پاکستانی جمہوریت اور سیاسی جماعتیں

الف نظامی

لائبریرین
پاکستانی جمہوریت اور سیاسی جماعتیں
رحیق احمد عباسی

یوسف رضا گیلانی 1952 میں پیدا ہوئے۔ اگرچہ ان کا اپنا تعلق ملتان کے ایک نامور مذہبی اور سیاسی خاندان سے ہے لیکن انہوں نے اپنا سیاسی سفر 1983 میں بلدیاتی سطح سے شروع کیا۔ وہ 1988 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی کابینہ میں وفاقی وزیر رہے ۔ 1993 میں ایک بار پھر پیلپز پارٹی نے قومی انتخابات میں کامیابی حاصل کی محترمہ وزیر اعظم منتخب ہوئی اور یوسف رضا گیلانی کو قومی اسمبلی کا سپیکر منتخب کیا گیا ۔

انتخابات سے قبل اسی سال محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہاں آصفہ زرداری کی پیدائش ہوئی جن کے نام کے ساتھ محترمہ کی شہادت کے بعد اپنے بھائی کی طرح بھٹو کا اضافہ کردیا گیا۔ یوسف رضا گیلانی کا سیاسی سفر جاری رہا مشرف دور میں جب محترمہ جلا وطنی کی ذندگی گزارنے پر مجبور تھیں گیلانی صاحب کو پیپلز پارٹی سے وفاداری نہ توڑنے کی سزا کے طور پر 2001 میں اڈیالہ جیل میں بند کردیا گیا اور وہ اگلے 5 سال قید ہی رہے۔

محترمہ کی شہادت کے بعد بھی ان کی پیپلز پارٹی سے وفاداری میں کمی نہیں آئی اور اسی وفاداری کی بنا پر ان کو زرداری صاحب نے وزیر اعظم بنوایا۔ گیلانی صاحب کی وفاداری کا یہ عالم رہا کہ انہوں نے افتخار چوھدری کے ہاتھوں نااہل ہونا اور وزارت عظمی سے معزول ہونا قبول کر لیا لیکن زرداری صاحب کے خلاف سوئس حکومت کو خط نہ لکھا۔ عمران خان حکومت کے خلاف پی ڈی ایم نے ملتان جلسے کا فیصلہ کیا تو اس کو کامیاب کرنے کے لئے گیلانی صاحب صف اول میں نظر آئے ان کے بیٹے کو دو دفعہ گرفتار بھی کیا گیا لیکن گیلانی صاحب نے سارا زور جلسے کی کامیابی پر لگادی ۔


محترم بلاول بھٹو اس وقت پیپلز پارٹی کے چیئر مین ہیں۔ پی ڈی ایم کے ملک گیر جلسوں کے ذریعے عوام کو کرونا وائرس پھیلاتے پھیلاتے وہ خود بھی کرونا کا شکار ہو چکے ہیں اس لئے 30 نومبر کے ملتان جلسے میں ان کی شرکت ممکن نہیں تھی لہذا جب جلسہ کا دن آیا اور اس کی ریلی نکالی گئی تو بلاول بھٹو کی نمائندگی کرنے کی اجازت یوسف رضا گیلانی یا کسی اور سینئر رہنما کو نہیں تھی بلکہ اس کے لئے خصوصی چارٹر طیارے کے ذریعے اس 27 سالہ آصفہ زرداری کو بھجوایا گیا جس کی عمر سے دوگنا یوسف رضا گیلانی کا سیاسی کیرئر ہے۔


وہ جس سال پیدا ہوئی اس سال یوسف رضا گیلانی پارلیمنٹ کے سب سے موقر عہدے یعنی سپیکر قومی اسمبلی پر فائز تھے۔ آصفہ زرداری کے پاس تو آج بھی پیلپز پارٹی کی تنظیم میں کسی یونٹ سطح کا بھی عہدہ ہے نہ سیاسی سطح کا کوئی کردار۔ لیکن اس کو کراچی سے صرف اس لئے بھجوایا گیا کہ وہ پیپلز پارٹی کی مالک خاندان کی فرد ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اسی سیاسی رائل فیملی میں رہے گی اور باقی تمام سیاستدان صرف ایک سیاسی کارکن ہیں ۔


