یہ سوال جن لوگوں کی طرف سے اٹھایا گیا ہے ان کی جماعت احمدیہ سے دشمنی ظاہر و باہر ہے اور وہ جماعت کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اس لئے حقائق کو بھی ایسے توڑ مروڑ کر اپنی مرضی کے نتائج نکال کر پیش کرتے ہیں کہ سرسری نظر سے مطالعہ کرنے والے اپنے دلوں میں نفرت کا بیج پال لیتے ہیں۔
دھاگے کے ابتدائی مراسلے میں جن اعتراضات کو فوکس کیا گیا ہے وہ درج زیل ہیں۔
1) یہ کمپنیا ں کس کی ملکیت ہیں؟ جماعت کی یا امام جماعت احمدیہ کی ذاتی ہیں؟
2)ملکیت کسی کی بھی ہو آف شور کمپنی ہے تو ٹیکس چوری کرکے ہی کھولی گئی ہوگی؟
3)آف شور کمپنیوں میں انویسٹ کیا ہی کیوں گیا؟
1) یہ کمپنیا ں کس کی ملکیت ہیں؟ جماعت کی یا امام جماعت احمدیہ کی ذاتی ہیں؟
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ تمام کمپنیاں جماعت کی ہی ملکیت ہیں۔ جن چار کمپنیوں کے لنک خصوصی طور پر دئیے گئے ہیں یہ دکھانے کے لئے کہ ان کے ڈائریکٹر یا پریزیڈنٹ امام جماعت احمدیہ مرزا مسرور احمد ہیں اس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ شائد یہ ان کی ذاتی ہیں۔ جبکہ یہ صاحب مراسلہ کے ہی دئیے گئے لنکس سے ظاہر ہے کہ ان کمپنیوں کے نام جماعت کےمعروف اداروں کے نام پر ہیں۔ مثلا نصرت جہاں اسکیم، قادر انٹرپرائزز، فضل عمرفاونڈیشن وغیرہ۔ صاحب مراسلہ کے دئیے گئے لنکس پر کلک کرکے اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ موجودہ امام جماعت احمدیہ کو منصب خلافت پر فائز ہوئے صرف تیرہ سال ہوئے ہیں جبکہ یہ ادارے جماعت میں عشروں سے چل رہے ہیں اور اتنے مشہور ہیں کہ احمدی بچوں سے معلومات عامہ کے کوئز میں ان کے متعلق سوال کئے جاتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ انتہائی بددیانتی سے امام جماعت احمدیہ پر ایسا گھناؤنا الزام لگانے کی جسارت کی گئی ہے۔ شائد انہیں معلوم نہیں کہ ہر احمدی کو امام جماعت احمدیہ تک براہ راست رسائی حاصل ہے۔ اور وہ خود دیکھتا ہے وہ جب سے خلیفہ منتخب ہوئے ہیں مسجد فضل لنڈن کے اوپر واقع ایک بیڈروم کے فلیٹ میں رہتے ہیں۔ اور اسی مسجد کے ایک چھوٹے سے دفتر میں کام کرتے ہیں۔ اور ان لوگوں کے بقول اتنی کرپشن کرکے وہ ایک کمرے کے فلیٹ میں زندگی بسر کررہے ہیں۔
2)ملکیت کسی کی بھی ہو آف شور کمپنی ہے تو ٹیکس چوری کرکے ہی کھولی گئی ہوگی؟
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ آفشور کھولی گئی ہے تو ٹیکس چوری کی نیت ہی ہوگی۔ اس کا اول جواب تو مدعی کے ذمے ہے کہ وہ بتائے کہ کس ملک سے ٹیکس چوری کیا گیا ہے؟ کیا آفشور کمپنی ٹیکس چوری کرنے کے لئے ہی کھولی جاتی ہے؟ یہ شائد آف شور کا مطلب ہی حرام کمپنی کا لینے لگے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ ذرا اپنی پسند کی لغت کھول کر دیکھ لیں کہ آفشور کمپنی کا مطلب’’غیر ملکی کمپنی‘‘ ہوتا ہے۔
