پائیدار معاشی نمو کا راستہ

جاسم محمد

محفلین
پائیدار معاشی نمو کا راستہ
تحریر…حماد اظہر

’’پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان کی درآمدات جوں کی توں ہیں! جون 2019 تک ڈالر کے نرخ180 روپے تک پہنچ جائیں گے کیونکہ آئی ایم ایف سے یہی کچھ طے کیا گیا ہے! پاکستانی معیشت کا حجم سکڑ رہا ہے!‘‘

مندرجہ بالا بیانات چند مثالیں ہیں کہ ماضی میں مبصرین کس طرح کے بے سرو پا دعوے کرتے رہے لیکن حقیقتاً سب غلط ثابت ہوئے۔ رواں سال جولائی سے نومبر کرنٹ اکائونٹ خسارہ 73فیصد تک کم ہو چکا ہے جبکہ گزشتہ مالی سال کے دوران خسارے میں سب سے زیادہ کمی 32فیصد تھی۔کرنسی کی مارکیٹ میں استحکام ہے۔ جون 2019سے ڈالر کی قدر 155روپے پر ٹھہری ہوئی ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران معاشی شرحِ نمو 3.3فیصد رہی، ہو سکتا ہے کہ کچھ اعداد و شمار میں فرق دکھائی دے لیکن توقع ہے کہ امسال بھی نمو اس کے قریب ہی رہے گی۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے بعد 2018میں ملک کو بھرپور بحران اور معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے حقیقی خطرے کا سامنا تھا۔ ہمارا کرنٹ اکائونٹ خسارہ جو 2013میں صرف 2.5بلین ڈالر تھا، مزید قرض لے کر کام چلانے اور اصراف کی مارکیٹ کے پھیلائو کی وجہ سے بڑھ کر 20بلین ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ بیرونی قرض کی مد میں ادائیگیاں بھی بڑھ کر دس بلین ڈالر سالانہ ہو چکی تھیں۔ زرمبادلہ کے سکڑتے ذخائر اور مہنگے نرخوں پر لئے گئے کمرشل قرضوں کی واپسی کے دبائو کی وجہ سے یہ غبارہ پھٹنے ہی والا تھا۔ صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی تھی کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 3بلین ڈالر سے بھی کم رہ چکے تھے۔ بیرونی ادائیگیوں کی مد میں ملک کو اس سے دس گنا زیادہ یعنی 30بلین ڈالر ادا کرنا تھے۔ تباہی کا راستہ روک کر صفر سے معاشی ترقی کا سفر شروع کرتے ہوئے مستحکم معاشی نمو کی طرف بڑھنے کے راستے میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا تھا۔ درحقیقت وراثت میں ملے بحرانوں سے عہدہ برا ہوتے ہوئے پائیدار معاشی شرح نمو کی منزل حاصل کرنا ایک شاندار کامیابی ہے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ 6سے 8بلین ڈالر رہنے کی توقع ہے جبکہ گزشتہ سال یہ خسارہ 13بلین ڈالر اور جب پی ٹی آئی نے اقتدار سنبھالا تو اس کا حجم 20بلین ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ کسٹم کے اعداد و شمار کے مطابق درآمدات میں کمی کی وجہ سے درآمدی اشیا پر وصول کی جانے والی ڈیوٹی میں کمی آئی ہے۔ اس کے مقابلے میں کچھ ضروری اشیا ڈیوٹی فری ہیں اور ان پر کوئی ٹیکس نہیں لیا جاتا۔ دوسری طرف 18-19کے مالی سال کے دوران برآمدات میں 12فیصد اضافہ ہوا جبکہ رواں سال بھی ہم ڈالروں کی مد میں برآمدات میں اضافے کا رجحان دیکھ رہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جولائی سے نومبر تک کے اعداد و شمار کے مطابق ڈالروں کے حساب سے برآمدات میں 4.8فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ تین ماہ کے اعداد و شمار اس طرح ہیں ستمبر 5فیصد، اکتوبر 7فیصد اور نومبر 11فیصد۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی ہونے کے رجحان کو جنوری 2019میں کافی حد تک روک لیا گیا۔ اس کے بعد سے معاشی ہدف زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنا اور مختصر مدت کے قرضوں کو ری شیڈول کرنا ہے۔ یہ تیاری کسی بھی معاشی جھٹکے سے نمٹنے اور بیرونی قرضوں کی مد میں کی جانے والی ادائیگیوں کا دبائو برداشت کرنے کے لئے ضروری ہے۔ رواں سال جولائی سے نومبر تک اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 1.8بلین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح زرمبادلہ کے خالص ذخائر 3بلین ڈالر سے بڑھ کر 4.8بلین ڈالر ہو گئے ہیں۔ بے پناہ ادائیگیوں کے باوجود یہ اضافہ ایک قابلِ ذکر پیشرفت ہے کیونکہ اس کے لئے بیرونی قرضوں کے حجم میں گزشتہ سالوں کی نسبت زیادہ اضافہ نہیں کیا گیا۔ لئے گئے بیرونی قرضوں کی نوعیت بھی اس مرتبہ مختلف ہے۔ اب زیادہ انحصار کم شرح سود پر طویل مدت کے لئے ملنے والے رعایتی قرضوں پر ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان کے بیرونی قرضوں میں 2013میں کوئی کمرشل قرضہ نہ تھا لیکن 2018تک پاکستان پر قرضوں کے بوجھ میں مختصر مدت میں ادا کئے جانے والے کمرشل قرضوں میں 11فیصد اضافہ ہو چکا تھا۔ اس طرح کے قرضے لینے کا سلسلہ 2016سے جاری تھا، جن کی وجہ سے پاکستان پر فوری رقوم کی ادائیگی کا بے پناہ دبائو آگیا تھا۔ ہماری نئی انتظامیہ نے مختصر مدت کے کمرشل قرضوں کی جگہ کم شرح سود پر رعایتی قرضے حاصل کئےجن کی ادائیگی تاخیر سے کی جانی ہے۔ 2013سے 2018تک پاکستان کی درآمدات میں 33فیصد اضافہ ہوا جبکہ برآمدات کی شرح منفی رہی۔ جی ڈی پی کی شرح کی مناسبت سے برآمدات میں 13سے 9فیصد تک کمی آئی۔ اس دوران کرنسی کے فرضی نرخوں کو حقیقی نرخوں میں تبدیل کیا گیا۔ چنانچہ ماضی میں جس وقت ملک میں کرنٹ اکائونٹ بیلنس اور تجارتی خسارہ بدترین شکل اختیار کر رہا تھا، ہماری کرنسی میں مصنوعی استحکام دکھایا جا رہا تھا۔ اس کی وجہ کمرشل قرضوں اور زرمبادلہ کے ذخائر کا بے دریغ استعمال تھا۔پی ٹی آئی حکومت نے زرمبادلہ کے نرخوں کو درست کیا اور کرنسی کی مصنوعی برقرار رکھی گئی قدر کے نقصان سے معیشت کو بچایا۔ اس کے علاوہ اربوں روپے کی امدادی قیمت اور ڈیوٹی کے نرخوں میں رعایت سے ہماری معیشت بے پناہ دبائو میں تھی لیکن آج کرنسی کے نرخ کسی مصنوعی سہارے کے بغیر حقیقی سطح پر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کرنسی نہ صرف مستحکم ہو چکی ہے بلکہ یہ مارکیٹ کے مطابق خود کو ایڈجسٹ کر لیتی ہے۔ اس کے لئے اسٹیٹ بینک کی مداخلت درکار نہیں ہوتی۔ یہ ماضی کی نسبت بہت مختلف صورتحال ہے۔ اس کی وجہ سے برآمد کنندگان کی عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کی سکت اور اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، نیز درآمدات کے متبادل کو بھی ملک میں مواقع مل رہے ہیں۔ چنانچہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذخائر میں مسلسل استحکام آتا جا رہا ہے۔مالیاتی شعبے میں ٹیکس محصولات میں جولائی اور نومبر کے دوران 16.9فیصد اضافہ ہوا۔ ٹیکس کے حجم میں اضافے کا رجحان ماضی کی نسبت بہت مختلف ہے۔ درآمدات میں کمی لانے کی پالیسی کے باوجود ٹیکس نیٹ میں 28.4فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایف بی آر کم و بیش 50فیصد ٹیکس درآمدی اشیا کے مختلف مراحل پر وصول کرتا ہے۔ یہ تناسب خطے کے دیگر ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے، یہ بذاتِ خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ درآمدات میں کمی آنے سے مختلف اشیا پر وصول کئے جانے والے محصولات کے حجم میں بھی کمی آ چکی ہے۔ ماضی میں، خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کے دور میں درآمددی اشیا پر مختلف مراحل میں غیر متناسب ٹیکس عائد کئے گئے تھے۔ اس کی وجہ سے درآمدات ہی ٹیکس کی وصولی کا سب سے بڑا ذریعہ بن کر رہ گئی تھیں۔ پی ٹی آئی حکومت نے گزشتہ پندرہ ماہ کے دوران ایک مختلف طریقہ اختیار کیا ہے۔ اس نے کم و بیش 2ہزار اشیا، جیسے خام مال اور صنعتی اشیا، پر درآمدی ٹیکس یا تو ختم کر دیا یا اس کے نرخ بہت کم کر دیے۔ اس کی پوری توجہ براہِ راست ٹیکس کی وصولی بڑھانے پر ہے۔ اعداد و شمار اس کی مذکورہ کوشش کی کامیابی کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان تمام اقدامات کی وجہ سے ہم بلاشبہ معاشی استحکام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہم اُس معاشی بحران سے نکل آئے ہیں جس میں گزشتہ حکومت کے دوران پھنس چکے تھے۔ اس معاشی استحکام اور دیگر اصلاحات کے نتیجے میں مارکیٹ میں اعتماد دکھائی دینا شروع ہو گیا ہے۔ موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ بلند کر دی ہے۔ پاکستان عالمی بینک کے کاروبار کے لئے آسان ترین ممالک کی فہرست میں 28درجے بلند ہو چکا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ معاشی اصلاحات کا پھل ملنا شروع ہو چکا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں اگست 2019کے بعد سے 11ہزار پوائنٹس کا اضافہ ہوا ہے۔ کرنٹ اکائونٹ میں خسارہ کم ہوکر اب مثبت سمت میں رواں ہے۔ 3سال بعد پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری آنے کا مطلب ہے کہ دنیا ہمارے استحکام اور اصلاحات کے عمل پر اعتماد کر رہی ہے۔استحکام کے اشارے مزید نمایاں ہوتے جارہے ہیں۔ مناسب اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ مہنگائی کا دبائو کم کرتے ہوئے اگلے مالی سال کے دوران معاشی نمو کو مزید پائیدار بنایا جاسکے۔یکلخت اتار چڑھائونے نے گزشتہ کئی عشروں سے پاکستانی معیشت کا حلیہ بگاڑ دیا تھا لیکن اب اس میں استحکام آچکا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ برآمدات میں اضافہ کیا جائے تاکہ ادائیگیوں کا توازن خراب نہ ہونے پائے۔ اس کے لئے ہمیں اسراف کے بجائے سرمایہ کاری کی راہ اپنانا ہے، ایکسچینج کے نرخ مارکیٹ اور جی ڈی پی کی شرح سے مربوط کیے گئے ہیں تاکہ معاشی استحکام کی شرح برقرار رہے۔مشرقی ایشیا کے ممالک اور چین نے معاشی نمو میں استحکام لانے میں طویل عرصے محنت کی تھی۔ پاکستان میں کئی دفعہ مصنوعی استحکام دکھایا گیا جس کے نتیجے میں ملک مزید معاشی بحرانوں کا شکار ہوتا چلا گیا لیکن اب ملک ایسے منفی اقدامات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے جس کی نوجوان آبادی اس کا بہت بڑا قدرتی اثاثہ ہے۔ پائیدار معاشی نمو کی وجہ سے لاکھوں زندگیوں میں بہتری آئے گی اور پاکستان عالمی معیشت کے طور پر اپنی حیثیت میں اضافہ کرے گا اور پی ٹی آئی حکومت اصلاحات اور بہتر امکانات کا یہ سفر جاری رکھنے کے لئے پُرعزم ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہمارا کرنٹ اکائونٹ خسارہ جو 2013میں صرف 2.5بلین ڈالر تھا، مزید قرض لے کر کام چلانے اور اصراف کی مارکیٹ کے پھیلائو کی وجہ سے بڑھ کر 20بلین ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ بیرونی قرض کی مد میں ادائیگیاں بھی بڑھ کر دس بلین ڈالر سالانہ ہو چکی تھیں۔ زرمبادلہ کے سکڑتے ذخائر اور مہنگے نرخوں پر لئے گئے کمرشل قرضوں کی واپسی کے دبائو کی وجہ سے یہ غبارہ پھٹنے ہی والا تھا۔
زیرک سابقہ حکومت میں غربت کیوں کم تھی؟ جواب مل گیا؟ یہ حکومت بھی ماضی کی طرح اصراف (over consumption) کو بے لگام کر کے ملکی معیشت کا پہیہ چلا سکتی ہے۔ لیکن اس پالیسی کے دیر پا سنگین نتائج کے پیش نظر ایسا کرے گی نہیں۔ حکومت کی اولین ترجیح ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانا ہے۔ غریب بچانا ثانوی ہے۔ ملک دیوالیہ ہو گیا تو غریب کیا امیر کوئی بھی نہیں بچے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
مشرقی ایشیا کے ممالک اور چین نے معاشی نمو میں استحکام لانے میں طویل عرصے محنت کی تھی۔ پاکستان میں کئی دفعہ مصنوعی استحکام دکھایا گیا جس کے نتیجے میں ملک مزید معاشی بحرانوں کا شکار ہوتا چلا گیا لیکن اب ملک ایسے منفی اقدامات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے جس کی نوجوان آبادی اس کا بہت بڑا قدرتی اثاثہ ہے۔ پائیدار معاشی نمو کی وجہ سے لاکھوں زندگیوں میں بہتری آئے گی اور پاکستان عالمی معیشت کے طور پر اپنی حیثیت میں اضافہ کرے گا اور پی ٹی آئی حکومت اصلاحات اور بہتر امکانات کا یہ سفر جاری رکھنے کے لئے پُرعزم ہے۔
Of unpaid refunds & figure fudging – I – Business Recorder
 

