پاکستانی اقلیتیں

سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستان میں مندرجہ ذیل اقلیتیں موجود ہیں جن کی نوعیت اس طرح سے ہے
پارسی
بدھ مذہب۔
جین مت
ہندو
عیسائی
سکھ
ماضی میں پاکستان کے عوام کی اکثریت،کبھی پارسیت ، کبھی بدھ مت کبھی جین مت ، کبھی ہندو مت اورکبھی یہودیت کی اثیر رہی ہے جن کی نوعیت مختلف ادوار میں مختلف ہی رہی ہے تفصیلی مضمون آگے ملاجظہ کیجیے۔
پارسی مذہب کے اثرات پاکستان کے تمام ہی صوبوں پے پڑے ہیں مگر بلوچستان اور سندھ پر زیادہ پڑے کیونکہ یہ دونوں صوبے قدیم ایرانی مملکت کا حصہ تھے آج بھی پاکستان مین مختلف قبائل کے قدیم رسومات کا اگر جائزہ لیا جائَے تو یہ امر سامنے آحائے گا کہ ان کا کہیں نہ کہیں پارسیت سے گہرا تعلق تھا جیسا کہ سندھ اور بلوچستان میں مختلف قبائل میں سچ کو جانچنے کے لئے آگ پر چلنے کا دستور آج بھی موجود ہے یہ دراصل پارسی مذہب کا حصہ ہے
بدھ مت کے ماننے والوں کا پاکستان میں سب سے بڑا مرکز پشاور کے نزدیک واقع ٹیکسلا کا شہر تھا جو اس وقت برصغیر کا دارلخلافہ بھی تھا یہیں بدھ مت کی بڑی بڑی یونیورسٹیاں بھی قائم تھیں جہاں دنیا بھر سے طالب علم بدھ مت کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتے تھے برصغیر مکا مشہور حکمران اشوکا بدھ مذہب کا ماننے والا تھا یہ ہی وجہ ہے کہ صوبہ پختونخواہ میں بدھ مذہب کے بے شمار آثار مل جائں گے ۔
صوبہ سندھ اور بلوچستان میں آج بھی بدھ مذہب کے آثار قدیمہ مل جاتے ہیں خاص طو پر سندھ کے علاقے تھر میں بدھہ مذہب کے بپہت سے آثار مل جائیں گے یہ بات بھی تاریخی سچ ہے کہ ۷۱۲ عیسوی میں جب محمد بن قاسم نے سندھ پر راجا داہر کے خلاف حملہ کیا تو سندھ کی اکثریتی آبادی جو بدھ مزہب کی پیروکار تھی اور راجا داہرنے جو کہ خود برہمن تھا اور ہندو عقائد کو سندھ کی بدھ مذہب اکثریتی آبادی پر زبردست نافذ کردیا تھا اس لیئے راجہ داہر کا ساتھ نہیں دیا
ہندو مت پاکستان میں ہندو مت یا ہندو مذہب کے ماننے والے بڑی تعداد میں مقیم ہیں اگر چہ کہ یہ پاکستان کے چاروں صوبوں بشمول نئے صوبے گلت بلتستان اورکشمیر اور
۔یہودیت ۔اسی طرح سے پاکستان کے صوبہ سرحد میں بہت سے قبائل اس طرح کے ملیں گے جو اپنے آپ کو بنی اسرائل کے ان قبائل کی باقیات قرار دیتے ہیں جن کو اسرائیل کی تباہی کے بعد فاتحین نے اسرائیل یاسر زمین فلسطین سے جلا وطن کردیا تھا جس کے بعد رفتہ رفتہ وہ قبائل پہلے ایران پھر ایران سے افغانستان اور پھر صوبہ سرحد آئے جب کہ جیوش اٹلس میں صوبہ سندھ کی قدیم بندرگاہ دیبل کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ دیبل کی بندرگاہ یہودی تاجروں کی بہت بڑی مرکز تھی اسرائیل سے بنی اسرائیل کے تاجر زمانہ قدیم میں بذریعہ بحری جہاز سندھ اور بلوچستان کی بندرگاہوں دیبل ، اورمارہ ،پسنی پر مستقل آتے رہے ہیں جس کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان کے بیشتر شہر اور بندرگاہوں میں یہودیوں کے تجارتی مراکز اور عبادت گاہیں قائم ہو گئیں تھیں جس کی وجہ سے زمانہ قدیم میں پاکستان کے بعض علاقوں میں یہودیت کے ماننے والے بھی بڑی تعداد میں مقیم تھے.
پارسی مذہب کے ماننے والے پاکستان کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کررہے ہیں
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اہم ترین اقلیتوں میں پارسی مذہب کے ماننے والے بھی ہیں اگر چہ کہ پارسی یازرتشتی مذہب دنیا کا سب سے قدیم عالمی مذہب سمجھا جاتا ہے تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں سے جو مذہب اس وقت باقی ہے وہ پارسی مذہب ہے
دنیا کا سب سے قدیم مذ ہب پارسی مذہب ہے جس کو ایک طرح سے مذاہب کی ماں کہا جاتا ہے
پاکستان کی اقلیتوں میں پارسی مذہب کے ماننے والے اہم حیثیت رکھتے ہیں پارسی مذہب کے ماننے والے پاکستان کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کررہے ہیں ۔آبادی کے اعتبار سے اگرچے پارسی مذہب کے ماننے والوں کی تعدادا بہت کم ہے اتنی کم کہ ان کو آٹے میں نمک ہی کہا جاسکتا ہے مگر یہ ہر شعبہ زندگی میں اس قدر متحرک ہیں کہ عملی طور پر یہ پاکستانی برادری میں نمک کی حیثیت اختیار کر چکے ہیںیوں تو پارسی برادری تمام پاکستان میں مقیم ہے مگر ان کی اکثریت کراچی میں مقیم ہے ان کی دو عبادت گاہیں اور قبرستان بھی کراچی میں موجود ہیں یہ بڑا ہی دلچسپ اور حیر ت ناک انکشاف ہے کہ پارسی مذہب کے ماننے والے پاکستان کے علاقوں میں آج سے دو ہزار سال قبل بھی مقیم تھے بقول خان عبدالغفار خان یاباچا خان کہ پٹھان ماضی میں پارسی مذہب کے ماننے والے تھے مگر گردش ایام کے نتیجے میں ان کی تعداد میں کمی آتی گئی اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ صرف مختلف عمارتوں کے آثار ہی ان کے بارے میں یہ بتاتے ہیں کے کبھی یہ بھی اس دشت کے مکیں تھے بحر حال اس وقت پاکستانیت کے حوالے سے پارسی مذہب کے ماننے والوں کے بارے میں مضمون پیش خدمت ہے یہ پاکستان کی تاریخ اور پاکستان میں مقیم مختلف لسانی اور مذہبی گروہوں کے بارے مین اس سلسلے کی پہلی قسط ہے اس حوالے سے قارئین کی رائے کا خیر مقدم کیا جائے گا۔
تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اب سے تین ہزار سال قبل پارسی مذہب کے مانے والے دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھے ایشیا کے حوالے سے جب بھی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے گا تو اس خطے کی بڑی طاقتوں میں پارسیوں کی ریاست کا بھی تذکرہ لازما کیا جاتا ہے جب کہ اسلام کی آمد سے قبل پارسی مذہب کے ماننے والے موجودہ پاکستان سے لے کر ایران ،افغانستان ،وسطی ایشیا کی ریاستوں اور مشرق وسطیٰ کی ریاستوں تک پھیلے ہوئے تھے جبکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ موجودہ پاکستان کا بیشتر حصہ جس میں صوبہ پنجاب صوبہ سندھ اور بلاچستان بھی شامل ہے کسی زمانے میں ایران کا حصہ تھا یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بہت سے علاقوں میں اب بھی قدیم ایرانی و پارسی تہذیب کی جھلکیاں مل جائی گی۔(جیسا کہ سندھ اور بلوچستان کے بعض قبائل میں مجرموں کے سچ یا جھوٹ کا پتہ لگانے کے لئے ان کو آگ پر چلایا جاتا ہے بعض محقیقین کا خیال ہے کہ یہ دراصل قدیم پارسی روایات تھی جس کے اثرات اس طرح پاکستان مین باقی رہ گئے ہیں )یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ سندھ کی ریاست جس کو محمد بن قاسم نے فتح کیا تھا ایران کی بادشاہت کو خرا ج ادا کرتی تھی او رایران کی ماتحت ریاست تصور کی جاتی تھی مشہور مورخ ہر ٹسلف نے ایرانی مملکت کے مشرقی صوبوں کی جو فہرست بنائی ہے اس کے مطابق ان صوبوں میں مکران، توران گزرگاہ دریائے سندھ کے درمیانی اضلاع اور اس کے ساتھ ہی ساتھ کچھ کاٹھیا واڑ اور مالو ہ (اب یہ صوبے بھارت کا حصہ ہیں )بھی شامل تھے دائیرہ معارف الاسلامی کی جلد نمبر تین کے صفحہ نمبر ۶۲۷ میں جو ایرانی صوبوں کی فہرست دی گئی ہے اس کے مطابق بلوچستان کیچ مکران(یہ بات مکمل طور پر غلط اور بے بنیاد ہے کہ کبھی یہ علاقے خود مختار یا آزاد تھے تاریخ کے مطالعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے ہمیشہ ہی یہ علاقے ارد گرد کی طاقتور ریاستوں کا حصہ بنے رہے ہیں ) غور بامیان پنجاب کابلستان خراسان کے صوبے ایرانی حکومت کا حصہ تھے مشہور رزمیہ شاعری و داستان رستم وسہراب کے ہیرو رستم کے جدو امجدکرشاسپ فریدوں اسی کابل زابل اور سجستان کے صوبوں کے گورنر تھے اس کا بھتیجا زال زابل کابل اور ہند پر حکمران تھا کیانی خاندان کے ایک دوسرے حکمران سام کامرکز افغانستان کے ایک دوسرے صوبے فرح میں تھا یہاں پر آج بھی ایسے آثار موجودہیں جنہیں سام کے مرکز کے کھنڈرات کہا جاتا ہے انگریز مورخ جی پی ٹیٹ اپنی کتاب سیستان میں لکھتے ہیں کہ آج کل یہاں پر افغانوں کا ایک قبیلہ آباد ہے جو کہ اپنے آپ کو رستم کی نسل سے ظاہر کرتے ہیں اگرچے کے اب لوگ ان کو ا سحاق زئی کے نام سے یاد کرتے ہیں مگر یہ اپنے آپ کو ساک زئی کہتے ہیں افغانستان کے اہم ترین شہر بلغ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پارسی مذہب کا اہم ترین اور مقدس شہر تھا اس وقت اس علاقے کو ایرانی باختر کہتے تھے بلخ کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں پر پارسی مذہب کے بانی عظیم زرتشت کو قتل کیا گیا تھاجبکہ قدیم ایرانی شاہی خاندان کیانی خاندان کا تعلق بھی بلغ سے ہی تھا ان کا دارلخلافہ بلغ تھا یہ شہر بعد میں مغلوں اور تیمور کی سپاہ کے ہاتھوں تباہ اور برباد ہو گیااس کے کھنڈرات پر موجودہ شہر مزار شریف کی بنیادیں قائم ہیں ایران کے ایک دوسرے شاہی خاندان ہنجامنشی خاندان کا تعلق بھی بلغ سے بتایا جاتا ہے اسی طرح شیر از شہر کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں پر ایک بہت بڑا اور اہم ترین آتشکدہ قائم تھا پارسی مذہب کے قدیم ترین رہنما آخش کو قرار دیاجاتاہے یہ زرتشت سے بہت پہلے پیدا ہوئے تھے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پارسی مذہب کے بنیادی اصول اورضوابط انہی بزرگ ہستی آخش نے ترتیب دئے تھے حضرت آخش کے ماننے والوں کی عبادت گاہوں کو آزر آخش کہا جاتا تھا مگر بعد میں جب پارسی مذہب میں ترامیم کے زریعے تبدیلیاں واقع ہو گئیں اور بہت سی ہدایت مسخ کردیں گئیں توحضرت زرتشت نے (جو کہ پارسی روایات کے مطابق اب سے تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل پیدا ہوئے تھے)پارسی مذہب کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اس مقصد کے لئے انہوں نے اصلاحی تحریک شروع کی اس تحریک کا مقصد اپنی قوم کی اصلاح اور خدائے واحد پر ایمان لانا تھا زرتشت کی تعلیمات کے مطابق مادے کے یہ چاروں عناصر صرف قدرت کے مظاہر ہیں اس لئے ان کا صرف احترام کرنا چاہیے اسی لئے بعض علما اسلام زرتشت کی تعلیمات کو دیکھتے