سویدا
محفلین
پاکستان، جوہری تابکاری پررپورٹنگ کا خطرہ
علی سلمان بی بی سی
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/06/110615_radiation_repoert_security_sz.shtml
کتنا عجیب لگے گا یہ خبر سن کر کہ’ایک کبوتر پرواز کر کے جب چھت پرلوٹا تو اس کی آنکھیں اوپر کو چڑھ گئیں‘ یا یہ خبر کہ ’دریا سے ایسی مری ہوئی مچھلیاں برآمد ہوتی ہیں جو انگلی لگاتے ہی ٹوٹ کر بکھر جاتی ہیں‘۔
بات اگر الگ سی ہو تو اس کی خبری اہمیت بڑھ جاتی ہے اور ظاہر ہے ایسی خبر سب تک پہنچانے کےلیے خبر کی تصدیق ہونی بھی ضروری ہے۔
اور خبر اس وقت تو اور بھی اہم ہوجاتی ہے جب اس سے متعلقہ واقعات کا تعلق کسی نہ کسی طرح سے پاکستان کے جوہری توانائی کے پلانٹ سے جوڑنے کی کوشش کی جائے۔
کبوتر کی آنکھیں اوپر چڑھنے یا مچھلیوں کے مرنے والی خبر میں کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ہے یہ کھوجنے کے لیے میں چشمہ پاور پلانٹ اور اس کے اردگرد رہنے والے مکینوں سے ملنا چاہتا تھا۔ مقامی ڈاکٹروں، ماہرین شہریوں اور ان کے نمائندوں سے بات کرنا اور اٹامک انرجی کے پلانٹ پر کام کرنے والے کسی عہدیدار یا ترجمان کا موقف جاننا چاہتاتھا۔
لیکن آئی ایس آئی کے اس ’جاسوس‘ کا کیا کروں جس نے میرے میانوالی پہنچنے کے پانچ منٹ کے اندر نہ صرف مجھے کھوج نکالا بلکہ اطلاع دے کر پولیس، ضلعی انتظامیہ، اپنے پیٹی بھائی بند آئی بی سمیت دیگر خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کو بلا لیا۔ اور نتیجتاً زبانی احکامات کے تحت مجھے ’ضلع بدر‘ کردیا گیا۔
جو خفیہ ایجنسی پانچ برس تک اس بات کا پتہ نہیں لگا سکی کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں رہ رہے ہیں یہ جان کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اس کے اہلکار نے انتہائی مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے اس ریستوران میں جا لیا تھا جہاں میں چند منٹ سستانے اور تازہ دم ہونے کے لیے رکا تھا۔
افسوس اس بات پر ہوا کہ جاسوس صاحب کو اردو بولنا سمجھنا اور لکھنا نہیں آتا تھا۔ وہ مقامی سرائیکی میں ہی بات کرتے رہے اور میرے بار بار سمجھانے اور ایک ایک حرف بولنے پر بھی وہ میرے ہم سفراور ساتھی عدیل کا نام عزیز ہی لکھتے رہے۔
بحث بحث اور بحث اورڈی ایس پی صاحب وہی پرانا راگ الاپنے لگے کہ کیا خبر فائل کرنی چاہیے اور کیا چیز خبر نہیں ہوتی۔
بے حد وضاحت سے بار بار انہیں اور باقی تمام سرکاری اہلکاروں کو بتایا کہ اگر اجازت نہیں ہے تو پاور پلانٹ تک نہیں جا رہا بلکہ صرف کندیاں کے ان رہائشیوں سے ملنا چاہتا ہوں جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ غیر معمولی طور پر جلدی امراض، کینسر اور بینائی متاثر ہونے جیسی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔
میں نے انہیں بتایا کہ میں مقامی اور سرکاری ڈاکٹروں سے بھی ملنا چاہتا ہوں لیکن اہلکاروں کی گردان یہی تھی کہ آپ اس معاملے پر خبر نہ بنائیں۔
جوابا میں ادب سے کہتا رہا کہ خبر کیسے بنانی ہے براہ کرم یہ مت سمجھایے مجھے آپ صرف یہ بتادیں کہ میں کس علاقے میں جاسکتا ہوں اور کونسا علاقہ میرے لیے ممنوعہ ہے۔
پہلے تحصیل کندیاں کو میرے لیے ممنوعہ قرار دیا گیا۔ میں نے کہا کہ اچھا جہاں تحصیل کندیاں شروع ہوتی ہے اس کی نشاندہی کردیں وہیں تک میں اپنا کام کرلوں گا، تمام اہلکاروں کے موبائل کانوں سے لگ گئے۔
