمل ہونے کے بعد، اپریل 2015ء میں یہ تعداد کم ہوکر 13کروڑ 18 لاکھ رہ گئی۔ اب نومبر 2019 کے آخر میں ان کی تعداد بڑھ کر 16 کروڑ 40 لاکھ ہو گئی تھی۔ مالی سال 2019 میں ایک بڑی تعداد میں موبائل فون صارفین، جن کی تعداد پچانوے ملین سے کم نہیں، نے 12.5 فیصد انکم ٹیکس وفاق اور صوبوں کو سیلز ٹیکس بھی ادا کیا، لیکن ان میں سے صرف 2 فیصد نے ٹیکس ریٹرنز جمع کرائیں۔ ایف بی آر ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیوں کے پاس دستیاب مواد کو جانچنے کی زحمت نہیں کرتا ورنہ وہ دولت مند صارفین کو ریٹرن فائل جمع کرنے کے لئے نوٹس دیتا۔ موبائل فون صارفین کی اکثریت قابلِ ٹیکس آمدن نہیں رکھتی، چنانچہ وہ قانونی طور پر گوشوارہ جمع کرانے کے پابند نہیں۔ اگر وہ ودہولڈنگ ٹیکس کی واپسی بابت ایسا کرتے ہیں تو اُنہیں ڈر ہوتا ہے کہ وہ ایف بی آر کے افسران کی زیادتیوں اور بے ضمیر ٹیکس مشیروں کی بدعنوانی کا شکار ہو جائیں گے۔
خرابی کی اصل جڑ یہ افراد نہیں بلکہ پاکستان کے انتہائی دولت مند افراد ہیں جو ٹیکس گوشوارہ جمع کرانے کی زحمت نہیں کرتے اور اس پر مستزاد یہ کہ حکومت اور ایف بی آر افسران اُن کا مکمل طور پر تحفظ کرتے ہیں۔ یہ صورتِ حال بلاشبہ حکومت اور ایف بی آر کی نااہلی اور بے عملی پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ دولت مند اور طاقتور افراد اپنی حیثیت کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ 2018ء میں ایک ملین سے دس ملین تک ٹیکس ادا کرنے والے افراد کی تعداد محض 30،000 تھی۔ مہنگی گاڑیاں چلانے، پرتعیش گھروں میں رہنے، غیر ملکی سفر کرنے اور وسیع وعریض جاگیریں رکھنے والے اس ملک میں سے صرف 4،780 افراد نے دس لاکھ سے زائد ٹیکس ادا کیا۔
پاکستان کی موجودہ آبادی 220 ملین ہے۔ کل آبادی میں سے 64 فیصد کی عمر پندرہ سال سے اُنتیس سال کے درمیان ہے اور 30 فیصد پندرہ اور اُنیس کے درمیان ہیں۔ (اس کا مطلب ہے کہ زیادہ تر اُن کا شمار کمانے والے افراد میں نہیں ہوتا یا آمدنی قابلِ ٹیکس کی حد سے کم ہے)۔ ہمارے پاس دنیا کی دسویں بڑی لیبر فورس ہے۔ لیبرفورس سروے حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ستر ملین کے لگ بھگ ہے۔ ان میں سے 60ملین کام کرتے ہیں جبکہ باقی بے روزگار ہیں۔ روزگار رکھنے والوں میں سے 43.5 ملین کا تعلق دیہی افرادی قوت سے ہے۔ اگر ان تمام حقائق کو ملاکر پڑھیں تو 19-2018ء کے مالی سال کے دوران کمانے والے افراد کی تعداد 10 سے 12 ملین کے قریب تھی۔ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ اُس سال انکم ٹیکس گوشوارے کا ہدف پورا نہ ہوا۔ یہ کمی کا وسیع خلا آج بھی پایا جاتا ہے۔
جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا کہ جن پچانوے ملین موبائل صارفین نے انکم ٹیکس ادا کیا، اُن میں سے اکثر کی آمدنی قابلِ ٹیکس آمدن سے کم ہوگی، لیکن اُنہیں مختلف شرائط کے تحت ٹیکس ادا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود ایف بی آر بے بنیاد پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے کہ پاکستان کے لوگ انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے اور یہ کہ یہاں ٹیکس کی بنیاد بہت محدود ہے۔ ایک قومی ٹیکس ادارے کی طرف سے پاکستانیوں کا یہ منفی تاثر پیش کرنا انتہائی افسوس ناک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عام پاکستانی سیلز ٹیکس کے علاوہ انکم ٹیکس اد اکرتا ہے لیکن جن افراد سے ٹیکس وصول کیا جانا ہے، اُن سے ایف بی آر وصول نہیں کر پاتا۔ اس طرح یہ صریحاً ایف بی آر کی اپنی کوتاہی اور نااہلی کہ یہ براہِ راست اور بالواسطہ محصولات کے فرق کو کم کرکے معقول حد تک لانے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ یہ اعدادوشمار بہت ہی سادہ ہیں اور ان کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹکس کی طرف سے کیے گئے ہائوس ہولڈ انٹی گریٹڈ سروے کے مطابق پانچ ملین افراد کی سالانہ قابلِ ٹیکس آمدن پندرہ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اگر یہ تمام افراد گوشوارے جمع کرائیں تو تقریباً 1800 بلین روپے وصول کیے جاسکتے ہیں۔ اگر کمرشل کمپنیوں اور دیگر اداروں اور افراد، جن کی آمدنی پانچ لاکھ سے 10 لاکھ روپے کے درمیان ہے، کو بھی اس میں شامل کرلیں توصرف انکم ٹیکس کا حجم 5000 بلین روپے سے کم نہیں ہوگا۔ کیا کوئی پوچھنے والا ہے کہ ایف بی آر نے 19-2018ء کے مالی سال کے دوران 1445 بلین کا انکم ٹیکس جمع کیوں کیا؟
بالواسطہ ٹیکسز میں ہونے والی خرابیوں کی وجہ سے کل پوٹینشل کا صرف پچاس فیصد ہی جمع ہوسکتا ہے۔ 2018-2019ء میں ایف بی آر نے سیلز ٹیکس کی مد میں 1459 بلین روپے، وفاقی ایکسائز کی مد میں238 بلین روپے اور کسٹم ڈیوٹی کی مد میں685 بلین روپے جمع کیے۔ ان شعبوں میں محصولات کا حجم 5000 بلین سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بات پہلے بھی کہہ جاچکی ہے کہ پاکستان میں صرف وفاقی سطح پر ہی محصولات کا حجم دس ٹریلین ہوسکتا ہے۔ تاہم ایسا اُسی صورت میں ممکن ہے جب معاشرے کے طاقتور طبقات کو ٹیکس دائرے میں لایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ٹیکس مشینری کی اوورہالنگ کرنے، محصولات کے نظام میں موجود عقربی خامیوں کو دور کرنے اور طاقتور افراد کو ٹیکس کی رعایت دینے کا سلسلہ بند کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے بینک، واپڈا، پی ٹی سی ایل اور موبائل فون کمپنیاں مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ ہیں اور یہ ایف بی آر کے لیے ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ ان کے پاس موجود اعدادوشمار کو استعمال کرتے ہوئے ایف بی آر منصفانہ ٹیکس بنیاد کا تعین کرسکتا ہے۔ جو افراد گوشوارے جمع نہیں کراتے، ان کے ٹیکس کا تعین عارضی جائزے کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی ستم ظریفی ہے کہ یہاں عام لوگوں جو متوسط یا اُس سے بھی نچلی سطح پر ہیں اُن کو پیشگی ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے اور پھر ستم دیکھیں کہ قابل ٹیکس آمدنی نہ ہونے کے باوجود گوشواروں کے لئے مجبور کیا جاتا ہے اور محصولات ادا نہ کرنے کے طعنے سننا پڑتے ہیں۔ جب کہ انتہائی دولت مند افراد سے کوئی پوچھ گچھ نہیں۔ یہ آئین پاکستان کی کھلی خلاف ورزی ہے جس کے مطابق ریاست کسی شخص کو اُس بات پر مجبور نہیں کرسکتی جو قانون کے مطابق نہ ہو۔ چنانچہ ایک غریب شخص، جس کی آمدن قانون کے مطابق قابلِ ٹیکس نہیں، سے کس طرح جبری ٹیکس وصول کیا جاسکتا ہے؟ کیا وہ ودہولڈنگ والا ٹیکس لینے کے لئے اُس سے زائد خرچ کرے اور پھر اہلکاروں کی تیرہ دستیوں کا شکار بھی ہو۔ ناانصافی پر مبنی موجودہ ٹیکس سسٹم ایک بیوہ سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ نیشنل سیونگ سنٹر میں کی گئی انوسٹمنٹ، پنشن، گریجویٹی فنڈز، جو اُسے شوہر کی وفات پر وصول ہوئے، سے حاصل ہونے والی آمدنی پر بھی 10 فیصد ٹیکس ادا کرے۔ یہی ادارہ دولت مند افراد سے 5 کروڑ کی آمدن پر صرف دس فیصد ٹیکس وصول کرتا ہے۔
پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے وصول کیے جانے والے محصولات میں سے 75 فیصد بالواسطہ ہیں۔ ان کا بوجھ عام شہری کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اگر ایف بی آر اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام ہے تو وہ اس کا اعتراف کرنے کی بجائے عام آدمی کو موردِ الزام ٹھہرانے لگتا ہے۔ کیا اس کی ناقص کارکردگی اور بدعنوانی کی ذمہ داری پاکستان کے عام شہریوں پر عائد ہوتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ جو لوگ اس صورتِ حال کے ذمہ دار ہیں، ان کا محاسبہ کیا جائے۔
فاروق سرور خان
یہ بیانیہ کہ ہماری انکم ٹیکس کی بنیاد بہت محدود ہے اور آبادی کا صرف ایک فیصد حصہ آمدن پر ٹیکس ادا کرتا ہے، مکمل طور پر بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پچانوے ملین سے زیادہ پاکستانی تو وہ ہيں جو صرف موبائل کے ساتھ 12.5 فیصد پیشگی انکم ٹیکس ادا کرتے ہيں اور اس کے علاوہ لاتعداد لوگ ایڈجسٹ ایبل یا نان ایڈجسٹ ایبل ودہولڈنگ ٹیکسز کے دائرے میں ہیں۔
January 24, 2020
ڈاکٹر اکرام الحق
یہ بیانیہ کہ ہماری انکم ٹیکس کی بنیاد بہت محدود ہے اور آبادی کا صرف ایک فیصد حصہ آمدن پر ٹیکس ادا کرتا ہے، مکمل طور پر بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پچانوے ملین سے زیادہ پاکستانی تو وہ ہيں جو صرف موبائل کے ساتھ 12.5 فیصد پیشگی انکم ٹیکس ادا کرتے ہيں اور اس کے علاوہ لاتعداد لوگ ایڈجسٹ ایبل یا نان ایڈجسٹ ایبل ودہولڈنگ ٹیکسز کے دائرے میں ہیں۔ یہ ٹیکسز بلاتفریق قابلِ آمدن اور ناقابلِ آمدن آبادی پر لاگو ہوتا ہے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کا ودہولڈنگ ٹیکسز کا نظام سب موبائل استعمال کرنے والوں کو دائرے میں لاتے ہوئے اُن افراد سے بھی جبری انکم ٹیکس وصول کرتا ہے جن کی آمدنی قابلِ ٹیکس حد سے بھی کم ہے۔ ایسے کروڑوں افراد انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن اُن کو اس کا علم ہی نہیں اور نہ ہی وہ ٹیکس ریٹرن (گوشوارہ) فائل کراتے ہیں۔ تو اس سے غلط تاثر قائم ہوتا ہے کہ ہماری آبادی کا بہت کم حصہ انکم ٹیکس ادا کرتا ہے۔ کيا ان سب پر گوشوارہ دینا لازم ہے؟ ہرگز نہیں۔
درحقیقت انکم ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے، لیکن گوشوارے فائل جمع کرانے والوں کی تعداد 2018ء میں تقریباً 22 لاکھ رہی۔ رواں سال میں خیال ہے کہ یہ تعداد 25 لاکھ تک ہو جائے گی جب 31 جنوری کو توسیع شدہ تاریخ برائے داخلہ گوشوارہ ختم ہو گی۔ پچھلے سال کئی ماہ کی توسیع دینے کے بعد یہ تعداد 22 لاکھ تک گئی تھی اور اُس سے محصولات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ مالی سال 19-2018 میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف۔بی۔آر) کی شرحِ نمو منفی 0.4 فیصد تھی۔ زیادہ تر لوگوں نے شاید قابلِ ٹیکس آمدنی سے کم گوشوارے دیئے تاکہ وہ فائلر ہونے کا فائدہ اُٹھا سکیں۔ ایک وقت تھا جب ایف بی آر کے پاس ریٹرن فائل جمع کرانے والوں کی تعداد پچیس لاکھ سے تجاوز کرچکی تھی۔ اس گراوٹ کو دیکھتے ہوئے ایف بی آر کے حکام کو ٹھنڈے دل سے اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ کیا خرابی واقع ہوئی اور یہ ریٹرنز جمع کرانے والے کہاں غائب ہوگئے؟ درحقیقت یہ تنزلی کسی بھی ٹیکس وصول کرنے والی مشینری کے لیے انتہائی تشویش ناک ہونی چاہیے لیکن ایف بی آر اس سے مکمل طور پر اغماض برتتا ہے، جیسا کہ یہ کوئی معمول کی صورتِ حال ہو۔
پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے مطابق جولائی 2014ء میں، بائیومیٹرک تصدیق سے پہلے، ملک میں موبائل فون صارفین کی تعداد 140,022,516 تھی۔ تصدیق کا عمل مکمل ہونے کے بعد، اپریل 2015ء میں یہ تعداد کم ہوکر 13کروڑ 18 لاکھ رہ گئی۔ اب نومبر 2019 کے آخر میں ان کی تعداد بڑھ کر 16 کروڑ 40 لاکھ ہو گئی تھی۔ مالی سال 2019 میں ایک بڑی تعداد میں موبائل فون صارفین، جن کی تعداد پچانوے ملین سے کم نہیں، نے 12.5 فیصد انکم ٹیکس وفاق اور صوبوں کو سیلز ٹیکس بھی ادا کیا، لیکن ان میں سے صرف 2 فیصد نے ٹیکس ریٹرنز جمع کرائیں۔ ایف بی آر ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیوں کے پاس دستیاب مواد کو جانچنے کی زحمت نہیں کرتا ورنہ وہ دولت مند صارفین کو ریٹرن فائل جمع کرنے کے لئے نوٹس دیتا۔ موبائل فون صارفین کی اکثریت قابلِ ٹیکس آمدن نہیں رکھتی، چنانچہ وہ قانونی طور پر گوشوارہ جمع کرانے کے پابند نہیں۔ اگر وہ ودہولڈنگ ٹیکس کی واپسی بابت ایسا کرتے ہیں تو اُنہیں ڈر ہوتا ہے کہ وہ ایف بی آر کے افسران کی زیادتیوں اور بے ضمیر ٹیکس مشیروں کی بدعنوانی کا شکار ہو جائیں گے۔
خرابی کی اصل جڑ یہ افراد نہیں بلکہ پاکستان کے انتہائی دولت مند افراد ہیں جو ٹیکس گوشوارہ جمع کرانے کی زحمت نہیں کرتے اور اس پر مستزاد یہ کہ حکومت اور ایف بی آر افسران اُن کا مکمل طور پر تحفظ کرتے ہیں۔ یہ صورتِ حال بلاشبہ حکومت اور ایف بی آر کی نااہلی اور بے عملی پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ دولت مند اور طاقتور افراد اپنی حیثیت کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ 2018ء میں ایک ملین سے دس ملین تک ٹیکس ادا کرنے والے افراد کی تعداد محض 30،000 تھی۔ مہنگی گاڑیاں چلانے، پرتعیش گھروں میں رہنے، غیر ملکی سفر کرنے اور وسیع وعریض جاگیریں رکھنے والے اس ملک میں سے صرف 4،780 افراد نے دس لاکھ سے زائد ٹیکس ادا کیا۔
