سید لبید غزنوی
محفلین
اس لنک پر ایک تحریر موجود ہے ۔۔۔دلچسپی لینے والے حضرات پڑھ سکتے ہیں۔
http://www.roohanialoom.com/?p=2857
http://www.roohanialoom.com/?p=2857
یہ دماغ کی ساخت سے نابلد ہیں۔اس لنک پر ایک تحریر موجود ہے ۔۔۔دلچسپی لینے والے حضرات پڑھ سکتے ہیں۔
یہ حضر ت جو تحریر کے خالق ہیں۔۔۔۔انہی کے لیے تبصرہ فرمایا ہے نا آپ نے ؟یہ دماغ کی ساخت سے نابلد ہیں۔
ٹیلی پیتھی کے حوالہ سے ایک خوش گوار (حاصل مطالعہ ) حاضر ہے ۔۔۔۔۔لنک بھی ساتھ ہے ۔۔
دیوتا
مصنف منیر عباسی • 26/12/2009 • حاصل مطالعہ
دیوتا نے بہت عرصے اپنے سحر میں مبتلا کئے رکھا. مجھے یاد نہیں کب دیوتا سے میری شناسائی ہوئی اور کب یہ شناسائی آگے بڑھ کر ایک عارضے میں بدل گئی.
میں بات کر رہا ہوں اردو زبان کے سب سے طویل سلسلے دیوتا کی جو ماہنامہ سسپنس ڈائجسٹ میں 1977 سے لگاتار شائع ہوتا رہا اور اب جنوری 2010 کے شمارے میں اس کا آخری باب شائع ہو چکا ہے.
ماہنامہ سسپنس ڈائجسٹ کے مطابق دیوتا 33 سال تک لگاتار شائع ہوتی رہی اور اسے اردو کیا ، دنیا کی کسی بھی زبان میں شائع ہونے والی طویل ترین داستان کا اعزاز حاصل ہے.
ابتداء میں تو میں سمجھتا تھا کہ واقعی فرہاد علی تیمور ہی اس داستان کا راوی ہے اور بڑی دلچسپی سے اس داستان کو پڑھتا تھا. کبھی لاہور جانے کا اتفاق ہوا تو شاہدرہ پُل کے آس پاس دیکھتا تھا کہ شائد کہیں فرہاد علی تیمور کسی درخت کے نیچے خیال خوانی میں مصروف نظر آجائے، مگر صرف کنکریٹ کی عمارتوں کا جنگل ہی نظر آپاتا تھا. اس خیال سے کہ لوگ مذاق نہ اڑائیں کبھی بھی اس خواہش کا اظہار نہ کیا. مگر پھر، وقت کے ساتھ ساتھ جب آس پاس کی چیزوں کو سمجھنے شعور پیدا ہوا تو پتہ چلا کہ اور بہت سے کہانیاں بھی تھیں جن کا طرز تحریر بالکل فرہاد علی تیمور کی طرح کا تھا.
پہلے تو یہ گمان ہوا کہ دراصل فرہاد علی تیمور ، محی الدین نواب کے نام سے لکھتا ہے، مگر جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ حقیقت اس کے برعکس ہے. یہ محی الدین نواب تھے جنھوں نے فرہاد علی تیمور کی داستان قلم بند کی.
دیوتا 33 برس تک شائع ہوتی رہی.میں اس کو مستقل تو نہ پڑھ سکا، بیچ میں بہت لمبے لمبے وقفے آئے، تعلیمی میدان میں مسابقت کی دوڑ کی وجہ سے دیوتا سے رابطہ منقطع رہا ، مگر بھلا ہو لائیبریریوں کا، اور میرے دوستوں کا، کہ پرانے ڈائجسٹ مل جاتے تھے اور اس داستان میں پائے جا نے والے خلا تھوڑے تھوڑے کم ہوجاتے تھے.
محی الدین نواب صاحب کا بہت زرخیز دماغ ہے، اس لمبے عرصے تک ایک داستان کو چلائے رکھنا اور ایسا چلائے رکھنا کہ ہر باب میں ایک نیا موڑ. ایک بہت کٹھن کام ہے. مجھے یاد ہے، فرہاد علی تیمور کی داستان کے شروع کے حصوں میں سپر ماسٹر اور ماسک مین دو اہم کردار تھے جو کہ اس وقت امریکہ اور سوویت یونین کی بالادستی کی نمائیندگی کرتے تھے. سوویت یونین کے زوال کے بعد ماسک مین کے کردار کو زوال آیا اور پھر خطے کے حالات کے مطابق کہانی چلنے لگی. کبھی فرہاد کو سوڈان میں بھیجا گیا، تو کبھی طالبان کے درمیان. اکثر بھارتی کالے جادو کے ماہرین خال چاٹتے نظر آتے تھے. فرہاد نے رسونتی کو مسلمان کرا کے آمنہ بنا ڈالا اور یوں کہانی آگے بڑھتی گئی.
