نبیل
تکنیکی معاون
یہ تحریریں پڑھ کر میرے لیے آنسو روکنا مشکل ہو گیا ہے۔
حوالہ: A happy life like roses- رؤف کلاسرہ ( روزنامہ جنگ، 4 مئی 2008 )
میں، شہزاد رضا، مطیع اللہ جان، مبشر زیدی اور متین حیدر اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ پی اے ایف راولپنڈی کے صاف ستھرے قبرستان میں اُداس کھڑے اپنے دوست اسد محمود کے والد کے جنازے کا انتظار کر رہے تھے۔ قبرستان میں چھائی چارسو اداسی ہم سب کو ڈیپریس کر رہی تھی۔ ہم چپ چاپ کھڑے قبرستان میں اپنے اردگرد بکھری قبروں کے درمیان اپنے اندر کے خوف سے لڑنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس طرح کی قبروں میں ایک دن ہم بھی آ لیٹیں گے ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک ایسی دنیا جس میں ہم اپنا وجود اور کردار ناگزیر سمجھتے ہیں چند لمحوں میں ہی ختم ہو جائے گی۔ جنازے کے بعد قبر پر مٹی ڈالی جا رہی تھی کہ میری نظر ایک قریب کی قبر کے کتبے پر پڑی جس کے کونے سے ایک برتھ ڈے کارڈ لٹکتا نظر آیا۔ ساتھ میں پھولوں کا ایک گلدستہ بھی پڑا تھا۔ اس کارڈ پر ہیپی برتھ ڈے کے الفاظ دور سے پڑھے جا سکتے تھے۔ میں آگے بڑھا، کتبے پر نظر دوڑائی تو وہاں تحریر تھا پائلٹ آفیسر راجہ جہانزیب شہید“ 2 اپریل 1986 - 22 جنوری 2008۔ صرف کچھ دن قبل ہی جہانزیب نے اپنی بائیسویں سالگرہ قبر میں منائی تھی اور اس کارڈ کو دیکھ کر لگتا تھا کہ کوئی اسے ہیپی برتھ ڈے کہنا نہیں بھولا تھا۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر کتبے سے جڑے اس برتھ ڈے کارڈ کو اندر سے کھولا کہ شاید وہاں کسی کا نام تحریر ہو۔ لیکن وہاں صرف ایک لائن لکھی ہوئی "Wishing you a happy life like roses" شاید برتھ ڈے کارڈ اور پھول چھوڑ کر جانے والے کا اپنے پیچھے اپنے پیارے کی قبر پر کوئی شناخت چھوڑنے کا حوصلہ نہیں پڑا تھا۔ نام چھوڑ بھی جاتا تو قبروں میں لیٹے ہوؤں میں سے کس نے اٹھ کر وہ نام پڑھنے تھے۔ وہ کون ہو سکتا ہے ممتا کی ماری ایک ماں یا باپ، چھوٹے یا بڑے بہن بھائی، کزن، دوست یا کوئی خاموش محبت؟ اگر جہانزیب پائلٹ نہ بن سکتا تو اسے یوں لگتا کہ وہ دنیا کے ناکام ترین لوگوں میں سے ایک تھا۔ خدا کی مصلحتوں کو بھلا کون سمجھ سکتا ہے۔ اسد کے والد کی قبر پر مٹی ابھی بھی ڈالی جا رہی تھی اور میں برتھ ڈے کارڈ کو دیکھتا سوچتا رہا کہ بعض دفعہ ناکامیاں اور ٹریجڈی انسان کی زندگی میں کتنی اہم ہوتی ہے۔
