کاشفی

محفلین
ٹیپو سلطان
SultanTipuPhoto.jpg

(از: شاکر میرٹھی - 1905ء)

جنوبی ہندوستان کی ریاست میسور میں حیدر علی ایک بڑا مشہور اور بہادر سردار تھا جس کے حُسنِ لیاقت کے باعث اس ریاست کو بڑی قوت اور وقعت حاصل ہوگئی تھی۔ ابتدا میں حیدرعلی اس ریاست میں فوج کا کپتان تھا۔ مگر رفتہ رفتہ اُس کا رسوخ یہاں تک بڑھ گیا کہ 1761ء میں وہ وہاں کے راجہ اور اُس کے وزیر کو ریاست سے خارج کر کے خود سلطان بن بیٹھا اور ایک کثیر التعداد فوج اور خزانہ بہم پہنچا کر قلعہء بیدر نور پر قبضہ کر لیا۔ اس قلعہ میں بافراط خزانہ تھا اور یہی خزانہ آئندہ لڑائیوں میں اُس کے کام آیا -

اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد مادھوراؤ پیشوائے چہارم نے حیدر علی کے علاقہ پر یورش کی اور اس کو شکست فاش دی۔ بدیں وجہ حیدر علی نے وہ سارا علاقہ جو شمالی سرحد پر فتح کیا تھا مرہٹوں کو واپس دے دیا اور علاوہ بریں 32 لاکھ روپیہ نقد بطور تاوان ادا کیا۔ مگر اگلے سال حیدر علی نے اس کی کسر نکال لی - یعنی اس طرح کہ وہ ملیبار پر جو ایک زرخیز ملک تھا اور اُس کی ریاست مغرب میں واقع تھا، فوج لےکر چڑھ گیا اور اُس کا کچھ حصہ فتح کر لیا۔ اس موقع پر حیدر علی نے ایک نہایت قبیح بداخلاقی کا ثبوت دیا۔ یعنی اُس نے جب راجہ کالی کٹ پر یورش کی تو اُس بیچارے نے قلعہ سے نکل کر اُس کی اطاعت منظور کر لی مگراس پر بھی حیدر علی نے اُس کے شہر پر یکایک قبضہ کر کےاُس کولوٹ لیا۔ اس پر زمورن (راجہ کالی کٹ) نے اس اندیشہ سے کہ کہیں حیدر علی کوئی اور زیادہ بدسلوکی نہ کرےاپنے محل میں آگ لگا دی اورخود بھی وہیں بھسم ہوگیا۔

چار پانچ برس تک جب حیدر علی ادھر اُدھر ماردھاڑ کر چکا اور اُن ریاستوں کو تنگ کرنے لگاجو انگریزوں کے زیرِ سایہ آچکی تھیں، تو 1766ء میں گورنمنٹ مدراس نے حیدر علی پر حملہ کردیا۔ تاریخ میں یہ میسور کی اول لڑائی شمار ہوتی ہے۔ اس جنگ میں شروع میں مادھوراؤ پیشوا اور نظام دکن دونوں انگریزوں کے ساتھ تھے، مگر حیدر علی نے اپنی حکمت عملی سے دونوں کو توڑ لیا۔ یہاں تک کہ آخر میں نظام حیدر علی کی طرف ہوکر انگریزوں سے لڑنے لگا۔ اُس وقت انگریزی فوج کا سپہ سالار کرنیل سمس تھا۔ اُس کے پاس صرف سات ہزار کی جمیعت تھی۔ برخلاف اس کے حیدر علی اور نظام کی فوج کا شمار ستر ہزار تھا۔ بدین وجہ کرنیل سمس کو بڑی بھاری دقت پیش آئی۔ مگر اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئیے کہ وہ حوصلہ چھوڑ بیٹھا ۔ نہیں۔ بلکہ اُس نے انجام کار مخالف کی فوج کو مقام چانگم پر پسپا کر دیا اور اس کے چند روز بعد ترمی نوملی کے میدان میں اپنے دشمنوں کو شکست فاش دی۔ یہ دونوں مقام جنوبی ارکاٹ میں ہیں۔ اس جنگ کا سلسلہ دو برس تک اور بھی جاری رہا اور اس عرصہ میں کبھی ایک کا پانسہ زبردست ہوتا تھا اور کبھی دوسرے کا۔ آخر حیدر علی ایک بار ایسا تنگ ہوا کہ اُس کو صلح کے لئے درخواست کرنی پڑی۔ مگر یہاں بھی وہ اپنی چال سے باز نہ آیا۔ وہ سواروں کی ایک جمیعت کثیر ساتھ لے کر کرنیل سمس کی فوج سے بالابالا جھٹ پٹ کوچ کر کے مدراس کے قریب آکرکھڑا ہوگیا۔

