ٹیکس

یوسف-2

محفلین
دخل در معقولات کی معذرت :)
زکٰوۃ ”ٹیکس“ نہیں بلکہ ایک ”عبادت“ ہے، نماز، روزہ اور حج کی طرح ۔ اسی لئے قرآن میں صلٰوۃ اور زکٰوۃ کا ذکر بار بار ایک ساتھ آتا ہے۔ یہ صاحب نصاب مسلمانوں پر (شرائط کے ساتھ) اسی طرح فرض ہے، جیسے دیگر عبادات۔
ٹیکس کا تعلق ریاست سے ہے۔ مسلم اور غیر مسلم ہر دو ریاستیں عام فلاح و بہبود کے کاموں کے لئے حسب ضرورت عوام پر ٹیکس لگا سکتی ہیں اور لگاتی رہی ہیں۔
 

یوسف-2

محفلین
ہم اپنی بات کر رہے تھے پرسنل پاکستان تو سونے کی کان جی :D
یہ بات محاورتاً ہی نہیں بلکہ حقیقتاً بھی درست ہے۔ لیکن ہماری ”عقلمندی“ ملاحظہ فرمائیں کہ بلوچستان کے سونے کی کانوں سے سونا ”غیر ملکی“ نکال نکال کر اپنے ملک لے جارہے ہیں۔ کیونکہ ”ہم“ نے کاغذی ڈالروں کی رشوت کے عوض اُنہیں ایسا کرنے کا باقاعدہ لائسنس جاری کیا ہوا ہے۔ اور رشوت کے یہ ڈالرز بھی ”اُنہی“ کے بنکوں میں رکھوا رکھا ہے۔ واؤ ہم کتنے ”عقلمند“ ہیں :D
 
دخل در معقولات کی معذرت :)
زکٰوۃ ”ٹیکس“ نہیں بلکہ ایک ”عبادت“ ہے، نماز، روزہ اور حج کی طرح ۔ اسی لئے قرآن میں صلٰوۃ اور زکٰوۃ کا ذکر بار بار ایک ساتھ آتا ہے۔ یہ صاحب نصاب مسلمانوں پر (شرائط کے ساتھ) اسی طرح فرض ہے، جیسے دیگر عبادات۔
ٹیکس کا تعلق ریاست سے ہے۔ مسلم اور غیر مسلم ہر دو ریاستیں عام فلاح و بہبود کے کاموں کے لئے حسب ضرورت عوام پر ٹیکس لگا سکتی ہیں اور لگاتی رہی ہیں۔

زکواۃ، صدقات، خیرات، وغیرہ کا عام یا "انگریجی" نام ٹیکس ہے۔ ٹیکس ادا کرنا یعنی زکواۃ ، صدقات، خیرات ادا کرنا عین عبادت ہے ۔ یہ عبادت جب ہی پوری ہوتی ہے جب اللہ تعالی کے فرمان کے مطابق کسی بھی منافع یا آمدنی کے ہونے پر 20 فی صد ہو اور حکومت وقت کو ادا کی جائے،۔

صاحب نصاب وہ ہے جس کو آمدنی ہو یا منافع ہو تو ٹیکس دے۔ آیات آپ کو فراہم کردی گئی ہیں۔ مسلمان حیلے بہانوں سے اس کے خلاف کرتا آرہا ہے۔ وہ ہے کہ مسلمان نا تو زراعت پر ٹیکس مرکزی حکومت کو ادا کرتا ہے اور نا ہی 20 فی صد ٹٰکس ہر آمدنی یا منافع پر ادا کرتا ہے
بلکہ آمدنی یا منافع کو کھا کر سال میں جو بچ جاتا ہے اس کو نصاب کی بنیاد بناتا ہے۔ یہی منافع کا کھا جانا ہے ، جس کو سود و منافع کا کھا جانا یا اکل الرباء کہا جاتاہے، سود و منافع کھا کر سال میں جو بچ جائے اس پر ڈھائی فیصد ادا کرنے والے ایک دن اس طرح اٹھ کربیٹھیں گے جیسے انکو شیطان چھو گیا ہو۔ (القرآن)

مسلمان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے اس طرح کھا کر جو بچ جائے اس پر ڈھائی فی صد بطور ٹیکس یا زکواۃ ادا کرے۔ اگر عبادت اللہ تعالی کے حکم کے مطابق نا ہو تو پھر عبادت کیسی ہوئی؟؟؟ یہ تو اللہ تعالی سے شرارت ہوئی ۔

آپ کو قرآن حکیم کی یہ آیات اپنے خیالات سے مختلف لگیں گی ۔ تو بھائی وہ آیات فراہم کیجئے جو سال میں کھا کر بچ جانے پر ڈھائی فی صد ٹیکس ادا کرنے کا مژدہ سناتی ہوں۔ :)

مسلمانوں کے خیالات قرآن کے مطابق ہو جائیں گے تو بہت کچھ سدھر جائے گا۔
 
یہ بات محاورتاً ہی نہیں بلکہ حقیقتاً بھی درست ہے۔ لیکن ہماری ”عقلمندی“ ملاحظہ فرمائیں کہ بلوچستان کے سونے کی کانوں سے سونا ”غیر ملکی“ نکال نکال کر اپنے ملک لے جارہے ہیں۔ کیونکہ ”ہم“ نے کاغذی ڈالروں کی رشوت کے عوض اُنہیں ایسا کرنے کا باقاعدہ لائسنس جاری کیا ہوا ہے۔ اور رشوت کے یہ ڈالرز بھی ”اُنہی“ کے بنکوں میں رکھوا رکھا ہے۔ واؤ ہم کتنے ”عقلمند“ ہیں :D

یہی صرف ایک بات نہیں، پاکستان پر ہر سال اللہ تعالی
700 بلین روپے کے گندم کی دولت برسا دیتا ہے ۔ دوسری زراعتی پیدا وار اس کے علاوہ ہے۔ پاکستانی اس زراعتی پیداوار سے ہونے والے سود و منافع کو بناء ٹیکس یا زکواۃ دئے کھا جاتے ہیں لہذا پاکستانی "اکل الرباء" کے مجرم ہیں ، اس جرم کی وجہ سے پاکستان کی اکانومی اس طرح نہیں بڑھتی جس طرح بڑھنی چائیے۔ اس آمدنی کا 20 فیصد اگر ٹٰکس میں ادا کیا جائے اور صرف گندم کی آمدنی سے ہر شہر کے ارد گرد بحریہ ٹاؤن جیسے بڑے شہر بنائے جائیں ، کاروں کے کارخانے لگائے جائیں۔ اسکول و کالج بنائے جائیں، پارک اور سڑکیں بنائی جائیں تو بے تحاشا لوگوںکو نوکری ملے گی۔ اور پاکستان میں شائید ہی کوئی ہو جو کنگلا رہے گا،​

پاکستان کے پاس آمدنی بھی ہے۔ پاکستان کے پاس افرادی قوت بھی ہے ، لیکن پاکستان کے پاس زکواہ یعنی ٹیکس کی عبادت کی کمی ہے۔ جب پاکستانی یہ عبادت درست طریقے سے کرنے لگے گا اس کی مالی شکائیتیںختم ہو جائیں گی ۔​

دولتمندی، روپے کی گردش ، دولت کے بہاؤ کا نام ہے۔ روپیہ، ڈالر ، سونا، چاندی تو اس دولت کو بہاؤ دینے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔​
روپیہ، ڈالر ، سونا، چاندی بذات خود دولت نہیں بلکہ دولت کا کیرئیر ہیں۔​

پاکستان میں اپنے سیاسی نمائندے سے زراعت پر ٹٰیکس لگا کر ترقیاتی پراجیکٹس شروع کرنے کی ڈیمانڈ کیجئے۔ امریکہ بھی ٹیکس وصول کر ترقیاتی پراجیکٹس میں پیسہ لگاتا ہے ۔​

کیا پاکستان کے برج، سڑکیں ، عمارات، دوسرے آ کر بنائیں گے ۔ یہی غلہ کھا کر ، پاکستانیوں نے ہی بنانا ہے۔ :)
 

یوسف-2

محفلین
زکواۃ، صدقات، خیرات، وغیرہ کا عام یا "انگریجی" نام ٹیکس ہے۔ ٹیکس ادا کرنا یعنی زکواۃ ، صدقات، خیرات ادا کرنا عین عبادت ہے ۔ یہ عبادت جب ہی پوری ہوتی ہے جب اللہ تعالی کے فرمان کے مطابق کسی بھی منافع یا آمدنی کے ہونے پر 20 فی صد ہو اور حکومت وقت کو ادا کی جائے،۔