دیوتا اور ٹیلی پیتھی نے دماغ پر ایسا اثر ڈالا تھا کہ ایک زمانے میں مَیں نے کتابیات پبلیکیشنز کی ٹیلی پیتھی پر اکثر کتابیں خرید ڈالی تھیں. شمس بینی کے چکر میں صبح اٹھنا اور فلیٹوں کے پانی کے پائپوں کے ذریعے چھت پر چڑھ کر بند آنکھوں سے سورج کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھنا ، کہ شائد اس سے آنکھوں میں وہ طلسماتی طاقت پید اہو جائے جس سے ہم امتحان میں آنے والے سوالات ٹیچر کو سحر زدہ کر کے معلوم کر سکیں.
رات کو پڑھتے پڑھتے ایک موم بتی لگا کر شمع بینی کی مشقیں کرنا، یا پھر ایک سادہ کاغذ پر ایک سیاہ دائرہ بنا کر اسے دیر تک دیکھنا بھی انھی مشقوں میں شامل تھا.
پھر کافی عرصے تک تو یہ تجسس رہا کہ آخر فرہاد کب اپنی داستان ختم کرے گا؟ وہ دن کب آئے گا جب ہم اس داستان کے اختتامی جملے پڑھیں گے، مگر وہ دن اُس وقت نہ آنا تھا. دیوتا چلتی رہی اور اس عرصے کے دوران بہت سے سلسلے شروع ہو کر ختم ہو بھی گئے مگر فرہاد ہر بار ایک نیا جنم لے کر سامنے آ جاتا تھا. یہ بات مجھے اچھی نہ لگی کہ صرف داستان گوئی کی خاطر آواگون کے فلسفے کو بھی بعض اوقات اسلامی رنگ چڑھایا گیا، مگر جب لوگوں کی عقیدت کو دیکھتا تو سسپنس ڈائجسٹ کی انتظامیہ کو لکھنے کا ارادہ ترک کر دیتا.
اب بھی جب کہ یہ داستان ختم ہو چکی ہے، مجھے بہت سے پہلو تشنہ دکھائی دے رہے ہیں. گزشتہ چھے برس سے اس داستان کا باقاعدہ مطالعہ کرتے ہوئے مجھے کئی ماہ پہلے اندازہ ہو گیا تھا کہ محی الدین نواب صاحب اب اس داستان کو ختم کرنے کے چکر میں ہیں. بابا فرید واسطی کی کئی پیش گوئیوں کا سہارا لے کر اس داستان کو مصنوعی تنفس فراہم کیا گیا مگر، یہ سب کب تک چلتا؟
اب جب کہ آج میں اس داستان کا آخری باب پڑھ چکا ہوں، مجھے یہی محسوس ہو رہا ہے کہ اگلے ماہ پھر کسی پیش گوئی یا روحانی طاقت کا سہارا لے کر فرہاد علی تیمور میدان میں کھڑا دشمنوں کو للکار رہا ہوگا.
دیوتا[/QUOTEمی
لبید بھائی میں ایسی پوسٹوں کو بڑی جلدی سے آگے بھگا کر دیکھنا پسند کرتاہوںٹیلی پیتھی کے حوالہ سے ایک خوش گوار (حاصل مطالعہ ) حاضر ہے ۔۔۔۔۔لنک بھی ساتھ ہے ۔۔
دیوتا
مصنف منیر عباسی • 26/12/2009 • حاصل مطالعہ
دیوتا نے بہت عرصے اپنے سحر میں مبتلا کئے رکھا. مجھے یاد نہیں کب دیوتا سے میری شناسائی ہوئی اور کب یہ شناسائی آگے بڑھ کر ایک عارضے میں بدل گئی.
میں بات کر رہا ہوں اردو زبان کے سب سے طویل سلسلے دیوتا کی جو ماہنامہ سسپنس ڈائجسٹ میں 1977 سے لگاتار شائع ہوتا رہا اور اب جنوری 2010 کے شمارے میں اس کا آخری باب شائع ہو چکا ہے.
ماہنامہ سسپنس ڈائجسٹ کے مطابق دیوتا 33 سال تک لگاتار شائع ہوتی رہی اور اسے اردو کیا ، دنیا کی کسی بھی زبان میں شائع ہونے والی طویل ترین داستان کا اعزاز حاصل ہے.
ابتداء میں تو میں سمجھتا تھا کہ واقعی فرہاد علی تیمور ہی اس داستان کا راوی ہے اور بڑی دلچسپی سے اس داستان کو پڑھتا تھا. کبھی لاہور جانے کا اتفاق ہوا تو شاہدرہ پُل کے آس پاس دیکھتا تھا کہ شائد کہیں فرہاد علی تیمور کسی درخت کے نیچے خیال خوانی میں مصروف نظر آجائے، مگر صرف کنکریٹ کی عمارتوں کا جنگل ہی نظر آپاتا تھا. اس خیال سے کہ لوگ مذاق نہ اڑائیں کبھی بھی اس خواہش کا اظہار نہ کیا. مگر پھر، وقت کے ساتھ ساتھ جب آس پاس کی چیزوں کو سمجھنے شعور پیدا ہوا تو پتہ چلا کہ اور بہت سے کہانیاں بھی تھیں جن کا طرز تحریر بالکل فرہاد علی تیمور کی طرح کا تھا.
