ایچ اے خان
معطل
کچھ کالم نگار ایسے ہیں جو اپنے کالم میں گوندھ گوندھ کر پاپڑ بناتے ہیں اسکومزے دار بنانے کے لیے مصالحے لیموں کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔اسکی ایک مثال یہ کالم ہے
ایک خواب عذاب!!,,,,آخر کیوں؟…رؤف کلاسرا
ذرا اس کا جائزہ تو لیجیے
[mark=00FF00]اسلام آباد کی حمیرہ عمران مجھے کبھی کبھی ای میل بھیجتی رہتی ہیں۔ جب 18 فروری کو انتخابات ہونے والے تھے تو روایتی پڑھے لکھے طبقات کی طرح انہیں بھی یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ان کے ایک اکیلے ووٹ ڈالنے سے کونسی بڑی تبدیلی آ جائے گی۔ لیکن میرا خیال تھا کہ نہ صرف حمیرہ عمران کو ووٹ ڈالنے جانا چاہیے بلکہ اپنے ساتھ اپنے چار بچوں کو بھی ساتھ لیکر پولنگ اسٹیشن جانا چاہیے تاکہ بچوں کو سیاست اور جمہوریت کی اہمیت کا اندازہ ہو کہ آخر وہ کونسا اتنا ضروری کام تھا جسے کرنے کیلئے ان کی ماں گھنٹوں ایک قطار میں لگ کر محض ایک پرچی ڈالنے کھڑی تھی۔ میرے مطابق یہ ہمارے فوجی حکمرانوں کی کامیاب حکمت عملی تھی کہ پڑھے لکھے طبقات کو سیاست اور سیاستدانوں سے اتنی نفرت دلا دی جائے کہ لوگ ووٹ ڈالنا ہی بیکار سمجھیں۔ یوں اس خاموش اکثریت کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے جس کی بنیاد پر ہمارے فوجیوں نے بندوق کے زور پر ہمیشہ حکمرانی کی ہے۔ خیر حمیرہ نے اپنے بچوں کے ساتھ جا کر ایک لمبی قطار میں لگ کر ووٹ ڈالا۔ شام تک مجھے ای میل کی کہ اس نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کیلئے بم دھماکے میں ٹانگیں کٹوانے والے پی پی پی کے امیدوار کو ووٹ دیا تھا۔ میں نے حمیرہ کو شکریہ کا میسج بھیجا اور پھر بھول گیا۔[/mark]
کالم نگار نے ایک مفروضہ لوگوں کے ذہن میں ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ پی پی پی کو لوگوںنے چیف جسٹس کے لیے ووٹ دیے۔ اسکے سپورٹ میں وہ حمیرہ نامی ایک فرضی کردار کو تراشتا ہے اور صرف ایک فرد کی بنا پر اس مفروضہ کی حقیقی کرنا چاہتا ہے کہ پی پی پی کو چیف جسٹس کی وجہ سے ووٹ ملے۔ یہ صحافتی بددیانتی کی ایک مثال ہے۔
[mark=FF9966]میں نے کراچی میں تین ڈاکوؤں کو زندہ جلائے جانے کا فوٹو دیکھا ہے اس وقت سے میں شدید ڈیپریشن میں ہوں۔ کیا ہمارے معاشرے میں انسانیت ختم ہو گئی ہے۔ اگر ان ڈاکوؤں نے ڈاکہ مارکر غلط کیا تھا تو جن ہاتھوں نے انہیں آگ میں زندہ جلایا انہوں نے کونسی بڑی نیکی کی تھی۔ کسی کو آگے بڑھ کر انہیں روکنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ پلیز اگلی دفعہ مجھے کسی کو ووٹ دینے کیلئے نہ کہنا۔ پاکستان میں جمہوریت کا خواب دیکھنا بھی ایک عذاب ہے۔ رؤف صاحب سارا قصور آپ کا ہے۔ میں گھنٹوں تک قطار میں لگی کھڑی رہی اس خواب کے ساتھ کہ شاید جمہوریت آئے گی اور سیاسی لیڈران ہمیں ایک نیا پاکستان بنا کر دیں گے۔ اب دیکھ لیں میرا ووٹ ضائع گیا ناں۔ آپ کو شاید یقین نہ آئے کہ ان جلی ہوئی لاشوں کو دیکھ کر میں اپنے آپ کو مجرم سمجھ رہی ہوں۔ جب میں اپنے اچھے سے گھر میں بیٹھ کر اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ اچھا ناشتہ کرتی ہوں اور بہتر خوراک کھاتی ہوں تو پتہ نہیں کیوں مجھے اپنا آپ مجرم سا لگنے لگتا ہے۔ میرے گھر کے باہر لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔ آٹا لینے کیلئے اتنی لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں جیسے کہ یہ مفت بٹ رہا ہو۔ مجھے اپنی تمام آرام دہ زندگی ڈنگ مارتی لگتی ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے ان لوگوں کی غربت، بھوک، خودکشیوں اور ڈکیتیوں کی ذمہ دار میں ہوں۔ میرا دل ان سب لوگوں کیلئے روتا ہے [/mark]
ایک سنسنی خیز واقعہ کا بنیاد بنا کر کالم نگار لوگوںکے جذبات کو ایکسپلائیٹ کرتا ہے نہ صرف غلط نتائج اخذ کرتا ہے بلکہ واقع کی درست اسباب کو نظر انداز کرتے ہوئے اس واقعہ کی بنیاد کو جہموریت کی ناکامی سے جوڑتا ہے ۔ وہ یہ بھی تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے موجودہ غربت کا اصل سبب ان سیاسی جماعتوںکے سبب ہے جو حال ہی میں حکومت میں ائی ہیں۔
[mark=FFFF66]حمیرہ کی ای میل ختم ہو گئی ہے۔ مجھے ہر گز اندازہ نہیں تھا کہ تین ماہ پہلے دیئے گئے مشورے کے نتیجے میں مجھے اتنی ساری باتیں سننا پڑیں گی۔ انصاف کی امید ختم ہو جائے تو پھر لوگوں کیلئے آٹا، بیروزگاری اور لوڈشیڈنگ کے مسائل بھی کم پڑ جاتے ہیں۔ جن لوگوں نے ڈاکوؤں کو زندہ جلایا اور ان کی جلتی ہوئی لاشوں کے گرد آرام سے گھیرا ڈال کر تماشہ دیکھتے رہے وہ وہاں ہرگز روٹی، کپڑے اور مکان کیلئے جمع نہیں ہوئے تھے۔ انہیں علم تھا کہ پولیس انصاف نہیں دے گی۔ یہ ان ڈاکوؤں کو عدالتوں تک لے بھی جاتے تو ناقص تفتیش اور کرپشن کے سہارے وہ چند ماہ بعد ضمانت پر باہر ہوتے یا پھر ان آگ لگانے والوں نے یہ سوچا ہوگا کہ ممکن ہے کہ اگر انہوں نے انہیں چھوڑ دیا تو وہ بھی کسی این۔آر۔او کے تحت بڑے آرام سے بری ہو جائیں گے۔ ان لوگوں کے نزدیک سب سے اہم کام یہی تھا کہ اتنے بڑے لفڑے میں پڑنے کے بجائے بہتر تھا کہ موقع پر ہی عدالت لگاؤ اور وہیں سزا دیدو۔ ان آگ لگانے والوں کو یہ بھی اچھی طرح علم ہوگا کہ 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل مشرف نے جب بندوق کے زور پر پورے ملک پر قبضہ کر لیا تو ان کا کسی نے کیا بگاڑ لیا تھا۔ اسی جنرل کو عدالتوں، سیاستدانوں، عوام اور میڈیا نے جب قبولیت بخش دی تو پھر یہ عام لوگ قانون کی بالا دستی کے چکر میں کیوں پڑیں۔ جب آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی جیسے سیاستدان جو سالوں تک جنرل مشرف کی قید میں ذلیل ہوتے رہے اور آج اسی کے ساتھ بیٹھ کر وزیر اعظم ہاؤس کے لان میں عوام کے پیسوں سے ضیافتیں اڑا رہے ہیں تو پھر عوام کس پر اور کیونکر بھروسہ کریں۔ ہمارے وہ سیاستدان جنہوں نے اپنے اعلیٰ کردار سے عوام کیلئے ایک رول ماڈل بننا تھا جب وہی مری میں کئے گئے اپنے ایک عہدکو سیاسی بیان قرار دیکر صاف مُکر جائیں گے تو پھر عوام ڈاکوؤں کو زندہ نہیں جلائیں گے تو اور کیا کریں گے۔ جب وہ سارے لوگ پچھلے آٹھ سالوں میں جنرل مشرف کے خوف سے ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے اور جمہوریت کے واپس آتے ہی ملک کے وزیر اور بڑے بڑے ملکوں میں سفیر بنیں گے تو ہمارے ہاں ایسے ہی رول ماڈل پیدا ہوں گے جیسے ڈاکوؤں کی لاشوں کو گھیرا ڈال کر جلتے ہوئے دیکھ کر ایک عجیب سی تسکین لینے والے۔ جب اسلام آباد میں اربوں روپے کی مالیت سے تعمیر کی جانے والی سڑکوں کے نام ڈکٹیٹر وں کے دور حکومت کے وزیروں کے نام پر رکھے جائیں گے تو اس سے ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کس طرح کے رول ماڈل دے رہے ہوں گے۔ کیا پیغام دیا جا رہا ہے کہ جو بھی ملک میں جمہوریت کے قاتلوں کا ساتھ دے گا تو وہی ہمارا رول ماڈل ہوگا۔[/mark]
کراچی میںعدم قانونیت اور تشدد کی جو فضا ہے اس کے موجد متحدہ اور فوج کے کردار پر تنقید کرنے کے بجائے پھر وہ اس لاقانونیت کا ذمہ دار ان سیاستدانوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کرتا ہے جن دراصل اس لاقانونیت کے خلاف ہی لڑ رہے ہیں۔ ان کا صرف یہ قصور ہے کہ وہ معزول ججز کو اس کی من پسند تاریخوں اور طریقوں سے بحال نہیںکرپارہے۔ اس فرسٹریشن کی بنیاد پر وہ جہموریت کے قاتلوںکو رول ماڈل بنانے کا خواب دیکھنے لگتے ہیں۔
[mark=FF6600]بڑا دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی بونے ٹائپ لیڈران ووٹ تو اپنے عوام سے لیتے ہیں لیکن ڈکٹیشن امریکہ بہادر اور ایوان صدر سے لیتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان امریکن پریشر کے حوالے دیتے تھکتے نہیں لیکن عوام کے دباؤ کی کوئی پروا نہیں کرتے۔ ہمارے بونے ٹائپ سیاستدانوں کو امریکن اپنے ایئرپورٹ سے جوتوں سے لیکر انڈرویئر تک کی تلاشی لیے بغیر اپنے ملک میں نہیں گھسنے دیتے لیکن ہمارا جج کون ہوگا اس کا فیصلہ بھی امریکی کرتے ہیں۔ جو لیڈر امریکی سفیروں کے آگے تو ہاتھ جوڑ کر بیٹھے نظر آتے ہیں انکی اپنی عوام اور میڈیا کو دھمکیاں دے دے کر سانس پھول جاتی ہے۔ جب سے ہمارے نئے حکمرانوں نے دھمکیاں دینے کا سلسلہ تیز کیا ہے تو مجھے اپنے سابق بیوروکریٹ دوست ڈاکٹر ظفر الطاف کی بات یاد آتی ہے کہ کیسے پنجاب حکومت کے چیف سیکرٹری نے ایک دن ان کے ایک بیوروکریٹ دوست پر مسلسل ایک گھنٹہ غصہ کیا۔ وہ بیچارہ افسر چپ چاپ سنتا رہا۔ اچانک چیف سیکرٹری کو احساس ہوا اور اس نے کہا سوری یار کہ میرا کبھی کبھی بلڈ پریشر تیز ہو جاتا ہے لہذا میں تلخی کی حد تک غصہ کر بیٹھتا ہوں۔ وہ افسر پہلی دفعہ مسکرایا اور اس نے کہا سرکار آپ کا یہ بڑا سمجھدار بلڈ پریشر آپ کو کبھی چیف منسٹر کے سامنے تو شکایت کا موقع نہیں دیتا۔ وہاں تو آپ تیز بلڈ پریشر کے باوجود ایسے چپ بیٹھے رہتے ہیں جیسے میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں!
