منصور مکرم
محفلین
گزشتہ کالم میں پاکستانی فوج کے چند قاتلوں کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ جن کے مجرمانہ کرتوتوں کے سبب شمالی وزیرستان کے تحصیل میر علی میں ہیلی کاپٹر سےبلاوجہ شیلنگ کے دوران تین چار گاؤوں میں بے گناہ معصوم بچے ،عورتیں اور وطن کے با وفاء لوگ شھید ہوئے تھے۔
اس کالم کے لکھنے پر اور انداز تخاطب پر بعض لوگ چیں بچیں ہوئے ،اور کئی ایک نے تو اخلاقیات کے حدود پار کرتے ہوئے منافقین کی علامات کا اظہار کیا۔ اور اس کالم کو خالصتا ملک سے غداری اور بے وفائی قرار دیا گیا۔
حالانکہ اس بات کو واضح کیا گیا کہ یہ کالم ایک ظلم کے خلاف آواز ہے ،اور ہمیں ظلم کے خلاف ہر حال میں آواز اُٹھانی چاہئے ،اور اسکا سدباب کرنا چاہئے۔ ہمیں تعصب نہیں کرنا چاہئے اور وہ بھی اپنے ہم وطنوں کے ساتھ۔ عصبیت تو نری جھالت ہے۔
پہلے بھی ان ظلموں کا انجام دیکھ چکے ہیں اور ملکی وحدت کو پارہ پارہ دیکھ کر دل کڑتا رہا۔حد تو یہ ہے کہ بنگلہ دیش جو کبھی پاکستان کا حصہ تھا ،وہ اتنے نفرت کا اظہار کرتے ہیں کہ آج سے 30 -35 سال قبل پاکستان سے محبت کا اظہار کرنے والوں کو پھانسیاں اور سزائے موت دے رہے ہیں ۔اور ہم چاہتے ہیں کہ یہی حالت قبائل اور بلوچستان کی بھی ہوجائے۔فوج کی ہر ناجائز کام کو حق کہنے والے ،اور سویلین معاہدوں کی تضحیک کرنے والے شائد مشرقی تیمور و جنوبی سوڈان کے نتائج بھول رہے ہیں۔
ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ظالم اور ظلوم کی مدد کرو۔
صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم اجمعین )نے عرض کیا کہ یارسول اللہ (صل اللہ علیہ واٰلہ وصحبہ وسلم ) مظلوم کی مدد تو سب کو معلوم ہے کہ کس طرح کی جاتی ہے ،لیکن یہ ظالم کی مدد کیسے کی جائے۔اسکی سمجھ نہیں آئی ۔ ۔ ۔!!!
تو حضور (صل اللہ علیہ واٰلہ وصحبہ وسلم ) نے فرمایا کہ ظالم کی مدد اسطرح کرو کہ اسکو ظلم سے روکو۔
اور یہ اسلئے بھی اسکی مدد ہے کہ ایک دوسری حدیث کے مطابق ظلم قیامت کے دن کے اندھیروں میں سے ایک اندھیرا ہے۔اور کون یہ چاہے گا کہ وہ کسی انسان کو اس دردناک و المناک اندھیرے میں دکھیل دئے۔۔۔!!!
حق اپنے اپ کو واضح کرتا ہی ہے ،چائے کتنا ہی اسکو مکر وفریب و چالاکیوں کے پردوں میں چھپایا جائے۔
چند گھنٹے قبل شمالی وزیرستان کے ایک سابق ایم این اے کے ایک گھر کے فرد سے ملاقات ہوئی ۔چونکہ انکے گھر بھی تحصیل میرعلی میں واقع ہیں ، اسلئے اسکی خیریت دریافت کرنے کے بعد پہلا سوال یہ کیا کہ آپ لوگ تو اس شیلینگ سے متاثر نہیں ہوئے؟
اس نے جواب میں کہا کہ شیلینگ ہمارئے گھر کے پاس ہی ہوئی ہے اور ایم این ائے صاحب کی بیوی اور بیٹی اس شیلنگ سے بال بال بچی ہیں ۔لیکن انکے کمرئے اس سے متاثر ہوئے ہیں ،ساتھ ہی برامدئے میں رکھے گئے کپڑوں اور کمبلوں کے صندوق بھی چھلنی ہوئے ہیں لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ کپڑوں اور کمبلوں وغیرہ نے آگ نہیں پکڑی۔
میں نے اس سے پوچھا کہ جناب انہوں نے کیوں شیلنگ کی ؟ کیا آپکے گاؤں سے کسی نے ان پر فائر کیا تھا یا ہیلی کاپٹر کے ساتھ کوئی چھیڑچھاڑ کی گئی تھی ؟
