مولانا کے نخرے واہ بھئی واہ!...لاؤڈ اسپیکر…ڈاکٹرعامرلیاقت حسین
میں نے آپ کا انٹرویو دیکھا، آپ کے اندازو اطوار کا تو ایک زمانہ شیدائی ہے اور یہ بندۂ پُرتقصیر بھی آپ کے اُن لاتعداد ’’خاموش مداحوں‘‘ میں سے ایک ہے...میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے میری لاج رکھ لی،مجھے شرمندگی سے بچالیا،میرے دعوؤں میں مجھے سُرخرو کر دیا، مجھے نظریں چُرانے سے محفوظ رکھا اور مجھے یہ ہمت عطا فرمائی کہ میں دنیا بھر کے سامنے چھاتی ٹھوک کر یہ کہہ سکوں کہ ’’دیکھ لیا تم سب نے !میں نہ کہتا تھا کہ مولانا تم حقیروں کے سامنے کبھی نہیں جھکیں گے،اپنی حیثیت دیکھو اور پھر اپنے مطالبے کا قد!ماچس کی ڈبیا سے بڑی اوقات نہیں ہے اور کس بات کی معافی؟ اور قصور کیا ہے اُن کا جو اِس اونگھتی سوتی قوم سے معافی مانگیں؟آخر ایسا کیا کہہ دیا تھا جو سب ہی پیچھے پڑ کر رہ گئے، سمجھ میں کسی کو کچھ آتا نہیں ہے اور باتیں سب سمجھ کی ایسے کرتے ہیں کہ جیسے سمجھ گئے ہیں اور اِسی بنا پر میں نے مولانا کا’’مقدمہ‘‘ لڑتے ہوئے کھل کر بلکہ لوگوں پر تُل کر یہ بتلادیا تھا کہ تاویلیوں کے اِس منفرد خالق کی زنبیل میں’’امثال‘‘ کے ایسے نادروبیش قیمت جواہرات پڑے ہیں کہ بس ہاتھ ڈالنے کی دیر ہے، وہ کچھ باہر نکلے گا جس کی زیارت کرتے ہوئے سب ہی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی...آج پھر دہراتا ہوں اور ہمیشہ یاد رکھنا کہ کسی بھی ’’مولانا‘‘ سے ’’عام مسلمان‘‘ کی جانب سے ’’معافی‘‘ کا مطالبہ درحقیقت بدترین گستاخی،پَرلے درجے کی جہالت اور نِری بدتہذیبی ہے ...کیا ہمیں اِتنا بھی عقل نہیں کہ حَسینوں کو آئینہ دکھانا ’’حُسن‘‘ کی توہین ہی نہیں بلکہ ’’اداؤں‘‘ کی ناقدری بھی ہے، حُسن جیسا اور جس حال میں ہے بس حُسن ہے اور مولانا جو بھی کہیں بس وہی اسلام ہے...ہم سب نے تو اپنی’’ مَدَر‘‘سے پڑھا ہے اور اِنہوں نے’’ مدرسے سے‘‘ سیکھا ہے...یہ ’’مُستَنَد‘‘ ہیں اور ہم ’’مُستَرد‘‘ ہیں...ویسے بھی ہم کم علموں کو یہ یادرکھنا چاہئے کہ ’’اہل شکم‘‘ کا اپنا ایک الگ مکتبۂ فِکر ہوتاہے جہاں’’بے فربہ‘‘ جہلا کی عقل کو پھٹکنے کی بھی اجازت نہیں ہے،وہاں کی وضع ’’ضدی‘‘ اور طریقے ’’بھاری‘‘ ہوتے ہیں، یہ اتنے متبرک مقامات ہیں کہ سیاہ و سفید کے مباحثے یہاں ’’جَہلِ مُرکَّب‘‘ کی علامت سمجھے جاتے ہیں کیونکہ اہل شکم کا ایک ’’القاعدہ‘‘ ہے کہ وہ جسے چاہیں سیاہ کہیں اور جس کو چاہیں سفید بنادیں،چنانچہ اُن کے علم میں’’خلل‘‘ ڈالنے والا ناہنجار و نابکار قرار پاتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ شاید اِسی وجہ سے یہ ’’نوبت‘‘ سماعتوں میں سرگوشیاں کرتی رہتی ہے کہ