ہوئے ان کے بارے میں یہ بھی کہتے ہیں کہ زرتشت کی تعلیمات میں توحید ربانی کی موجودگی کی وجہ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ان مقدس ہستیوں میں سے ایک ہوسکتے ہیں جن کو نبی یا پیغمبر کہا جاسکتا ہے (مگرچونکہ ان کی تعلیمات اس وقت ہمارے سامنے خالص صورت میں موجودنہیں ہیں اس لئے اس رائے کے اظہارپر وہ احتیاط کرتے ہیں ) یہ بات قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہو گا کہ انہی وجوہات کی بنیاد پر بعض قدیم علماء پارسیوں کو اہل کتاب تصور کرتے تھے اور اسی بنیاد پر پارسیوں سے جزیہ بھی لیا گیا تھا عظیم زرتشت کی تعلیمات کا نام ژند بیان کیا گیا ہے جس کی شرح اوستا کے نام سے بیان کیا جاتا ہے ا س کے بعض حصے اب تک محفوظ ہیں اور یہ ہی پارسی مذہب کی اساس ہیں اس وقت پارسیوں کی مذہبی کتاب گاتھا کے نام سے موسوم کی جاتی ہے ایران کے قدیم صوبے جبال اور موجودہ ایرانی صوبے آزربائیجان میں( جو کہ آج کل وسطی ایشیائی ریاست آزربائیجان اور عراق کی سرحد کے قریب واقع ہے )کے قدیم ترین شہر شیز میں پارسی مذہب کی سب سے قدیم ترین عبادت گاہ موجود تھی بعض پارسی روائتوں کے مطابق کہا جاتا ہے کہ پارسی مذہب کے عظیم رہنما زردتشت آزربائیجان کے شہر یورمیاہ میں ہوئی جو کہ یورومیاہ جھیل کے کنارے پر واقع ہے اسی لئے پارسیوں کے لئے یہ شہر قدیم زمانے میں اور آج بھی بہت مقدس جانا جاتا ہے شیز شہر میں اس حوالے سے جو آتش گاہ قائم تھی وہ بہت قدیم اور متبر ک تھی تاریخ دان یہ زکر کرتے ہیں کہ اس آتش کدے کی آگ کو پارسیو ں کے عظیم مفکر دانشور اور مذہبی پیشوا زر تشت نے جلائی تھی اس آتش کدے کا نام آزر گشنسپ تھا پارسی اُس کا بہت احترام کرتے تھے مشہور تاریخ دان مسعودی لکھتے ہیں کہ تمام ساسانی بادشاہ تخت نشین ہونے کے بعد اپنے دارلخلافہ مدائین (جس کے آثار اب بغداد شہر کے قریب ہیں) سے پاپیادہ زائیر بن کر شیز شہر کے آتش کدے میں حاضر ہوتے تھے کہا جاتا ہے کہ شیز شہر کے اس آتش کدہ سے تمام دیگر شہروں کے آتش کدوں میں آگ بھڑکا ئی جاتی تھی شیز شہر کے اس آتشکدے کے علاوہ دو اور آتشکدے بھی تھے جو کے پارسیوں کے لئے انتہائی متبرک تھے ان میں آزر بزرین مہر نیشا پور شہر کے شمال مغرب میں کوہستان ریوند میں واقع تھا اور ان تینوں میں اہم تر آزر فربگ تھا اُس کے محل وقوع کے بارے میں مورخین کی رائے میں اختلاف ہے مگر یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ اس وقت کی ایرانی حکومت کے صوبے کابلستان (موجودہ افغانستان) میں واقع تھی یہ تین آتشکدے وہ تھے جن کی آگ سے دیگر آتشکدوں کی آگ بھڑکائی جاتی تھی۔
اسی طرح قزوین شہر کے قریب ہی پارسیوں کے ایک قدیم معبد کے آثار کسی زمانے میں دیکھے جاسکتے تھے اسی طرح پاکستان کے بے شمار شہروں میں پارسی مذہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہ قائم تھیں پارسی کیلنڈر عیسوی اور ہجری کیلنڈر کی مانند بارہ مہینوں میں تقسیم ہے ان مہینوں کے نام پارسی مذہب کی مقدس ہستیوں کے ناموں پر رکھے گئے ہیں دن میں پانچ وقت کی عبادت کا تصور ان کے یہاں بھی موجود ہے پارسی مذہب کی مذہہبی رسومات کی ادائیگی کی زمے داری ان کے یہاں ایک قوم کے سپرد ہے جو کے قدیم دور سے یہ انجام دے رہیں ہیںیہ قوم ماگی کہلاتی ہے اس قوم کے افراد مگ یامغ کہے جاتے ہیں ہیپروفیسر آرتھر اپنی کتاب ایران بعہد ساسانیاں میں صفحہ نمبر ۲۱۵ - ۲۱۸ میں لکھتے ہیں کے مجوس یا میغاں دراصل میڈیا کے ایک قبیلے یا اس کی قبیلے کی خاص جماعت کا نام تھا اوستا میں یہ مذہب علماء مذہب آزروان کے قدیم نام سے مذکور ہیں لیکن اشکانیوں اور ساسانیوں کے زمانے میں وہ مغ کہلاتے تھے اس وقت دنیا بھر میں پارسی مذہب کی تمام مذہبی رسومات کی ادائگی انہی مگ یا مغوں کے پاس ہے دنیا میں جہاں بھی پارسی مذہب کی عبادت گاہیں موجود ہیں ان میں تمام عبادتوں کی ادائیگی یہ ہی مگ یا مغ انجام دیتے ہیں جب کہ اس وقت پارسی مذہب کی سب سے بڑی عبادت گاہ بھارت کے صوبے گجرات کے شہر ایرانشہر میں ہے جہاں پران مگوں کی تربیت اور تعلم کی درس گاہ موجود ہے
اسلام کی آمد کے ساتھ ہی ساتھ پارسی مذہب کے ماننے والوں کی بڑی تعدا د اسلام کا حلقہ بگوش ہوتی چلی گئی اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام مقامات جہاں پر پارسی مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت تھی وہ مقامات رفتہ رفتہ اسلام کا قلعہ بنتے چلے گئے جس کے بعد ان کے پاس یہی راستہ رہ گیا تھا کہ وہ ایران سے ہجرت کرجائیں اس سے قبل ایرانی تاجر موجودہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں تجارت کی غرض سے آتے رہتے تھے اور ان کی کاروباری روابط قائم تھے مگر اب ان کی ہندوستان آمد کا مقصد مکمل طور پر رہائیش اور بود و باشت اختیار کرنا تھی اُس مقصد کے لئے انہوں نے اب سے چودہ سو سال قبل بھارتی گجرات میں پونا، بمبئی اورسورت میں آباد کاری کی جب انگریزوں نے سورت میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی شاخ قائم کی تو اس کے ابتدائی کارکن دو پارسی تھے بھارتی صوبے گجرات سے پارسی تاجرچین کے مختلف شہروں ہانگ کانگ، کینٹین اور دیگر شہروں میں تجارت کرنے کے لئے گئے اور پھر وہیں بس گئے ۔