اب ایک سوال کا جواب دیں کہ اگر میں نے رقم پاکستان میں کمائی ہے اور پاکستان میں ٹیکس ادا کرچکا ہوں یا وہ رقم پاکستان کی قانون کے مطابق ٹیکس فری ہے تو اس جائز رقم کو قانونی طور پر بینک کے ذریعے ہی آف شور کمپنی میں انویسٹ کردوں تو یہ کس ملک کا ٹیکس چوری کیا ہے میں نے؟ روف کلاسرا نے آج کے ہی کالم میں پانامہ لیکس اور آف شور کمپنیوں کے متعلق لکھا ہے کہ ’’یہ کمپنیاں غیر قانونی نہیں تو پھر یہ ہنگامہ اے خداکیا ہے ؟ سوال یہ ہے کہ ان کمپنیوں کے قیام کے لئے پیسہ کہاں سے آیا؟کیا یہ جائز کمائی تھی جو جائز طریقے سے کمپنی میں لگائی گئی ، بس اسی کا فیصلہ ہونا ہے ۔‘‘
اگر آپ خبروں سے باخبر رہتے ہیں تو علم ہوگا کہ تمام دنیا یہ اعتراض نہیں کررہی کہ آف شور کمپنی کیوں کھولی؟ بلکہ اعتراض یہ ہے جس رقم سے کھولی اس پر ٹیکس دیا یا نہیں؟ اگر ٹیکس دے دیا ہے تو پھر آفشور جتنی کمپنیاں کھولیں کسی کو کوئی اعتراض باقی نہیں رہ جاتا۔ پاکستان میں مذہبی جماعتوں اور خیراتی کام کرنے والے اداروں کی آمدنی ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ چاہیں تو اپنے قانونی اداروں سے پوچھ لیں۔جماعت احمدیہ کی آمدنی بینک کے ذریعے ہی اکٹھی ہوتی ہے اگر اس پر ٹیکس لگتا ہے تو چھپایا نہیں جاسکتا اور اگر ٹیکس نہیں تو جب جماعت کی یہ تمام آمدنی جو پاکستان سے اکٹھی ہوئی ہے وہ ٹیکس فری ہے تو پھر ٹیکس چوری کہاں ہوئی اوراس فرضی ٹیکس چوری سے کس کو نقصان پہنچایا گیا؟ اس سوال کا جواب مدعی کے ذمے ہے امید کرتا ہوں کہ وہ ضرور جواب دیں گے۔
یہاں یہ وضاحت کردوں کہ جماعت پوری دنیا کے 207 ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے اور اسکی آمدنی جو چندوں سے ہوتی ہے وہ ہر ملک سے ہوتی ہے۔ ہر ملک میں جماعت باقاعدہ رجسٹرڈ ہے۔ اور ان ملکوں جیسے برطانیہ وغیرہ میں ہرسال ان چیریٹی اداروں کا حکومت کی طرف سے بھی آڈٹ ہوتا ہے۔ اس لئے وہاں کسی قسم کا فراڈ کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہر فرد جو چندہ دیتا ہےاسکی باقائدہ رسید اس شخص کو دی جاتی ہے۔ اور وہ تمام پیسہ آڈٹ ہوتا ہے اور جس ملک کے چندوں کی آمدنی ہے اس ملک میں جماعت کے نیشنل ہیڈ کوارٹر میں بینک کے ذریعے ہی ٹرانسفر ہوتا ہے۔اس لئے ٹیکس چوری کا سوال ہی نہیں رہ جاتا۔ مثلا پاکستان کی آمدنی کی بات کرتے ہیں جہاں جماعت کی مخالفت سب سے زیادہ ہے۔ یہاں بھی تمام پیسہ بینک کے ذریعے ہی صدر انجمن احمدیہ میں جمع ہوتا ہے۔ اور اللہ کے فضل سے اتنا پیسہ ہوتا ہے کہ یہیں محفل پر کسی دھاگے میں کسی نے شئیر کیا تھا کہ اتنا پیسہ ان کے پاس آتا ہے اور ٹیکس بھی نہیں دیتے۔ اگر ٹیکس بچانا ہی مدنظر تھا تو اتنا پیسہ بینک کے ذریعے جمع کرنے کی کیا ضرورت تھی جو اسٹیٹ بینک اور حکومتی اداروں کی نظروں میں آجاتا اور مولویوں کی رال ٹپکنے لگتی۔
بعض دوسرے ملکوں جیسے برطانیہ وغیرہ میں مذہبی جماعتوں کی آمدنی پر بھی ٹیکس لاگو ہوتا ہے لیکن اس کا ذکر میں اوپر کرچکا ہوں کہ ہر شخص سے جو چندہ لیا جاتا ہے اس اسٹیپ سے لے کر نیشنل ہیڈ کوارٹر کے اکاونٹ میں آنے تک ہر جگہ بینک انوالو ہوتا ہے۔ چندہ دہندہ کو رسید دی جاتی ہے۔ وہ شہر کے آفس میں پھر دوبارہ رسید کے ذریعے ہی وصول کیا جاتا ہے اور ہر شہر میں جماعت کا ایک آفیشل اکاونٹ ہوتا ہے جس میں وہ رقم جمع ہوتی ہے اور اکثر بڑی رقوم کے چندہ دہندگان تو چندہ دیتے ہی کراس چیک کے ذریعے ہیں جو پاکستان میں احمدیہ ایسوسی ایشن کے اکاونٹ ہیڈ میں جمع ہوتا ہے اور پھر وہاں سے وہ نیشنل جماعت کے اکاونٹ میں ٹرانسفر ہوتی ہے۔ لہذا یہاں بھی ٹیکس لاگو ہوکر یہ آمدنی کلیر ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو ان جیسے ملکوں میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوجائے جو ٹیکس چوری کو سب سے بڑا جرم سمجھتے ہیں۔ ورنہ آپ کا کیا خیال ہے وزیر اعظم برطانیہ کو نہ بخشنے والے جماعت احمدیہ کو چھوڑ دیں گے۔
تیسرا اعتراض یہ ہے کہ جماعت کا پیسہ ہے تو آف شور کمپنی میں انویسٹ کیوں کیا گیا؟
یہ سوال تماتر بدنیتی پر مبنی ہے کہ جماعت کا تاثر لوگوں میں خراب کیا جائے۔ ورنہ اگر زمینی حقائق سامنے رکھیں تو اس کا جواب بہت سادہ ہے کہ پاکستان میں جماعت کے خلاف جتنی مخالفت ہے اور جتنا جماعت کو یہاں persecution کا سامنا ہے وہ سب کے علم میں ہے۔ اور پاکستان کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں عوامی سطح پر تو مخالفت ہے ہی لیکن حکومت بھی جماعت کے ہراساں کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ اور سب کے علم میں احمدیت مخالف امتیازی قوانین ہیں جو باقائدہ آئین کا حصہ بنادئیے گئے ہیں۔ اکثر جماعت کی پراپرٹیز حکومت کی طرف سے سیز seize ہوتی رہتی ہیں۔ جس ملک میں جماعت کی املا ک اپنی ہی حکومت کے ہاتھوں میں محفوظ نہیں کیا جماعت اپنا روپیہ وہاں رکھ چھوڑے؟ ذرا ایمانداری سے اپنے دل سے سوچ کر اس کا جواب دیں۔ اگر یہ جائز قانونی طریقوں سے آفشور کمپنی میں منتقل کردیا تو نہ صرف جائز بلکہ مجبوری ہے۔ ابھی تو ایک دو ماہ بھی اس بات کو نہیں ہوئے کہ جماعت کی چناب نگر کی زمین جو جماعت نے اپنے پیسوں سے 1948 میں حکومت سے خریدی تھی اس کے ایک حصہ پر پنجاب حکومت نے قبضہ کرکے