ابلیس نے پیغام دیا ’’اہل شکم‘‘ کو
دنیا کو پرستش کی نئی راہ دِکھادو
قرآن کے طغروں سے بھی زینت دو صنم کو
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے ؟تو اسلام بتادو
ہاں تو میں کیا لکھ رہا تھا...ارے ہاں!کہ میں مولانا کادل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں کہ ایک عرصے سے مجھے ’’مُستَہن‘‘سمجھنے والے،مولانا کی وسعتِ علمی و قلبی کے اِس شاندار مظاہرے کے بعد یہ ماننے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ میں مُستَہن نہیں بلکہ ’’مستقیم راہ‘‘ کا ایک ادنیٰ سا مسافر ہوں...شکریہ مولانا! کہ آپ نے میری تحریر کردہ ’’تاویل‘‘ کو عزت بخشی اور اُسے’’اپنا‘‘ کر مجھے ’’اپنوں‘‘ میں شامل کرلیا...قسم اُس رب ذوالجلال کی! جس کے قبضے میں ہم سب کی جان ہے، مجھے مکمل یقین تھا کہ آپ اپنے ’’کہے‘‘ سے پلٹیں گے نہیں بلکہ اُسے درست ثابت کرنے کے لئے ایسی خوبصورت مثالیں، لازوال تشبیہیں اور منفرد حکایتیں بیان کریں گے کہ عالَم اِس ’’دَبَنگ عالِم‘‘ کے سامنے ’’دَنگ‘‘ رہ جائے گا...اور ایسا ہی ہوا...بھئی کمال کردیا! واہ واہ، کیا کہنے ہیں،اِس بے مثال جسامت کے باوجود کیا حَدیں پھلانگی ہیں آپ نے…میرے نام میں تو ’’ابّو‘‘ کی وجہ سے ’’لیاقت‘‘ ہے آپ تو ’’ابّو‘‘ کے بغیر ہی ’’کھلی لیاقت‘‘ ہیں…کس قدر خوبی،عمدگی اور کاری گَری سے آپ نے لاکھوں منہ بند کرڈالے، یہ مہارت بھی بدرجۂ غایت ہے جناب!کوئی آپ کو چُھو نہیں سکتا بلکہ یہ جملہ زیادہ مناسب ہوگا کہ’’بڑے آئے چُھو چُھو کرنے والے،یہاں تو جس نے بھی چُھونے کی کوشش کی وہی اُڑَن چُھو ہوگیا‘‘۔ شکریہ کہ اصحابِ کہف کے کُتّے کا ذکر فرما کر گویا آپ نے میرے کمزور سینے پر ایسا دستِ مبارک پھیرا کہ وہ کئی گز چوڑا ہوگیا، شکریہ کہ آپ نے کُتّے کی’’شہادت‘‘ کا تاریخی واقعے کی مدد سے بھرپور ’’دفاع‘‘ کیا...ویسے جب آپ حضرت عطا اللہ شاہ بخاری (رحمہ اللہ) کے ایک قول کی مثال دے کر قوم کے سامنے اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کی کوشش فرما رہے تھے تو ہم سب نے ’’ٹَھک‘‘ جیسی ایک آواز سنی، محوِ حیرت تھے کہ یہ کیا ہوا کہ یکایک ہاتفِ غیبی کی آواز آئی کہ ’’عطا اللہ نے بڑی تکلیف سے اپنی قبر میں کروٹ لی ہے اور مولانا سے منہ پھیر لیا ہے‘‘ ...جب آپ نفرت سے فرما رہے تھے کہ ’’میں نے کُتّے کو شہید کہہ کر امریکہ سے نفرت کا اظہار کیا ہے‘‘ تو مجھے آپ کی وہ محبت بھری ملاقاتیں یاد آگئیں جو امریکہ سے اظہارِ نفرت سے5 دن قبل آپ نے امریکی سفیر کے ساتھ ’’پیار‘‘ سے کیں اور جو الحمد للہ ’’گھنٹوں‘‘ پر محیط تھیں...