سیاسی و مذہبی جماعتوں میں لفظ کارکن کا اصل معنی کمی کا ہے ۔ یہ لفظ مزارع کا مترادف ہے اور قرون اولی کی غلامی کی جديدشکل ہے۔ پیپلز پارٹی اس موروثی سیاست اور رائل سسٹم میں منفرد نہیں یہ ہی حال مسلم لیگ سمیت پاکستان کی ہر قابل ذکر سیاسی و مذہبی جماعت کا ہے ۔ لیکن اس مضمون میں پیپلز پارٹی کا ذکر اس لئے خصوصیت سے کیا گیا کہ یہ جماعت جمہوریت کے نام پر معرض وجود میں آئی اس کے بانی کو پاکستان میں عوامی سیاست کا بانی سمجھا جاتا ہے اور بجا طور پر سمجھا جاتا ہے۔


جمہوریت اور موروثیت دو بالکل متضاد نظریات ہیں ۔ موروثیت میں قیادت کی شرط رائل فیملی کا فرد ہونا ہوتا ہے جبکہ جمہوریت میں رائل فیملی کا تصور تک ممکن نہیں ۔ جمہوریت میں قیادت و سیادت ایک مسلسل عمل کے ذریعے صلاحیت قابلیت لیاقت اور عوام یا ممبران کی آذادانہ رائے کے تحت ایک طے شدہ نظام کے تحت نیچے سے اوپر آتی ہے۔ ان تمام جمہوری جماعتوں کو ہمیشہ فوج سے شکایت رہتی ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت کو چلنے نہیں لیکن کیا یہ عجب بات نہیں کہ پاک فوج کا نظام ان تمام جماعتوں سے زیادہ جمہوری ہے جہاں قیام پاکستان سے لیکر آج تک کوئی ایک آرمی چیف کسی سابقہ چیف کی اولاد سے نہیں بنا اور ہر بننے والے چیف نے فوج میں اپنا سفر سیکنڈ لیفٹننٹ سے ہی شروع کیا جبکہ ان سیاسی جماعتوں پر قابض موجودہ لیڈروں میں سے کسی ایک نے بھی اپنی جماعت میں کوئی تنظیمی سفر سرے سے کیا ہی نہیں اور براہ راست مرتبہ قیادت پر فائر ہوئے۔


جب تک پاکستان میں ان جماعتوں کا سیاسی کردار رہے گا جن پر موروثی لیڈر مسلط ہیں اور عوام ان جماعتوں کے موروثی لیڈروں کی بلٹ پروف گاڑیوں کے سامنے دھمال ڈالتے رہیں گے ملک میں حقیقی عوامی جمہوری نظام کا قیام ایک خواب ہی رہے گا۔
ان تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے پاس قیادت لیڈر کے بچوں میں ہی منتقل کرنے کی ایک بہت بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ بچوں کے علاوہ کوئی اور جماعت کو متحد نہیں رکھ سکتا ۔


اسی نظریہ کی بنیاد پر حال ہی میں تحریک لبیک کے سربراہ خادم رضوی صاحب کے انتقال کے بعد بہت سے سینئر علماء کی جماعت میں موجودگی کے باوجود امیر رضوی صاحب کے جواں سالہ بیٹے کو ہی بنایا گیا ۔ لیکن اگر آپ سیاسی و مذہبی جماعتوں کو غور سے دیکھیں تو آپ کو پتہ چلیں گا کہ قائدین پوری عمر جماعتوں کو ایک خاندانی کمپنی کے طور پر چلاتے ہیں وہ دانستا قیادت سازی کا کوئی نظام اپنی ذندگی میں پنپنے ہی نہیں دیتے جو ان کے بعد جماعت کی اجتماعیت کی حفاظت کر سکے تاکہ ان کے بعد جماعت ایک ورثے کے طور پر ان کے خاندان کو منتقل ہو۔