1990ء کی بات ہے کہ مجھے بھی فوج میں جانے کا شوق ہوا۔ گوجرانوالہ میں آئی ایس ایس بی کے مرکز سے کال آئی جہاں کا انچارج میرے لاہور میں خالو میجر نواز ملک کا دوست تھا۔ میں کئی دنوں تک اپنے لیہ کالج کے دوستوں کے درمیان ایک فوجی افسر بن کر چلتا رہا۔ گوجرانوالہ میں پہلی رات ایک آرمی افسر کا پروٹوکول لیا۔ اگلی صبح سکریننگ ٹیسٹ شروع ہوا۔ تقریباً سو میں سے دو لڑکے ایسے تھے جو ابتدائی ٹیسٹ میں ہی فیل ہو گئے جن میں سے ایک میں تھا۔ اس لمحے مجھے یوں لگا کہ میری ساری زندگی ختم ہو گئی تھی۔ آسمان میرا دشمن ہو گیا تھا۔ پتہ نہیں کیوں میرا دل چاہ رہا تھا کہ بس زندگی یہیں ختم ہو جائے۔ اپنے ان تمام دوستوں اور رشتہ داروں کا کیسے سامنا کروں گا کہ جنہیں یہ بتا کر آیا تھا کہ میں کچھ دنوں بعد فوج کی وردی پہن کر ان پر رعب جمانے آؤں گا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں کیسے اور کس کیفیت میں واپس گھر پہنچا تھا۔ زندگی کی اس پہلی بڑی ناکامی نے مجھے ہلاکر رکھ دیا تھا۔ میں فوجی نہ بن سکا تو میں نے سوچا کہ اب ماں کے خواب کو پورا کرتے ہیں۔ مریم کو سپاہی سے بہت ڈر لگتا تھا کیونکہ ایک دن پانی کے جھگڑے پربابا کو ایک سپاہی پکڑ کر لے گیا۔ مریم کو پہلی دفعہ زندگی میں احساس ہوا کہ اس کے شوہر سے بھی زیادہ طاقتور لوگ اس دنیا میں رہتے تھے۔ اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد میں پیدا ہوا تو ان کے ذہن میں مجھے سپاہی بنانے کا خیال آیا ۔ 1992ء میں کینسر سے لمبی جنگ ہارنے تک وہ مجھے سپاہی بننے کی تلقین کرتی رہیں۔ 1994ء میں خوب محنت کے بعد میں نے سی ایس ایس کا امتحان دیا ۔ تحریری امتحان پاس کیا۔ انٹرویو کیلئے خوب تیاری کی۔ لاہور جا کراپنے دوستوں کے ہاں یونیورسٹیوں کے ہاسٹلوں میں ٹھہرا۔ جس دن فائنل رزلٹ آیا وسیم نواز اور میں ایک دوست کے فلیٹ پر اکیلے تھے۔ پاس ہونے والے تقریباً چار سو امیدواروں میں سے میرا نمبر 170 تھا لیکن سیٹیں کم ہونے کی وجہ سے میں کہیں نوکری نہیں لے سکا۔ پھر ایک شدید ڈیپریشن، وہی پرانی افسردگی۔ یوں محسوس ہوا کہ زندگی ختم ہو گئی تھی۔ ایک بند گلی تاریک منزلیں، قبر میں لیٹی ماں کا خواب۔ اپنا آپ مجرم سا لگنے لگ گیا۔ رات گئے وسیم کے ساتھ باغ جناح لاہور میں گھنٹوں پیدل چلتا رہا۔ رات گئے جب فلیٹ پر لوٹا تو اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ بڑا حیران ہوا کہ رات گئے کون ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف میرے دوست ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر لیہ رانا اعجاز محمود تھے۔ مجھے موقع دیئے بغیر انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں گفتگو شروع کی کہ آج اگر میں میرٹ پر آ چکا ہوتا تو دنیا جہان سے میرے دوست اور رشتہ دار مجھے ڈھونڈ ڈھونڈ کر مبارکیں دے رہے ہوتے لیکن آج کسی نے فون نہیں کیا ہوگا کیونکہ کامیابی کے کئی باپ ہوتے ہیں اور ناکامی کو ڈھونڈنے سے ایک بھی نہیں ملتا۔ رانا اعجاز مسلسل بولتے رہے اور میں ایک ناکام شخص کی طرح ان کی باتیں چپ کر کے سنتا رہا۔ رانا نے کہا کہ ہو سکتا ہے تمہیں یوں لگتا ہو کہ تمہارے لیے زندگی ختم ہو گئی تھی اور تم دنیا کے ناکام ترین شخص تھے لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ خدا اور تقدیر نے تمہارے لیے کیا سوچ رکھا ہے کیونکہ ہر شخص کی اپنی ایک منزل ہوتی ہے وہ کہیں بھی ہاتھ پاؤں مارتا رہے ایک نہ ایک دن اس کو اپنے حصے کا زندگی کی ناکامیوں اور کامیابیوں سے حصہ ضرور ملتا ہے۔ میں رانا اعجاز کی اس روایتی تمہید سے بور ہونا شروع ہو گیا تھا کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ ایسے موقعوں پر یار دوست تسلی دینے کیلئے کس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ لیکن رانا نے ہمت نہیں ہاری اور کہنے لگا کہ رؤف مجھے ایک بات بتاؤ جس دن بینظیر بھٹو اپنے باپ ذوالفقار علی بھٹو سے اڈیالہ جیل راولپنڈی کے پھانسی گھاٹ سے آخری ملاقات کر رہی ہونگی تو کیا کبھی انہوں نے یہ سوچا ہوگا کہ تقدیر ان کے باپ کو ان کے رستے سے اس لیے ہٹا رہی تھی کہ ایک دن اس نے خود مسلم ورلڈ کی پہلی خاتون وزیراعظم بننا ہے۔ اگرکوئی اس وقت بینظیر کو یہ بات کرتا بھی تو اس نے ایسے شخص کو کتنا سنگدل اور ظالم سمجھنا تھا کہ اس کے باپ کو پھانسی لگ رہی تھی اور وہ اسے دس سال بعد وزیراعظم بننے کی خوشخبریاں سنا رہا تھا ! میں چپ تھا ۔ رانا اعجاز نے ہمت نہیں ہاری تھی۔ وہ پھر بولا تقدیر کے اپنے فیصلے اور اپنی مصلحتیں ہوتی ہیں چلو بینظیر بھٹو کی مثال چھوڑو فاروق لغاری کے بارے میں کیا خیال ہے۔ وہ 1988ء میں نواز شریف کے مقابلے میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے۔ وہ کتنے دنوں تک پنجاب میں بھاگ دوڑ کرتے رہے اور بڑے پُرامید تھے کہ وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بن جائیں گے وہ ہر رات اپنے آپ کو وزیراعلیٰ کا پروٹوکول دیکر سوتے تھے لیکن وہ نواز شریف سے ہار گئے۔ اب بھلا مجھے بتاؤ ایک فاروق لغاری جیسے فیوڈل لارڈ کو نواز شریف جیسے شہری بابو سے وزارت اعلیٰ کا الیکشن ہار کرجسے ابھی سیاست میں آئے کچھ دن ہوئے تھے، کیا محسوس ہوا ہو گا۔ کیا لغاری کو ایسے محسوس نہیں ہوا ہوگا کہ اس کی زندگی کے سارے خواب اور منزلیں بکھر گئی تھیں۔ شکست کے احساس نے اسے کئی راتوں تک سونے نہیں دیا ہوگا۔ میں ابھی بھی بیزاری سے رانا اعجاز کی گفتگو سن رہا تھا کہ بھلا فاروق لغاری کے نواز شریف سے وزارت اعلیٰ کا الیکشن ہارنے کا میری اپنی ناکامی سے کیا تعلق تھا۔ میں ابھی رانا کو ٹوکنے ہی والا تھا کہ وہ بولا کہ بھلا ان بے خواب راتوں میں فاروق لغاری نے کیا سوچا ہوگا کہ صرف پانچ سال بعد وہ اس ملک کا صدر بنے گا۔