پاکستان کی موجودہ آبادی 220 ملین ہے۔ کل آبادی میں سے 64 فیصد کی عمر پندرہ سال سے اُنتیس سال کے درمیان ہے اور 30 فیصد پندرہ اور اُنیس کے درمیان ہیں۔ (اس کا مطلب ہے کہ زیادہ تر اُن کا شمار کمانے والے افراد میں نہیں ہوتا یا آمدنی قابلِ ٹیکس کی حد سے کم ہے)۔ ہمارے پاس دنیا کی دسویں بڑی لیبر فورس ہے۔ لیبرفورس سروے حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ستر ملین کے لگ بھگ ہے۔ ان میں سے 60ملین کام کرتے ہیں جبکہ باقی بے روزگار ہیں۔ روزگار رکھنے والوں میں سے 43.5 ملین کا تعلق دیہی افرادی قوت سے ہے۔ اگر ان تمام حقائق کو ملاکر پڑھیں تو 19-2018ء کے مالی سال کے دوران کمانے والے افراد کی تعداد 10 سے 12 ملین کے قریب تھی۔ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ اُس سال انکم ٹیکس گوشوارے کا ہدف پورا نہ ہوا۔ یہ کمی کا وسیع خلا آج بھی پایا جاتا ہے۔
جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا کہ جن پچانوے ملین موبائل صارفین نے انکم ٹیکس ادا کیا، اُن میں سے اکثر کی آمدنی قابلِ ٹیکس آمدن سے کم ہوگی، لیکن اُنہیں مختلف شرائط کے تحت ٹیکس ادا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود ایف بی آر بے بنیاد پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے کہ پاکستان کے لوگ انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے اور یہ کہ یہاں ٹیکس کی بنیاد بہت محدود ہے۔ ایک قومی ٹیکس ادارے کی طرف سے پاکستانیوں کا یہ منفی تاثر پیش کرنا انتہائی افسوس ناک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عام پاکستانی سیلز ٹیکس کے علاوہ انکم ٹیکس اد اکرتا ہے لیکن جن افراد سے ٹیکس وصول کیا جانا ہے، اُن سے ایف بی آر وصول نہیں کر پاتا۔ اس طرح یہ صریحاً ایف بی آر کی اپنی کوتاہی اور نااہلی کہ یہ براہِ راست اور بالواسطہ محصولات کے فرق کو کم کرکے معقول حد تک لانے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ یہ اعدادوشمار بہت ہی سادہ ہیں اور ان کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹکس کی طرف سے کیے گئے ہائوس ہولڈ انٹی گریٹڈ سروے کے مطابق پانچ ملین افراد کی سالانہ قابلِ ٹیکس آمدن پندرہ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اگر یہ تمام افراد گوشوارے جمع کرائیں تو تقریباً 1800 بلین روپے وصول کیے جاسکتے ہیں۔ اگر کمرشل کمپنیوں اور دیگر اداروں اور افراد، جن کی آمدنی پانچ لاکھ سے 10 لاکھ روپے کے درمیان ہے، کو بھی اس میں شامل کرلیں توصرف انکم ٹیکس کا حجم 5000 بلین روپے سے کم نہیں ہوگا۔ کیا کوئی پوچھنے والا ہے کہ ایف بی آر نے 19-2018ء کے مالی سال کے دوران 1445 بلین کا انکم ٹیکس جمع کیوں کیا؟