پاکستان کی جماعتی تاریخ میں اگر ایک جماعت اسلامی کی مثال موجود نہ ہوتی تو شاید اس بات کو اصول کو درجہ مل جاتا کہ بانی قائد کے بعد جماعت کی اجتماعیت اولاد کی قیادت سے ہی مشروط ہے۔ آپ کے مولانا مودودی سے ہزار اختلاف ہو سکتے ہیں میں بھی ان کی سیاسی و مذہبی فکر کے بہت سے پہلووں سے متفق نہیں لیکن وہ بلاشبہ پاکستان میں اجتماعی جدو جہد کے باب کے ایک ایسے مرد فريدہیں کہ جنہوں نے اپنی جماعت میں قیادت کی منتقلی کا ایسا مضبوط نظام دیا کہ ان کے بعد سراج الحق جماعت اسلامی کے چوتھے امیر ہیں اور جماعت کا نظام ہر طرح کی موروثیت سے پاک بھی ہے اور جماعت کی اجتماعیت بھی مکمل قائم و دائم ہے۔


پاکستان تحریک انصاف نے بلاشبہ پاکستان کی سیاست میں اس موروثیت کے تسلسل کو توڑا ہے ۔ عمران خان اپنی طویل سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں وزیر اعظم بنے وہ کسی سیاسی یا مذہبی شخصیت کے مجاور نہیں ۔ یہ ان کی بڑی کامیابی ہے کہ ان کی جماعت اقتدار تک پہنچی ۔ عمران خان کے اوپر یقینا کام کو بہت پریشر ہے اور ان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ:


ان کی جماعت کا مستقبل کیا ہوگا۔ ان کا گو کوئی بیٹا یا بیٹی پاکستان میں مقیم ہیں نہ پاکستان کی سیاست میں ان کی کوئی دلچسپی ممکن ہے کہ وہ ان کے بعد تحریک انصاف کو یک جا رکھ سکیں لیکن ان کو آئندہ انتخابات سے بہت قبل یہ سوچنا ہو گا کیا ان کی جماعت میں قیادت کی ترقی اور انتخاب کا کوئی ایسا نظام موجود ہے جو ان کے بعد ان کی جماعت کی اجتماعیت کی حفاظت کر سکے گا کیونکہ پاکستان میں سیاسی مافیا اور جمہوری اشرافیہ کے خلاف انہوں نے جو تحریک شروع کی ہے اس کی کامیابی ان کے نظریہ اور جماعت کے تسلسل سے مشروط ہے ۔


اگر ان کے بعد ان کی جماعت ان کے نظریہ پر اپنے سفر کو اجتماعیت کے ساتھ جاری نہیں رکھ سکی تو ان کی جماعت کا پاکستان میں کوئی مستقبل نہیں ۔ ایسی صورت میں پاکستان کا سیاسی نظام ایک بار پھر موروثی اشرافیہ کے ہاتھوں میں آجائے گا اور اگر ایسا ہوا تو نہ صرف خان صاحب کی ساری محنت رائیگاں چلی جائے گی بلکہ تبدیلی کا نعرہ اتنا بدنام ہو جائے گا کہ کوئی اس کو اپنے منشور میں شامل کرنے کی بھی ہمت نہیں کرے گا۔ نتیجتا ہماری آئندہ نسلیں مریم نواز ، حمزہ شہباز، بلاول بھٹو ، اصفہ زرداری، مونس الہی اور ان جیسے دیگر شہزادوں کی گاڑیوں کے سامنے دھمالیں ڈالتی رہیں گی۔ لہذا خان صاحب حکومتی کارکردگی کے ساتھ ساتھ اپنی جماعت کے نظام پر بھی کچھ توجہ ضرور دیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
سیاسی جماعتیں چند گھرانوں کی جاگیر بن چکی ہیں اور کارکنان غلام ابن غلام بنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں ۔ لیکن خدا کا شکر ہے تحریک انصاف میں موروثیت نہیں ہے۔

