نور وجدان
لائبریرین
وہ دل کی بری نہ بے وفا تھی
وہ مجھ سےجدا کبھی نہیں تھی
وہ ہم نوا دسترس سے باہر
وہ تارا بساط مال ہی تھی
وہ ہی تھی کہ بے نیاز اس سے
جو میری انا کا سائباں تھی
بچھڑنا اسے محال ہی تھا
وہ میرےخیال و عکس میں تھی
وہ رویا کہ بارشوں میں کرتی
وہ رہتی فلک کہ پار ہی تھی
گو وہ ہی فریب روح ٹھہری
سادہ بھی کیا کمال ہی تھی
تنہا جو سفر کٹے جدھر بھی
وہ میرا عشق عین ہی تھی
گل رعنا جہان کا عطر عنبر
تھا اسکا تذکرہ کہ ہر آن
اس کو بھی شکوک نے رلایا
آئینہ کمال ناز ہی تھی
ہوئی کشتہ کہ شیش اندام
وہ سنگوں کی واردات ہوئی
میں پرویں کہوں ہی یا ثریا
وہ تشنہ کتاب دل کی ہی تھی
اس کا ہی طلسم نورؔ کیا ہے
در پیش مہر بھی ماند ہی تھا
نور شیخ÷÷4 مئی 2014
وہ مجھ سےجدا کبھی نہیں تھی
وہ ہم نوا دسترس سے باہر
وہ تارا بساط مال ہی تھی
وہ ہی تھی کہ بے نیاز اس سے
جو میری انا کا سائباں تھی
بچھڑنا اسے محال ہی تھا
وہ میرےخیال و عکس میں تھی
وہ رویا کہ بارشوں میں کرتی
وہ رہتی فلک کہ پار ہی تھی
گو وہ ہی فریب روح ٹھہری
سادہ بھی کیا کمال ہی تھی
تنہا جو سفر کٹے جدھر بھی
وہ میرا عشق عین ہی تھی
گل رعنا جہان کا عطر عنبر
تھا اسکا تذکرہ کہ ہر آن
اس کو بھی شکوک نے رلایا
آئینہ کمال ناز ہی تھی
ہوئی کشتہ کہ شیش اندام
وہ سنگوں کی واردات ہوئی
میں پرویں کہوں ہی یا ثریا
وہ تشنہ کتاب دل کی ہی تھی
اس کا ہی طلسم نورؔ کیا ہے
در پیش مہر بھی ماند ہی تھا
نور شیخ÷÷4 مئی 2014