پھرجب کراچی کی بندرگاہ آباد ہونے لگی اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے دیگر ساحلی علاقوں کے شہر آباد ہونے لگے تو اس وقت ان مقامات پر پارسی تاجروں نے اپنے کاروباری مراکز قائم کرنا شروع کردئے مگر کراچی پر انگریزوں کے قبضے کے بعد 1839 میں پارسی تاجروں نے اس شہر کو اپنا مضبوط تجارتی مرکز بنانا شروع کردیا تجارت کے ساتھ ساتھ پارسی برادری نے اپنی روایات کے مطابق سماجی اور عوامی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا شروع کردیا جس کے نتیجے میں اِس نئے بسنے والے شہر کراچی کے عوام دیگر شہروں کے مقابلے میں بہتر بودو باش حاصل کرتے چلے گئے۔
جمشید نسروانجی جنہوں نے کراچی کے ماسٹر پلاننگ میں اہم ترین کردار ادا کیا ایم اے جناح روڈ پر سابقہ کے ایم سی کے دفاتر قائم کئے تھے اس وقت اس سے پیشتر یہ دفاتر میکلوڈ روڈ پر قائم تھے یہ جمشید نسروانجی کا اہم ترین کارنامہ ہے جمشید کوارٹرز جمشید نسروانجی کے نام سے موسوم یہ بستی کراچی کے شہریوں کی سہولت کے لئے آباد کی گئی تھی اس کے پڑوس میں پارسی کالونی کاسموپولیٹن سوسائٹی اور دیگر سوسائٹیاں آباد کیں گئیں تھیں ۔
کراچی کی تعمیر وترقی میں دوسرا اہم نام ایڈلجی ڈنشاکاآتاہے ۔ایڈلجی ڈنشا کراچی کے ایک مخیر تاجرتھے انہوں نے کراچی کے شہریوں کے لئے بہت سے رفاحی اور فلاحی کام انجام دئے ان میں سے ایک ایڈل جی ڈنشا ڈسپنسری ہے یہ انہوں نے 1882 میں آج سے تقریباً سوا صدی قبل تعمیر کی تھی اس ڈسپینسری کا نقشہ ایک انگریز جیمز اسٹریجنز نے اٹلی کے طرز تعمیر کے مطابق بنایا تھا ایمپریس مارکیٹ کے قریب واقع آج بھی یہ عمارت کراچی کی اہم تاریخی عمارتوں میں شمار کی جاتی ہے اسی طرح نادر شاہ ایڈلجی کے ورثانے کراچی کے پہلے اینجینرنگ کالج کے لئے بھاری مقدار میں رقم کی فراہمی کا اعلان کیا تھا اس وجہ سے اس کالج کا نام نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا کے نام پر این ای ڈی کالج کہا جانے لگا کراچی کے اہم ترین اور ساحلی مقام کلفٹن پر ایک اورمخیر پارسی تاجر جہانگر ایچ کوٹھاری نے ایک بڑا قطعہ آراضی اور اس کے ساتھ تین لاکھ روپے کراچی کی میونسپلٹی کو بطور عطیہ دئے تھے اس وقت یہ تین لاکھ روپے بہت بڑی رقم تصور کی جاتی تھی ( صدر کا جہانگیر پارک انہی کے نام پر موسوم ہے )کراچی کے میونسپل ادارے نے اس رقم سے اس مقام پر ایک خوبصورت ترین عمارت قائم کی جسے جہانگیر کوٹھاری پریڈ کہا جاتا ہے اس عمارت کا سنگ بنیاد اس وقت کے سندھ اور بمبعی کے گورنر جارج لائیڈ نے رکھا تھا یہ عمارت آج بھی کراچی کی خوبصورت ترین عمارتوں میں شمار کی جاتی ہے جمشید نسروانجی کے علاوہ کراچی کی پارسی برادری کی اہم ترین شخصیت رستم سدھوا تھے جو کے کراچی کے آٹھ سال تک بلا مقابلہ مئیر رہے ان کی خدمات کراچی کے حوالے سے بہت سی ہیں قیام پاکستان کے بعد بھی پارسی برادری کی جانب سے عوام کی خدمت کاسلسلہ جاری رہا آج بھی کراچی کے اہم ترین ترقیاتی منصوبوں میں پارسی برادری کی جانب سے اہم کردار ادا کیا جاتا ہے اس وقت پاکستان کے اہم اور بڑے تاجروں میں بہرام ڈی آواری کا نام لیا جاتا ہے جبکہ یہ وہی آواری ہیں جنہوں نے کشتی رانی کے بین القوامی مقابلوں میں پاکستان کو گولڈ میڈل دلوایا تھا یہ بات بڑے اطمنان کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بہرام ڈی آواری اپنی قوم کی ترقی کے ساتھ تمام پاکستان قوم کے لئے بھی کوشان ہیں ان کی خدمات کا دائیرہ بہت وسیع ہے
اس وقت پارسی برادری کے اہم ترین رہنماوں میں ارد شیر کاوس جی ہیپی مینوالا انکلسریا اور ایم پی بھنڈارہ شامل ہیں مگر پارسی برادری کے بعض اہم ترین رہنماوں نے بتایا کہ اب پارسی برادری پاکستان بھرمیں بہرام ڈی آواری کی قیادت میں متحد ہو چکی ہے پارسی برادی کی خدمات کو دیکھتے ہوئے یہ بات بغیر کسی شک و شبہ کہ کہی جاسکتی ہے کہ پارسی برادر ی ان برادریوں میں سے ایک ہے جو کہ پاکستان کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کررہیں ہیں اور فوج سمیت پاکستان کے ہر شعبہ زندگی میں اہم ترین کردار ادا کر رہے ہیں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ اس وقت پاکستان سمیت دنیا بھر کے مختلف ممالک میں پارسی تاجر مقیم ہیں مگر ان کی بڑی تعداد اب سے پچاس برس قبل پاکستان اور بھارت میں مقیم تھی مگر اب پارسیوں کی ایک بڑی تعداد امریکا اور کینیڈا اور یورپ میں منتقل ہو چکی ہے جب کہ لندن جینیوا اور اور نیویارک میں میں ان کے ہوٹل کھل چکے ہیں جہاں کھانوں کے شوقین حضرات مزیدار پارسی کھانوں کی تلاش میں آتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں یہ بات قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ ہمارے یہاں اکثر گھروں میں جو پلاؤ پکایا جاتا ہے وہ دراصل ایرانی کھانا ہے جو صدیوں پہلے ہندوستان اور پاکستان میں ایران سے آیا تھا اور اب اس طرح سے پلاؤ کا استعمال ہونے لگا ہے کہ جیسے یہ مقامی کھانوں میں شا مل ہو۔
