امجد علی راجا
محفلین
مجھ پر نہ ڈال شک کی نظر، پارسا ہوں میں
ہوں گے سبھی کرپٹ مگر، پارسا ہوں میں
اک میں ہی کیا نظام ہی پورا کرپٹ ہے
مجھ کو نہیں کسی کا بھی ڈر، پارسا ہوں میں
اجرت کو کہہ رہا ہے تُو رشوت؟ یہاں سے بھاگ
آئے نہ تیری شکل نظر، پارسا ہوں میں
نسخہ ہے ڈاکٹر کا، نہیں شوقِ میکشی
یہ ہے علاجِ زخمِ جگر، پارسا ہوں میں
وعدہ شکن نہیں ہوں نہ پھِرتا ہوں بات سے
ہے حافظے پہ منفی اثر، پارسا ہوں میں
نفرت مجھے ہے جھوٹ سے، کرتا نہیں فریب
پر مصلحت ہے میری ڈگر، پارسا ہوں میں
ناراضگی نہ ہو، نہیں کرتا میں منہ پہ بات
غیبت کہیں گے لوگ مگر پارسا ہوں میں
رکھتا نہیں ہوں پیشِ نظر دوسروں کے عیب
رکھتا ہوں یوں ہی سب کی خبر، پارسا ہوں میں
دیدار بار بار حسینوں کا کفر ہے
میں گھورتا ہوں ایک نظر، پارسا ہوں میں
اک گھونٹ بھی حرام ہے، کافی ہیں چار پیک
ویسے بھی جا رہا ہوں میں گھر، پارسا ہوں میں
لگتی نہیں ہے آہ، نہ لگتی ہے بد دعا
ہوتا نہیں ہے مجھ پہ اثر، پارسا ہوں میں
استادِ محترم الف عین کا شکر گزار ہوں کہ ان کی محنت سے یہ غزل اشاعت کے قابل بنی
ہوں گے سبھی کرپٹ مگر، پارسا ہوں میں
اک میں ہی کیا نظام ہی پورا کرپٹ ہے
مجھ کو نہیں کسی کا بھی ڈر، پارسا ہوں میں
اجرت کو کہہ رہا ہے تُو رشوت؟ یہاں سے بھاگ
آئے نہ تیری شکل نظر، پارسا ہوں میں
نسخہ ہے ڈاکٹر کا، نہیں شوقِ میکشی
یہ ہے علاجِ زخمِ جگر، پارسا ہوں میں
وعدہ شکن نہیں ہوں نہ پھِرتا ہوں بات سے
ہے حافظے پہ منفی اثر، پارسا ہوں میں
نفرت مجھے ہے جھوٹ سے، کرتا نہیں فریب
پر مصلحت ہے میری ڈگر، پارسا ہوں میں
ناراضگی نہ ہو، نہیں کرتا میں منہ پہ بات
غیبت کہیں گے لوگ مگر پارسا ہوں میں
رکھتا نہیں ہوں پیشِ نظر دوسروں کے عیب
رکھتا ہوں یوں ہی سب کی خبر، پارسا ہوں میں
دیدار بار بار حسینوں کا کفر ہے
میں گھورتا ہوں ایک نظر، پارسا ہوں میں
اک گھونٹ بھی حرام ہے، کافی ہیں چار پیک
ویسے بھی جا رہا ہوں میں گھر، پارسا ہوں میں
لگتی نہیں ہے آہ، نہ لگتی ہے بد دعا
ہوتا نہیں ہے مجھ پہ اثر، پارسا ہوں میں
استادِ محترم الف عین کا شکر گزار ہوں کہ ان کی محنت سے یہ غزل اشاعت کے قابل بنی