(جاری ہے۔۔۔۔)

TipuSultan-1.jpg
 

کاشفی

محفلین
گذشتہ سے پیوستہ:

اس سے مدراس کی کونسل پر اس قدر ہیبت طاری چھاگئی کہ اُنہوں نے فوراَ حیدر علی سے صلح کر لی اور یہ شرط قرار پائی کہ لڑائی سے پیشتر جو صورت تھی وہی بحال رہے گی۔ اس طرح میسور کی اوّل لڑائی کا خاتمہ اس عہد نامے سے ہوا۔

1779ء میں مادھوراؤ پیشوا نے پھر حیدر علی پر چڑھائی کی اور متواتر شکستوں سے قریب تھا کہ حیدر علی کا کام تمام ہو جائے۔ مگر اُس نے اس وقت مرہٹوں کو اپنا سارا شمالی علاقہ اور بہت سا زر نقد دے کر اپنا پیچھا چھڑا لیا۔ لیکن چونکہ اس کے بعد مادھوراؤ کا انتقال ہوگیا اور مرہٹوں میں پھوٹ پڑ گئی، اس وجہ سے حیدر علی نے جس قدر ملک و مال مرہٹوں کے نذر کیا تھا اس سے بھی زیادہ آئندہ چھ سال کے عرصہ میں پھر حاصل کر لیا۔

1780ء میں انگریزوں اور حیدر علی میں پھر لڑائی چھڑ گئی۔ یہ میسور کی دوسری لڑائی کہلاتی ہے۔ اس کی کیفیت یہ ہے کہ انگریز اس وقت مرہٹوں کی اوّل لڑائی کے مخمصوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ حیدر علی نے اس موقع کو غنیمت جانا اور نظام دکن اور مرہٹوں کو ہموار کیا کہ میرے ساتھ مل کر انگریزوں کو کرناٹک سے نکال دو۔ اس طرح دم دے کر اور ایک بڑا لشکر ساتھ لے کر حیدر علی کرناٹک پر چڑھ گیا اور اوّل اوّل کئی معرکوں میں ظفر مند ہوا۔ چنانچہ اُس نے بہت سے انگریزی قلعہ فتح کر لئے اور انگریزی فوج کوجو کرنیل بیلی کے ساتھ تھی شکست دے کر کرنیل بیلی کو مع تقریباَ دو سو (200) جوانوں کے قید کر لیا۔ مجبوراَ انگریزی فوج کے سپہ سالار منرو صاحب کو بھی مدراس کی طرف ہٹ آنا پڑا۔ یہاں سے اُس نے سر وارن یسٹنگز کو کمک کے لئے کلکتے خبر بھیجی۔ جس کے جواب میں اُنہوں نے آئیرکوٹ کے ہمراہ سمندر کے راستے سے فوج روانہ کردی۔ اس فوج کے پہنچتے ہی لڑائی کا رنگ بدل گیا۔

چنانچہ سر آئیر کوٹ نے پورٹونو وو، پالی لور اور سولن گڈھ پر تین بڑے میدان مارے اور حیدر علی کو شکست پر شکست دی۔ اگلے سال یہ جواں مرد جرنیل بیمار ہو کر چلا گیا مگر جنگ بدستور جاری رہی۔ اس میں کبھی انگریز فتح مند ہوجاتے تھے اور کبھی حیدر علی غالب آجاتا تھا۔ آخر 1782ء میں حیدر علی کا یکایک انتقال ہوگیا۔

حیدر علی نے جو کچھ نام و نمود پہلے پہل حاصل کی وہ دیوان ہالی میں حاصل کیا تھا۔ اسی مقام پر 1753ء میں ٹیپو سلطان پیدا ہوا تھا۔ اس جگہ ایک مسلمان فقیر رہا کرتا تھا جس سے حیدر علی کو بہت عقیدت تھی۔ اُسی فقیر کے نام پر اُس نے اپنے بیٹے کا نام ٹیپو سلطان رکھا تھا۔ ٹیپو سلطان کی والدہ کا نام فخرالنساء تھا جو میر معین الدین کی دختر نیک اختر تھیں۔ میر معین الدین چند سال تک کٹپتہ کے صوبہ دار رہے تھے۔

(جاری ہے۔۔۔۔)
 
Top