ایک ہی لمحے میں مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرے ذہن اور کندھوں سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا تھا۔ رانا اعجاز نے محض چند لمحوں میں میرا زندگی کے بارے میں سوچنے کے رخ کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بدل کر رکھ دیا تھا کہ ناکامیوں سے ہی بڑے رستے نکلتے ہیں۔ میں نے اپنے قریب لیٹے وسیم کو جھنجھوڑ کر اٹھایا اور اسے کہا کہ چلو انار کلی تک پیدل چل کر ربڑی دودھ پی کر آتے ہیں۔ ایک حیران و پریشان میرے ذہنی توازن پر شک کرتا ہوا چپ چاپ میرے ساتھ فلیٹ کی سیڑھیوں سے نیچے اتر آیا۔ رانا اعجاز کی اس مختصر سی گفتگو نے میری سوچ کے رخ کو کچھ ایسا بدلا کہ اس کے بعد مجھے اپنی زندگی میں کسی بھی ناکامی نے ڈیپریس نہیں کیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ خدا اور تقدیر کسی سے بے انصافی نہیں کرتے۔ ہر کسی کو وہی کچھ ملتا ہے جتنا اس کا حصہ اور حق بنتا ہے لیکن ہم محض ناکامیوں کو اپنے دل پر لیکر ایک ناکام شخص کی زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے جہنم میں بغیر کچھ انتظار کیے جلتے رہتے ہیں۔ آج میں اپنی زندگی سے کتنا خوش اور مطمئن ہوں کہ میں فوجی یا بیوروکریٹ نہیں بنا۔ اسد کے والد کے قبر پر مٹی ڈالی جا چکی تھی۔ میری نظریں جہانزیب کے برتھ ڈے کارڈ سے نہیں ہٹ رہی تھیں۔ اگر جہانزیب بھی میری طرح فوج کے ابتدائی ٹیسٹ سے ہی ناکام گھر لوٹتا تو وہ کتنے عرصے تک ڈیپریشن، اداسیوں اور تنہائیوں کا شکار رہتا۔ حتیٰ کہ وہ دوست گھر والے یا بہن بھائی جو یہ کارڈ یہاں چھوڑ گئے تھے وہ بھی اسے ایک ناکام مرد سمجھتے کیونکہ ہمارے ہاں کامیابی صرف وہی سمجھی جاتی ہے جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ تقدیر نے ہمارے یا ہمارے بچوں کیلئے کیا سوچ رکھا ہے۔ ہم تو انہیں وہی بنانا چاہتے ہیں جسکا خواب ہم نے دیکھا ہوتا ہے۔
قبرستان خالی ہونا شروع ہو گیا تھا۔ ایک ایسے لڑکے کی قبر سے دور جانے کی سکت نہیں تھی جس سے میں کبھی نہیں ملا تھا لیکن پتہ نہیں ایک عجیب سی تکلیف اور درد اپنے سینے میں محسوس کیا جو اپنی بائیسویں سالگرہ سے پہلے ہی اپنے خوابوں کی تعبیر پاتے پاتے کسی جنگی طیارے کے کریش میں شہید ہو کر اس قبر میں آ لیٹا تھا۔ ایک دن مرنا تو سب نے ہوتا ہے اور ہر کسی کو موت کا کوئی نہ کوئی بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔ میں نے قبر میں لیٹے اس نوجوان سے ایک عجیب سا تعلق محسوس کیا جو اپنا خواب پا کر بھی قبر میں آ لیٹا تھا اور میں اس جیسے ایک خواب کی تلاش میں ناکام ہو کر اس قبر کے کونے پر کھڑا تھا ! میں نے قبرستان سے نکلنے سے پہلے آخری بار برتھ ڈے کارڈ پر لکھی تحریر "Wishing you a happy life like roses" پڑھنے کی دوبارہ کوشش کی لیکن گیلی آنکھوں سے کچھ نہیں پڑھا گیا۔ ڈھلتی شام میں قبرستان میں ہرسو پھیلی ایک عجیب سی اداسی کے درمیان انسان کے خوابوں اور تقدیر کی زور آوریوں کی ایک دوسرے کے درمیان صدیوں سے جاری اس عجیب کشمکش کے بارے میں سوچتا ہوا باہر نکل آیا!!!