پہلے تو یہ گمان ہوا کہ دراصل فرہاد علی تیمور ، محی الدین نواب کے نام سے لکھتا ہے، مگر جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ حقیقت اس کے برعکس ہے. یہ محی الدین نواب تھے جنھوں نے فرہاد علی تیمور کی داستان قلم بند کی.
دیوتا 33 برس تک شائع ہوتی رہی.میں اس کو مستقل تو نہ پڑھ سکا، بیچ میں بہت لمبے لمبے وقفے آئے، تعلیمی میدان میں مسابقت کی دوڑ کی وجہ سے دیوتا سے رابطہ منقطع رہا ، مگر بھلا ہو لائیبریریوں کا، اور میرے دوستوں کا، کہ پرانے ڈائجسٹ مل جاتے تھے اور اس داستان میں پائے جا نے والے خلا تھوڑے تھوڑے کم ہوجاتے تھے.
محی الدین نواب صاحب کا بہت زرخیز دماغ ہے، اس لمبے عرصے تک ایک داستان کو چلائے رکھنا اور ایسا چلائے رکھنا کہ ہر باب میں ایک نیا موڑ. ایک بہت کٹھن کام ہے. مجھے یاد ہے، فرہاد علی تیمور کی داستان کے شروع کے حصوں میں سپر ماسٹر اور ماسک مین دو اہم کردار تھے جو کہ اس وقت امریکہ اور سوویت یونین کی بالادستی کی نمائیندگی کرتے تھے. سوویت یونین کے زوال کے بعد ماسک مین کے کردار کو زوال آیا اور پھر خطے کے حالات کے مطابق کہانی چلنے لگی. کبھی فرہاد کو سوڈان میں بھیجا گیا، تو کبھی طالبان کے درمیان. اکثر بھارتی کالے جادو کے ماہرین خال چاٹتے نظر آتے تھے. فرہاد نے رسونتی کو مسلمان کرا کے آمنہ بنا ڈالا اور یوں کہانی آگے بڑھتی گئی.
دیوتا اور ٹیلی پیتھی نے دماغ پر ایسا اثر ڈالا تھا کہ ایک زمانے میں مَیں نے کتابیات پبلیکیشنز کی ٹیلی پیتھی پر اکثر کتابیں خرید ڈالی تھیں. شمس بینی کے چکر میں صبح اٹھنا اور فلیٹوں کے پانی کے پائپوں کے ذریعے چھت پر چڑھ کر بند آنکھوں سے سورج کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھنا ، کہ شائد اس سے آنکھوں میں وہ طلسماتی طاقت پید اہو جائے جس سے ہم امتحان میں آنے والے سوالات ٹیچر کو سحر زدہ کر کے معلوم کر سکیں.
رات کو پڑھتے پڑھتے ایک موم بتی لگا کر شمع بینی کی مشقیں کرنا، یا پھر ایک سادہ کاغذ پر ایک سیاہ دائرہ بنا کر اسے دیر تک دیکھنا بھی انھی مشقوں میں شامل تھا.
پھر کافی عرصے تک تو یہ تجسس رہا کہ آخر فرہاد کب اپنی داستان ختم کرے گا؟ وہ دن کب آئے گا جب ہم اس داستان کے اختتامی جملے پڑھیں گے، مگر وہ دن اُس وقت نہ آنا تھا. دیوتا چلتی رہی اور اس عرصے کے دوران بہت سے سلسلے شروع ہو کر ختم ہو بھی گئے مگر فرہاد ہر بار ایک نیا جنم لے کر سامنے آ جاتا تھا. یہ بات مجھے اچھی نہ لگی کہ صرف داستان گوئی کی خاطر آواگون کے فلسفے کو بھی بعض اوقات اسلامی رنگ چڑھایا گیا، مگر جب لوگوں کی عقیدت کو دیکھتا تو سسپنس ڈائجسٹ کی انتظامیہ کو لکھنے کا ارادہ ترک کر دیتا.
اب بھی جب کہ یہ داستان ختم ہو چکی ہے، مجھے بہت سے پہلو تشنہ دکھائی دے رہے ہیں. گزشتہ چھے برس سے اس داستان کا باقاعدہ مطالعہ کرتے ہوئے مجھے کئی ماہ پہلے اندازہ ہو گیا تھا کہ محی الدین نواب صاحب اب اس داستان کو ختم کرنے کے چکر میں ہیں. بابا فرید واسطی کی کئی پیش گوئیوں کا سہارا لے کر اس داستان کو مصنوعی تنفس فراہم کیا گیا مگر، یہ سب کب تک چلتا؟
اب جب کہ آج میں اس داستان کا آخری باب پڑھ چکا ہوں، مجھے یہی محسوس ہو رہا ہے کہ اگلے ماہ پھر کسی پیش گوئی یا روحانی طاقت کا سہارا لے کر فرہاد علی تیمور میدان میں کھڑا دشمنوں کو للکار رہا ہوگا.
دیوتا