سائنسی تحقیقات ہوتی رہتی ہیں، نئے نئے نظریے آئے روز متعارف ہوتے رہتے ہیں اور بہت تیزی سے متعارف ہوتے رہتے ہیں لہذا یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر نئی تحقیق کو درسی کتابوں میں جگہ دی جائے، نہ تو یہ عملی طور پر ممکن ہے اور نہ ہی معاشی طور پر۔ درسی کتابیں کافی مہنگی بھی ہوتی ہیں، اور طالب علم ان کو ایک سے زیادہ سال استعمال کرتے ہیں اور ایک سے زیادہ طالب علم بھی ایک ہی کتاب کو استعمال کرتے ہیں، سو ہر درسی کتاب کی ہر روز نئی ترتیب و تدوین ممکن نہیں۔ مزید یہ کہ
ایک بارڈر لائن ایک احاطے کی طالب علموں کو بہرحال ضرورت رہتی ہے جو کہ درسی کتابیں مہیا کرتی ہیں۔
مضمون نگار کا سارا زور جس نکتے پر تھا اس کا سارا وزن درسی کتابوں پر ڈالنا مناسب نہیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا اساتذہ جامد ہیں، وہ گُل محمد ہیں، وہ لکیر کے فقیر ہیں، درسی کتاب سے آگے نہ وہ کچھ اپنے طالب علموں کو بتاتے ہیں نہ اُن میں جاننے کی خواہش پیدا کرتے ہیں۔ اگر ایک استاد اپنے اور متعلقہ مضمون یا مضامین میں نئی تحقیق سے واقف ہو تو درسی کتاب کا درس دیتے ہوئے وہ جہاں مناسب سمجھے اپنے طالب علموں کا بتا سکتا ہے کہ چند یا کئی سال پہلے یہ صورتحال تھی جو درسی کتاب میں ہے اور اب یہ صورتحال ہے وغیرہ۔ ایک استاد نہ صرف اس طرح بچوں کی فکر کو وسیع کر سکتا ہے بلکہ ان کو مجبور بھی کر سکتا ہے کہ وہ نئی بات پر بھی معلومات حاصل کریں، لیکن افسوس کم از کم یہاں، جس جگہ سے مضمون نگار کا تعلق ہے، ایسا نہیں ہے۔
ایک کتاب، اور خاص طور پر درسی کتاب، رہنما کے بغیر ادھوری ہے۔ اگر کتاب میں کوئی کمی، کوئی خامی ہے بھی، جو کہ اتنی محال اور دُور از قیاس بات نہیں، تو اس کمی کو استاد کو پورا کرنا چاہیے نہ کہ کتاب ہی کو جلا دینا چاہیے۔ اللہ اللہ