راسخ کشمیری
محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شمشاد صاحب سے اس محفل پر ہائی ہیلو ہوئی ۔ سعودی عرب میں ہونے کے ناطے انہوں نے بندہ سے فون نمبر طلب کیا۔ میں نے ذاتی پیغام کے ذریعہ ارسال کیا تو کچھ ہی دیر بعد گھنٹی بجی۔ عرض کیا: راسخ؟ میں سوچ میں پڑ گیا کہ فون پر راسخ کا کون پوچھ رہا ہے۔ در اصل میں ذاتی پیغام بھیج کر بھول چکا تھا کہ میں نے بھیجا ہے اور مختلف تحریر یں پڑھنے میں مشغول ہوگیا تھا۔
خیر! علیک سلیک ہوتی رہی ہے۔ ان سے بات کرکے اچھا لگا۔ جب میں انگلینڈ میں تھا تو مجھے ایک پاکستانی سے مل کر جو اردو بولتا ہو بڑی خوشی ہوتی تھی۔ کیونکہ مجھے وہاں بہت ہی انوکھا محسوس ہوتا تھا کہ کہ کوئی اردو بولے۔ کیونکہ وہاں کی پودکو تو انگلش میں ’’بمباری‘‘ کرنے کی عادت ہے۔ بلکہ انکی مجبوری سمجھ لیں۔ اپنی مثال دوں تو بہتر ہے۔ گھر میں والدین کے ساتھ اردو پنجابی چلتی ہے۔ لیکن جب ہم آپس میں بھائی بھائی بات کرتے ہیں تو عربی کے سوا ہم سے کچھ بولا ہی نہیں جاتا۔ بلکہ الفاظ ہی نہیں نکلتے اردو پنجابی میں۔ کیونکہ شروع سے ہم عربی بولتے آئے ہیں۔
بات دور نکل گئی۔ شمشاد صاحب سے بات کرکے اچھا لگا۔ نیٹ کے رشتے کچے دھاگوں کی طرح ضرور ہوتے ہیں مگر مزیدار ہوتے ہیں۔ کمزوری یا پائیداری پیدا کرنا ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ یہ قاعدہ کلیہ نہیں کہ انٹرنیٹ پر ہر رشتہ کمزور ہوتا ہے۔
بہر کیف اس کے بعد میں نے سوچا کہ چند باتیں ’’گپ شپ‘‘ لگاتے ہوئے آپ کی نذر کروں۔
فی الحال تو شمشاد صاحب سے بات ہوئی ہے تو انکے بارے ہی میں لکھوں گا۔ آئندہ کسی دوست سے رابطہ ہوا تو انکے بارے میں بھی لکھوں گا اگر ’’حقوق کلام‘‘ محفوظ نہ ہوئے تو!
