درخت لگانا سنت ہے ، اللہ کی یہ نعمت ہے۔ درخت لگائیں بخت جگائیں۔
پودے لگاتے بوڑھے کو دیکھ کر لوگوں نے کہا بابا جی جب تک یہ درخت پھل دار و سایہ دار ہونگے۔ آپ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں گے پھر یہ تکلیف کاہے کو؟ کہا کہ میرے بزرگ درخت لگا کے اِس دنیا سے رخصت ہو گئے مگر پھل میں نے کھایا۔۔۔ سائے میں بھی بیٹھا۔۔۔ اب یہ درخت میں اپنے فائدے کے لئے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کےلئے لگا رہا ہوں۔
ہم چونکہ بحیثیت مجموعی خود غرض ہوچکے ہیں ۔لہذا اپنی دنیا میں گم ہیں۔آس پاس کی کوئی خبر نہیں۔وہ لوگ جو اپنی طبعی عمر کے آخر ی حصے میں پہنچتے ہیں اور زندگی کی گزری فلم کو اپنے خیالات میں تازہ کرکے دیکھتے ہیں اور انہیں نظر آتا ہے کہ میں نے فلاں بستی میں ایک کنواں کھدوایا تھا آج بھی وہاں سے لوگ پانی پیتے ہیں۔ وہ جو دو یتیم بچے تھے جنہیں میں نے پڑھایا لکھایا ، آج وہ اچھے منصب پر فائز خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ کچھ گھرانے مسکینوں کے تھے، جو اپنی خود اری کے باعث کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاسکتے تھے، میں نہ صرف کفالت کرتا رہا بلکہ ان کے مستقل روزگار کا اہتمام کر دیا۔ زندگی سے مایوس ایک مریض کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا ،علاج کروایا۔وہ اپنے بچوں کے ساتھ آج خوش و خرم زندگی گزار رہا ہے۔ کوئی حاجت مند ملا اس کی ضرورت پوری کردی۔ راستوں کے کنارے پودے لگائے جو آج تناور درخت بن چکے ہیں، لوگ پھل بھی کھاتے ہیں اور سائے میں بھی بیٹھتے ہیں۔
یقین کیجئے ایسے لوگ بہت مطمئن اور پرسکون ہوتے ہیں۔ وہ عمر رفتہ کی ان نیکیوں کو یاد کرتے ہیں اور راحت و اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”اے نفس مطمئنہ لوٹ آ اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ میں تجھ سے راضی اور تومجھ سے راضی“۔ مگر جو لوگ ان کاموں سے دور رہے وہ عمر کے آخری حصے میں راحت و سکوں کی اس کیفیت سے محروم رہے۔ میرے دوست احباب جانتے ہیں کہ میں بوڑھے لوگوں کی باتیں توجہ سے سنتا ہوں ، پاس بیٹھتا ہوں۔ وقت دیتا ہوں۔اس لئے تاکہ وہ باتیں کر کے اپنے دل کا غبار اتار سکیں اور یہ جاننے میں بھی مدد ملتی ہے کہ وہ اپنی گزری زندگی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
اگر ہم اطمینان چاہتے ہیں تو صدقہ جاریہ کا اہتمام کریں۔ اللہ کے نبی نے فرمایا ”جو شخص درخت لگائے یا کھیتی باڑی کرے پھر اس میں سے انسان ، پرندے یا جانور کھائیں وہ اس کے لئے صدقہ جاریہ ہے“۔ ایک اور خوبصورت فرمان اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”درخت اللہ کے حکم سے سجدہ ریز ہوتے ہیں“۔
