پابند بحور میں آزاد ہی آزاد سب قافیے :)

نور وجدان

لائبریرین
وہ دل کی بری نہ بے وفا تھی
وہ مجھ سےجدا کبھی نہیں تھی

وہ ہم نوا دسترس سے باہر
وہ تارا بساط مال ہی تھی

وہ ہی تھی کہ بے نیاز اس سے
جو میری انا کا سائباں تھی

بچھڑنا اسے محال ہی تھا
وہ میرےخیال و عکس میں تھی

وہ رویا کہ بارشوں میں کرتی
وہ رہتی فلک کہ پار ہی تھی

گو وہ ہی فریب روح ٹھہری
سادہ بھی کیا کمال ہی تھی

تنہا جو سفر کٹے جدھر بھی
وہ میرا عشق عین ہی تھی

گل رعنا جہان کا عطر عنبر
تھا اسکا تذکرہ کہ ہر آن

اس کو بھی شکوک نے رلایا
آئینہ کمال ناز ہی تھی

ہوئی کشتہ کہ شیش اندام
وہ سنگوں کی واردات ہوئی

میں پرویں کہوں ہی یا ثریا
وہ تشنہ کتاب دل کی ہی تھی

اس کا ہی طلسم نورؔ کیا ہے
در پیش مہر بھی ماند ہی تھا

نور شیخ÷÷4 مئی 2014
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کچھ مصرعے بحر کی حدود کی جائز لچک سے متجاوز بھی لگ رہے ہیں ۔۔۔مثلا" بچھڑنا والا مصرع
کسی جگہ الفاظ کی ترتیب از حد دگرگوں ہوکر مضمون پر رستاخیز بن رہی ہے۔ مثلا۔ میں پرویں کہوں ہی یا ثریا
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کچھ مصرعے بحر کی حدود کی جائز لچک سے متجاوز بھی لگ رہے ہیں ۔۔۔مثلا" بچھڑنا والا مصرع
کسی جگہ الفاظ کی ترتیب از حد دگرگوں ہوکر مضمون پر رستاخیز بن رہی ہے۔ مثلا۔ میں پرویں کہوں ہی یا ثریا
لیکن انہوں نے اس کو "آپ کی نثری شاعری بحور سے آزاد" میں شامل کیا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
لیکن انہوں نے اس کو "آپ کی نثری شاعری بحور سے آزاد" میں شامل کیا ہے۔
مجھے آزاد نہیں لگی اکثر مصرعے اسی بحر کے آس پاس بھٹک رہے ہیں۔آزاد نظم میں بہت تنوع ہو تا ہے بحور و اوزان کے لحاظ سے بھی ۔ میری ذاتی رائے میں ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
مجھے آزاد نہیں لگی اکثر مصرعے اسی بحر کے آس پاس بھٹک رہے ہیں۔آزاد نظم میں بہت تنوع ہو تا ہے بحور و اوزان کے لحاظ سے بھی ۔ میری ذاتی رائے میں ۔
بئی ہم تو ان چیزوں سے دور سے بھی واقف نہیں۔ بس زمرہ دیکھ کر بات کی تھی۔ :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بئی ہم تو ان چیزوں سے دور سے بھی واقف نہیں۔ بس زمرہ دیکھ کر بات کی تھی۔ :)
نیرنگ خیال بھا ئی ۔یہ بحر دراصل ۔مفعول مفاعلن فعولن۔ ہے
اس بحر کی بہترین مثالیں اقبال کی نظم ہمدردی (ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا)۔ اور پنڈت دیا شنکر نسیم کی مایہ ناز مثنوی گلزار نسیم ہے جو اردو شاعری کا ایک عظیم شہ پارہ ہے۔اس میں گل بکاؤلی کا طویل قصہ بیان کیا گیا ہے۔
اس بحر ایک کمپیٹبل شکل -مفعولن فاعلن فعولن- بھی ہے۔اور کچھ اور معمولی درجے کے انحراف بھی قابل قبول ہوتے ہیں۔ جس کی مثالیں مذکورہ منظومات سے مل سکتی ہیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
نیرنگ خیال بھا ئی ۔یہ بحر دراصل ۔مفعول مفاعلن فعولن۔ ہے
اس بحر کی بہترین مثالیں اقبال کی نظم ہمدردی (ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا)۔ اور پنڈت دیا شنکر نسیم کی مایہ ناز مثنوی گلزار نسیم ہے جو اردو شاعری کا ایک عظیم شہ پارہ ہے۔اس میں گل بکاؤلی کا طویل قصہ بیان کیا گیا ہے۔
اس بحر ایک کمپیٹبل شکل -مفعولن فاعلن فعولن- بھی ہے۔اور کچھ اور معمولی درجے کے انحراف بھی قابل قبول ہوتے ہیں۔ جس کی مثالیں مذکورہ منظومات سے مل سکتی ہیں۔
بہت شکریہ عاطف بھائی۔ آپ نے بہت معروف کلام کے حوالے دیے ہیں۔ جزاک اللہ خیرا۔
اچھا جو پہلا مصرعہ ہے اس میں صرف تھا کی جگہ تھی لگایا گیا ہے۔ کیا اس کو واوین میں نہیں لکھا جانا چاہیے؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت شکریہ عاطف بھائی۔ آپ نے بہت معروف کلام کے حوالے دیے ہیں۔ جزاک اللہ خیرا۔
اچھا جو پہلا مصرعہ ہے اس میں صرف تھا کی جگہ تھی لگایا گیا ہے۔ کیا اس کو واوین میں نہیں لکھا جانا چاہیے؟
یہ تو لکھنےوالے کا اختیار ہے۔ اگر وہ قاری کی توجہ کو کسی لطیف اشارے سے ٹہوکا دینا چاہے تو کر سکتا ہے۔
یہاں اس بارے میں میں خاموش ہوں۔:)
 