شمشاد صاحب کے علاوہ میرے پاس اعجاز اختر صاحب کا نمبر ہے۔ پر ان سے کبھی ٹیلیفونک رابطہ کبھی نہیں ہوا۔ کسی دن انکے موبائل پر بھی ’’شبخون‘‘ ماریں گے۔
کسی اور دوست کو بندہ سے رابطہ کرنے اور اس کے بعد اپنی ادبی ’’درگت‘‘ بننے کی خواہش ہو تو رابطہ نمبر بھیج دیں موقع مناسبت دیکھ کر رابطہ کیا جائے گا۔یہ ایک نیا سٹائل ہوگا۔ امید کرتا ہوں آپ لوگوں کو پسند آئے گا۔
میری پوری کوشش ہوگی کہ گپ شپ مارنے کے دوران بھی آپ کو مختلف معلومات فراہم کروں۔ میرا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ اردو داں طبقہ کو عربی ادب سے روشناسی ضرور کروانی چاہئے۔ عربی زبان قرآن کی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ جنتیوں کی بھی زبان ہے۔ اس کی اہمیت کا انکار کوئی نہیں کر سکتا۔ شرعی امور جاننے کے لئے نہایت اہم ہے۔ نیز نماز بھی اس کے علاوہ نہیں ہوتی۔ میرا مقصد نماز میں کسی سورت کا اردو ترجمہ کرکے پڑھ لیا جائے تو نماز ہی باطل ہے۔ ہم لوگوں کو سورتیں تو آتی ہیں لیکن جو ہم پڑھتے ہیں اسکا مطلب ہی نہیں معلوم۔ سمجھ کر پڑھیں گے تو روحانیت دوبالا ہو جائے گی۔
خیر شمشاد بھائی سے گفتگو کرنے کے بعد کی باتیں ملاحظہ ہوں:
فون پر مجھ کو اچھے لگے شاد سے
گفتگو ہوئی راسخ کی شمشاد سے
کچ تعارف ہوا کچھ ہوئی دل لگی
وہ ہیں پنڈی سے میں فیصل آباد سے
میں مدینہ میں ہوں اور وہ ہیں ریاض
فاصلے کم ہوئے فوں کی ایجاد سے
=============
مجھ کو شمشاد کا نام معلوم تھا
اب تلک پر میں معنی سے محروم تھا
میں نے معنی جو دیکھا لغت میں نبیل
خوبصورت شجر تھا صفت میں طویل
اس کا اطلاق معشوق پر بھی ہوا
میں نے ’’شمشاد‘‘ کا یہ خلاصہ لکھا
نامِ شمشاد کے گر دو ٹکڑے کریں
’’شاد‘‘ اور ’’شم‘‘ میں گر فاصلہ ڈال دیں
’’شم‘‘ پہ پھر پیش ڈالیں تو معنی بنے
’’امر‘‘ عربی میں ہے سونگھنے کا بھلے
مطلبِ ’’شاد‘‘ تو سب کو معلوم ہے
مجھ کو بتلائے گر کوئی محروم ہے
آخری شعر کرتا ہوں اب اختتام
دوستو ساتھیو! الوداع والسلام
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شمشاد صاحب سے اس محفل پر ہائی ہیلو ہوئی ۔ سعودی عرب میں ہونے کے ناطے انہوں نے بندہ سے فون نمبر طلب کیا۔ میں نے ذاتی پیغام کے ذریعہ ارسال کیا تو کچھ ہی دیر بعد گھنٹی بجی۔ عرض کیا: راسخ؟ میں سوچ میں پڑ گیا کہ فون پر راسخ کا کون پوچھ رہا ہے۔ در اصل میں ذاتی پیغام بھیج کر بھول چکا تھا کہ میں نے بھیجا ہے اور مختلف تحریر یں پڑھنے میں مشغول ہوگیا تھا۔
خیر! علیک سلیک ہوتی رہی ہے۔ ان سے بات کرکے اچھا لگا۔ جب میں انگلینڈ میں تھا تو مجھے ایک پاکستانی سے مل کر جو اردو بولتا ہو بڑی خوشی ہوتی تھی۔ کیونکہ مجھے وہاں بہت ہی انوکھا محسوس ہوتا تھا کہ کہ کوئی اردو بولے۔ کیونکہ وہاں کی پودکو تو انگلش میں ’’بمباری‘‘ کرنے کی عادت ہے۔ بلکہ انکی مجبوری سمجھ لیں۔ اپنی مثال دوں تو بہتر ہے۔ گھر میں والدین کے ساتھ اردو پنجابی چلتی ہے۔ لیکن جب ہم آپس میں بھائی بھائی بات کرتے ہیں تو عربی کے سوا ہم سے کچھ بولا ہی نہیں جاتا۔ بلکہ الفاظ ہی نہیں نکلتے اردو پنجابی میں۔ کیونکہ شروع سے ہم عربی بولتے آئے ہیں۔
بات دور نکل گئی۔ شمشاد صاحب سے بات کرکے اچھا لگا۔ نیٹ کے رشتے کچے دھاگوں کی طرح ضرور ہوتے ہیں مگر مزیدار ہوتے ہیں۔ کمزوری یا پائیداری پیدا کرنا ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ یہ قاعدہ کلیہ نہیں کہ انٹرنیٹ پر ہر رشتہ کمزور ہوتا ہے۔
بہر کیف اس کے بعد میں نے سوچا کہ چند باتیں ’’گپ شپ‘‘ لگاتے ہوئے آپ کی نذر کروں۔
فی الحال تو شمشاد صاحب سے بات ہوئی ہے تو انکے بارے ہی میں لکھوں گا۔ آئندہ کسی دوست سے رابطہ ہوا تو انکے بارے میں بھی لکھوں گا اگر ’’حقوق کلام‘‘ محفوظ نہ ہوئے تو!