کیوں نہ میں اور آپ خد ا کے حضور سجدہ ریز ہونے والے ڈھیر سارے درخت لگائیں۔ درخت تو دکھاوے اور ریاکاری کی عبادت نہیں کرتے۔ کیا خیال ہے میں اور آپ جو درخت لگائیں گے ان کی سجدہ ریزیوں میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہوگا؟ ممکن ہے میرے جیسے ریاکاروں کے سجدوں میں خالص سجدے صرف ان درختوں کے ہوں جو ہمیں فائدہ پہنچا جائیں۔
اللہ کے نبی مدینے تشریف لائے تو میلوں پھیلے رقبے پر کئی جنگل اور سبزہ زار لگوائے۔ انہیں چراہ گاہ اور محفوظ علاقہ بھی کہا جاتا تھا۔ اور بلا ضرورت درخت کاٹنے کی سختی سے ممانعت تھی۔
حسن فطرت کے تناظر میں درختوں کی جو منظر کشی قرآن نے بیان کی اسے پڑھ کر انسان فطرت کے حسین نظاروں کھو جاتا ہے۔اسی لئے شائد علامہ اقبال ؒ نے کہا تھا ۔
خدا اگر دل ِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر
قرآن مجید نے شجر کاری کے ساتھ جڑے معیشت اور خوشحالی کے گہرے تعلق کو بڑے خوبصورت لفظوں میں بیان کیا ہے۔ حسن فطرت کی رعنائیوں ، دلکش مناظر کو آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون قرار دیا ہے۔ میں جان بوجھ کر اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ یہ موضوع الگ تحریر کا متقاضی ہے۔
اس وقت میرے سامنے بین الاقوامی ادارے ایف اے او کی فاریسٹ ریسورس اسسمنٹ کی تفصیلی رپورٹ ہے جس کے مطابق پاکستان میں صرف 3 فیصد رقبے پر جنگلات ہیں اوراس میں بھی خطرناک حد تک مسلسل کمی ہوتی جارہی ہے۔ہمارے پڑوسی ملک بھارت کا 24فیصد سے زائد علاقہ جنگلات پر مشتمل ہے جبکہ اس میں مزید تیز رفتار توسیع کی منصوبہ بندی کی جاری ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہم نے دل بھی بنجر کر لئے ہیں اور پاک سر زمین کو بھی مکمل بنجر کرنا چاہتے ہیں۔
اللہ کے نبی کا یہ فرمان مجھے اکثر و بیشتر مایوسی سے نکال کر آمادہِ عمل کرتا ہے۔ آپ کوبھی اندازہ ہوجائے گا کہ درخت لگانے کی اہمیت کیا ہے: فرمایا ”اگر تمھارے ہاتھ میں ایک پودے کی قلم ہے اور تم اسے لگا رہے اور عین اس وقت قیامت کا اعلان ہوجائے تو بھی کوشش کرو کہ یہ پودا زمین میں لگا دو“۔
میری تحریر میں تو شائد اثر نہ ہو مگر میر ے نبی نے سنگ دلوں اور تنگ ذہنوں کو بدل کے رکھ دیا۔ اور وہ بھی صرف 23برس میں۔ ”وحشی“ تہذیب یافتہ ہوگئے۔ آئیے اس پاک سر زمین سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے ہم اپنے آپ سے عہد کریں کہ ہم میں سے ہر شخص کم از کم 20پودے لگا کر اپنے وطن کو سر سبز و شاداب بنانے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ آئیے مل کر اس بکھرے سماج کی شیرازہ بندی کریں۔ سماج کے منفی رویوں کو پیدواری اور مثبت طرز فکر دینے کی اجتماعی کوشش کریں۔ خود غرضی سے تائب ہو کر آنے والی نسلوں کو ایک خوشحال اور سر سبز و شاداب پاکستان دے کر جائیں۔ میں نے اور آپ نے جلدیا بدیر اس دنیا سے رخصت ہوجانا ہے۔ مگر آئندہ نسلوں کے لیے کچھ اچھا کر کے اپنے اگلے سفر کو صدقہ جاریہ کے ذریعے اپنے لیے باعثِ راحت و سکون بنا لیں۔