جواب ملا اس کی بھی اجازت نہیں، تو کہا کہ اچھا پھر دریائے سندھ کے کنارے جاکر چند مچھیروں سے بات کرنا چاہتا ہوں، پھر موبائل فون کانوں پر لگے اور جواب تھا کہ اس کی بھی اجازت نہیں ہے۔
اسی اثناء میں محکمہ اطلاعات کے ایک افسر آپہنچے اور ان کے اصرار پر ضلعی رابطہ افسر پہنچے، مسلح پولیس اور خفیہ اہلکاروں کی گاڑیاں آگے پیچھے تھیں۔
ایک باریش افسرخوش اخلاقی سے ملے اور بتایا کہ آپ کے بارے میں فیصلہ ہوچکا ہے آپ سیدھے لاہور جا رہے ہیں۔ وہ نرمی سے بول رہے تھے لیکن کہہ رہے تھے کہ یہاں آپ کے لیےبہت خطرہ ہے۔ جب میں نے پوچھا کہ کیا ڈکیتی چوری کا خطرہ ہے ؟ تو جواب ملا یہ تو بہت معمولی باتیں ہیں یہاں آپ کو جان کا خطرہ ہے۔
آج کل صحافی طبقہ ویسے ہی بہت زیر عتاب ہے۔ پھر بھی پوچھ لیا کہ اگر میں جانے سے انکار کروں تو کیا ہوگا جواب تھا کہ ایسا تو سوچنا بھی آپ کے لیے گناہ ہے۔ میں سوچنے کی حد تک گناہ گار ہوتا رہا اور پولیس اور آئی ایس آئی کی گاڑیاں مجھے میانوالی سے باہر چھوڑ آئیں۔
مجھے جو اطلاعات ملی تھیں ممکن ہے وہ وہ کچھ سچی اور کچھ جھوٹی ہوتیں یا تمام کی تمام ہی غلط ثابت ہوجاتیں لیکن مجھے جاننے کا موقع ہی نہیں ملا۔
البتہ جان بچانے کا موقع ضرور مل گیا۔ واپسی کے سفر پر ایک گاڑی تعاقب کرتی رہی۔ جب ہماری گاڑی رکتی تو پیچھے آنے والی سفید ڈبل کیبن پک اپ گاڑی رک جاتی۔ اس بات کی اطلاع ضلعی رابطہ افسر کو بھی ہوئی اور پولیس کی گاڑی بھی ان تک بھیجی گئی۔
پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ وہ آئی ایس آئی کی گاڑی ہے اور وہ دراصل گندم کا جائزہ لے رہے تھے۔ سرگودھا پہنچ جانے کے بعد کچھ دم میں دم آیا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ گندم کا دانہ پِس نہیں گیا۔
علی سلمان بی بی سی
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/06/110615_radiation_repoert_security_sz.shtml
کتنا عجیب لگے گا یہ خبر سن کر کہ’ایک کبوتر پرواز کر کے جب چھت پرلوٹا تو اس کی آنکھیں اوپر کو چڑھ گئیں‘ یا یہ خبر کہ ’دریا سے ایسی مری ہوئی مچھلیاں برآمد ہوتی ہیں جو انگلی لگاتے ہی ٹوٹ کر بکھر جاتی ہیں‘۔
بات اگر الگ سی ہو تو اس کی خبری اہمیت بڑھ جاتی ہے اور ظاہر ہے ایسی خبر سب تک پہنچانے کےلیے خبر کی تصدیق ہونی بھی ضروری ہے۔
اور خبر اس وقت تو اور بھی اہم ہوجاتی ہے جب اس سے متعلقہ واقعات کا تعلق کسی نہ کسی طرح سے پاکستان کے جوہری توانائی کے پلانٹ سے جوڑنے کی کوشش کی جائے۔
کبوتر کی آنکھیں اوپر چڑھنے یا مچھلیوں کے مرنے والی خبر میں کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ہے یہ کھوجنے کے لیے میں چشمہ پاور پلانٹ اور اس کے اردگرد رہنے والے مکینوں سے ملنا چاہتا تھا۔ مقامی ڈاکٹروں، ماہرین شہریوں اور ان کے نمائندوں سے بات کرنا اور اٹامک انرجی کے پلانٹ پر کام کرنے والے کسی عہدیدار یا ترجمان کا موقف جاننا چاہتاتھا۔
لیکن آئی ایس آئی کے اس ’جاسوس‘ کا کیا کروں جس نے میرے میانوالی پہنچنے کے پانچ منٹ کے اندر نہ صرف مجھے کھوج نکالا بلکہ اطلاع دے کر پولیس، ضلعی انتظامیہ، اپنے پیٹی بھائی بند آئی بی سمیت دیگر خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کو بلا لیا۔ اور نتیجتاً زبانی احکامات کے تحت مجھے ’ضلع بدر‘ کردیا گیا۔
