ٹیلی وژن کے ممتاز کمپئیر، ادیب،ماہر لسانیات عبید اللہ بیگ انتقال کرگئے

Rashid Ashraf

محفلین
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق:
بیگ صاحب کچھ عرصہ سے پتّے کے کینسر اور دل کے عارضے میں مبتلا تھے۔ انہوں نے سوگواروں میں اہلیہ بیگم سلمیٰ بیگ اور تین صاحبزادیاں مریم بیگ، فاطمہ آدرشی اور امینہ بیگ چھوڑی ہیں۔ یہ تینوں فلم سازی اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ ہیں۔
ٹیلی ویژن سے علیحدہ ہونے کے بعد وہ ماحولیات کے تحفظ کی غیر سرکاری تنظیم آئی یو سی این سے منسلک ہو گئے تھے اور ماحولیات کی رپورٹنگ کے بارے میں ذرائع ابلاع کے نمائندوں کی تربیت کا کام کرتے رہے۔ اپنے علم اور پُر شفقت روّیے کی وجہ سے انھیں ذرائع ابلاع میں ایسا احترام حاصل تھا جو پاکستان میں بہت کم لوگوں کو حاصل ہے۔ عبید اللہ بیگ کا اصل نام حبیب اللہ بیگ تھا۔ ان کے والد محمود علی بیگ بھی ممتاز علم دوست شخصیت تھے اور ان کا خاندان انڈیا سے شہر رام پور سے نقل مکانی کر کے پاکستان آیا اور کراچی میں آباد ہوا۔
حکومتِ پاکستان نے چودہ اگست دوہزار آٹھ کو ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی پیش کیا۔
عبید اللہ بیگ کی نماز جنازہ کراچی کے علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی سلطان مسجد میں ادا کی گئی اور جس کے بعد انھیں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ ان کی تدفین میں کراچی کے علمی ادبی حلقوں اور ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی۔
 

شمشاد

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ مرحوم پر اپنی بے شمار رحمتیں نازل فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
بہت افسوسناک خبر ہے۔ مرحوم بےحد صاحب علم شخصیت تھے۔ کسوٹی میں قریش پور، افتخار عارف اور ان کے ساتھ نے اس پروگرام کو پی ٹی وی کا ایک یادگار پروگرام بنا دیا تھا۔ حال ہی میں منظر عام پر آنے والا ان کا ایک تاریخی ناول 'راجپوت' کافی مقبول ہوا تھا۔ ان کے انتقال سے پاکستان کی نابغہ روزگار ہستیوں میں یقیناً ایک کی مزید کمی ہو گئی ہے۔ اللہ سبحانہ تعالےٰ ان کی مغفرت کرے۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
http://www.flickr.com/photos/41786707@N05/5268309478/
صاحبو! درج بالا لنک پر ایک تصویر ہے، یہ ڈیڑھ برس قبل کی ہے جب کراچی آرٹس کونسل میں شمس الرحمان فارقی صاحب کی تلاش میں ہم پہنچے تھے، کیا معلوم تھا کہ وہاں کئی ادبی شخصیات سے ملاقات ہوجائے گی، بیگ صاحب بھی ان میں سے ایک تھے۔ میری درخواست پر ابن صفی صاحب پر اظہار خیال کرنے پر آمادہ ہوئے تھے۔ مذکورہ تصویر میں بیگ صاحب کے دائیں جانب مسکراتے ہوئے چہرے والے پروفیسر ذوالفقار مصطفی ہیں، آپ مشفق خواجہ مرحوم کے ہم زلف ہیں، خواجہ صاحب انہیں پیار سے "ہم زلف کار" کہا اور لکھا کرتے تھے۔
بیگ صاحب کے ہاتھ میں سگرٹ اور لائٹر ہمہ وقت موجود رہا، بینس اینڈ ہیجز کے شوقین تھے
ان کا ایک ناول سن ساٹھ کی دہائی میں شائع ہوا تھا، انسان زندہ ہے، نوے میں یہ دوبارہ شائع ہوا لیکن افسوس کہ اس کا ذکر کہیں سننے کو نہیں ملتا۔
ابھی ابھی ٹیکساس کے ریڈیو ایشیاء سے فون آیا کہ خاکسار آنے والے پیر کی صبح مہدی حسن خان صاحب کے ساتھ ساتھ عبید اللہ بیگ پر بھی بات کرے، میں نے معذرت کی کہ انٹرنیٹ سے معلومات یا ایک مختصر سی ملاقات کے بل بوتے پر ایسا سماں باندھا درست نہیں کہ گویا ہم تو ان کے لنگوٹیے تھے۔۔۔۔۔ سو بیگ صاحب پر بات کرنے کے لیے ایک نام تجویز کیا اور ریڈیو والے اس پر متفق ہوئے کہ ان صاحب کو بھی صبح جگا کر مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو دیکھنے پر مجبور کریں گے
 

تلمیذ

لائبریرین
یہ تصویریں بھی کیا چیز ہیں صاحب، بندے کو برسوں پیچھے لے جاتی ہیں اور یادوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ شکریہ، راشد صاحب کہ آپ نے ہمین ان میں شریک کیا۔
 

وجی

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔​

اللہ ان پر رحم و کرم کرے اور انکی مغفرت کرے آمین ثم آمین​
 

سارہ خان

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون

مجھے کسوٹی پروگرام بہت پسند تھا ۔۔۔
اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے اور ہم سب کی بھی آمین ۔۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
درست کہا آپ نے تلمیذ - پرانے گانے، تصاویر، اور بارش --- تینوں ہمیں یکلخت ماضی میں لے جاتے ہیں:

لیجیے، ایسی ہی ایک اور تصویرملاحظہ کیجیے گرچہ اس کا تعلق عبید اللہ بیگ صاحب سے نہ سہی، یاد ماضی سے ضرور ہے:
http://www.flickr.com/photos/41786707@N05/7423903334/

یہ تصویر دو روز قبل امریکہ سے رفیع خاور(ننھا) مرحوم کے صاحبزادے نے خاکسار کو ارسال کی تھی۔
 

زبیر مرزا

محفلین
انا للہ وانا الیہ راجعون
مرحوم نہایت نفیس انسان تھے - ہمارے ایک دوست سلمان کے رشتے دار تھے اُن کے ہاں ہی ایک بار ملاقات ہوئی تھی
 
Top