وزیر دفاع پرویز خٹک ہیں ۔ ان کے بھائی لیاقت خٹک کے پی کے میں صوبائی وزیر ہیں۔ ان کے صاحبزادے ابراہیم خٹک ایم پی اے ہیں اور پارلیمانی سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہیں ۔ پرویز خٹک کے داماد ڈاکٹر عمران خٹک نوشہرہ سے ایم این اے ہیں ۔ ان کی بھتیجی ساجدہ بیگم اور ان کی اہلیہ کی بہن نفیسہ خٹک مخصوص نشستوں پر ایم این اے ہیں ۔ماضی میں ان کے بھائی نوشہرہ کے ضلع ناظم رہے اور بھتیجے نوشہرہ کے تحصیل ناظم رہے لیکن شکر ہے اس سب کے باوجود تحریک انصاف میں موروثیت نہیں ہے۔

اسد قیصر قومی اسمبلی کے سپیکر ہیں ۔ 2013 میں دو قومی اور صوبائی دو نشستوں سے جیتے تو صوبائی نشست خود رکھ لی اور ضمنی الیکشن میں اپنے بھائی عاقب اللہ کو ایم این اے بنوا لیا ۔ 2018میں بھی وہ انہی دو نشستوں سے کامیاب ہوئے تو قومی اسمبلی کی نشست خود رکھ لی اور ضمنی الیکشن میں عاقب اللہ کو پارٹی ٹکٹ دلوا دیا ۔ اب ایک بھائی سپیکر ہے اور دوسرا بھائی ایم پی ہے ۔ تاہم شکر کا مقام ہے کہ تحریک انصاف میں موروثیت نہیں ہے ۔

علی امین گنڈا پور بھی دو نشستوں سے جیتے ۔ صوبائی نشست چھوڑ دی تو وہاں ضمنی الیکشن میں ان کے بھائی فیصل امین گنڈا پور کو ٹکٹ دے دیا گیا ، وہ اس وقت کے پی کے اسمبلی کے رکن ہیں ۔ شکر ہے تحریک انصاف میں موروثیت نہیں ہے۔

گوہر ایوب خان کے صاحبزادے عمر ایوب خان اس وقت وفاقی وزیر ہیں ۔ ان کے کزن اکبر ایوب خان جو پوری دس جماعتیں پاس ہیں ، اس وقت کے پی کے حکومت میں تعلیم کے وزیر ہیں ۔ دوسرے کزن ارشد ایوب خان ایم پی اے ہیں ۔ لیکن شکر ہے تحریک انصاف میں موروثیت نہیں ہے۔

شہرام خان ترکئی کے پی کے حکومت میں وزیر ہیں ۔ ان کے والد لیاقت خان ترکئی تحریک انصاف کے سینیٹر ہیں ۔ ان کے چچا عثمان ترکئی تحریک انصاف کے ایم این اے ہیں ۔ ان کے ایک اور چچا محمد علی ترکئی کے پی اسمبلی کے رکن ہیں اور پارلیمانی سیکرٹری ہیں ۔ البتہ شکر کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف میں موروثیت نہیں ہے۔

شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ ہیں ۔ ان کے والد گورنر پنجاب رہ چکے ۔ ان کے صاحبزادے زین قریشی بھی ایم این اے ہیں ۔ ملتان کے یہ مخدوم اس بات کا اعلان ہیں کہ تحریک انصاف میں موروثیت نہیں ہے۔شکر ہے۔

