arifkarim
معطل
ایڈورڈ ٹائسن
ایڈورڈ ٹائسن
سنہ 1651 میں پیدا ہونے والے ایڈورڈ ٹائسن کو انسانوں اور جانوروں کے جسم کی اندرونی ساخت کے مطالعے کا موجد مانا جاتا ہے۔
ان کا موقف تھا کہ جانوروں کے جسم کے مطالعے سے ہمیں انسان کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔اس سلسلے میں انھوں نے بن مانس کے جسم کی اندرونی ساخت کو جاننے کے لیے انسانوں اور بندروں کے جسم کو ذہن میں رکھا۔
ایڈورڈ ٹائسن نےدیکھا کہ بندروں کے مقابلے میں بن مانس اور انسان میں زیادہ مطابقت پائی جاتی ہے۔
ایٹونیو وان لیوین ہوئک
ایٹونیو وان لیوین ہوئک
ولندیزی سائنس دان لیوین ہوئک سنہ 1632 میں پیدا ہوئے۔ وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے خوردبینی جاندار یعنی بیکٹیریااور خون بنانے والے خلیوں کو دیکھا۔ اس سے نطفے لو سمجھنے میں بہت مدد ملی۔
لیوین ہوئک اپنی طویل حیات کے دوران کئی سو خوردبینیں بنائیں۔ ان کے کام میں خوردبینی جانداروں کے نمونوں کی اپنے جسم پر افزائش کا مشاہدہ بھی شامل ہے۔
ایلفرڈ رسل والیس
ایلفرڈ رسل والیس
سائنس کی تاریخ میں نظریہ ارتقاء بہت زیادہ اہم ہے۔ چارلس ڈاروین اور ایلفرڈ رسل وہ دو نام ہیں جنھوں نے مل کر اسے دریافت کیا۔ لیکن اگر والیس نہ ہوتے تو یہ نظریہ شائع نہ ہوسکتا۔
والیس سنہ 1823 میں پیدا ہوئے۔ نوجوانی میں وہ اس خیال سے بہت متاثر تھے کہ جاندار شاید ارتقاء کے عمل سے گذرتے ہیں اور اسی کے وہ اس طریقہ کار کو جاننے کے لیے پرعزم تھے۔
سنہ 1858 میں جب وہ انڈونیشیا میں تھے تو انھیں ملیریا ہو گیا یہی وہ وقت تھا جب انھوں نے قدرت کے چناؤ کے نظریے کو سمجھا۔
مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ کئی برس پہلے ڈاروین بھی اسی نتیجے پر پہنچ چکے تھے۔ اوراس کے بعد دونوں نے مل کر اس نظریے کو پیش کیا۔
فریز بیرن نوپسکا
فریز بیرن نوپسکا
ہنگری سے تعلق رکھنے والے فریز بیرن نوپسکا ان پہلے لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے یہ سوچنا شروع کیا کہ معدوم ہو جانے والے جانور کیسے رہتے سہتے تھے۔
نوپسکا سے پہلے قدیم حیات دان ہی اس موضوع پر دلچسپی رکھتے تھے جنھوں نے ڈائنوسار اور دیگر معدوم جانوروں کے بارے میں کوشش کی تاہم ان کی جانب سے معدوم جانوروں کے رہن سہن کے حوالے سے کوئی تحقیق نہیں کی گئی۔
مثلاً نوپسکا کے اس خیال کو ابتدا میں مسترد کیا گیا کہ ڈائنوسار اپنے گروہ میں شامل چھوٹے ڈائنوسار کا خیال رکھتے ہیں لیکن بعد میں ملنے والے ریکارڈ سے یہ ثابت ہوا کہ وہ اپنی قیام گاہوں کی حفاظت کرتے تھے۔
سر ہانس سلوان
سر ہانس سلوان
سر ہانس سلوان کا تاریخ میں ایک انفرادی مقام ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہےکہ ہ جانوروں اور پودوں کے نمونوں کے علاوہ میڈلز، سکے، کتابیں، مجسمے، ڈرائینگز اور بہت سی چیزوں کو اکھٹا کرنے کا شوق رکھتے تھے۔
جب سنہ 1753 میں ان کی وفات ہوئی تو ان کی وصیت سامنے آئی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ان کی اکھٹی کی گئیں 71 ہزار اشیا 20 ہزار پاؤنڈ میں حکومت کو دے دی جائیں۔
اس کے بعد برطانوی میوزیم بنا جسے بعد میں نیچرل ہسٹری میوزیم کا نام دیا گیا۔
ماخذ