ٹیلی میڈیسن سے پاکستان کے چھوٹے قصبے بھی مستفید

ٹیلی میڈیشن کے ذریعے ویڈیو کانفرنس کی سہولت سے فائد اٹھاتے ہوئے دوسرے شہر میں بیٹھا ڈاکٹر مریض کی بیماری کی تشخیص اور علاج کر سکتا ہے۔
جلال جٹاں پاکستان کے بے شمار چھوٹے قصبوں میں سے ایک ہے۔ یہاں اکثر لوگ اپنی بکریوں اور مرغیوں کے ساتھ تنگ سی جگہ پر رہتے ہیں۔ مدثر غوری بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ جانوروں کے ساتھ ہر وقت رہنے سے انہیں جِلد کی ایک موذی بیماری لگ گئی ہے۔ ان کا نزدیکی ڈاکٹر تقریباً 100 کلومیٹر دور ہے۔ مدثر کو علاج کے لئے بس کا سفر کر کے گجرات شہر پہچنا ہوتا ہے لیکن اس شہر میں بھی کوئی جِلد اسپیشلسٹ نہیں ہے۔

مدثر، خوش قسمتی سے گجرات کے ایک ہسپتال میں شروع کئے جانے والے ٹیلی میڈیسن کے پائلٹ پروجیکٹ سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ وہ وڈیو کانفرنس کے ذریعے راولپنڈی کے ایک جِلد اسپیشلسٹ کے ساتھ اپنی بیماری کے بارے میں مشورہ کرتے رہتے ہیں
پاکستان کی 16 کروڑ کی آبادی میں ڈاکٹروں کی تعداد صرف ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ان میں صرف 400 جِلد اسپیشلسٹ ہیں۔ راولپنڈی کا پہلا ہسپتال ہولی فیملی ہے جو ٹیلی میڈیسن کی ٹریننگ دیتا ہے۔ وہاں کے ڈائریکٹر آصف ظفر نے بتایا:’’سب سے پہلے تو ہمیں اپنے ڈاکٹروں کو ٹیلی میڈیسن کی تربیت دینی ہو گی۔ ہم نے پاکستان اور امریکہ کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارتوں کے تعاون سے ٹیلی میڈیسن کا شعبہ قائم کیا ہے۔

ویب سائٹ www.telmedpak.com کے ذریعے مریض ابھی سے طبی ماہرین کے ساتھ فِیس ادا کئے بغیر ہی مشورہ کر سکتے ہیں۔ اس وقت اوسطاً 50 مریض فی ہفتہ مشورہ کر رہے ہیں۔

اس پروجیکٹ کے کوآرڈینیٹر شہریارانور نے بتایا: ’’ہماری ویب سائٹtelmedpak.com میں لاگ ان کر کے مریض اپنا نام رجسٹرڈ کرا کے سوال پوچھ سکتا ہے۔ اور پھر اسی ویب سائٹ کی وساطت سے وہ مطلوبہ ڈاکٹر کے ساتھ رابطہ قائم کر سکتا ہے‘‘۔

شہریارانور کے مطابق ای میل کے ذریعے بھی مریض اس مرکز سے رابطہ قائم کر سکتا ہے۔ 48 گھنٹوں کے اندر اندر اسے اپنے سوالات کا جواب مل جاتا ہے۔ ہنگامی صورت میں اسے فوراً جواب دے دیا جاتا ہے۔
بشکریہ ڈوئچے ویلے
 

ماوراء

محفلین
دلچسپ۔۔۔لیکن حیرت ہے گجرات شہر میں کوئی سکن اسپیشلسٹ نہیں ہے۔
اور دوسرا یہ قصبہ جلال پور جٹاں ہو گا۔
 

بلال

محفلین
ٹیلی میڈیشن کے ذریعے ویڈیو کانفرنس کی سہولت سے فائد اٹھاتے ہوئے دوسرے شہر میں بیٹھا ڈاکٹر مریض کی بیماری کی تشخیص اور علاج کر سکتا ہے۔
جلال جٹاں پاکستان کے بے شمار چھوٹے قصبوں میں سے ایک ہے۔ یہاں اکثر لوگ اپنی بکریوں اور مرغیوں کے ساتھ تنگ سی جگہ پر رہتے ہیں۔ مدثر غوری بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ جانوروں کے ساتھ ہر وقت رہنے سے انہیں جِلد کی ایک موذی بیماری لگ گئی ہے۔ ان کا نزدیکی ڈاکٹر تقریباً 100 کلومیٹر دور ہے۔ مدثر کو علاج کے لئے بس کا سفر کر کے گجرات شہر پہچنا ہوتا ہے لیکن اس شہر میں بھی کوئی جِلد اسپیشلسٹ نہیں ہے۔

مدثر، خوش قسمتی سے گجرات کے ایک ہسپتال میں شروع کئے جانے والے ٹیلی میڈیسن کے پائلٹ پروجیکٹ سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ وہ وڈیو کانفرنس کے ذریعے راولپنڈی کے ایک جِلد اسپیشلسٹ کے ساتھ اپنی بیماری کے بارے میں مشورہ کرتے رہتے ہیں
پاکستان کی 16 کروڑ کی آبادی میں ڈاکٹروں کی تعداد صرف ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ان میں صرف 400 جِلد اسپیشلسٹ ہیں۔ راولپنڈی کا پہلا ہسپتال ہولی فیملی ہے جو ٹیلی میڈیسن کی ٹریننگ دیتا ہے۔ وہاں کے ڈائریکٹر آصف ظفر نے بتایا:’’سب سے پہلے تو ہمیں اپنے ڈاکٹروں کو ٹیلی میڈیسن کی تربیت دینی ہو گی۔ ہم نے پاکستان اور امریکہ کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارتوں کے تعاون سے ٹیلی میڈیسن کا شعبہ قائم کیا ہے۔