اس نے جواب دیا کہ نا تو ہمارئے گاؤں سے فوج پر فائر کیا گیا اور نا ہی کوئی دوسری معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی۔بلکہ بلا وجہ ہی انہوں نے تحصیل میرعلی کے 2-3 گاؤں پر شیلینگ کی۔
پھر انہوں نے خود ہی بتایا کہ ایم این اے صاحب کے ایک قریبی رشتہ دار (انہوں نےاسکا نام لیا لیکن میں نے کالم لکھتے وقت نام کو حذف کیا) فوج میں میجر ہیں ،چنانچہ اس میجر صاحب نے بعد میں آرمی کیمپ میں ہیلی کاپٹر کے پائیلٹ سے ملاقات کی اور اس سے شیلنگ کی وجہ پوچھی۔
تو پائلٹ صاحب نے جواب دیا کہ بس ہمیں تو اوپر سے آرڈر ملا کہ جاؤ اور تحصیل میرعلی کے فلاں گاؤں میں فلاں ہسپتال پر شیلنگ کرو۔
میں نے دوبارہ سوال کیا کہ کیا ہسپتال میں کوئی مشکوک چیز رکھی گئی تھی ؟
اس نے کہا کہ نہیں۔
میں نے دوبارہ سوال کیا کہ کیا اس ہسپتال میں عرب ،القاعدہ والے ،ازبک ،تاجک یا چیچن باشندے تھے ؟
تو انہوں نے کہا نہیں بلکہ اس ہسپتال کے ایک حصے میں محسود قبیلے کی متاثرین رہائش پذیر تھے۔
میں نے حیرانی سے سوال کیا کہ محسود قبیلہ تو جنوبی وزیرستان کا رہائیشی ہے اور پاکستانی شہری ہیں ۔نیز انکی بڑی تعداد تو اضلاع اور بڑئے شہروں میں بھی آباد ہے ۔تو وہاں کیوں انکے خلاف کاروائی نہیں ہوتی۔شمالی وزیرستان میں پناہ گزین ہوں تو ماؤرائے عدالت قابل سزائے مرگ۔
لیکن اضلاع میں پناہ گزین تو پھر امن پسند ۔یہ کیا دوغلا معیار ہے۔
اسکے بعد میں نے ان صاحب سے سوال کیا کہ چلو مان لیا کہ ہسپتال (جو کہ ایک فلاحی ادارہ ہوتا ہے) انکا ٹارگٹ تھا، لیکن یہ دوسرئے گاؤوں میں شیلنگ کیوں اور بائی پاس روڈ پر مسافر گاڑی کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟
تو وہ ہنس کر بولا کہ یہی سوال جب میجر صاحب نے پائلٹ سے کیا تو پائلٹ نے کیا جواب دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جواب سن کر پہلے تو ہنسی نکل گئی اور پھر رونا آگیا۔
پائلٹ نے جواب دیا کہ جب میں میرعلی تحصیل پہنچا اور میں نے اپنے ٹارگٹ (ہسپتال )کو تلاش کرنا شروع کیا تو مجھے زمین پر ہر طرف ہسپتال ہی ہسپتال نظر آنے لگے۔چنانچہ مجھے جہاں جہاں ہسپتال نظر آتا ،میں نے اُس اُس گھر کو ٹارگٹ کیا۔(یاد رہے کہ شیلنگ 3-4 گاؤوں میں کئی گئی ہے اور ساتھ ہی روڈ پر مسافر گاڑی پر بھی حملہ کیا گیا۔شائد وہ چلتا پھرتا ہسپتال نظر آیا ہو)
قارئین پائلٹ کی معصومیت پر نہ جائیے ،یہ اس کا وہ مکارانہ اور تعصب سے بھرا جواب تھا جو خود پاکستانی فوج کے میجر نے پاکستانی فضائیہ کے ہی پائلٹ کے منہ سے سُنا۔(یار لوگ اسکو بھی ایک پروپیگنڈا کہہ کر مزاق میں اڑا لیں گے)
اب آپ خود ہی انصاف کریں کہ اس جیسے واقعات کا کیا نتیجہ نکلے گا۔اور ان واقعات سے عوام میں فوج کیلئے کتنی (محبت) پھیلے گی۔
میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دھنسا کر ،اور سب اچھا کی رپورٹ دیکھ کر مسائل حل نہیں ہوتے ۔بلکہ اسکے حل کیلئے ٹھوس قدم اُٹھانے پڑتے ہیں۔
میں قطعا طالبان کےخلاف انسانیت کاموں کی حمایت نہیں کرتا لیکن میں اس مقدس گائے(پاکستانی فوج ) کی بھی آنکھیں بند کرکے حمایت نہیں کرسکتا۔
ظلم ظلم ہوتا ہے چاہے طالبان کی طرف سے ہو یا فوج کی طرف سے۔
اس کالم کے لکھنے پر اور انداز تخاطب پر بعض لوگ چیں بچیں ہوئے ،اور کئی ایک نے تو اخلاقیات کے حدود پار کرتے ہوئے منافقین کی علامات کا اظہار کیا۔ اور اس کالم کو خالصتا ملک سے غداری اور بے وفائی قرار دیا گیا۔
حالانکہ اس بات کو واضح کیا گیا کہ یہ کالم ایک ظلم کے خلاف آواز ہے ،اور ہمیں ظلم کے خلاف ہر حال میں آواز اُٹھانی چاہئے ،اور اسکا سدباب کرنا چاہئے۔ ہمیں تعصب نہیں کرنا چاہئے اور وہ بھی اپنے ہم وطنوں کے ساتھ۔ عصبیت تو نری جھالت ہے۔
پہلے بھی ان ظلموں کا انجام دیکھ چکے ہیں اور ملکی وحدت کو پارہ پارہ دیکھ کر دل کڑتا رہا۔حد تو یہ ہے کہ بنگلہ دیش جو کبھی پاکستان کا حصہ تھا ،وہ اتنے نفرت کا اظہار کرتے ہیں کہ آج سے 30 -35 سال قبل پاکستان سے محبت کا اظہار کرنے والوں کو پھانسیاں اور سزائے موت دے رہے ہیں ۔اور ہم چاہتے ہیں کہ یہی حالت قبائل اور بلوچستان کی بھی ہوجائے۔فوج کی ہر ناجائز کام کو حق کہنے والے ،اور سویلین معاہدوں کی تضحیک کرنے والے شائد مشرقی تیمور و جنوبی سوڈان کے نتائج بھول رہے ہیں۔
ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ظالم اور ظلوم کی مدد کرو۔
صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم اجمعین )نے عرض کیا کہ یارسول اللہ (صل اللہ علیہ واٰلہ وصحبہ وسلم ) مظلوم کی مدد تو سب کو معلوم ہے کہ کس طرح کی جاتی ہے ،لیکن یہ ظالم کی مدد کیسے کی جائے۔اسکی سمجھ نہیں آئی ۔ ۔ ۔!!!
تو حضور (صل اللہ علیہ واٰلہ وصحبہ وسلم ) نے فرمایا کہ ظالم کی مدد اسطرح کرو کہ اسکو ظلم سے روکو۔
اور یہ اسلئے بھی اسکی مدد ہے کہ ایک دوسری حدیث کے مطابق ظلم قیامت کے دن کے اندھیروں میں سے ایک اندھیرا ہے۔اور کون یہ چاہے گا کہ وہ کسی انسان کو اس دردناک و المناک اندھیرے میں دکھیل دئے۔۔۔!!!
حق اپنے اپ کو واضح کرتا ہی ہے ،چائے کتنا ہی اسکو مکر وفریب و چالاکیوں کے پردوں میں چھپایا جائے۔
چند گھنٹے قبل شمالی وزیرستان کے ایک سابق ایم این اے کے ایک گھر کے فرد سے ملاقات ہوئی ۔چونکہ انکے گھر بھی تحصیل میرعلی میں واقع ہیں ، اسلئے اسکی خیریت دریافت کرنے کے بعد پہلا سوال یہ کیا کہ آپ لوگ تو اس شیلینگ سے متاثر نہیں ہوئے؟
اس نے جواب میں کہا کہ شیلینگ ہمارئے گھر کے پاس ہی ہوئی ہے اور ایم این ائے صاحب کی بیوی اور بیٹی اس شیلنگ سے بال بال بچی ہیں ۔لیکن انکے کمرئے اس سے متاثر ہوئے ہیں ،ساتھ ہی برامدئے میں رکھے گئے کپڑوں اور کمبلوں کے صندوق بھی چھلنی ہوئے ہیں لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ کپڑوں اور کمبلوں وغیرہ نے آگ نہیں پکڑی۔
میں نے اس سے پوچھا کہ جناب انہوں نے کیوں شیلنگ کی ؟ کیا آپکے گاؤں سے کسی نے ان پر فائر کیا تھا یا ہیلی کاپٹر کے ساتھ کوئی چھیڑچھاڑ کی گئی تھی ؟
اس نے جواب دیا کہ نا تو ہمارئے گاؤں سے فوج پر فائر کیا گیا اور نا ہی کوئی دوسری معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی۔بلکہ بلا وجہ ہی انہوں نے تحصیل میرعلی کے 2-3 گاؤں پر شیلینگ کی۔
پھر انہوں نے خود ہی بتایا کہ ایم این اے صاحب کے ایک قریبی رشتہ دار (انہوں نےاسکا نام لیا لیکن میں نے کالم لکھتے وقت نام کو حذف کیا) فوج میں میجر ہیں ،چنانچہ اس میجر صاحب نے بعد میں آرمی کیمپ میں ہیلی کاپٹر کے پائیلٹ سے ملاقات کی اور اس سے شیلنگ کی وجہ پوچھی۔
تو پائلٹ صاحب نے جواب دیا کہ بس ہمیں تو اوپر سے آرڈر ملا کہ جاؤ اور تحصیل میرعلی کے فلاں گاؤں میں فلاں ہسپتال پر شیلنگ کرو۔
میں نے دوبارہ سوال کیا کہ کیا ہسپتال میں کوئی مشکوک چیز رکھی گئی تھی ؟
اس نے کہا کہ نہیں۔
میں نے دوبارہ سوال کیا کہ کیا اس ہسپتال میں عرب ،القاعدہ والے ،ازبک ،تاجک یا چیچن باشندے تھے ؟
تو انہوں نے کہا نہیں بلکہ اس ہسپتال کے ایک حصے میں محسود قبیلے کی متاثرین رہائش پذیر تھے۔
میں نے حیرانی سے سوال کیا کہ محسود قبیلہ تو جنوبی وزیرستان کا رہائیشی ہے اور پاکستانی شہری ہیں ۔نیز انکی بڑی تعداد تو اضلاع اور بڑئے شہروں میں بھی آباد ہے ۔تو وہاں کیوں انکے خلاف کاروائی نہیں ہوتی۔شمالی وزیرستان میں پناہ گزین ہوں تو ماؤرائے عدالت قابل سزائے مرگ۔
لیکن اضلاع میں پناہ گزین تو پھر امن پسند ۔یہ کیا دوغلا معیار ہے۔
اسکے بعد میں نے ان صاحب سے سوال کیا کہ چلو مان لیا کہ ہسپتال (جو کہ ایک فلاحی ادارہ ہوتا ہے) انکا ٹارگٹ تھا، لیکن یہ دوسرئے گاؤوں میں شیلنگ کیوں اور بائی پاس روڈ پر مسافر گاڑی کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟
تو وہ ہنس کر بولا کہ یہی سوال جب میجر صاحب نے پائلٹ سے کیا تو پائلٹ نے کیا جواب دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جواب سن کر پہلے تو ہنسی نکل گئی اور پھر رونا آگیا۔
پائلٹ نے جواب دیا کہ جب میں میرعلی تحصیل پہنچا اور میں نے اپنے ٹارگٹ (ہسپتال )کو تلاش کرنا شروع کیا تو مجھے زمین پر ہر طرف ہسپتال ہی ہسپتال نظر آنے لگے۔چنانچہ مجھے جہاں جہاں ہسپتال نظر آتا ،میں نے اُس اُس گھر کو ٹارگٹ کیا۔(یاد رہے کہ شیلنگ 3-4 گاؤوں میں کئی گئی ہے اور ساتھ ہی روڈ پر مسافر گاڑی پر بھی حملہ کیا گیا۔شائد وہ چلتا پھرتا ہسپتال نظر آیا ہو)
قارئین پائلٹ کی معصومیت پر نہ جائیے ،یہ اس کا وہ مکارانہ اور تعصب سے بھرا جواب تھا جو خود پاکستانی فوج کے میجر نے پاکستانی فضائیہ کے ہی پائلٹ کے منہ سے سُنا۔(یار لوگ اسکو بھی ایک پروپیگنڈا کہہ کر مزاق میں اڑا لیں گے)
اب آپ خود ہی انصاف کریں کہ اس جیسے واقعات کا کیا نتیجہ نکلے گا۔اور ان واقعات سے عوام میں فوج کیلئے کتنی (محبت) پھیلے گی۔
میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دھنسا کر ،اور سب اچھا کی رپورٹ دیکھ کر مسائل حل نہیں ہوتے ۔بلکہ اسکے حل کیلئے ٹھوس قدم اُٹھانے پڑتے ہیں۔
میں قطعا طالبان کےخلاف انسانیت کاموں کی حمایت نہیں کرتا لیکن میں اس مقدس گائے(پاکستانی فوج ) کی بھی آنکھیں بند کرکے حمایت نہیں کرسکتا۔
ظلم ظلم ہوتا ہے چاہے طالبان کی طرف سے ہو یا فوج کی طرف سے۔
ان جیسے واقعات کی اگر تحقیق کی جائے تو سینکروں اس طرح کے واقعات سامنے آجائیں گے ،جن میں فوج نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔لیکن کرئے کون ،جو اس جالے میں ہاتھ ڈالے تو بس اسکی روح ہی پھرآزاد نکلے گی۔مثل مشہور جس کی لاٹھی ،اسکی بھینس۔