حضرت بختیار کاکی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’پودے کو پیار سے پوسا جاتا ہے تب ہی وہ درخت بنتا ہے ،اِسی لئے محبت وقت مانگتی ہے لیکن جب تم اُسی درخت کو کلہاڑی کے ایک ہی وار سے کاٹ دیتے ہو تو یہ ثابت کرتے ہو کہ نفرت اِس قابل ہی نہیں کہ اُس کی پرورش کی جائے‘‘...اب آپ بتائیے کہ اگر نفرت تھی تو محبت کیوں پالی؟اور محبت تھی تو درخت کیوں کاٹا؟ مولاناجی! انتہائی ذمہ داری سے عرض کرتا ہوں کہ اگر آج بھی آپ کو امریکی سفارت خانے سے ’’دعوت نامہ‘‘ ملے گا تو آپ ایک لمحہ نہیں لگائیں گے ’’قبول ہے‘‘ فرمانے میں...اُس وقت آپ کو وہ ’’مظلوم کُتّا‘‘ یاد تک نہیں آئے گا جو امریکی ڈرون سے ’’شہید‘‘ ہو سکتا ہے، ادب و آداب کے نئے زاوئیے تراشے جائیں گے،اعتماد و بھروسے کی جدید ہجوں سے وفاداری کی خوبصورت لغت ترتیب دی جائے گی، یقین کی مزید ہڈیاں نکلیں گی اور مفاد پرستی کے ڈھانچے کوایک نیا سانچا میسر آئے گا۔یہ ہماری شامتِ اعمال نہیں تو اور کیا ہے کہ دشمن جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ دین پر حملہ آور ہے اور ہم کُتّے، بِلّی کے مسائل میں اُلجھے ہوئے ہیں،لوگ ویسے ہی مذہب سے دُور ہوتے جارہے ہیں اور مولانا کی باتیں سن کر تو ’’بھاگنے‘‘کو تیار ہیں...مجھے اِس میں شبہ ہی نہیں تھا کہ مولاناالفاظ واپس نہیں لیں گے، ٹنڈ منڈ شاخ سے جھکنے کی اُمید رکھنا فطرت کو آزمائش میں ڈالنے کے مترادف ہے،شاخیں وہی جھکتی ہیں جن پر پھل لگتے ہیں،اور پَھل اُنہی ٹہنیوں کا مقدر بنتے ہیں جن کے شجر عشق کے پانی سے سیراب ہوں اور آبِ عشق اُنہی اشجار کا نصیب ہے جن کے بیجوں نے زمین میں ’’اَدب‘‘ سے جگہ بنائی ہو...بے ادب توہر شے کو اپنی میراث سمجھتے ہیں،وہ اپنے اسلام لانے کا بھی احسان جتاتے ہیں کہ گویا یہ اُن پر اسلام کا احسان نہیں کہ وہ گمراہی کی گھاٹیوں سے نکلے لیکن اُن کا اسلام پر احسان ہے کہ اُنہوں نے اِسے قبول کیا(استغفر اللہ)۔
اِسی طرح کے ایک اور ’’صاحب‘‘ ہیں جو ’’قابلِ رحم‘‘ ہیں کیونکہ وہ اکثر و بیشتر سوچے سمجھے بغیر ہی بولتے ہیں اور جو منہ میں آتا ہے اُسے کچھ دیر کے لئے گال میں دَبا کر بھی نہیں رکھتے بس ’’بولتے‘‘ ہیں...اُن کے خیال میں طالبان کے ہاتھوں قتل ہونے والے میرے وطن کے فوجی شہید نہیں!...اِس ’’سَنَد یافتہ کم علمی‘‘ پر کوئی تبصرہ یا وضاحت مستقل دردِ سَر کا سبب بن سکتی ہے لہٰذا اِتنا ہی کہہ دنیا کافی ہے کہ قسم اُس نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی! جنہیں اُن کے رب نے حق کے ساتھ مبعوث کیا کہ ’’دہشت گردوں سے اپنے ملک کا دفاع کرتے ہوئے جان دینے والا میرے وطن کا ہر ایک جانباز سپاہی صرف ’’شہید‘‘ ہے…!!! (بشکریہ جنگ کراچی)