جہانگیر ترین نااہل ہوئے تو ان کی جگہ ضمنی الیکشن میں ان کے صاحبزادے علی ترین کو ٹکٹ دیا گیا۔وہ یہ الیکشن ہار گئے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ الیکشن میں ہار جیت تو ہوتی ہی رہتی ہے ۔ شکر تو یہ ہے کہ ثابت ہوا تحریک انصاف میں موروثیت نہیں ہے۔

حماد اظہر بھی وفاقی وزیر ہیں ۔ وہ سابق گورنر میاں اظہر کے صاحبزادے ہیں ۔ وہ بھی تفنن طبع کی شوخی میں گاہے سوچتے تو ہوں گے کہ شکر ہے میں اس جماعت کا حصہ ہوں جس میں موروثیت نہیں ہے۔

جہلم سے ایک ایم این اے فواد چودھری ہیں اور دوسرے ایم این اے انہی کے کزن فرخ الطاف ہیں جو پیپلز پارٹی دور کے گورنر پنجاب چودھری الطاف کے صاحبزادے ہیں ۔ کیا ہوا کہ یہاں تحریک انصاف کے دیرینہ کارکن منہ دیکھتے رہ گئے اور پیپلز پارٹی سے آنے والا خانوادہ جہلم کی ساری نشستیں کے پارٹی ٹکٹ لے اڑا۔کم از کم یہ تو ثابت ہوا کہ تحریک انصاف میں موروثیت نہیں ہے۔ شکر ہے۔

خسرو بختیار وفاق میں وزیر ہیں اور ان کے بھائی ہاشم جواں بخت پنجاب میں وزارت سنبھالے ہوئے ہیں ۔ یہ حساب اب کیا کرنا کہ وہ کون کون سی جماعتوں سے تجربہ لے کر اپنے آنکھیں مل کر جاگتے ضمیر سے مجبور ہو کر قافلہ انقلاب کا حصہ کب بنے۔ شکر کی بات یہ ہے کہ ان کی تشریف آوری سے یہ طے ہوا کہ تحریک انصاف میں موروثیت بالکل نہیں۔

سابق ایم این اے انور چیمہ کے بیٹے، سابق ایم این اے تنزیلہ چیمہ کا خاوند، گجرات کے چودھریوں کے داماد عامر سلطان چیمہ بھی تحریک انصاف کے ایم این اے ہیں ۔ ان کے صاحبزادے منیب سلطان تحریک انصاف کے ایم پی اے ہیں ۔ پرویز الہی صاحب کے رشتہ دار طاہر صادق بھی تحریک انصاف کے ایم این اے ہیں ۔ کیا ہوا جو الیکشن میں ضلع اٹک کی قومی سمبلی کی دونوں نشستوں پر صرف انہی کو ٹکٹ جاری کیا گیااور ساتھ صوبائی اسمبلی کا بھی، کم از کم یہ تو ثابت ہوا کہ تحریک انصاف میں موروثیت نہیں ہے۔


یہ نمونے کے طور پر چند مثالیں ہیں جو میں نے پیش کر دی ہیں۔ آپ اپنے اپنے حلقے میں تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈرز اور اراکین اسمبلی کے چہروں کو غور سے دیکھیں اور پھر خود ہی طے کر لیں کہ ان میں کتنے ہیں جو موروثی سیاست کے بل بوتے پر صاف اور شفاف چہل قدمی فرما رہے ہیں ۔ فہرست کے مرتب ہونے پر البتہ آپ نے گھبرانا بالکل نہیں ہے ۔ ہپ ہپ ہرے کرنے لگ جانا ہے کہ چلو جو بھی ہے شکر ہے کہ تحریک انصاف میں موروثیت تو بالکل نہیں ہے۔