جو لیڈر صاحبان سارا دن ججوں اور میڈیا پر غصہ تو نکالتے ہی رہتے ہیں کسی دن تھوڑا سا غصہ امریکیوں اور جنرل مشرف پر بھی نکال دیں تاکہ حمیرہ عمران جیسے آپ کے ووٹروں کو یہ نہ کہنا پڑے کہ وہ دوبارہ ووٹ ڈالنے قطار میں کھڑی نہیں ہوں گی کیونکہ پاکستان جیسے ملک میں جمہوریت کا خواب بھی عذاب ہے[/mark]
جب یہ بونے کالم نگار کچھ بھی نہیںکرسکتے تو پھر اخرکار سیاستدانوں کی کردار کشی پر اتر اتے ہیں۔ اور وہ بھی بغیر کسی واضح ثبوت کے۔ سمجھ میںنہیںاتا کہ یہ لائسنس انھوںنے کہاںسے لیا ہے۔
ایک خواب عذاب!!,,,,آخر کیوں؟…رؤف کلاسرا
ذرا اس کا جائزہ تو لیجیے
[mark=00FF00]اسلام آباد کی حمیرہ عمران مجھے کبھی کبھی ای میل بھیجتی رہتی ہیں۔ جب 18 فروری کو انتخابات ہونے والے تھے تو روایتی پڑھے لکھے طبقات کی طرح انہیں بھی یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ان کے ایک اکیلے ووٹ ڈالنے سے کونسی بڑی تبدیلی آ جائے گی۔ لیکن میرا خیال تھا کہ نہ صرف حمیرہ عمران کو ووٹ ڈالنے جانا چاہیے بلکہ اپنے ساتھ اپنے چار بچوں کو بھی ساتھ لیکر پولنگ اسٹیشن جانا چاہیے تاکہ بچوں کو سیاست اور جمہوریت کی اہمیت کا اندازہ ہو کہ آخر وہ کونسا اتنا ضروری کام تھا جسے کرنے کیلئے ان کی ماں گھنٹوں ایک قطار میں لگ کر محض ایک پرچی ڈالنے کھڑی تھی۔ میرے مطابق یہ ہمارے فوجی حکمرانوں کی کامیاب حکمت عملی تھی کہ پڑھے لکھے طبقات کو سیاست اور سیاستدانوں سے اتنی نفرت دلا دی جائے کہ لوگ ووٹ ڈالنا ہی بیکار سمجھیں۔ یوں اس خاموش اکثریت کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے جس کی بنیاد پر ہمارے فوجیوں نے بندوق کے زور پر ہمیشہ حکمرانی کی ہے۔ خیر حمیرہ نے اپنے بچوں کے ساتھ جا کر ایک لمبی قطار میں لگ کر ووٹ ڈالا۔ شام تک مجھے ای میل کی کہ اس نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کیلئے بم دھماکے میں ٹانگیں کٹوانے والے پی پی پی کے امیدوار کو ووٹ دیا تھا۔ میں نے حمیرہ کو شکریہ کا میسج بھیجا اور پھر بھول گیا۔[/mark]
کالم نگار نے ایک مفروضہ لوگوں کے ذہن میں ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ پی پی پی کو لوگوںنے چیف جسٹس کے لیے ووٹ دیے۔ اسکے سپورٹ میں وہ حمیرہ نامی ایک فرضی کردار کو تراشتا ہے اور صرف ایک فرد کی بنا پر اس مفروضہ کی حقیقی کرنا چاہتا ہے کہ پی پی پی کو چیف جسٹس کی وجہ سے ووٹ ملے۔ یہ صحافتی بددیانتی کی ایک مثال ہے۔
[mark=FF9966]میں نے کراچی میں تین ڈاکوؤں کو زندہ جلائے جانے کا فوٹو دیکھا ہے اس وقت سے میں شدید ڈیپریشن میں ہوں۔ کیا ہمارے معاشرے میں انسانیت ختم ہو گئی ہے۔ اگر ان ڈاکوؤں نے ڈاکہ مارکر غلط کیا تھا تو جن ہاتھوں نے انہیں آگ میں زندہ جلایا انہوں نے کونسی بڑی نیکی کی تھی۔ کسی کو آگے بڑھ کر انہیں روکنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ پلیز اگلی دفعہ مجھے کسی کو ووٹ دینے کیلئے نہ کہنا۔ پاکستان میں جمہوریت کا خواب دیکھنا بھی ایک عذاب ہے۔ رؤف صاحب سارا قصور آپ کا ہے۔ میں گھنٹوں تک قطار میں لگی کھڑی رہی اس خواب کے ساتھ کہ شاید جمہوریت آئے گی اور سیاسی لیڈران ہمیں ایک نیا پاکستان بنا کر دیں گے۔ اب دیکھ لیں میرا ووٹ ضائع گیا ناں۔ آپ کو شاید یقین نہ آئے کہ ان جلی ہوئی لاشوں کو دیکھ کر میں اپنے آپ کو مجرم سمجھ رہی ہوں۔ جب میں اپنے اچھے سے گھر میں بیٹھ کر اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ اچھا ناشتہ کرتی ہوں اور بہتر خوراک کھاتی ہوں تو پتہ نہیں کیوں مجھے اپنا آپ مجرم سا لگنے لگتا ہے۔ میرے گھر کے باہر لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔ آٹا لینے کیلئے اتنی لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں جیسے کہ یہ مفت بٹ رہا ہو۔ مجھے اپنی تمام آرام دہ زندگی ڈنگ مارتی لگتی ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے ان لوگوں کی غربت، بھوک، خودکشیوں اور ڈکیتیوں کی ذمہ دار میں ہوں۔ میرا دل ان سب لوگوں کیلئے روتا ہے [/mark]
ایک سنسنی خیز واقعہ کا بنیاد بنا کر کالم نگار لوگوںکے جذبات کو ایکسپلائیٹ کرتا ہے نہ صرف غلط نتائج اخذ کرتا ہے بلکہ واقع کی درست اسباب کو نظر انداز کرتے ہوئے اس واقعہ کی بنیاد کو جہموریت کی ناکامی سے جوڑتا ہے ۔ وہ یہ بھی تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے موجودہ غربت کا اصل سبب ان سیاسی جماعتوںکے سبب ہے جو حال ہی میں حکومت میں ائی ہیں۔
[mark=FFFF66]حمیرہ کی ای میل ختم ہو گئی ہے۔ مجھے ہر گز اندازہ نہیں تھا کہ تین ماہ پہلے دیئے گئے مشورے کے نتیجے میں مجھے اتنی ساری باتیں سننا پڑیں گی۔ انصاف کی امید ختم ہو جائے تو پھر لوگوں کیلئے آٹا، بیروزگاری اور لوڈشیڈنگ کے مسائل بھی کم پڑ جاتے ہیں۔ جن لوگوں نے ڈاکوؤں کو زندہ جلایا اور ان کی جلتی ہوئی لاشوں کے گرد آرام سے گھیرا ڈال کر تماشہ دیکھتے رہے وہ وہاں ہرگز روٹی، کپڑے اور مکان کیلئے جمع نہیں ہوئے تھے۔ انہیں علم تھا کہ پولیس انصاف نہیں دے گی۔ یہ ان ڈاکوؤں کو عدالتوں تک لے بھی جاتے تو ناقص تفتیش اور کرپشن کے سہارے وہ چند ماہ بعد ضمانت پر باہر ہوتے یا پھر ان آگ لگانے والوں نے یہ سوچا ہوگا کہ ممکن ہے کہ اگر انہوں نے انہیں چھوڑ دیا تو وہ بھی کسی این۔آر۔او کے تحت بڑے آرام سے بری ہو جائیں گے۔ ان لوگوں کے نزدیک سب سے اہم کام یہی تھا کہ اتنے بڑے لفڑے میں پڑنے کے بجائے بہتر تھا کہ موقع پر ہی عدالت لگاؤ اور وہیں سزا دیدو۔ ان آگ لگانے والوں کو یہ بھی اچھی طرح علم ہوگا کہ 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل مشرف نے جب بندوق کے زور پر پورے ملک پر قبضہ کر لیا تو ان کا کسی نے کیا بگاڑ لیا تھا۔ اسی جنرل کو عدالتوں، سیاستدانوں، عوام اور میڈیا نے جب قبولیت بخش دی تو پھر یہ عام لوگ قانون کی بالا دستی کے چکر میں کیوں پڑیں۔ جب آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی جیسے سیاستدان جو سالوں تک جنرل مشرف کی قید میں ذلیل ہوتے رہے اور آج اسی کے ساتھ بیٹھ کر وزیر اعظم ہاؤس کے لان میں عوام کے پیسوں سے ضیافتیں اڑا رہے ہیں تو پھر عوام کس پر اور کیونکر بھروسہ کریں۔ ہمارے وہ سیاستدان جنہوں نے اپنے اعلیٰ کردار سے عوام کیلئے ایک رول ماڈل بننا تھا جب وہی مری میں کئے گئے اپنے ایک عہدکو سیاسی بیان قرار دیکر صاف مُکر جائیں گے تو پھر عوام ڈاکوؤں کو زندہ نہیں جلائیں گے تو اور کیا کریں گے۔ جب وہ سارے لوگ پچھلے آٹھ سالوں میں جنرل مشرف کے خوف سے ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے اور جمہوریت کے واپس آتے ہی ملک کے وزیر اور بڑے بڑے ملکوں میں سفیر بنیں گے تو ہمارے ہاں ایسے ہی رول ماڈل پیدا ہوں گے جیسے ڈاکوؤں کی لاشوں کو گھیرا ڈال کر جلتے ہوئے دیکھ کر ایک عجیب سی تسکین لینے والے۔ جب اسلام آباد میں اربوں روپے کی مالیت سے تعمیر کی جانے والی سڑکوں کے نام ڈکٹیٹر وں کے دور حکومت کے وزیروں کے نام پر رکھے جائیں گے تو اس سے ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کس طرح کے رول ماڈل دے رہے ہوں گے۔ کیا پیغام دیا جا رہا ہے کہ جو بھی ملک میں جمہوریت کے قاتلوں کا ساتھ دے گا تو وہی ہمارا رول ماڈل ہوگا۔[/mark]
کراچی میںعدم قانونیت اور تشدد کی جو فضا ہے اس کے موجد متحدہ اور فوج کے کردار پر تنقید کرنے کے بجائے پھر وہ اس لاقانونیت کا ذمہ دار ان سیاستدانوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کرتا ہے جن دراصل اس لاقانونیت کے خلاف ہی لڑ رہے ہیں۔ ان کا صرف یہ قصور ہے کہ وہ معزول ججز کو اس کی من پسند تاریخوں اور طریقوں سے بحال نہیںکرپارہے۔ اس فرسٹریشن کی بنیاد پر وہ جہموریت کے قاتلوںکو رول ماڈل بنانے کا خواب دیکھنے لگتے ہیں۔
[mark=FF6600]بڑا دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی بونے ٹائپ لیڈران ووٹ تو اپنے عوام سے لیتے ہیں لیکن ڈکٹیشن امریکہ بہادر اور ایوان صدر سے لیتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان امریکن پریشر کے حوالے دیتے تھکتے نہیں لیکن عوام کے دباؤ کی کوئی پروا نہیں کرتے۔ ہمارے بونے ٹائپ سیاستدانوں کو امریکن اپنے ایئرپورٹ سے جوتوں سے لیکر انڈرویئر تک کی تلاشی لیے بغیر اپنے ملک میں نہیں گھسنے دیتے لیکن ہمارا جج کون ہوگا اس کا فیصلہ بھی امریکی کرتے ہیں۔ جو لیڈر امریکی سفیروں کے آگے تو ہاتھ جوڑ کر بیٹھے نظر آتے ہیں انکی اپنی عوام اور میڈیا کو دھمکیاں دے دے کر سانس پھول جاتی ہے۔ جب سے ہمارے نئے حکمرانوں نے دھمکیاں دینے کا سلسلہ تیز کیا ہے تو مجھے اپنے سابق بیوروکریٹ دوست ڈاکٹر ظفر الطاف کی بات یاد آتی ہے کہ کیسے پنجاب حکومت کے چیف سیکرٹری نے ایک دن ان کے ایک بیوروکریٹ دوست پر مسلسل ایک گھنٹہ غصہ کیا۔ وہ بیچارہ افسر چپ چاپ سنتا رہا۔ اچانک چیف سیکرٹری کو احساس ہوا اور اس نے کہا سوری یار کہ میرا کبھی کبھی بلڈ پریشر تیز ہو جاتا ہے لہذا میں تلخی کی حد تک غصہ کر بیٹھتا ہوں۔ وہ افسر پہلی دفعہ مسکرایا اور اس نے کہا سرکار آپ کا یہ بڑا سمجھدار بلڈ پریشر آپ کو کبھی چیف منسٹر کے سامنے تو شکایت کا موقع نہیں دیتا۔ وہاں تو آپ تیز بلڈ پریشر کے باوجود ایسے چپ بیٹھے رہتے ہیں جیسے میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں!
جو لیڈر صاحبان سارا دن ججوں اور میڈیا پر غصہ تو نکالتے ہی رہتے ہیں کسی دن تھوڑا سا غصہ امریکیوں اور جنرل مشرف پر بھی نکال دیں تاکہ حمیرہ عمران جیسے آپ کے ووٹروں کو یہ نہ کہنا پڑے کہ وہ دوبارہ ووٹ ڈالنے قطار میں کھڑی نہیں ہوں گی کیونکہ پاکستان جیسے ملک میں جمہوریت کا خواب بھی عذاب ہے[/mark]
جب یہ بونے کالم نگار کچھ بھی نہیںکرسکتے تو پھر اخرکار سیاستدانوں کی کردار کشی پر اتر اتے ہیں۔ اور وہ بھی بغیر کسی واضح ثبوت کے۔ سمجھ میںنہیںاتا کہ یہ لائسنس انھوںنے کہاںسے لیا ہے۔