کچھ مدت قبل تک پارسی مذہب کے ماننے والوں کی مذہبی کتابیں گجراتی زبان میں ملتیں تھیں مگر پارسیوں کی ویب سائٹ دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہو ا ہے کہ پارسیوں کا لٹریچر اور مذہبی کتابیؓ فارسی زبان میں بھی موجود ہے پاکستان میں اگرچے کہ پارسیوں کی تعداد بہت کم ہے مگر یہ بات بڑے یقین اور اطمنان کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ پارسی مذہب کے ماننے والے اپنے درخشندہ ماضی کے ساتھ پاکستان کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے ہر وقت آمادہ رہتے ہیں۔

پارسی مذہب کے ماننے والے پاکستان کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کررہے ہیں

پاکستان کی اقلیتوں میں پارسی مذہب کے ماننے والے اہم حیثیت رکھتے ہیں پارسی مذہب کے ماننے والے پاکستان کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کررہے ہیں ۔آبادی کے اعتبار سے اگرچے پارسی مذہب کے ماننے والوں کی تعدادا بہت کم ہے اتنی کم کہ ان کو آٹے میں نمک ہی کہا جاسکتا ہے مگر یہ ہر شعبہ زندگی میں اس قدر متحرک ہیں کہ عملی طور پر یہ پاکستانی برادری میں نمک کی حیثیت اختیار کر چکے ہیںیوں تو پارسی برادری تمام پاکستان میں مقیم ہے مگر ان کی اکثریت کراچی میں مقیم ہے ان کی دو عبادت گاہیں اور قبرستان بھی کراچی میں موجود ہیں یہ بڑا ہی دلچسپ اور حیر ت ناک انکشاف ہے کہ پارسی مذہب کے ماننے والے پاکستان کے علاقوں میں آج سے دو ہزار سال قبل بھی مقیم تھے بقول خان عبدالغفار خان یاباچا خان کہ پٹھان ماضی میں پارسی مذہب کے ماننے والے تھے مگر گردش ایام کے نتیجے میں ان کی تعداد میں کمی آتی گئی اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ صرف مختلف عمارتوں کے آثار ہی ان کے بارے میں یہ بتاتے ہیں کے کبھی یہ بھی اس دشت کے مکیں تھے بحر حال اس وقت پاکستانیت کے حوالے سے پارسی مذہب کے ماننے والوں کے بارے میں مضمون پیش خدمت ہے یہ پاکستان کی تاریخ اور پاکستان میں مقیم مختلف لسانی اور مذہبی گروہوں کے بارے مین اس سلسلے کی پہلی قسط ہے اس حوالے سے قارئین کی رائے کا خیر مقدم کیا جائے گا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اہم ترین اقلیتوں میں پارسی مذہب کے ماننے والے بھی ہیں اگر چہ کہ پارسی یازرتشتیمذہب دنیا کا سب سے قدیم عالمی مذہب سمجھا جاتا ہے تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں سے جو مذہب اس وقت باقی ہے وہ پارسی مذہب ہے تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اب سے تین ہزار سال قبل پارسی مذہب کے مانے والے دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھے ایشیا کے حوالے سے جب بھی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے گا تو اس خطے کی بڑی طاقتوں میں پارسیوں کی ریاست کا بھی تذکرہ لازما کیا جاتا ہے جب کہ اسلام کی آمد سے قبل پارسی مذہب کے ماننے والے موجودہ پاکستان سے لے کر ایران ،افغانستان ،وسطی ایشیا کی ریاستوں اور مشرق وسطیٰ کی ریاستوں تک پھیلے ہوئے تھے جبکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ موجودہ پاکستان کا بیشتر حصہ جس میں صوبہ پنجاب صوبہ سندھ اور بلاچستان بھی شامل ہے کسی زمانے میں ایران کا حصہ تھا یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بہت سے علاقوں میں اب بھی قدیم ایرانی و پارسی تہذیب کی جھلکیاں مل جائی گی۔(جیسا کہ سندھ اور بلوچستان کے بعض قبائل میں مجرموں کے سچ یا جھوٹ کا پتہ لگانے کے لئے ان کو آگ پر چلایا جاتا ہے بعض محقیقین کا خیال ہے کہ یہ دراصل قدیم پارسی روایات تھی جس کے اثرات اس طرح پاکستان مین باقی رہ گئے ہیں )یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ سندھ کی ریاست جس کو محمد بن قاسم نے فتح کیا تھا ایران کی بادشاہت کو خرا ج ادا کرتی تھی او رایران کی ماتحت ریاست تصور کی جاتی تھی مشہور مورخ ہر ٹسلف نے ایرانی مملکت کے مشرقی صوبوں کی جو فہرست بنائی ہے اس کے مطابق ان صوبوں میں مکران، توران گزرگاہ دریائے سندھ کے درمیانی اضلاع اور اس کے ساتھ ہی ساتھ کچھ کاٹھیا واڑ اور مالو ہ (اب یہ صوبے بھارت کا حصہ ہیں )بھی شامل تھے دائیرہ معارف الاسلامی کی جلد نمبر تین کے صفحہ نمبر ۶۲۷ میں جو ایرانی صوبوں کی فہرست دی گئی ہے اس کے مطابق بلوچستان کیچ مکران(یہ بات مکمل طور پر غلط اور بے بنیاد ہے کہ کبھی یہ علاقے خود مختار یا آزاد تھے تاریخ کے مطالعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے ہمیشہ ہی یہ علاقے ارد گرد کی