فاتح

لائبریرین
جیسا کہ عنوان سے ظاہر کہ سب قافیے آزاد ہیں۔ تو غلام بن کر مصرعوں میں آ کھڑے ہوں کیا؟
قافیہ آزاد ہونے سے کیا مراد ہے؟
آپ کا مطلب ہے کہ میرے مندرجہ بالا جملے میں تمام الفاظ ہم قافیہ یا ہم آزاد قافیہ ہیں؟
 

صائمہ شاہ

محفلین
میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ اس ساری عجیب و غریب چیز میں "قافیے"کون سے ہیں
حیرت ہے محسن نقوی نے بھی یہی سب لکھا تھا مگر حدود و قیود کے ساتھ


وہ دل کا برا نہ بے وفا تھا
بس مجھ سے یونہی بچھڑ گیا تھا
لفظوں کی حدوں سے ماوراء تھا
اب کس سے کہوں وہ شخص کیا تھا
وہ میری غزل کا آئینہ تھا
ہر شخص یہ بات جانتا تھا
ہر سمت اُسی کا تذکرہ تھا
ہر دل میں وہ جیسے بس رہا تھا
میں اُس کی انا کا آسرا تھا
وہ مجھ سے کبھی نہ روٹھتا تھا
میں دھوپ کے بن میں جل رہا تھا
وہ سایہء ابر بن گیا تھا
میں بانجھ رتوں کا آشنا تھا
وہ موسمِ گُل کا ذائقہ تھا
اک بار بچھڑ کے جب ملا تھا
وہ مجھ سے لپٹ کے رو پڑا تھا
کیا کچھ نہ اُسے کہا گیا تھا
اُس نے تو لبوں کو سی لیا تھا
وہ چاند کا ہمسفر تھا شائد
راتوں کو تمام جاگتا تھا
ہونٹوں میں گُلوں کی نرم خوشبو
باتوں میں تو شہد گھولتا تھا
کہنے کو جدا تھا مجھ سے لیکن
وہ میری رگوں میں گونجتا تھا
اُس نے جو کہا کیا وہ دل نے
انکار کا کس میں حوصلہ تھا
یوں دل میں تھی یاد اُس کی جیسے
مسجد میں چراغ جل رہا تھا
مت پوچھ حجاب کے قرینے
وہ مجھ سے بھی کم ہی کُھل سکا تھا
اُس دن مرا دل بھی تھا پریشاں
وہ بھی میرے دل سے کچھ خفا تھا
میں بھی تھا ڈرا ہوا سا لیکن
رنگ اُس کا بھی کچھ اُڑا اُڑا تھا
اک خوف سا ہجر کی رتوں کا
دونوں پہ محیط ہو چلا تھا
اک راہ سے میں بھی تھا گریزاں
اک موڑ پہ وہ بھی رک گیا تھا
اک پل میں جھپک گئیں جو آنکھیں
منظر ہی نظر میں دوسرا تھا
سوچا تو ٹھہر گئے زمانے
دیکھا تو وہ دور جا چکا تھا
قدموں سے زمیں سرک گئی تھی
سورج کا بھی رنگ سانولا تھا
چلتے ہوئے لوگ رُک گئے تھے
ٹھہرا ہو شہر گھومتا تھا
سہمے ہوئے پیڑ کانپتے تھے
پتّوں میں ہراس رینگتا تھا
رکھتا تھا میں جس میں خواب اپنے
وہ کانچ کا گھر چٹخ گیا تھا
ہم دونوں کا دکھ تھا ایک جیسا
احساس مگر جدا جدا تھا
کل شب وہ ملا تھا دوستوں
کہتے ہیں اداس لگ رہا تھا
محسن یہ غزل کہہ رہی ہے
شائد ترا دل دُکھا ہوا تھا۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
آخری تدوین:

صائمہ شاہ

محفلین
Top