ٹیکنالوجی اور ہمارا مستقبل
ایک بہت مشہور مقولہ ہے کہ : ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔
پتھر کے زمانے سے ترقی کرتے ہوئے ، انسان جب سے لوہے کے زمانے میں آ پہنچا ہے تو ضروریاتِ زندگی نے ایجادات کا ایک ایسا تابناک سلسلہ شروع کیا جسے ٹیکنالوجی کا سنہرا دَور قرار دیا گیا ہے۔
جب ضرورت محسوس ہو تو بس سات سمندر پار اپنے کسی دوست یا قرابت دار سے لمحہ بھر میں موبائل پر گفتگو کیجئے یا ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ایک دوسرے کو آمنے سامنے دیکھئے۔
پکوان کرنا ہو تو سب چیزیں مطلوبہ مقدار میں جمع کریں اور مائیکرو ویو اوون میں رکھ دیں۔ گھر کی صفائی منٹوں میں ویکیوم کلینر سے یوں کہ ہمیں کمر یا ہاتھ کا درد محسوس نہ ہو۔ اسی طرح کپڑے دھونا نچوڑنا سکھانا ۔۔۔۔ یہ سب کام ایک ہی مشین میں۔
ویڈیو کیسٹ ، ٹیپ ریکارڈ گزرے زمانے کی باتیں ہوئیں۔ انگوٹھے برابر پین ڈرائیو یا لیپ ٹاپ یا پھر پام ٹاپ ساتھ رکھیں ۔۔۔ بس اپنی پسند کی موسیقی / فلم انٹرنیٹ پر سرچ کریں اور جب چاہیں سنیں دیکھیں۔
کسی ڈپارٹمنٹل اسٹور پر دن بھر کا حساب کتاب کرنا ہو ، کمپیوٹر کا ایک بٹن دبایا اور اس دن بلکہ چاہیں تو ہفتہ بھر کا حساب حاضر۔
تعمیرات ، علاج معالجہ ، تعلیم ، تفریح ، ماحولیات ، زراعت ، معاشیات ، فنون لطیفہ وغیرہ ۔۔۔ کے میدان میں ٹیکنالوجی کے متنوع ، منفرد اور مختلف ذرائع نے جو انقلاب بپا کیا ہے وہ سب آج کی اکیسویں صدی میں ہماری نظروں کے سامنے ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی زندگی کو آسان سے آسان تر بنانے میں ٹیکنالوجی کی روز افزوں ترقی کا بڑا ہاتھ ہے۔ لیکن یہ ہوشربا ترقی و ترویج انسانی زندگی کے مستقبل کے لئے روشن ہے یا تاریک ؟؟
شائد اس سوال کا جواب نہ تو یکسر اثبات میں دیا جا سکے اور نہ ہی ایکدم نفی میں !
وہی موبائل جو لمحہ بھر میں سات سمندر پار کے رشتہ دار سے ہمارا ربط کرا دے ، اگر ڈرائیونگ کے دوران استعمال ہو تو جان کے خطرے کی نشانی بن جائے۔ یا کسی بھری محفل میں استعمال کریں تو حاضرین سے لاتعلق اور خود کے غیراخلاق ہونے کا ثبوت دیں۔
مائیکرو ویو اوون ، واشنگ مشین ، ویکیوم کلینر بےشک سہولت اور آرام پہنچانے والی مشینیں سہی ، لیکن کیا یہ مستقبل میں انسان کو کاہل ، کام چور اور سست مزاج نہیں بنائیں گے؟ پھر اسی کاہلی اور سستی کو دور کرنے اور خود کو فٹ رکھنے نئی قسم کی مشینیں خریدی جائیں گی ، ایکسرسائز کے لئے!
ڈپارٹمنٹل اسٹور ہو یا کپڑوں کا شوروم یا ترکاری گوشت مچھلی کا بازار ۔۔۔ آہستہ آہستہ کمپیوٹر کا تسلط شائد مستقبل میں انسانوں کی تعداد یا انسانی روابط کو کم سے کم کرتا جائے اور انسانی نفسیات یا حسیات کے بغیر خریداری محض مشینی بن کر رہ جائے۔ بےروزگاری کا اضافہ اور ٹیکنالوجی کو ہیک کر کے کریڈٹ کارڈز چوری وغیرہ جیسے جرائم کی کثرت جس مستقبل کی طرف لے جائے گی ، وہ کچھ کم پریشان کن نہیں ہے۔
مادی اور تمدنی ترقی کی آڑ میں ٹیکنالوجی اگر نت نئے خطرناک اسلحہ ایجاد کرے تو شائد اظہارِ برتری اور حرص و ہوس کے جوش میں انسانی اور اخلاقی اصولوں کی پابندی کو بھول کر ممالک اور قومیں پل بھر میں صفحہء ہستی سے مٹا دی جائیں۔
لمحہ بھر میں دو جیتے جاگتے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی کو لقمہء اجل بنا دینے والی ٹیکنالوجی ، چرنوبیل اور بھوپال گیس حادثات کو انسانی زندگی کا دہشتناک المیہ بنا دینے والی ٹیکنالوجی ۔۔۔۔۔ کوئی سہانے انسانی مستقبل کا خواب نہیں دکھائے گی۔
تسخیر کائینات میں ، انسانی سہولیات کی فراہمی میں ٹیکنالوجی کی ترقی بےشک قابل تعریف و ستائش ہے اور اس کے خاطر خواہ استفادہ سے بھی انکار ممکن نہیں ، لیکن ۔۔۔
انسانی احساسات یا انسانی نفسیات یا انسانی خدمات ۔۔۔۔ مستقبل کی ٹیکنالوجی کی ریس میں دوڑتے لڑکھڑاتے ہانپتے کانپتے دم توڑ جائیں کہ جس کی طرف برسوں قبل علامہ اقبال نے بھی اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا :
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات !!