پائلٹ معذوری کی وجہ سے سائیکل چلاتا تھا بچپن سے ہی۔ مگر بچپن میں چھوٹی سائیکل نہ ہونے کی وجہ سے اپنے آبا کی سائیکل اس اسٹائیل میں چلاتا تھا جسے ہم قینچی سائیکل چلانا کہتے ہیں۔ سائیکل چونکہ بچے کے قد سے بڑی ہوتی ہے اس لیے سیٹ پر بیٹھ کر پیڈل مارنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے بچہ فل سائزسائیکل چلانے کے لیے سائکل کی سیٹ پر بیٹھنے کے بجائے سائیکل کے فریم کے اندر سے دوسری طرف کا پیڈل چلاتا ہے۔ پائلٹ بڑی سائیکل اسی طرح چلاتا تھا۔ یہ اک مشکل کام تھا۔ مگر پائلٹ کی ساری زندگی ہی اسی طرح کے مشکل کاموں سے پر تھی ۔ اس کے لیے وہ کام بھی مشکل تھے جو ہم بغیر کسی دقت کے کرتے ہیں۔ جب وہ ذرا بڑا ہوا تو اس نے ایک پرانی سائیکل خرید لی جس کے ذریعے وہ بہت سے کام کرتارہا۔ یہ سائیکل بھی عام سائکل سے ذرا اونچی تھی۔ اس کے فریم کو کئی جگہ سے ویلڈ بھی کیا گیا تھا۔ اس کے دونوں پہیے بھی ایک سیدھ میں نہیں تھے۔ جب چلتی تھی تو لگتا تھا کہ یہ ایک طرف مڑنے والی ہے۔پائلٹ کو اس سائیکل کو روکنے کے لیے بھی دقت کا سامنا تھا۔ جب بریک لگاتا تھا تو دونوں پاوں زمین پر نہیں اسکتے تھے۔ لہذا یاتو وہ کسی کھمبے کے ساتھ ہی اس کو روک سکتا تھا یا پھر پائلٹ کو سائیکل گرانی پڑتی تھی جس سے اکثرو وہ زخمی بھی ہوجاتا تھا۔ مگر ان سب مشکلات کے باوجود پائلٹ اپنا کام خود کرنا چاہتا تھا۔وہ بچپن سے ہی اپنے لیے کچھ کماتا ہی رہا۔ جب ہم میڑک کے امتحان کے بعد چھٹیوں میں ایک ایڈونچرس لائف گزار رہے تھے اور مختلف ہلے گلے میں مصروف تھے ۔ پائلٹ بھی کچھ اور کررہاتھا۔ اکثر پورے دن ہم کرکٹ کھیلتے تھے۔ا یک دن شام کے جھٹپٹے میں کرکٹ کھیلنے کے بعد میدان سے جارہے تھے کہ دیکھا کہ پائلٹ اپنی سائکل پر رواں ہے۔ آواز دے کر اسے بلایا اور سائیکل پکڑ کر اسے روکا تو دیکھا کہ سائیکل کے اسٹینڈ پر ایک تھیلہ بھی ہے۔ پوچھنے پر کہ یہ کیا ہے پائلٹ کچھ جھینپ گیا۔ ججھکتے ہوئے کہنے لگا یار آج کل دکانوں پر مصالحے سپلائی کرتا ہوں لال مرچ وغیرہ ۔ کچھ بچت ہوجاتی ہے۔