ویب سائٹ www.telmedpak.com کے ذریعے مریض ابھی سے طبی ماہرین کے ساتھ فِیس ادا کئے بغیر ہی مشورہ کر سکتے ہیں۔ اس وقت اوسطاً 50 مریض فی ہفتہ مشورہ کر رہے ہیں۔

اس پروجیکٹ کے کوآرڈینیٹر شہریارانور نے بتایا: ’’ہماری ویب سائٹtelmedpak.com میں لاگ ان کر کے مریض اپنا نام رجسٹرڈ کرا کے سوال پوچھ سکتا ہے۔ اور پھر اسی ویب سائٹ کی وساطت سے وہ مطلوبہ ڈاکٹر کے ساتھ رابطہ قائم کر سکتا ہے‘‘۔

شہریارانور کے مطابق ای میل کے ذریعے بھی مریض اس مرکز سے رابطہ قائم کر سکتا ہے۔ 48 گھنٹوں کے اندر اندر اسے اپنے سوالات کا جواب مل جاتا ہے۔ ہنگامی صورت میں اسے فوراً جواب دے دیا جاتا ہے۔
بشکریہ ڈوئچے ویلے

بہت خوب یہ تو اچھی سروس ہے۔۔۔ جیسا کہ ماوراء نے بتایا جناب اس قصبہ کا نام جلال جٹاں نہیں بلکہ جلالپورجٹاں ہے۔ یہ سن کر بڑی حیرانی ہو رہی ہے کہ جلالپورجٹاں میں لوگ اپنی بکریوں اور مرغیوں کے ساتھ تنگ سی جگہ پر رہتے ہیں جبکہ میں نے ایسا کچھ نہیں دیکھا۔ اور رہی بات گجرات میں سکن سپیشلٹ کی تو یہ بھی ایک غلط بات ہے کیونکہ گجرات میں سکن سپیشلٹ ہے اب مجھے نام یاد نہیں آرہا لیکن ہے ضرور کیونکہ کچھ دن پہلے ایک دوست اس کے پاس گیا تھا۔ باقی اس مدثر غوری کا کچھ پتہ کرنا پڑے گا کہ جناب جلالپورجٹاں میں بکریوں اور مرغیوں کے ساتھ پتہ نہیں کس جگہ رہ رہے ہیں۔۔۔ خیر اللہ تعالیٰ اسے شفاء دے۔۔۔آمین
بحرحال یہ سب مواد کی درستگی کے لئے تھا۔ باقی رہی بات سروس کی تو یقینا بہت اچھی سروس ہے۔ بہت سے لوگوں کو فائدہ ہو گا۔
 

طالوت

محفلین
ہاسا نکل گیا ہے ، ٹیلی میڈیسن والوں نے اپنی مشہوری کے لیے کس قدر گمراہ کن پراپگینڈا کیا ہے ۔۔ نا قصبے کا نام درست ، نہ گجرات اور جلال پور جٹاں کا فاصلہ درست اور اس سے بڑھ کر ظلم کہ ڈاکٹر کے لیے سو کلیومیٹر کا سفر یا دوسرے معنوں میں گجرات اور جلال پو جٹاں کا آپسی فاصلہ 100 کلیومیٹر ۔۔ جبکہ اس قصبے میں بھی باقاعدہ سند یافتہ ڈاکٹر موجود ہیں اور اس قصبہ سے گجرات یا دولت نگر سے ہوتے ہوئے کھاریاں یا کوٹلہ ارب علی خان کی طرف آئیں تو خاصے "پرائیویٹ کلینک" موجود ہیں جہاں سرجری کی بھی سہولیات موجود ہیں اور یہ سارا سفر بھی 100 کلیومیٹر تو کیا 50 کلیومیٹر بھی نہیں بنتا ۔۔
تاہم سب سے مزیدار جملہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جلال جٹاں پاکستان کے بے شمار چھوٹے قصبوں میں سے ایک ہے۔ یہاں اکثر لوگ اپنی بکریوں اور مرغیوں کے ساتھ تنگ سی جگہ پر رہتے ہیں۔
جلال پور جٹاں کے لوگ خاصے خوشحال ہیں ، اور خاصے تیز طرار بھی ، کبڈی کا میچ کھیلنے جائیں تو بندوقیں بھی کھول کھال کر ساتھ لے جاتے ہیں ۔۔ اسیے لوگ مرغیوں اور بکریوں کے ساتھ سونے سے رہے ، کسی ایک آدھ گھرانے میں کوئی ایسا منظر ہو تو ہو مگر اس پر بھی دل نہیں مانتا کہ دیہاتی علاقوں میں غریب سے غریب افراد بھی اس قسم کی صورتحال سے دوچار نہیں ہوتے (خیال رہے یہ بات میں گجرات اور اس کے گردونواح کے حوالے سے کہہ رہا ہوں) ۔۔ ایک مشہور کلاسیکل گلوکارہ بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتی ہیں ، نام یاد نہیں آتا ۔۔۔۔۔۔۔
وسلام
 
Top