حوالہ: A happy life like roses- رؤف کلاسرہ ( روزنامہ جنگ، 4 مئی 2008 )
میں، شہزاد رضا، مطیع اللہ جان، مبشر زیدی اور متین حیدر اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ پی اے ایف راولپنڈی کے صاف ستھرے قبرستان میں اُداس کھڑے اپنے دوست اسد محمود کے والد کے جنازے کا انتظار کر رہے تھے۔ قبرستان میں چھائی چارسو اداسی ہم سب کو ڈیپریس کر رہی تھی۔ ہم چپ چاپ کھڑے قبرستان میں اپنے اردگرد بکھری قبروں کے درمیان اپنے اندر کے خوف سے لڑنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس طرح کی قبروں میں ایک دن ہم بھی آ لیٹیں گے ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک ایسی دنیا جس میں ہم اپنا وجود اور کردار ناگزیر سمجھتے ہیں چند لمحوں میں ہی ختم ہو جائے گی۔ جنازے کے بعد قبر پر مٹی ڈالی جا رہی تھی کہ میری نظر ایک قریب کی قبر کے کتبے پر پڑی جس کے کونے سے ایک برتھ ڈے کارڈ لٹکتا نظر آیا۔ ساتھ میں پھولوں کا ایک گلدستہ بھی پڑا تھا۔ اس کارڈ پر ہیپی برتھ ڈے کے الفاظ دور سے پڑھے جا سکتے تھے۔ میں آگے بڑھا، کتبے پر نظر دوڑائی تو وہاں تحریر تھا پائلٹ آفیسر راجہ جہانزیب شہید“ 2 اپریل 1986 - 22 جنوری 2008۔ صرف کچھ دن قبل ہی جہانزیب نے اپنی بائیسویں سالگرہ قبر میں منائی تھی اور اس کارڈ کو دیکھ کر لگتا تھا کہ کوئی اسے ہیپی برتھ ڈے کہنا نہیں بھولا تھا۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر کتبے سے جڑے اس برتھ ڈے کارڈ کو اندر سے کھولا کہ شاید وہاں کسی کا نام تحریر ہو۔ لیکن وہاں صرف ایک لائن لکھی ہوئی "Wishing you a happy life like roses" شاید برتھ ڈے کارڈ اور پھول چھوڑ کر جانے والے کا اپنے پیچھے اپنے پیارے کی قبر پر کوئی شناخت چھوڑنے کا حوصلہ نہیں پڑا تھا۔ نام چھوڑ بھی جاتا تو قبروں میں لیٹے ہوؤں میں سے کس نے اٹھ کر وہ نام پڑھنے تھے۔ وہ کون ہو سکتا ہے ممتا کی ماری ایک ماں یا باپ، چھوٹے یا بڑے بہن بھائی، کزن، دوست یا کوئی خاموش محبت؟ اگر جہانزیب پائلٹ نہ بن سکتا تو اسے یوں لگتا کہ وہ دنیا کے ناکام ترین لوگوں میں سے ایک تھا۔ خدا کی مصلحتوں کو بھلا کون سمجھ سکتا ہے۔ اسد کے والد کی قبر پر مٹی ابھی بھی ڈالی جا رہی تھی اور میں برتھ ڈے کارڈ کو دیکھتا سوچتا رہا کہ بعض دفعہ ناکامیاں اور ٹریجڈی انسان کی زندگی میں کتنی اہم ہوتی ہے۔
1990ء کی بات ہے کہ مجھے بھی فوج میں جانے کا شوق ہوا۔ گوجرانوالہ میں آئی ایس ایس بی کے مرکز سے کال آئی جہاں کا انچارج میرے لاہور میں خالو میجر نواز ملک کا دوست تھا۔ میں کئی دنوں تک اپنے لیہ کالج کے دوستوں کے درمیان ایک فوجی افسر بن کر چلتا رہا۔ گوجرانوالہ میں پہلی رات ایک آرمی افسر کا پروٹوکول لیا۔ اگلی صبح سکریننگ ٹیسٹ شروع ہوا۔ تقریباً سو میں سے دو لڑکے ایسے تھے جو ابتدائی ٹیسٹ میں ہی فیل ہو گئے جن میں سے ایک میں تھا۔ اس لمحے مجھے یوں لگا کہ میری ساری زندگی ختم ہو گئی تھی۔ آسمان میرا دشمن ہو گیا تھا۔ پتہ نہیں کیوں میرا دل چاہ رہا تھا کہ بس زندگی یہیں ختم ہو جائے۔ اپنے ان تمام دوستوں اور رشتہ داروں کا کیسے سامنا کروں گا کہ جنہیں یہ بتا کر آیا تھا کہ میں کچھ دنوں بعد فوج کی وردی پہن کر ان پر رعب جمانے آؤں گا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں کیسے اور کس کیفیت میں واپس گھر پہنچا تھا۔ زندگی کی اس پہلی بڑی ناکامی نے مجھے ہلاکر رکھ دیا تھا۔ میں فوجی نہ بن سکا تو میں نے سوچا کہ اب ماں کے خواب کو پورا کرتے ہیں۔ مریم کو سپاہی سے بہت ڈر لگتا تھا کیونکہ ایک دن پانی کے جھگڑے پربابا کو ایک سپاہی پکڑ کر لے گیا۔ مریم کو پہلی دفعہ زندگی میں احساس ہوا کہ اس کے شوہر سے بھی زیادہ طاقتور لوگ اس دنیا میں رہتے تھے۔ اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد میں پیدا ہوا تو ان کے ذہن میں مجھے سپاہی بنانے کا خیال آیا ۔ 1992ء میں کینسر سے لمبی جنگ ہارنے تک وہ مجھے سپاہی بننے کی تلقین کرتی رہیں۔ 1994ء میں خوب محنت کے بعد میں نے سی ایس ایس کا امتحان دیا ۔ تحریری امتحان پاس کیا۔ انٹرویو کیلئے خوب تیاری کی۔ لاہور جا کراپنے دوستوں کے ہاں یونیورسٹیوں کے ہاسٹلوں میں ٹھہرا۔ جس دن فائنل رزلٹ آیا وسیم نواز اور میں ایک دوست کے فلیٹ پر اکیلے تھے۔ پاس ہونے والے تقریباً چار سو امیدواروں میں سے میرا نمبر 170 تھا لیکن سیٹیں کم ہونے کی وجہ سے میں کہیں نوکری نہیں لے سکا۔ پھر ایک شدید ڈیپریشن، وہی پرانی افسردگی۔ یوں محسوس ہوا کہ زندگی ختم ہو گئی تھی۔ ایک بند گلی تاریک منزلیں، قبر میں لیٹی ماں کا خواب۔ اپنا آپ مجرم سا لگنے لگ گیا۔ رات گئے وسیم کے ساتھ باغ جناح لاہور میں گھنٹوں پیدل چلتا رہا۔ رات گئے جب فلیٹ پر لوٹا تو اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ بڑا حیران ہوا کہ رات گئے کون ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف میرے دوست ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر لیہ رانا اعجاز محمود تھے۔ مجھے موقع دیئے بغیر انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں گفتگو شروع کی کہ آج اگر میں میرٹ پر آ چکا ہوتا تو دنیا جہان سے میرے دوست اور رشتہ دار مجھے ڈھونڈ ڈھونڈ کر مبارکیں دے رہے ہوتے لیکن آج کسی نے فون نہیں کیا ہوگا کیونکہ کامیابی کے کئی باپ ہوتے ہیں اور ناکامی کو ڈھونڈنے سے ایک بھی نہیں ملتا۔ رانا اعجاز مسلسل بولتے رہے اور میں ایک ناکام شخص کی طرح ان کی باتیں چپ کر کے سنتا رہا۔ رانا نے کہا کہ ہو سکتا ہے تمہیں یوں لگتا ہو کہ تمہارے لیے زندگی ختم ہو گئی تھی اور تم دنیا کے ناکام ترین شخص تھے لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ خدا اور تقدیر نے تمہارے لیے کیا سوچ رکھا ہے کیونکہ ہر شخص کی اپنی ایک منزل ہوتی ہے وہ کہیں بھی ہاتھ پاؤں مارتا رہے ایک نہ ایک دن اس کو اپنے حصے کا زندگی کی ناکامیوں اور کامیابیوں سے حصہ ضرور ملتا ہے۔ میں رانا اعجاز کی اس روایتی تمہید سے بور ہونا شروع ہو گیا تھا کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ ایسے موقعوں پر یار دوست تسلی دینے کیلئے کس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ لیکن رانا نے ہمت نہیں ہاری اور کہنے لگا کہ رؤف مجھے ایک بات بتاؤ جس دن بینظیر بھٹو اپنے باپ ذوالفقار علی بھٹو سے اڈیالہ جیل راولپنڈی کے پھانسی گھاٹ سے آخری ملاقات کر رہی ہونگی تو کیا کبھی انہوں نے یہ سوچا ہوگا کہ تقدیر ان کے باپ کو ان کے رستے سے اس لیے ہٹا رہی تھی کہ ایک دن اس نے خود مسلم ورلڈ کی پہلی خاتون وزیراعظم بننا ہے۔ اگرکوئی اس وقت بینظیر کو یہ بات کرتا بھی تو اس نے ایسے شخص کو کتنا سنگدل اور ظالم سمجھنا تھا کہ اس کے باپ کو پھانسی لگ رہی تھی اور وہ اسے دس سال بعد وزیراعظم بننے کی خوشخبریاں سنا رہا تھا ! میں چپ تھا ۔ رانا اعجاز نے ہمت نہیں ہاری تھی۔ وہ پھر بولا تقدیر کے اپنے فیصلے اور اپنی مصلحتیں ہوتی ہیں چلو بینظیر بھٹو کی مثال چھوڑو فاروق لغاری کے بارے میں کیا خیال ہے۔ وہ 1988ء میں نواز شریف کے مقابلے میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے۔ وہ کتنے دنوں تک پنجاب میں بھاگ دوڑ کرتے رہے اور بڑے پُرامید تھے کہ وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بن جائیں گے وہ ہر رات اپنے آپ کو وزیراعلیٰ کا پروٹوکول دیکر سوتے تھے لیکن وہ نواز شریف سے ہار گئے۔ اب بھلا مجھے بتاؤ ایک فاروق لغاری جیسے فیوڈل لارڈ کو نواز شریف جیسے شہری بابو سے وزارت اعلیٰ کا الیکشن ہار کرجسے ابھی سیاست میں آئے کچھ دن ہوئے تھے، کیا محسوس ہوا ہو گا۔ کیا لغاری کو ایسے محسوس نہیں ہوا ہوگا کہ اس کی زندگی کے سارے خواب اور منزلیں بکھر گئی تھیں۔ شکست کے احساس نے اسے کئی راتوں تک سونے نہیں دیا ہوگا۔ میں ابھی بھی بیزاری سے رانا اعجاز کی گفتگو سن رہا تھا کہ بھلا فاروق لغاری کے نواز شریف سے وزارت اعلیٰ کا الیکشن ہارنے کا میری اپنی ناکامی سے کیا تعلق تھا۔ میں ابھی رانا کو ٹوکنے ہی والا تھا کہ وہ بولا کہ بھلا ان بے خواب راتوں میں فاروق لغاری نے کیا سوچا ہوگا کہ صرف پانچ سال بعد وہ اس ملک کا صدر بنے گا۔