طاقتور ریاستوں کا حصہ بنے رہے ہیں ) غور بامیان پنجاب کابلستان خراسان کے صوبے ایرانی حکومت کا حصہ تھے مشہور رزمیہ شاعری و داستان رستم وسہراب کے ہیرو رستم کے جدو امجدکرشاسپ فریدوں اسی کابل زابل اور سجستان کے صوبوں کے گورنر تھے اس کا بھتیجا زال زابل کابل اور ہند پر حکمران تھا کیانی خاندان کے ایک دوسرے حکمران سام کامرکز افغانستان کے ایک دوسرے صوبے فرح میں تھا یہاں پر آج بھی ایسے آثار موجودہیں جنہیں سام کے مرکز کے کھنڈرات کہا جاتا ہے انگریز مورخ جی پی ٹیٹ اپنی کتاب سیستان میں لکھتے ہیں کہ آج کل یہاں پر افغانوں کا ایک قبیلہ آباد ہے جو کہ اپنے آپ کو رستم کی نسل سے ظاہر کرتے ہیں اگرچے کے اب لوگ ان کو ا سحاق زئی کے نام سے یاد کرتے ہیں مگر یہ اپنے آپ کو ساک زئی کہتے ہیں افغانستان کے اہم ترین شہر بلغ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پارسی مذہب کا اہم ترین اور مقدس شہر تھا اس وقت اس علاقے کو ایرانی باختر کہتے تھے بلخ کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں پر پارسی مذہب کے بانی عظیم زرتشت کو قتل کیا گیا تھاجبکہ قدیم ایرانی شاہی خاندان کیانی خاندان کا تعلق بھی بلغ سے ہی تھا ان کا دارلخلافہ بلغ تھا یہ شہر بعد میں مغلوں اور تیمور کی سپاہ کے ہاتھوں تباہ اور برباد ہو گیااس کے کھنڈرات پر موجودہ شہر مزار شریف کی بنیادیں قائم ہیں ایران کے ایک دوسرے شاہی خاندان ہنجامنشی خاندان کا تعلق بھی بلغ سے بتایا جاتا ہے اسی طرح شیر از شہر کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں پر ایک بہت بڑا اور اہم ترین آتشکدہ قائم تھا پارسی مذہب کے قدیم ترین رہنما آخش کو قرار دیاجاتاہے یہ زرتشت سے بہت پہلے پیدا ہوئے تھے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پارسی مذہب کے بنیادی اصول اورضوابط انہی بزرگ ہستی آخش نے ترتیب دئے تھے حضرت آخش کے ماننے والوں کی عبادت گاہوں کو آزر آخش کہا جاتا تھا مگر بعد میں جب پارسی مذہب میں ترامیم کے زریعے تبدیلیاں واقع ہو گئیں اور بہت سی ہدایت مسخ کردیں گئیں توحضرت زرتشت نے (جو کہ پارسی روایات کے مطابق اب سے تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل پیدا ہوئے تھے)پارسی مذہب کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اس مقصد کے لئے انہوں نے اصلاحی تحریک شروع کی اس تحریک کا مقصد اپنی قوم کی اصلاح اور خدائے واحد پر ایمان لانا تھا زرتشت کی تعلیمات کے مطابق مادے کے یہ چاروں عناصر صرف قدرت کے مظاہر ہیں اس لئے ان کا صرف احترام کرنا چاہیے اسی لئے بعض علما اسلام زرتشت کی تعلیمات کو دیکھتے ہوئے ان کے بارے میں یہ بھی کہتے ہیں کہ زرتشت کی تعلیمات میں توحید ربانی کی موجودگی کی وجہ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ان مقدس ہستیوں میں سے ایک ہوسکتے ہیں جن کو نبی یا پیغمبر کہا جاسکتا ہے (مگرچونکہ ان کی تعلیمات اس وقت ہمارے سامنے خالص صورت میں موجودنہیں ہیں اس لئے اس رائے کے اظہارپر وہ احتیاط کرتے ہیں ) یہ بات قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہو گا کہ انہی وجوہات کی بنیاد پر بعض قدیم علماء پارسیوں کو اہل کتاب تصور کرتے تھے اور اسی بنیاد پر پارسیوں سے جزیہ بھی لیا گیا تھا عظیم زرتشت کی تعلیمات کا نام ژند بیان کیا گیا ہے جس کی شرح اوستا کے نام سے بیان کیا جاتا ہے ا س کے بعض حصے اب تک محفوظ ہیں اور یہ ہی پارسی مذہب کی اساس ہیں اس وقت پارسیوں کی مذہبی کتاب گاتھا کے نام سے موسوم کی جاتی ہے ایران کے قدیم صوبے جبال اور موجودہ ایرانی صوبے آزربائیجان میں( جو کہ آج کل وسطی ایشیائی ریاست آزربائیجان اور عراق کی سرحد کے قریب واقع ہے )کے قدیم ترین شہر شیز میں پارسی مذہب کی سب سے قدیم ترین عبادت گاہ موجود تھی بعض پارسی روائتوں کے مطابق کہا جاتا ہے کہ پارسی مذہب کے عظیم رہنما زردتشت آزربائیجان کے شہر یورمیاہ میں ہوئی جو کہ یورومیاہ جھیل کے کنارے پر واقع ہے اسی لئے پارسیوں کے لئے یہ شہر قدیم زمانے میں اور آج بھی بہت مقدس جانا جاتا ہے شیز شہر میں اس حوالے سے جو آتش گاہ قائم تھی وہ بہت قدیم اور متبر ک تھی تاریخ دان یہ زکر کرتے ہیں کہ اس آتش کدے کی آگ کو پارسیو ں کے عظیم مفکر دانشور اور مذہبی پیشوا زر تشت نے جلائی تھی اس آتش کدے کا نام آزر گشنسپ تھا پارسی اُس کا بہت احترام کرتے تھے مشہور تاریخ دان مسعودی لکھتے ہیں کہ تمام ساسانی بادشاہ تخت نشین ہونے کے بعد اپنے دارلخلافہ مدائین (جس کے آثار اب بغداد شہر کے قریب ہیں) سے پاپیادہ زائیر بن کر شیز شہر کے آتش کدے میں حاضر ہوتے تھے کہا جاتا ہے کہ شیز شہر کے اس آتش کدہ سے تمام دیگر شہروں کے آتش کدوں میں آگ بھڑکا ئی جاتی تھی شیز شہر کے اس آتشکدے کے علاوہ دو اور آتشکدے بھی تھے جو کے پارسیوں کے لئے انتہائی متبرک تھے ان میں آزر بزرین مہر نیشا پور شہر کے شمال مغرب میں کوہستان ریوند میں واقع تھا اور ان تینوں میں اہم تر آزر فربگ تھا اُس کے محل وقوع کے بارے میں مورخین کی رائے میں اختلاف ہے مگر یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ اس وقت کی ایرانی حکومت کے صوبے کابلستان (موجودہ افغانستان) میں واقع تھی یہ تین آتشکدے وہ تھے جن کی آگ سے دیگر آتشکدوں کی آگ بھڑکائی جاتی تھی۔