عمران خان کے بعد البتہ قیادت کے لیے ان کے صاحبزادے امید وار نہیں ہیں ۔ لیکن یہ ایک اصولی موقف کا اعجاز نہیں ہے ۔ یہ حالات کا جبر ہے ۔ وہ بچے اپنی ماں کے ساتھ ملک سے چلے گئے ۔ ان کی رہائش وہیں ہے ۔ مہمان کی طرح پاکستان آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ۔ اردو وہ نہیں بول سکتے ، والد محترم ان سے انگریزی میں بات کر رہے ہوتے ہیں ۔ والدین طے کر چکے کہ یہ ملک ان کے بچوں کے لیے مناسب اور موزوں نہیں ہے ۔ معلوم نہیں ان کے پاس پاکستان کا قومی شناختی کارڈ بھی ہے یا نہیں اور وہ خود کو پاکستانی شہری سمجھتے ہیں یا برطانوی۔ اس عالم میں کیسا تقابل؟
 

جاسم محمد

محفلین
گیلانی صاحب کی وفاداری کا یہ عالم رہا کہ انہوں نے افتخار چوھدری کے ہاتھوں نااہل ہونا اور وزارت عظمی سے معزول ہونا قبول کر لیا لیکن زرداری صاحب کے خلاف سوئس حکومت کو خط نہ لکھا۔
اسے وفاداری نہیں توہین عدالت کہتے ہیں۔ بطور وزیر اعظم اور پاکستانی شہری وہ سپریم کورٹ کا ہر حکم ماننے کے پابند تھے۔ لیکن صرف زرداری خاندان کی سوئس بینکوں میں پڑی لوٹی ہوئی دولت بچانے کیلئے خط نہیں لکھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
وہ جس سال پیدا ہوئی اس سال یوسف رضا گیلانی پارلیمنٹ کے سب سے موقر عہدے یعنی سپیکر قومی اسمبلی پر فائز تھے۔ آصفہ زرداری کے پاس تو آج بھی پیلپز پارٹی کی تنظیم میں کسی یونٹ سطح کا بھی عہدہ ہے نہ سیاسی سطح کا کوئی کردار۔ لیکن اس کو کراچی سے صرف اس لئے بھجوایا گیا کہ وہ پیپلز پارٹی کی مالک خاندان کی فرد ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اسی سیاسی رائل فیملی میں رہے گی اور باقی تمام سیاستدان صرف ایک سیاسی کارکن ہیں ۔
بالکل صحیح کہا۔
 

جاسم محمد

محفلین
دوسرا مراسلہ غور سے پڑھیں۔
گو کورونا گو عمران
محکمہ زراعت کی جانب سے تحریک انصاف میں بڑے پیمانے پر لوٹے بھرتی کروائے گئے تھے جو ظاہر ہے دیگر جماعتوں میں رہنے کی وجہ سے موروثی ہی تھے۔ ان کو بھی جلد پتا چل جائے گا کہ تحریک انصاف کی قیادت موروثی نہیں ہے جب عمران خان اسکی چیئر مین شپ چھوڑ دیں گے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
محکمہ زراعت کی جانب سے تحریک انصاف میں بڑے پیمانے پر لوٹے بھرتی کروائے گئے تھے جو ظاہر ہے دیگر جماعتوں میں رہنے کی وجہ سے موروثی ہی تھے۔ ان کو بھی جلد پتا چل جائے گا کہ تحریک انصاف کی قیادت موروثی نہیں ہے جب عمران خان اسکی چیئر مین شپ چھوڑ دیں گے۔
مائنس عمران فارمولے پر کون سا بطلِ جلیل وزیر اعظم پاکستان و چئیرمین تحریک انصاف ہوگا؟
 

جاسم محمد

محفلین
مائنس عمران فارمولے پر کون سا بطلِ جلیل وزیر اعظم پاکستان و چئیرمین تحریک انصاف ہوگا؟
تحریک انصاف میں مائنس ون کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر ایسا کبھی ہوا تو عمران خان خود اسمبلی تحلیل کر کے نئے الیکشن کروا دیں گے
 