صاحب نصاب وہ ہے جس کو آمدنی ہو یا منافع ہو تو ٹیکس دے۔ آیات آپ کو فراہم کردی گئی ہیں۔ مسلمان حیلے بہانوں سے اس کے خلاف کرتا آرہا ہے۔ وہ ہے کہ مسلمان نا تو زراعت پر ٹیکس مرکزی حکومت کو ادا کرتا ہے اور نا ہی 20 فی صد ٹٰکس ہر آمدنی یا منافع پر ادا کرتا ہے
بلکہ آمدنی یا منافع کو کھا کر سال میں جو بچ جاتا ہے اس کو نصاب کی بنیاد بناتا ہے۔ یہی منافع کا کھا جانا ہے ، جس کو سود و منافع کا کھا جانا یا اکل الرباء کہا جاتاہے، سود و منافع کھا کر سال میں جو بچ جائے اس پر ڈھائی فیصد ادا کرنے والے ایک دن اس طرح اٹھ کربیٹھیں گے جیسے انکو شیطان چھو گیا ہو۔ (القرآن)

مسلمان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے اس طرح کھا کر جو بچ جائے اس پر ڈھائی فی صد بطور ٹیکس یا زکواۃ ادا کرے۔ اگر عبادت اللہ تعالی کے حکم کے مطابق نا ہو تو پھر عبادت کیسی ہوئی؟؟؟ یہ تو اللہ تعالی سے شرارت ہوئی ۔

آپ کو قرآن حکیم کی یہ آیات اپنے خیالات سے مختلف لگیں گی ۔ تو بھائی وہ آیات فراہم کیجئے جو سال میں کھا کر بچ جانے پر ڈھائی فی صد ٹیکس ادا کرنے کا مژدہ سناتی ہوں۔ :)

مسلمانوں کے خیالات قرآن کے مطابق ہو جائیں گے تو بہت کچھ سدھر جائے گا۔
فاروق صاحب!
یہاں آپ نے زکوۃ سے متعلق امت کے ”مسلکی اختلافات“ کا بالواسطہ تذکرہ کیا ہے۔ شاید آپ کو معلوم نہیں کہ امت مسلمہ کا اس بات پر ”اجماع“ ہے یعنی چودہ سو سال سے ”امت کے علماء کی اکثریت“ اس بات پر متفق ہے کہ زکٰوۃ کی ادائیگی ان مسلمانوں پر فرض ہے جو صاحب نصاب ہوں۔ اور صاحب نصاب وہ ہے جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا باون تولہ چاندی کے مساوی دولت ”بطور بچت“ سال بھر تک موجود رہے۔ یعنی زکوٰۃ آمدنی پر نہیں بلکہ نصاب بھر کی سالانہ بچت پر ہے۔ اور امت مسلمہ اسی پر عمل پیرا ہے۔
مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ بعض اقلیتی مسالک میں دیگر عقائد و عبادات کی طرح زکٰوۃ کے اس ”اجماعی تصور“ میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ لہٰذا ایسے مسالک سے وابستہ افراد اپنے اپنے مسلک کے عقیدے اور طریقہ پر تو عمل کرسکتے ہیں، لیکن انہیں امت مسلمہ کو یہ چیلنج نہیں کرنا چاہئے کہ مسلمان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے اس طرح کھا کر جو بچ جائے اس پر ڈھائی فی صد بطور ٹیکس یا زکواۃ ادا کرے۔ اس لئے کہ یہاں اس فورم پر کوئی عالم دین یا مفتی موجود نہیں ہے اور ہم جیسے عام مسلمان ”اختلافی مذہبی امور“ پر ایک دوسرے کو چیلنج کرنے اور مناظرہ کرنے کے نہ تو قابل ہیں اور نہ ہی یہ فورم اس کا متحمل ہوسکتا ہے۔ البتہ ہم بغیر کسی اختلافی بحث کئے، ایک دوسرے کو چیلنج کئے یا دوسروں کو غلط قرار دیئے بھی اپنا اپنا موقف ضرور پیش کرسکتے ہیں۔ امید ہے کہ میری یہ بات آپ کو یا کسی اور کو ناگوار نہیں گذرے گی۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے آمین۔
 