بالواسطہ ٹیکسز میں ہونے والی خرابیوں کی وجہ سے کل پوٹینشل کا صرف پچاس فیصد ہی جمع ہوسکتا ہے۔ 2018-2019ء میں ایف بی آر نے سیلز ٹیکس کی مد میں 1459 بلین روپے، وفاقی ایکسائز کی مد میں238 بلین روپے اور کسٹم ڈیوٹی کی مد میں685 بلین روپے جمع کیے۔ ان شعبوں میں محصولات کا حجم 5000 بلین سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بات پہلے بھی کہہ جاچکی ہے کہ پاکستان میں صرف وفاقی سطح پر ہی محصولات کا حجم دس ٹریلین ہوسکتا ہے۔ تاہم ایسا اُسی صورت میں ممکن ہے جب معاشرے کے طاقتور طبقات کو ٹیکس دائرے میں لایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ٹیکس مشینری کی اوورہالنگ کرنے، محصولات کے نظام میں موجود عقربی خامیوں کو دور کرنے اور طاقتور افراد کو ٹیکس کی رعایت دینے کا سلسلہ بند کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے بینک، واپڈا، پی ٹی سی ایل اور موبائل فون کمپنیاں مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ ہیں اور یہ ایف بی آر کے لیے ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ ان کے پاس موجود اعدادوشمار کو استعمال کرتے ہوئے ایف بی آر منصفانہ ٹیکس بنیاد کا تعین کرسکتا ہے۔ جو افراد گوشوارے جمع نہیں کراتے، ان کے ٹیکس کا تعین عارضی جائزے کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی ستم ظریفی ہے کہ یہاں عام لوگوں جو متوسط یا اُس سے بھی نچلی سطح پر ہیں اُن کو پیشگی ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے اور پھر ستم دیکھیں کہ قابل ٹیکس آمدنی نہ ہونے کے باوجود گوشواروں کے لئے مجبور کیا جاتا ہے اور محصولات ادا نہ کرنے کے طعنے سننا پڑتے ہیں۔ جب کہ انتہائی دولت مند افراد سے کوئی پوچھ گچھ نہیں۔ یہ آئین پاکستان کی کھلی خلاف ورزی ہے جس کے مطابق ریاست کسی شخص کو اُس بات پر مجبور نہیں کرسکتی جو قانون کے مطابق نہ ہو۔ چنانچہ ایک غریب شخص، جس کی آمدن قانون کے مطابق قابلِ ٹیکس نہیں، سے کس طرح جبری ٹیکس وصول کیا جاسکتا ہے؟ کیا وہ ودہولڈنگ والا ٹیکس لینے کے لئے اُس سے زائد خرچ کرے اور پھر اہلکاروں کی تیرہ دستیوں کا شکار بھی ہو۔ ناانصافی پر مبنی موجودہ ٹیکس سسٹم ایک بیوہ سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ نیشنل سیونگ سنٹر میں کی گئی انوسٹمنٹ، پنشن، گریجویٹی فنڈز، جو اُسے شوہر کی وفات پر وصول ہوئے، سے حاصل ہونے والی آمدنی پر بھی 10 فیصد ٹیکس ادا کرے۔ یہی ادارہ دولت مند افراد سے 5 کروڑ کی آمدن پر صرف دس فیصد ٹیکس وصول کرتا ہے۔
پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے وصول کیے جانے والے محصولات میں سے 75 فیصد بالواسطہ ہیں۔ ان کا بوجھ عام شہری کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اگر ایف بی آر اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام ہے تو وہ اس کا اعتراف کرنے کی بجائے عام آدمی کو موردِ الزام ٹھہرانے لگتا ہے۔ کیا اس کی ناقص کارکردگی اور بدعنوانی کی ذمہ داری پاکستان کے عام شہریوں پر عائد ہوتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ جو لوگ اس صورتِ حال کے ذمہ دار ہیں، ان کا محاسبہ کیا جائے۔
فاروق سرور خان