شمشاد صاحب کے علاوہ میرے پاس اعجاز اختر صاحب کا نمبر ہے۔ پر ان سے کبھی ٹیلیفونک رابطہ کبھی نہیں ہوا۔ کسی دن انکے موبائل پر بھی ’’شبخون‘‘ ماریں گے۔
کسی اور دوست کو بندہ سے رابطہ کرنے اور اس کے بعد اپنی ادبی ’’درگت‘‘ بننے کی خواہش ہو تو رابطہ نمبر بھیج دیں موقع مناسبت دیکھ کر رابطہ کیا جائے گا۔یہ ایک نیا سٹائل ہوگا۔ امید کرتا ہوں آپ لوگوں کو پسند آئے گا۔
میری پوری کوشش ہوگی کہ گپ شپ مارنے کے دوران بھی آپ کو مختلف معلومات فراہم کروں۔ میرا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ اردو داں طبقہ کو عربی ادب سے روشناسی ضرور کروانی چاہئے۔ عربی زبان قرآن کی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ جنتیوں کی بھی زبان ہے۔ اس کی اہمیت کا انکار کوئی نہیں کر سکتا۔ شرعی امور جاننے کے لئے نہایت اہم ہے۔ نیز نماز بھی اس کے علاوہ نہیں ہوتی۔ میرا مقصد نماز میں کسی سورت کا اردو ترجمہ کرکے پڑھ لیا جائے تو نماز ہی باطل ہے۔ ہم لوگوں کو سورتیں تو آتی ہیں لیکن جو ہم پڑھتے ہیں اسکا مطلب ہی نہیں معلوم۔ سمجھ کر پڑھیں گے تو روحانیت دوبالا ہو جائے گی۔
خیر شمشاد بھائی سے گفتگو کرنے کے بعد کی باتیں ملاحظہ ہوں:
فون پر مجھ کو اچھے لگے شاد سے
گفتگو ہوئی راسخ کی شمشاد سے
کچ تعارف ہوا کچھ ہوئی دل لگی
وہ ہیں پنڈی سے میں فیصل آباد سے
میں مدینہ میں ہوں اور وہ ہیں ریاض
فاصلے کم ہوئے فوں کی ایجاد سے
=============
مجھ کو شمشاد کا نام معلوم تھا
اب تلک پر میں معنی سے محروم تھا
میں نے معنی جو دیکھا لغت میں نبیل
خوبصورت شجر تھا صفت میں طویل
اس کا اطلاق معشوق پر بھی ہوا
میں نے ’’شمشاد‘‘ کا یہ خلاصہ لکھا
نامِ شمشاد کے گر دو ٹکڑے کریں
’’شاد‘‘ اور ’’شم‘‘ میں گر فاصلہ ڈال دیں
’’شم‘‘ پہ پھر پیش ڈالیں تو معنی بنے
’’امر‘‘ عربی میں ہے سونگھنے کا بھلے
مطلبِ ’’شاد‘‘ تو سب کو معلوم ہے
مجھ کو بتلائے گر کوئی محروم ہے
آخری شعر کرتا ہوں اب اختتام
دوستو ساتھیو! الوداع والسلام