یوسف-2

محفلین
صحیح بخاری، کتاب الزکاۃ سے اقتباسات
  1. منکرین زکٰوۃ سے جہاد: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اﷲﷺ کی وفات ہوئی اور ابوبکر صدیقؓ خلیفہ ہوئے تو بعض عرب قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا توسیدنا ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ اﷲ کی قسم میں اس شخص سے ضرور جنگ کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق سمجھے گا
  2. پانچ اوقیہ (ساڑھے باون تولے) چاندی نصاب: سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ پانچ اوقیہ (ساڑھے باون تولے چاندی) سے کم پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے اور پانچ اونٹ سے کم پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے اور پانچ وسق (ساڑھے چار یا پانچ من) سے کم کھجور پر بھی زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔
  3. زکٰوۃ سے بچنے کے حیلے: سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ ان کے لیے ابوبکر صدیقؓ نے جو کچھ اﷲ کے رسولﷺ نے زکوٰۃ کے متعلق مقرر کیا ہے وہ لکھ دیا،اس میں یہ مضمون بھی تھا کہ صدقہ (زکٰوۃ) کے خوف سے متفرق مال یکجا نہ کیا جائے اور یکجا مال متفرق نہ کیا جائے۔
  4. اونٹوں پر زکٰوۃ: سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکرؓ نے جب انہیں زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بحرین کی طرف بھیجا تو انہیں یہ تحریر لکھ دی تھی… چوبیس یا اس سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اونٹوں پر ایک بکری (پانچ سے کم پر زکوٰۃ نہیں ) پھر جب پچیس سے پینتیس تک اونٹ ہوں تو ان میں ایک برس کی اونٹنی پھر جب چھتیس سے پینتالیس تک اونٹ ہوں تو ان میں دو برس کی ایک اونٹنی پھر جب چھیالیس سے ساٹھ تک ہوں تو ان میں تین برس کی اونٹنی جفتی کے لائق دینا ہو گی پھر جب اکسٹھ سے پچھتر تک ہوں تو ان میں چار برس کی ایک اونٹنی پھر جب چھہتر سے نوے تک ہوں تو ان میں دو دو برس کی دو اونٹنیاں، پھر جب اکیانوے سے ایک سو بیس تک ہوں تو ان میں تین تین برس کی دو اونٹنیاں جفتی کے لائق دینا ہوں گی۔ پھر جب ایک سو بیس سے زیادہ ہو جائیں تو ہر چالیس میں دو برس کی ایک اونٹنی اور ہر پچاس میں تین برس کی ایک اونٹنی دینی ہو گی اور جس کے پاس صرف چار اونٹ ہوں تو ان میں زکوٰۃ فرض نہیں ہاں اگر ان کا مالک چاہے تو دے دے پھر جب پانچ ہوں تو اُن میں ایک بکری زکوٰۃ کے طور پر دینی ہو گی۔
  5. بکریوں پر زکٰوۃ: اور جنگل میں چرنے والی بکریوں کی زکوٰۃ میں جب وہ چالیس سے ایک سو بیس تک ہوں ایک بکری فرض ہے پھر جب ایک سو بیس سے زیادہ ہو جائیں تو دو سو تک دو بکریاں پھر جب دو سو سے زیادہ تین سو تک ہو جائیں تو ان میں تین بکریاں پھر جب تین سو سے زیادہ ہو جائیں تو ہر سو میں ایک بکری اور اگر کسی کے پاس میں چرنے والی بکریاں چالیس سے کم ہوں اگرچہ ایک بکری بھی کم ہو تو اس میں کچھ زکوٰۃ نہیں ہاں اگر ان کا مالک دینا چاہے تو دے دے۔
  6. جنگل میں چرنے والے مویشیوں پر زکوٰۃ:زکوٰۃ صرف ان ہی اونٹوں، گائے اور بکریوں پر فرض ہے جو چھ ماہ سے زیادہ جنگل میں چرتی ہوں۔ اگر چھ ماہ سے زیادہ اپنے پاس سے چارہ وغیرہ کھلانا ہو تو ان پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ ان تین جانوروں کے علاوہ کسی اور جانور پر زکوٰۃ فرض نہیں۔ البتہ بھینس گائے ہی کی ایک قسم ہے۔
  7. چاندی میں ڈھائی فیصد زکوٰۃ ہے:اور دوسو درہم چاندی میں چالیسواں حصہ زکوٰۃ ہے اور اگر ایک سونوے درہم ہیں تو اس میں کچھ زکوٰۃ نہیں ہاں اگر اس کا مالک دینا چاہے تو دے دے۔
  8. سواری پر زکوٰۃ فرض نہیں: سیدنا ابو ہریرہؓ راوی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا مسلمان پر اس کے خدمت گزار غلام اور اس کی سواری کے گھوڑے پر زکوٰۃ فرض نہیں۔
  9. زرعی پیداوار: سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ مروی ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا جس چیز کو بارش کا پانی سینچے اور چشمے سینچیں یا خودبخود پیدا ہو اس میں عُشر واجب ہوتا ہے اور جو چیز کنوئیں کے پانی سے سینچی جائے اس میں نصف عُشر ہے۔
  10. معدنیات کی زکوٰۃ بیس فیصد ہے: معدنیات میں خمس یعنی پانچواں حصہ زکوٰۃ ہے۔
متفرق احادیث
  1. ۔گھوڑوں اور غلاموں پر زکوٰۃ واجب نہیں: حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ گھوڑوں اور غلاموں پر زکوٰۃ واجب نہیں کی گئی ہے۔ زکوٰۃادا کرو چاندی کی ہر چالیس درہم میں سے ایک درہم جبکہ دو سو پورے ہو جائیں۔ ۱۹۹ درہم تک کچھ واجب نہیں ہے۔ (جامع ترمذی، سنن ابی داؤد)
  2. زکوٰۃ سال گذرنے پر ہی واجب ہے : حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا : جس کسی کو کسی راہ سے مال حاصل ہو تو اس پر اس کی زکوٰۃ اس وقت تک واجب نہ ہو گی جب تک اس مال پر سال نہ گزر جائے۔ ( ترمذی)
زکٰوۃ کی ادائیگی سے متعلق اوپر چند احادیث پیش کی گئیں ہیں ۔ اللہ تبارک تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن و اھادیچ پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
 