ایک ہی لمحے میں مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرے ذہن اور کندھوں سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا تھا۔ رانا اعجاز نے محض چند لمحوں میں میرا زندگی کے بارے میں سوچنے کے رخ کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بدل کر رکھ دیا تھا کہ ناکامیوں سے ہی بڑے رستے نکلتے ہیں۔ میں نے اپنے قریب لیٹے وسیم کو جھنجھوڑ کر اٹھایا اور اسے کہا کہ چلو انار کلی تک پیدل چل کر ربڑی دودھ پی کر آتے ہیں۔ ایک حیران و پریشان میرے ذہنی توازن پر شک کرتا ہوا چپ چاپ میرے ساتھ فلیٹ کی سیڑھیوں سے نیچے اتر آیا۔ رانا اعجاز کی اس مختصر سی گفتگو نے میری سوچ کے رخ کو کچھ ایسا بدلا کہ اس کے بعد مجھے اپنی زندگی میں کسی بھی ناکامی نے ڈیپریس نہیں کیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ خدا اور تقدیر کسی سے بے انصافی نہیں کرتے۔ ہر کسی کو وہی کچھ ملتا ہے جتنا اس کا حصہ اور حق بنتا ہے لیکن ہم محض ناکامیوں کو اپنے دل پر لیکر ایک ناکام شخص کی زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے جہنم میں بغیر کچھ انتظار کیے جلتے رہتے ہیں۔ آج میں اپنی زندگی سے کتنا خوش اور مطمئن ہوں کہ میں فوجی یا بیوروکریٹ نہیں بنا۔ اسد کے والد کے قبر پر مٹی ڈالی جا چکی تھی۔ میری نظریں جہانزیب کے برتھ ڈے کارڈ سے نہیں ہٹ رہی تھیں۔ اگر جہانزیب بھی میری طرح فوج کے ابتدائی ٹیسٹ سے ہی ناکام گھر لوٹتا تو وہ کتنے عرصے تک ڈیپریشن، اداسیوں اور تنہائیوں کا شکار رہتا۔ حتیٰ کہ وہ دوست گھر والے یا بہن بھائی جو یہ کارڈ یہاں چھوڑ گئے تھے وہ بھی اسے ایک ناکام مرد سمجھتے کیونکہ ہمارے ہاں کامیابی صرف وہی سمجھی جاتی ہے جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ تقدیر نے ہمارے یا ہمارے بچوں کیلئے کیا سوچ رکھا ہے۔ ہم تو انہیں وہی بنانا چاہتے ہیں جسکا خواب ہم نے دیکھا ہوتا ہے۔
قبرستان خالی ہونا شروع ہو گیا تھا۔ ایک ایسے لڑکے کی قبر سے دور جانے کی سکت نہیں تھی جس سے میں کبھی نہیں ملا تھا لیکن پتہ نہیں ایک عجیب سی تکلیف اور درد اپنے سینے میں محسوس کیا جو اپنی بائیسویں سالگرہ سے پہلے ہی اپنے خوابوں کی تعبیر پاتے پاتے کسی جنگی طیارے کے کریش میں شہید ہو کر اس قبر میں آ لیٹا تھا۔ ایک دن مرنا تو سب نے ہوتا ہے اور ہر کسی کو موت کا کوئی نہ کوئی بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔ میں نے قبر میں لیٹے اس نوجوان سے ایک عجیب سا تعلق محسوس کیا جو اپنا خواب پا کر بھی قبر میں آ لیٹا تھا اور میں اس جیسے ایک خواب کی تلاش میں ناکام ہو کر اس قبر کے کونے پر کھڑا تھا ! میں نے قبرستان سے نکلنے سے پہلے آخری بار برتھ ڈے کارڈ پر لکھی تحریر "Wishing you a happy life like roses" پڑھنے کی دوبارہ کوشش کی لیکن گیلی آنکھوں سے کچھ نہیں پڑھا گیا۔ ڈھلتی شام میں قبرستان میں ہرسو پھیلی ایک عجیب سی اداسی کے درمیان انسان کے خوابوں اور تقدیر کی زور آوریوں کی ایک دوسرے کے درمیان صدیوں سے جاری اس عجیب کشمکش کے بارے میں سوچتا ہوا باہر نکل آیا!!!