زیرک

محفلین
زیرک سابقہ حکومت میں غربت کیوں کم تھی؟ جواب مل گیا؟ یہ حکومت بھی ماضی کی طرح اصراف (over consumption) کو بے لگام کر کے ملکی معیشت کا پہیہ چلا سکتی ہے۔ لیکن اس پالیسی کے دیر پا سنگین نتائج کے پیش نظر ایسا کرے گی نہیں۔ حکومت کی اولین ترجیح ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانا ہے۔ غریب بچانا ثانوی ہے۔ ملک دیوالیہ ہو گیا تو غریب کیا امیر کوئی بھی نہیں بچے گا۔
تمہاری سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ میں غریب کے لیے مہنگائی کم کرنے کا رونا رو رہا ہوں، یہ نہیں کہہ رہا کہ امیر کے لیے کاسمیٹکس کی قیمت کم کرو، لیکن امیر تو آپ کی پارٹی کا ووٹر و سپورٹر ہے اس کے لیے قانون کو موم کی ناک بنا کر موڑ لیا، غریب تو ووٹر ہے نہیں نہ ہی اس کی کوئی آواز ہے اس لیے کاٹو اس اس کا پیٹ اور بھرو اپنا،
بس نعرہ لگائی جاؤ؛
ایاک نعبد و ایاک نستعین
لعنت اللہ علی الکاذبین​
 
آخری تدوین:
Top