پاندھیوں کو نہ راہ میں رکھنا ٭ ماجد صدیقی

پاندھیوں کو نہ راہ میں رکھنا
ربّ عالم پناہ میں رکھنا

عرش تک کو ہِلا کے جو رکھ دے
تاب ایسی بھی آہ میں رکھنا

لے نہ بیٹھیں یہ باتفنگ تمہیں
کوئی مُخبر سپاہ میں رکھنا

شیر جو ہو گیا ہے آدم خور
اُس کی یہ خُو نگاہ میں رکھنا

تاجور! نسخۂ حصولِ تخت
سینت رکھنا، کُلاہ میں رکھنا

ہو جو ماجِد سُخن پسند تو پِھر
فرق کیا واہ واہ میں رکھنا

ماجد صدیقی​
 
ہم تو اسے غلطی سمجھے تھے تاہم شاید یہ پنجابی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی یہاں سے مل سکتے ہیں۔ معذرت عدنان بھیا!
چونکہ غزل اردو میں ہے، اس لیے سوال تو ابھی اٹھتا ہے۔ اردو میں یہ لفظ مستعمل نہیں۔
کیا شاعر نے یہی استعمال کیا یا غلطی ہو گئی؟
 
Top