شاکرالقادری
لائبریرین
مدیر کی آخری تدوین:
پانی سے گاڑی چلنے کا کرشمہ دکھانے میں بھی یہی چینل والے پہلے پیش پیش تھے پر جب بیچ میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان ،ڈاکٹر ثمر مبارک۔ڈاکٹر ہود بائے اور ان جیسے دوسرے سائینسدان بیچ میں کود پڑے تو پھر انہی چینلزا پر اس بیچارے وقار کی وہ دھجیاں بکھیری گئیں کہ انکی سب عزت وقار دھری کی دھری رہ گئی۔ اب پھر ایک شوشہ چھوڑ دیا گیا ہے دیکھیں صاحبان علم اسکو کیسے لیتے ہیں۔
میں بھی یہی لکھنے لگا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام کیسے اس فہرست میں شامل ہو گیاڈاکٹر قدیر نے آغا وقار کی حمایت کی تھی جبکہ باقی مذکورہ صاحبان نے مخالفت کی تھی۔
میں بھی یہی لکھنے لگا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام کیسے اس فہرست میں شامل ہو گیا
اگر میرے الفاظ پر غور کریں تو میں نے یہ کہا ہی نہیں کہ کس نے حمایت کی اور کس نے مخالفتڈاکٹر قدیر نے آغا وقار کی حمایت کی تھی جبکہ باقی مذکورہ صاحبان نے مخالفت کی تھی۔
آپ نے لکھا نا کہاگر میرے الفاظ پر غور کریں تو میں نے یہ کہا ہی نہیں کہ کس نے حمایت کی اور کس نے مخالفت
تو اس فہرست میں باقی تمام سائنس دان آغا وقار کی مخالفت میں تھے اور انہی کی وجہ سے ہی آغا صاحب کی دھجیاں بکھریں۔ جبکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے تو الٹا اس کی حمایت کی تھی جس کی وجہ سے چینلز کو "بریکنگ نیوز" مل گئیپانی سے گاڑی چلنے کا کرشمہ دکھانے میں بھی یہی چینل والے پہلے پیش پیش تھے پر جب بیچ میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان ،ڈاکٹر ثمر مبارک۔ڈاکٹر ہود بائے اور ان جیسے دوسرے سائینسدان بیچ میں کود پڑے
ہاں یہ بات تو صحیح ہے۔میں بہر حال متفق ہوہی گیا۔آپ نے لکھا نا کہ
تو اس فہرست میں باقی تمام سائنس دان آغا وقار کی مخالفت میں تھے اور انہی کی وجہ سے ہی آغا صاحب کی دھجیاں بکھریں۔ جبکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے تو الٹا اس کی حمایت کی تھی جس کی وجہ سے چینلز کو "بریکنگ نیوز" مل گئی
یعنی ایک ہی سطر میں سارے نام لکھے گئے تو غلط فہمی پیدا ہوئی
آغا وقار اور عبد القدیر دونوں ایک سے عالمہاں یہ بات تو صحیح ہے۔میں بہر حال متفق ہوہی گیا۔
لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر کی حمایت آغا وقار کے کچھ کام نہ آسکی
پانی سے انجن چلانے کے لئے فی الحال صرف ایک طریقہ ہے کہ پانی کی برق پاشیدگی (Electrolysis) کی جائے اور اس میں سے ہائیڈروجن حاصل کر کے اسے ایندھن کی جگہ انجن میں جلایا جائے یا پھر کسی اور طریقے سے اسی ہائیڈروجن کو استعمال میں لایا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں پانی سے ہائیڈروجن حاصل کر کے اس سے انجن چلایا جا سکتا ہے اور ہمارے ”ایجادیئے“ ایسا ہی کر رہے ہیں، مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ پانی سے ہائیڈروجن حاصل کرنے پر کتنی توانائی لگے گی اور نتیجہ میں ہمیں کتنی توانائی ملے گی؟ ہائیڈروجن حاصل کرنے پر جتنی لاگت آئے گی کیا موجودہ ایندھن جیسے ڈیزل اور پٹرول وغیرہ سے سستی ہو گی؟
اس طریقے میں سب سے پہلا مرحلہ ہے پانی کی برق پاشیدگی۔ توانائی کے سائنسی اصولوں کے مطابق اگر سب کچھ آئیڈیل ہو تو پانی کی برق پاشیدگی پر جتنی توانائی خرچ ہو گی، پانی سے حاصل ہونے والی ہائیڈروجن آگسیجن کے ساتھ جل کر اتنی ہی توانائی دے گی۔ عام طور پر پانی کی پاشیدگی کے لئے بجلی کا استعمال ہوتا ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ دنیا میں فی الحال ایسے آئیڈیل حالات تیار نہیں ہوئے لہٰذا جتنی توانائی برق پاشیدگی پر لگے گی اس کا کچھ حصہ حرارتی اور دیگر توانائی کی اقسام میں تبدیل ہو جائے گا اور یوں حاصل ہونے والی ہائیڈروجن جتنی توانائی دے گی اس سے زیادہ توانائی برق پاشیدگی اور دیگر کاموں پر پہلے ہی لگ چکی ہو گی۔ دوسری بات یہ کہ فرض کریں کسی نے کوئی آئیڈیل حالات بنا بھی لئے ہوں (جوکہ کم از کم زمین پر فی الحال ناممکن کے قریب تصور کیا جاتا ہے) تو پھر بھی جتنی توانائی پانی کی برق پاشیدگی پر لگاؤ گے نتیجہ میں اتنی ہی توانائی ہائیڈروجن کو جلا کر حاصل ہو گی۔ اب آپ ہائیڈروجن سے انجن چلا کر اس سے گاڑی کا پہیہ گھماؤ یا پھر بجلی بنانے والی ڈینمو، یہ آپ کی مرضی مگر پانی کو توڑنے (پاشیدگی) پر جتنی توانائی لگا رہے ہو اتنی ہی توانائی حاصل کر پاؤ گے۔
اب جیسے پاشیدگی کے لئے بجلی کا استعمال ہوتا ہے تو اگر سب کچھ آئیڈیل ہو تو پھر برق پاشیدگی سے حاصل ہونے والی ہائیڈروجن کو استعمال کرتے ہوئے ہم اتنی ہی بجلی بنا پائیں گے جتنی کہ برق پاشیدگی پر لگائی تھی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جتنی بجلی لگائی، اتنی ہی حاصل ہوئی۔ اسی طرح اگر ہم انجن چلانے کے لئے پانی کی پاشیدگی پر جتنی بجلی لگاتے ہیں اگر اتنی ہی بجلی سے موٹر چلائیں تو وہ بھی انجن جتنا ہی کام کرے گی۔
پانی سے ہائیڈروجن حاصل کر کے انجن تو چل گیا مگر ہائیڈروجن حاصل کرنے پر جو بجلی لگائی ہے وہ کہاں سے آئے گی؟ اس بجلی کی جتنی قیمت ہو گی کیا اس سے سستی ہائیڈروجن ویسے ہی مارکیٹ سے نہیں مل جائے گی؟ کیا ہائیڈروجن کی ٹرانسپورٹ موجودہ ایندھن (پٹرول اور ڈیزل) جتنی آسان ہو گی؟ کیا ہائیڈروجن سے سستا ایندھن پہلے موجود نہیں؟
ایم بلال ایم کی تحریر سے اقتباس
http://www.mbilalm.com/blog/media-fetched-inventors/