ان تمام روایت میں سنت نبوی کتنی ہیں گن کر بتائیے پلیز ۔ :)

یہ بھی بتائیے کہ ڈھائی فیصد والی روایت کی قرآن حکیم میں بنیاد کہاں ہے ؟

زراعت کی زکواۃ بیس فی صد کیوں نہیں ، اس کی بنیاد کونسا قرآنی حکم ہے ؟
 

یوسف-2

محفلین
فاروق بھائی! اگرآپ صحیح بخاری ہی کو نہ مانیں تویہ الگ بات ہے۔(لکم دینکم و لی دین) نہ تو آپ علم احادیث کے ”عالم“ ہیں اور نہ ہی میں کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ ان ا حادیث کی ”سند“ پر بحث کریں۔ :) ہم وہ کام تو نہ کریں جس کے ہم اہل ہی نہیں۔ :)
 
ہم ہر اس روایت کو مانیں گے جو قرآن کے مطابق ہے۔ صحیح بخاری اسلامی تاریخ ہے ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ قرآن حکیم کو ماننا چھوڑ دیا جائے۔ زکواۃ کی مقدار حدیث اور قرآن دونوں میں 20 فی صد درج ہے ۔ اگر کسی حاکم نے وقتی طور پر اس مقدار کو کم کیا تو اصول ختم نہیں ہوگا اور نا ہی کوئی نیا اصول بنا۔ آپ کی پیش کردہ روایات میں سوائے ڈھائی فی صد اور 20 فی صد سے کم والی روایت کے باقی سب قرآن حکیم کے مطابق ہیں۔ سال بھر کے بعد منافع پر 20 فی صد سے کم زکواۃ پر "بخاری کو نا ماننے " کا طعنہ نا دیجئے۔ کہ اس کا جواب۔۔۔۔ آپ قرآن کو ہی نا مانیں تو ۔۔۔۔ لکم دینکم ولی دین ۔۔۔ کا طعنہ ہی ہوسکتا ہے ۔ آپ اگر اہل نہیں تو خاموشی زیادہ بہتر ہے۔ اللہ تعالی نے ہر قسم کی چیز سے منافع یا غنم پر 20 فی صد کا حکم صاف اور واضح الفاظ میں صادر کردیا ہے ۔ اس کو نا ماننے کی کیا وجہ ہے ۔ اور زراعت پر ٹیکس نا ہونے کی کیا قرآنی وجہ ہے۔ قرآن اور حدیث کی بحث میں پڑنے کے بجائے۔ اصل نکتے کا جواب عنایت فرمائیے۔ کوئی روایت قرآن حکیم کے حکم کو کس طرح منسوخ کرسکتی ہے ؟؟؟

پھر روایات بھی وہ جو دوسرے افراد یا صحابہ سے منسوب ہوں ۔۔ اب تک تو میرا خیال تھا کہ سنت رسول اللہ پر عمل کرنا ہے لیکن آپ کی باتوں سے یہ لگتا ہے کہ صحیح بخاری پر بھی قرآن کی طرح ایمان لانا ہے ؟؟؟ اس کتاب پر ایمان لانے کا حکم کس کے اللہ تعالی نے دیا ؟؟؟

کیا آپ بھی ان کتب کی روشنی میں وڈیرہ شاہی کی حمایت کرتے ہیں کے زراعت پر ٹیکس نہیں اور 20 فی صد تو بالکل نہیں ؟؟؟
 
Top