ایک رہائشی اسکیم متعارف کرائی اور خریدنے والوں پر پابندی لگادی کہ کوئی احمدی اس اسکیم سے پلاٹ نہیں خرید سکتا۔
جماعت کا یہ پیسہ خرچ کہاں ہوتا ہے؟
مضمون میں اٹھائے گئے تینوں اعتراضات پر تو بات ہوگئی ہے لیکن بہتر ہے کہ مختصرا یہ بھی ذکر کردیا جائے کہ جماعت کا پیسہ خرچ کہاں ہوتا ہے۔ خاص طور پر وہ کون سی پراپرٹیز ہیں جو جماعت دنیا میں خریدتی رہتی ہے۔ پوری دنیا میں جماعت اب تک 16000 سولہ ہزار کے قریب مساجد اور مشن ہاوسزتعمیر کرچکی ہے۔ ان کی مینٹینس پر خرچ ہوتاہے پھر ان کا اسٹاف ہے۔ مساجد کی تعمیر رکی نہیں ہے بلکہ بڑھتی جارہی ہے۔گذشتہ صرف چار سال میں 400 نئی مساجد تعمیر کی جاچکی ہیں۔
ابھی صرف دو دن پہلے پرسوں امام جماعت احمدیہ نے سویڈن میں اس مسجد محمد کا افتتاح کیا ہے جس کی لائیو
ویڈیو یہاں دیکھی جاسکتی ہے۔ اور حضرت مسیح موعو علیہ السلام کے ارشاد کے ماتحت کہ جس جگہ جس شہر میں تبلیغ کرنی ہے وہاں مسجد بنادو اللہ تعالیٰ خود ہی اسے نمازیوں سے بھر دے گا۔ اس لئے ایک الگ فنڈ بطور خاص اس مقصد کے لئے موجود ہے جس کا کام ہی صرف مساجد بنانا ہے۔
600 سے زائد اسکولز اور کالجز جماعت چلا رہی ہے جو زیادہ تر افریقہ کے غریب ممالک اور دور دراز گاوں میں ہیں اور مفت تعلیم کی سہولت مہیا کررہے ہیں۔ پھر افریقہ کے غریب علاقوں میں اسپتالوں کی ایک بڑی تعداد کام کررہی ہے۔ تمام خرچ جماعت احمدیہ انہی چندوں سے پورا کرتی ہے۔ افریقہ کے دوردراز علاقوں میں سولر پینلز کے ذریعے بجلی مہیا کرنا اور پانی کے کنوؤں کی تعمیر بھی جماعت کے ایک الگ ادارے وقف جدید کی ذمہ داری ہے۔ یہ ادارہ افریقہ ، پاکستان اور ہندوستان کے غریب علاقوں میں مسلسل اس طرح کی خدمات انجام دے رہا ہے۔ پاکستان میں تھر کی مثال لے لیں جس کی پاکستانی دوست خود بھی آسانی سے تحقیق کرسکتے ہیں۔صرف تھر میں ہی جتنا کام ہورہا ہے ان پروجیکٹس میں سے صرف چند کا ذکر کردیتا ہوں کہ جماعت کا یہ ادارہ تھر کے دوردراز علاقوں میں جہاں پانی کی شدید قلت ہے اب تک اڑتیس کنویں لگوا چکا ہے۔ اور تھر میں کنواں کھودنا شہر کی طرح آسان نہیں۔ ایک ایک کنویں پر ڈھائی تین لاکھ سے لے کر سات آٹھ لاکھ تک خرچ آتا ہے جو پانی کی گہرائی پر منحصر ہوتا ہے۔ اور یہ سب کام انسانی بنیادوں پراسی وقف جدید کے فنڈ سے ہوتا ہے۔ پھر تھر میں ہی مٹھی میں المہدی اسپتال تو شائد اکثر نے دیکھ رکھا ہو۔ یہ تین ایکڑ اراضی پر بنا ہوا اسپتال جدید سہولتوں سے لیس ہے ۔ وہاں اس سے بہتریں علاج کی سہولت کسی سرکاری اور پرائیویٹ اسپتال میں بھی نہیں ہے اور تمام تر مفت خدمت انسانیت کے تحت کام ہورہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب تھر میں بچوں کی اموات ہورہی تھیں تو ایک نیوز چینل نے یہ رپورٹ دی تھی کہ وہاں سرکاری اسپتال کا تو کوئی حال نہیں البتہ ایک نجی ادارے کا اسپتال بہت اچھی سہولیات کے ساتھ خدمت مہیا کررہا ہے۔ یہ توفیق البتہ نیوز چینل کو بھی نہیں ہوئی اس اسپتال کا نام اپنی رپورٹ میں لے دیتا۔ اس کے علاوہ طاہر اسپتال نگر پارکر میں سن 2009 سے وہاں کام کررہا ہے۔ ان دونوں اسپتالوں میں مریضوں کو ادویات اور کھانا مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ اسی طرح تھر نگر پارکر میں تعلیم کے تحت 17 پرائمری اسکولز، ایک کمپیوٹر سینٹر اور تین ہوسٹل کام کررہے ہیں جہاں طلبہ کو تعلیم، کتابیں، کھانا، کپڑے ، رہائش اور تمام بنیادی سہولیات وقف جدید کی طرف سے مفت مہیا کی جاتی ہیں۔ یہ صرف ایک چھوٹی سی مثال ہے ورنہ وقف جدید کے تحت افریقہ، پاکستان اور ہندوستان کے غریب علاقوں میں بے شمار اس طرح پروجیکٹس چل رہے ہیں۔ ہیومنٹی فرسٹ کے ادارہ کے تحت پوری دنیا میں خدمت انسانیت کے پروجیکٹس الگ چلتے رہتے ہیں۔
اس کی تفصیل اس ویب سائیٹ پر فرصت سے چیک کی جاسکتی ہے۔
دنیا میں 70 سے زائد زبانوں میں اب تک جماعت قرآن مجید کے تراجم شائع کرچکی ہے۔ اتنی زبانوں میں قران کےتراجم کی توفیق ابھی تک سعودی عرب جیسی مملکت کو بھی نہیں ملی۔ اور مزید زبانوں میں تراجم کا کام جاری ہے۔ دنیا بھر میں بے شمار جماعت کا لٹریچر ہر سال شائع ہوتا ہے۔ پرنٹنگ پریس پوری دنیا میں جماعت کے چل رہے ہیں۔ دنیا کے 207 ممالک کے لئے انہی چندوں سے لٹریچر شائع ہوتا ہے۔ ہر ملک کی اپنی کئی کئی ویب سائیٹس ہیں۔دنیا بھر میں مختلف ٹی وی چینلز جماعت چلا رہی ہے۔ اور تمام کے تمام کمرشل فری ہیں۔ ایک بھی اشتہار ان ٹی وی چینلز پر نہیں چلتا جب کہ سب کو علم ہے کہ ٹی وی چینلز بغیر اشتہارات کے چلانا اور وہ بھی پوری دنیا کے لئے اور مختلف زبانوں میں کوئی معمولی کام نہیں کہ سیٹلائٹ کا ایک ایک دن کا خرچہ ہی ہوشربا ہوتا ہے۔ عرب دنیا کے لئے بطور خاص ایک عربی زبان میں ٹی وی چینل چل رہا ہے۔ پھر ریڈیو اسٹیشنز ہیں جو افریقہ، امریکہ اور یورپ میں چل رہے ہیں۔
یہ صرف ایک معمولی سی جھلک جماعت کے کاموں کی دکھانے کی کوشش کی ہے ورنہ 207 ملکوں میں جماعت کے کاموں کا احاطہ کرنے کا اس محدود مراسلے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