جو خفیہ ایجنسی پانچ برس تک اس بات کا پتہ نہیں لگا سکی کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں رہ رہے ہیں یہ جان کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اس کے اہلکار نے انتہائی مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے اس ریستوران میں جا لیا تھا جہاں میں چند منٹ سستانے اور تازہ دم ہونے کے لیے رکا تھا۔
افسوس اس بات پر ہوا کہ جاسوس صاحب کو اردو بولنا سمجھنا اور لکھنا نہیں آتا تھا۔ وہ مقامی سرائیکی میں ہی بات کرتے رہے اور میرے بار بار سمجھانے اور ایک ایک حرف بولنے پر بھی وہ میرے ہم سفراور ساتھی عدیل کا نام عزیز ہی لکھتے رہے۔
بحث بحث اور بحث اورڈی ایس پی صاحب وہی پرانا راگ الاپنے لگے کہ کیا خبر فائل کرنی چاہیے اور کیا چیز خبر نہیں ہوتی۔
بے حد وضاحت سے بار بار انہیں اور باقی تمام سرکاری اہلکاروں کو بتایا کہ اگر اجازت نہیں ہے تو پاور پلانٹ تک نہیں جا رہا بلکہ صرف کندیاں کے ان رہائشیوں سے ملنا چاہتا ہوں جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ غیر معمولی طور پر جلدی امراض، کینسر اور بینائی متاثر ہونے جیسی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔
میں نے انہیں بتایا کہ میں مقامی اور سرکاری ڈاکٹروں سے بھی ملنا چاہتا ہوں لیکن اہلکاروں کی گردان یہی تھی کہ آپ اس معاملے پر خبر نہ بنائیں۔
جوابا میں ادب سے کہتا رہا کہ خبر کیسے بنانی ہے براہ کرم یہ مت سمجھایے مجھے آپ صرف یہ بتادیں کہ میں کس علاقے میں جاسکتا ہوں اور کونسا علاقہ میرے لیے ممنوعہ ہے۔
پہلے تحصیل کندیاں کو میرے لیے ممنوعہ قرار دیا گیا۔ میں نے کہا کہ اچھا جہاں تحصیل کندیاں شروع ہوتی ہے اس کی نشاندہی کردیں وہیں تک میں اپنا کام کرلوں گا، تمام اہلکاروں کے موبائل کانوں سے لگ گئے۔
جواب ملا اس کی بھی اجازت نہیں، تو کہا کہ اچھا پھر دریائے سندھ کے کنارے جاکر چند مچھیروں سے بات کرنا چاہتا ہوں، پھر موبائل فون کانوں پر لگے اور جواب تھا کہ اس کی بھی اجازت نہیں ہے۔
اسی اثناء میں محکمہ اطلاعات کے ایک افسر آپہنچے اور ان کے اصرار پر ضلعی رابطہ افسر پہنچے، مسلح پولیس اور خفیہ اہلکاروں کی گاڑیاں آگے پیچھے تھیں۔
ایک باریش افسرخوش اخلاقی سے ملے اور بتایا کہ آپ کے بارے میں فیصلہ ہوچکا ہے آپ سیدھے لاہور جا رہے ہیں۔ وہ نرمی سے بول رہے تھے لیکن کہہ رہے تھے کہ یہاں آپ کے لیےبہت خطرہ ہے۔ جب میں نے پوچھا کہ کیا ڈکیتی چوری کا خطرہ ہے ؟ تو جواب ملا یہ تو بہت معمولی باتیں ہیں یہاں آپ کو جان کا خطرہ ہے۔
آج کل صحافی طبقہ ویسے ہی بہت زیر عتاب ہے۔ پھر بھی پوچھ لیا کہ اگر میں جانے سے انکار کروں تو کیا ہوگا جواب تھا کہ ایسا تو سوچنا بھی آپ کے لیے گناہ ہے۔ میں سوچنے کی حد تک گناہ گار ہوتا رہا اور پولیس اور آئی ایس آئی کی گاڑیاں مجھے میانوالی سے باہر چھوڑ آئیں۔
مجھے جو اطلاعات ملی تھیں ممکن ہے وہ وہ کچھ سچی اور کچھ جھوٹی ہوتیں یا تمام کی تمام ہی غلط ثابت ہوجاتیں لیکن مجھے جاننے کا موقع ہی نہیں ملا۔
البتہ جان بچانے کا موقع ضرور مل گیا۔ واپسی کے سفر پر ایک گاڑی تعاقب کرتی رہی۔ جب ہماری گاڑی رکتی تو پیچھے آنے والی سفید ڈبل کیبن پک اپ گاڑی رک جاتی۔ اس بات کی اطلاع ضلعی رابطہ افسر کو بھی ہوئی اور پولیس کی گاڑی بھی ان تک بھیجی گئی۔
پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ وہ آئی ایس آئی کی گاڑی ہے اور وہ دراصل گندم کا جائزہ لے رہے تھے۔ سرگودھا پہنچ جانے کے بعد کچھ دم میں دم آیا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ گندم کا دانہ پِس نہیں گیا۔