اسی طرح قزوین شہر کے قریب ہی پارسیوں کے ایک قدیم معبد کے آثار کسی زمانے میں دیکھے جاسکتے تھے اسی طرح پاکستان کے بے شمار شہروں میں پارسی مذہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہ قائم تھیں پارسی کیلنڈر عیسوی اور ہجری کیلنڈر کی مانند بارہ مہینوں میں تقسیم ہے ان مہینوں کے نام پارسی مذہب کی مقدس ہستیوں کے ناموں پر رکھے گئے ہیں دن میں پانچ وقت کی عبادت کا تصور ان کے یہاں بھی موجود ہے پارسی مذہب کی مذہہبی رسومات کی ادائیگی کی زمے داری ان کے یہاں ایک قوم کے سپرد ہے جو کے قدیم دور سے یہ انجام دے رہیں ہیںیہ قوم ماگی کہلاتی ہے اس قوم کے افراد مگ یامغ کہے جاتے ہیں ہیپروفیسر آرتھر اپنی کتاب ایران بعہد ساسانیاں میں صفحہ نمبر ۲۱۵ - ۲۱۸ میں لکھتے ہیں کے مجوس یا میغاں دراصل میڈیا کے ایک قبیلے یا اس کی قبیلے کی خاص جماعت کا نام تھا اوستا میں یہ مذہب علماء مذہب آزروان کے قدیم نام سے مذکور ہیں لیکن اشکانیوں اور ساسانیوں کے زمانے میں وہ مغ کہلاتے تھے اس وقت دنیا بھر میں پارسی مذہب کی تمام مذہبی رسومات کی ادائگی انہی مگ یا مغوں کے پاس ہے دنیا میں جہاں بھی پارسی مذہب کی عبادت گاہیں موجود ہیں ان میں تمام عبادتوں کی ادائیگی یہ ہی مگ یا مغ انجام دیتے ہیں جب کہ اس وقت پارسی مذہب کی سب سے بڑی عبادت گاہ بھارت کے صوبے گجرات کے شہر ایرانشہر میں ہے جہاں پران مگوں کی تربیت اور تعلم کی درس گاہ موجود ہے
اسلام کی آمد کے ساتھ ہی ساتھ پارسی مذہب کے ماننے والوں کی بڑی تعدا د اسلام کا حلقہ بگوش ہوتی چلی گئی اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام مقامات جہاں پر پارسی مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت تھی وہ مقامات رفتہ رفتہ اسلام کا قلعہ بنتے چلے گئے جس کے بعد ان کے پاس یہی راستہ رہ گیا تھا کہ وہ ایران سے ہجرت کرجائیں اس سے قبل ایرانی تاجر موجودہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں تجارت کی غرض سے آتے رہتے تھے اور ان کی کاروباری روابط قائم تھے مگر اب ان کی ہندوستان آمد کا مقصد مکمل طور پر رہائیش اور بود و باشت اختیار کرنا تھی اُس مقصد کے لئے انہوں نے اب سے چودہ سو سال قبل بھارتی گجرات میں پونا، بمبئی اورسورت میں آباد کاری کی جب انگریزوں نے سورت میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی شاخ قائم کی تو اس کے ابتدائی کارکن دو پارسی تھے بھارتی صوبے گجرات سے پارسی تاجرچین کے مختلف شہروں ہانگ کانگ، کینٹین اور دیگر شہروں میں تجارت کرنے کے لئے گئے اور پھر وہیں بس گئے ۔
پھرجب کراچی کی بندرگاہ آباد ہونے لگی اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے دیگر ساحلی علاقوں کے شہر آباد ہونے لگے تو اس وقت ان مقامات پر پارسی تاجروں نے اپنے کاروباری مراکز قائم کرنا شروع کردئے مگر کراچی پر انگریزوں کے قبضے کے بعد 1839 میں پارسی تاجروں نے اس شہر کو اپنا مضبوط تجارتی مرکز بنانا شروع کردیا تجارت کے ساتھ ساتھ پارسی برادری نے اپنی روایات کے مطابق سماجی اور عوامی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا شروع کردیا جس کے نتیجے میں اِس نئے بسنے والے شہر کراچی کے عوام دیگر شہروں کے مقابلے میں بہتر بودو باش حاصل کرتے چلے گئے۔
جمشید نسروانجی جنہوں نے کراچی کے ماسٹر پلاننگ میں اہم ترین کردار ادا کیا ایم اے جناح روڈ پر سابقہ کے ایم سی کے دفاتر قائم کئے تھے اس وقت اس سے پیشتر یہ دفاتر میکلوڈ روڈ پر قائم تھے یہ جمشید نسروانجی کا اہم ترین کارنامہ ہے جمشید کوارٹرز جمشید نسروانجی کے نام سے موسوم یہ بستی کراچی کے شہریوں کی سہولت کے لئے آباد کی گئی تھی اس کے پڑوس میں پارسی کالونی کاسموپولیٹن سوسائٹی اور دیگر سوسائٹیاں آباد کیں گئیں تھیں ۔
کراچی کی تعمیر وترقی میں دوسرا اہم نام ایڈلجی ڈنشاکاآتاہے ۔ایڈلجی ڈنشا کراچی کے ایک مخیر تاجرتھے انہوں نے کراچی کے شہریوں کے لئے بہت سے رفاحی اور فلاحی کام انجام دئے ان میں سے ایک ایڈل جی ڈنشا ڈسپنسری ہے یہ انہوں نے 1882 میں آج سے تقریباً سوا صدی قبل تعمیر کی تھی اس ڈسپینسری کا نقشہ ایک انگریز جیمز اسٹریجنز نے اٹلی کے طرز تعمیر کے مطابق بنایا تھا ایمپریس مارکیٹ کے قریب واقع آج بھی یہ عمارت کراچی کی اہم تاریخی عمارتوں میں شمار کی جاتی ہے اسی طرح نادر شاہ ایڈلجی کے ورثانے کراچی کے پہلے اینجینرنگ کالج کے لئے بھاری مقدار میں رقم کی فراہمی کا اعلان کیا تھا اس وجہ سے اس کالج کا نام نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا کے نام پر این ای ڈی کالج کہا جانے لگا کراچی کے اہم ترین اور ساحلی مقام کلفٹن پر ایک اورمخیر پارسی تاجر جہانگر ایچ کوٹھاری نے ایک بڑا قطعہ آراضی اور اس کے ساتھ تین لاکھ روپے کراچی کی میونسپلٹی کو بطور عطیہ دئے تھے اس وقت یہ تین لاکھ روپے بہت بڑی رقم تصور کی جاتی تھی ( صدر کا جہانگیر پارک انہی کے نام پر موسوم ہے )کراچی کے میونسپل ادارے نے اس رقم سے اس مقام پر ایک خوبصورت ترین عمارت قائم کی جسے جہانگیر کوٹھاری پریڈ کہا جاتا ہے اس عمارت کا سنگ بنیاد اس وقت کے سندھ اور بمبعی کے گورنر جارج لائیڈ نے رکھا تھا یہ عمارت آج بھی کراچی کی خوبصورت ترین عمارتوں میں شمار کی جاتی ہے جمشید نسروانجی کے علاوہ کراچی کی پارسی برادری کی اہم ترین شخصیت رستم سدھوا تھے جو کے کراچی کے آٹھ سال تک بلا مقابلہ مئیر رہے ان کی خدمات کراچی کے حوالے سے بہت سی ہیں قیام پاکستان کے بعد بھی پارسی برادری کی جانب سے عوام کی خدمت کاسلسلہ جاری رہا آج بھی کراچی کے اہم ترین ترقیاتی منصوبوں میں پارسی برادری کی جانب سے اہم کردار ادا کیا جاتا ہے اس وقت پاکستان کے اہم اور بڑے تاجروں میں بہرام ڈی آواری کا نام لیا جاتا ہے جبکہ یہ وہی آواری ہیں جنہوں نے کشتی رانی کے بین القوامی مقابلوں میں پاکستان کو گولڈ میڈل دلوایا تھا یہ بات بڑے اطمنان کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بہرام ڈی آواری اپنی قوم کی ترقی کے ساتھ تمام پاکستان قوم کے لئے بھی کوشان ہیں ان کی خدمات کا دائیرہ بہت وسیع ہے
اس وقت پارسی برادری کے اہم ترین رہنماوں میں ارد شیر کاوس جی ہیپی مینوالا انکلسریا اور ایم پی بھنڈارہ شامل ہیں مگر پارسی برادری کے بعض اہم ترین رہنماوں نے بتایا کہ اب پارسی برادری پاکستان بھرمیں بہرام ڈی آواری کی قیادت میں متحد ہو چکی ہے پارسی برادی کی خدمات کو دیکھتے ہوئے یہ بات بغیر کسی شک و شبہ کہ کہی جاسکتی ہے کہ پارسی برادر ی ان برادریوں میں سے ایک ہے جو کہ پاکستان کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کررہیں ہیں اور فوج سمیت پاکستان کے ہر شعبہ زندگی میں اہم ترین کردار ادا کر رہے ہیں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ اس وقت پاکستان سمیت دنیا بھر کے مختلف ممالک میں پارسی تاجر مقیم ہیں مگر ان کی بڑی تعداد اب سے پچاس برس قبل پاکستان اور بھارت میں مقیم تھی مگر اب پارسیوں کی ایک بڑی تعداد امریکا اور کینیڈا اور یورپ میں منتقل ہو چکی ہے جب کہ لندن جینیوا اور اور نیویارک میں میں ان کے ہوٹل کھل چکے ہیں جہاں کھانوں کے شوقین حضرات مزیدار پارسی کھانوں کی تلاش میں آتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں یہ بات قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ ہمارے یہاں اکثر گھروں میں جو پلاؤ پکایا جاتا ہے وہ دراصل ایرانی کھانا ہے جو صدیوں پہلے ہندوستان اور پاکستان میں ایران سے آیا تھا اور اب اس طرح سے پلاؤ کا استعمال ہونے لگا ہے کہ جیسے یہ مقامی کھانوں میں شا مل ہو۔
کچھ مدت قبل تک پارسی مذہب کے ماننے والوں کی مذہبی کتابیں گجراتی زبان میں ملتیں تھیں مگر پارسیوں کی ویب سائٹ دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہو ا ہے کہ پارسیوں کا ا لٹریچر اور مذہبی کتابیؓ فارسی زبان میں بھی موجود ہے پاکستان میں اگرچے کہ پارسیوں کی تعداد بہت کم ہے مگر یہ بات بڑے یقین اور اطمنان کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ پارسی مذہب کے ماننے والے اپنے درخشندہ ماضی کے ساتھ پاکستان کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے ہر وقت آمادہ رہتے ہیں۔

حوالہ جات:۔۔۔۔۔
مولانا ابولااعلیٰ مودودی تفہیم القران جلد سوم
مولانا ابولکلام آزاد البیرونی اور جغرافیہ عالم
مولانا ابولکلام آزاد ترجمان القران
جی پی ٹیٹ سیستان
پروفیسر آرتھرکرسٹن سین ایران بعہد ساسانیاں میں صفحہ نمبر ۲۱۵ - ۲۱۸
دائیرہ معارف الاسلامی جلد نمبر تین کے صفحہ نمبر ۶۲۷
جرمن مورخ ہر ٹسلف ایرانی مملکت کے مشرقی صوبوں کی فہرست
ہیرلڈ لیم کورش اعظم
اجمل کمال کراچی کی کہانی نمبر1 احمد حسین صدیقی گوہر بحیرہ عرب
سید قاسم محمود مکمل اسلامی انسائکلوپیڈیا
ولیم ایل لبینگر انسائکلو پیڈیا تاریخ عالم جلد دوم
ربط
http://pakistan-research.blogspot.com/p/blog-page_150.html
 
مدیر کی آخری تدوین:

تلمیذ

لائبریرین
انتہائی معلوماتی شراکت، شاہ جی۔ پارسی برادری سے تعلق رکھنے ولے مشہور صحافی اردشیر کاؤس جی کا انتقال کچھ سال پیشتر ہی ہوا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
بہت شکریہ شریک محفل کرنے کا۔

کیا باقی اقلیتوں کے بارے میں بھی لکھنے کا ارادہ ہے کہ نہیں؟
 
بہت ہی معلوماتی تحریر شئیر کی جناب آپ نے۔
جو یقیناََ یہ ثابت کرتی ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں پرزمین اب ایسی بھی تنگ نہیں بشرطیکہ اقلیتیں خود شر انگیز نہ ہوں اور پر امن ہوں۔
 
Top