الف نظامی

لائبریرین
تحریک انصاف میں مائنس ون کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر ایسا کبھی ہوا تو عمران خان خود اسمبلی تحلیل کر کے نئے الیکشن کروا دیں گے
بالکل فی الحال تو ایسا کوئی امکان نہیں ، مولانا کے دھرنے میں تیزی آئی تو پھر شاید کوئی امکان پیدا ہو۔
 

جاسم محمد

محفلین
بالکل فی الحال تو ایسا کوئی امکان نہیں ، مولانا کے دھرنے میں تیزی آئی تو پھر شاید کوئی امکان پیدا ہو۔
اسٹیبلشمنٹ کو بھی معلوم ہوگا کہ اگر مولانا کی خواہش پر مائنس ون کیا تو جواب میں عمران خان کا دھرنا پوری خلائی مخلوق اور محکمہ زراعت کا دھڑن تختہ کر دے گا
 

الف نظامی

لائبریرین
اسٹیبلشمنٹ کو بھی معلوم ہوگا کہ اگر مولانا کی خواہش پر مائنس ون کیا تو جواب میں عمران خان کا دھرنا پوری خلائی مخلوق اور محکمہ زراعت کا دھڑن تختہ کر دے گا
چوہدری شجاعت حسین کو راضی کیا ہے یا نہیں؟:p
 

جاسم محمد

محفلین
چوہدری شجاعت حسین کو راضی کیا ہے یا نہیں؟:p
اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ مولانا سے گھبرا کر اگر عمران خان کی حمایت چھوڑی تو خان اعظم اسٹیبلشمنٹ کی حمایت چھوڑ دے گا۔ جس کا نتیجہ خود خلائی مخلوق اور محکمہ زراعت کے دھڑن تختے کی شکل میں نکلے گا۔ اسی لئے وہ اپنے آخری حمایتی کی سپورٹ ضائع کرنے سے قبل بہت سوچ سمجھ کر کوئی سخت فیصلہ کریں گے۔ پی ڈی ایم جماعتوں کو فوج کی تابعداری کے بارہا مواقع ملے اور انہوں نے ہر بار میمو گیٹ، ڈان لیکس کی شکل میں چھرا گھونپا۔ اب کی بار یہ اپنی تابعداری کا جتنا بھی یقین دلائیں اس کا کوئی اثر خلائی مخلوق پر نہیں ہونا کہ وہ بار بار ان کے ہاتھوں ڈسے گئے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ مولانا سے گھبرا کر اگر عمران خان کی حمایت چھوڑی تو خان اعظم اسٹیبلشمنٹ کی حمایت چھوڑ دے گا۔ جس کا نتیجہ خود خلائی مخلوق اور محکمہ زراعت کے دھڑن تختے کی شکل میں نکلے گا۔ اسی لئے وہ اپنے آخری حمایتی کی سپورٹ ضائع کرنے سے قبل بہت سوچ سمجھ کر کوئی سخت فیصلہ کریں گے۔ پی ڈی ایم جماعتوں کو فوج کی تابعداری کے بارہا مواقع ملے اور انہوں نے ہر بار میمو گیٹ، ڈان لیکس کی شکل میں چھرا گھونپا۔ اب کی بار یہ اپنی تابعداری کا جتنا بھی یقین دلائیں اس کا کوئی اثر خلائی مخلوق پر نہیں ہونا کہ وہ بار بار ان کے ہاتھوں ڈسے گئے ہیں۔
الطاف حسین کو پاکستان میں اب کوئی جانتا ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
مولانا دھڑن تختہ کر دے گا۔
پچھلے سال دھرنے میں نواز شریف نے مولانا کا استعمال کیا اور خود جعلی بیماریوں کا بہانہ بنا کر پتلی گلی سے لندن نکل گیا۔
اب کی بار بھی این آر او کے چکر میں مولانا کو پھنسا کر خود لندن میں سیاسی پناہ لے لے گا۔
 
Top